L-1 عمدة الفقه صفہ-1
|
ابن قدامہ رحمہ اللہ 1- // باب أحكام المياه // پانی کے احکام کا باب
(1) پانی طھور پیدا کیا گیا ہے، (2) جو پاک کرتا ہے حدث سے(3) اور نجاسات سے، طہارت حاصل نہیں ہوتی اس کے علاوہ ، (4)جب پانی پانی دو قلوں( دو بڑے مٹکے )کے برابر پہنچ جائے یا بہنے والا ہو تو نہیں ناپاک کرتی اس کو کوئی چیز، سوائے اس کے جو اس کے رنگ کو بدل دے یا مزے کو بدل دے یا اس کی ریح( بو) کو (اوصاف ثلاثہ رنگ ، بو اور مزہ)، اس کے سوا جو پانی ٹھرا ہوا ہے اور دو قلوں سے کم ہے ناپاک ہو جاتا ہے نجاست کے گرنے سے، اور دو قلے (سوا ہاتھ) : جو قریب ہے 108 رتل کے قریب ہے دمشق کے،(5) اور اگر پکایا جائے پانی میں وہ چیز جو طاہر ہے، اور اگر پکائی جائے پانی میں یا اس میں کوئی چیز مل گئی اور وہ چیز پانی کے نام پر غالب آ گئی ، یا استعمال کیا گیا کسی حدث کے دور کرنے میں: ختم ہو گئی اس کی پاکیزگی۔ (صاحب کتاب کا خیال ہے 1 پانی میں کسی پاک کو پکایا مثلا شوربہ طھور سے وہ طاہر ہو گیا2 پانی میں کوئی پاک چیز مل گئی مثلا سیائی ، رعفران3 کسی حدث کو دور کرنے کے لیے ہم نے وضو کے لیے وہ پانی استعمال کیا گیا) (6)اور جب شک کرے پانی کی پاکیزگی میں یا پانی کے سوا کسی دوسری چیز کے وہ پاک ہے یا نجس رو وہ پاک ہونے میں تو یقین پر وہ بنی کرے گا ( یقین کرے گا پہلی حالت پر)، اور اگر پوشیدہ ہو جائے نجاست کا مقام کپڑے سے یا کسی دوسری چیز کے، (7)تو وہ دھوئے گا اتنا جس میں یقین ہو جائے اس کا دھونا، اور اگر مشتبہ ( مل جائے ) ہو جائے پاک پانی نجاست والے پانی سے اور وہ نہ پائے ان کے سوا کوئی اور پانی تو(8) وہ تیمم کرے گا(9) اور ان دونوں کو چھوڑ دے گا، اگر مشتبہ ہو جائے طھور طاہر پانی سے تو وہ ہر ایک سے وضو کرے گا،(10) اگر مشتبہ ہو جائے پاک کپڑے نجس کپڑوں کے ساتھ، تو پڑھے گا نماز پڑھے گا نماز ہر کپڑے میں نجاست کی تعداد کے برابر اور ایک نماز زیادہ پڑھے گا۔ (11)اور دھوئی جائے گی کتے کی نجاست اور خنزیر کی نجاست سات مرتبہ ایک مرتبہ مٹی سے، اور کافی ہو جائے گی دوسری تمام نجاستوں میں تین مرتبہ دھونا، (12) اگر زمین پر گندگی لگی ہوئی ہو تو ایک دفعہ بہا دیں گے پانی سے کہ وہ گندگی ختم ہو جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا(( ڈال دو بدو کے پیشاپ پر پانی کا ایک ڈول)) ، اور کافی ہے لڑکے کے پیشاپ کے لئے جو کھانا نہیں کھایا کافی ہو جائے گا پانی کے چھینٹے دینا ، اسی طرح مذی بھی"۔ (13)اور قابل معافی ہو گی تھوڑی سی مذی، اور تھوڑا سا خون اور جو اس سے پیدا ہوتا ہے پیپ اور خون والی پیپ اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی، اور تھوڑی سی مقدار اتنی ہے جس سے نفس میں کراحت نہ ہو،(14) اور آدمی کی منی، اور ان جانوروں کا پیشاپ جن کا گوشت کھایا جاتا ہو وہ پاک ہے ۔ |
L-2 عمدة الفقه صفہ-1
|
2- // باب الآنيه // برتنوں کا باب
برتنوں کا باب (1) جائز نہیں ہے سونے اور چاندی کے برتن کا استعمال پاکی کے حاصل کرنے میں اور نہ ہی کسی دوسری چیز کے لئے‘ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی وجہ سے(( تم مت پیئو سونے اور چاندی کے برتنوں میں اور نہ کھاؤ ان برتنوں میں ، اس لئے کہ وہ ان کے لئے ہے دنیا میں اور تمھارے لیے ہے آخرت میں)) (3) اور سونے اور چاندی کے تار ذریعے جوڑنے کا حکم ، مگر وہ جو جوڑا ہوا تار تھوڑا سا ہو چاندی سے ہو ۔ (4)سارے پاکیزہ برتن اگر وہ نجس ہیں تو استعمال نہیں ہو سکتے اگر وہ طاہر ہیں تو استعمال کریں گے، اور ان کو رکھنا بھی حلال ہے، اہل کتاب کے برتن بھی حلال ہیں ( ان کا ذبیح بھی حلال ہے ) ان کو استعمال کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان کے کپڑوں میں بھی کوئی حرج نہیں ان کا استعمال بھی ان کا اتخاذ بھی، جب تک کہ ان کی نجاست کا علم نہ ہو ( اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان برتنوں میں خنزیر کا گوشت پکایا تھا اور شراب بنائی تھی ایک قول کے مطابق شراب نجس ہے تو ہم ان کو دھو کر استعمال کر لیں گے)۔ (5)اور مردار کی اون اور اس کے بال پاک ہیں، اور ہر مردار کا چمڑا خواہ اسے دباغت دیا گیا ہو یا دباغت ( رنگنا) نہ دیا گیا ہو پس وہ نجس ہے، اور اسی طرح اس کی ہڈی بھی نجس ہے ۔ (6)اور ہر مردار نجس ہے، سوائے آدمی کے، اور پانی کا وہ جانور جو کہ زندہ نہیں رہتا مگر پانی ہی میں (وہ بھی نجس نہیں ہے ) (7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا(( پاک ہے اس کا پانی اور اس کا مردار حلال ہے ))، (8) اور جس کو بہنے والا خون نہ ہو وہ بھی نجس نہیں ہے اگر وہ پیدا نہ ہوتا ہو گندگی سے ۔(9) |
L-3 عمدة الفقه صفہ-1
|
قضاء الحاجة کا -3 باب -
حاجت کو پوری کرنے کا باب
- مستحب :-
مستحب ہے جو خلا میں داخل ہو وہ یہ دعا پڑھے :
[1]( وہ مقام جو بلکل خالی ہوتا ہے ) { بسم اللہ أعوذ بالله من الخبث والخبائث}
اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں پناہ میں آتا ہوں میں اللہ کے (مرد جن اور مؤنث جننی ) شرارت سے اور سارے وہ نفوس جو شرارت کرتے ہیں ۔ اور جب باہر نکلے تو کہے (غفرانك) ہم سوال کرتے ہیں تیری مغفرت کا۔ [2]اور آگے رکھے اپنا بائیاں پیر داخل ہونے میں، اور نکلتے وقت دائیاں پیر ، اور اس میں داخل نہ کرے کوئی ایسی چیز جس میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ذکر ہو،[3] مگر ضرورت کے تحت۔ اور ٹیک لگائے اپنے بائیں پیر پر بیٹھے ، اور اگر وہ کھلی جگہ میں ہو تو جہاں تک ہو سکے دور جائے اور کوئی پردہ اختیار کرے،[4] اور تلاش کرے اپنے پیشاپ کے لئے ایسی جگہ جو نرم ہو ،[5-6] اور کسی سوراخ اور پھٹی ہوئی جگہ پر پیشاپ نہ کرے،[7] اور راستے میں نہ کرے، اور نہ نفع دینے والے سائے میں، اور کسی پھل دار درخت کے نیچے نہ کرے، اور سورج اور چاند کی طرف رخ بہ کرے پیشاپ کے لئے، اور نہ قبلے کی طرف رخ کرے نہ قبلے کی طرف پیٹھ کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول کی وجہ سے( تم قبلے کی طرف رخ نہ کرو اپنی گندگی کے لئے، یا پیشاپ کے لئے، اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرو ) اور عمارتوں میں یہ جائز ہے ۔
[8]اور جب پیشاپ ختم ہو جائے، تو وہ مسح کرے گا اپنے شرم گاہ پر اس کے سرے پر اور پھر جھاڑے گا 3 مرتبہ ، اور نہ چھوئے اپنی شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے، اور نہ ہی استنجاء کرے ، پھر پتھر استعمال کرے طاق عدد میں ، پھر پانی سے استنجاء کرے ۔
[9]اور اگر وہ پتھر ہی استعمال کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہو گا، جبکہ اگر نجاست آگے نہ گئی ہو عادت کے مقام سے ، اور تین دفعہ پاک کرنے والی یعنی ایسے پتھر جو پاک ہوں تین دفعہ پونچھنا ہو گا کافی ہو گا پاک کرنے والے تین مسح سے کم سے کم ۔ اور پتھر کا استعمال جائز ہے ہر پاک چیز سے،[10] مگر گوبر کے، اور ہڈیوں کے،[11] اور ہر وہ چیز جو
احترام والی ہے ۔ |
L-4 عمدة الفقه صفہ-1
|
- 4باب الوضوء
وضو اور اس کے علاوہ دوسری عبادتیں صحیح نہیں ہوتی:::
{1} مگر یہ کہ اس کی نیت کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان کی وجہ سے{{انما الاعمال بالنيات و إنما لكل امرئ ما نوی}} پھر کہے بسم اللہ اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھوئے تین دفعہ،
{2} پھر کلی کرے اور ناک میں پانی داخل کرے تین مرتبہ، اور جمع کرے ان دونوں کو ایک ہی چلو میں یا تین الگ الگ چلوں میں،
{3} پھر اپنے چہرے کو تین دفعہ دھوئے ، سر کے بالوں کی جڑوں سے آغاز سے، جبڑوں سے نیچے تھوڈی تک ، دائیں کان سے بائیں کان تک، اور خلال کرے اپنی داڑھی میں اگر وہ گھنی ہو اور اگر وہ ہلکی سی ہو چمڑا نظر آتا ہو تو اس کو دھونا اس کے لئے لازم ہے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے تین دفعہ، اور ان دونوں کہنیوں کو داخل کرے دھونے میں، پھر مسح کرے اپنے سر کا کانوں کے ساتھ، شروع کرے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے سامنے والے حصے سے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو گزارے اپنی گدی تک، پھر ان دونوں کو لوٹا دے جہاں سے شروع کیا، پھر دھوئے اپنے دونوں پیروں کو ٹخنوں تک تین دفعہ اور ان دونوں کو داخل کرے ٹخنوں سمیت، اور ان دونوں کی انگلیوں میں خلال کرے ۔
{4} پھر اپنی آنکھوں کو بلند کرے آسمان کی طرف اور کہے {{اشہد ان لا الہ الا اللہ، واحدہ لا شریک له وان محمد عبد ورسوله }}
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں "
{5} واجب ہے نیت کرنا ایک ایک دفعہ دھونا، سوائے ہتھیلیوں کے، اور اپنے پورے سر کا مسح کرنا- {6}اور وضو کی ترتیب کے ساتھ وضو کرنا ۔
{7} اور وضو کے دھونے میں اتنی تاخیر نہ کرے اس سے پہلے جو عضو دھویا ہے وہ سوکھ جائے۔
اور سنت ہے بسم اللہ کہنا ،
{8} اور دونوں ہتھیلیوں کو دھونا ، اور ناک میں پانی ڈالنے اور کلی کرنے میں مبالغے سے کام لینا الہ یہ کہ وہ روزے سے ہو، اور داڑھی میں خلال کرنا اور انگلیوں میں خلال کرنا،
{9} اور اپنے دونوں کانوں کا مسح کرنا، اور دائیں طرف کو دھونا بائیں طرف سے پہلے، اور تین تین دفعہ دھونا، اور تین دفعہ سے زیادہ کرنا یہ مکروہ ہے،
{10}اور پانی میں اسراف کرنا۔
{11} اور مسنون ہے مسواک کرنا منہ کی بو کو تبدیل کرتے وقت ، اور نیند سے جاگنے کے موقع پر، اور نماز وقت پر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا {{ اگر میں اپنی امت کو مشقت میں نہیں ڈالتا تو انہیں حکم دیتا کہ ہر نماز کے وقت پر مسواک کرے }} ، اور مسواک مستحب ہے تمام اوقات میں،
{12} مگر روزے دار کے زوال کے بعد ۔
|
L-5 عمدة الفقه صفہ-1
|
5 - باب المسح علی الخفین: )موزوں پر مسح کرنے کا باب (::
(1)موزوں پر مسح کرنا جائز ہے اور ان چیزوں پر جو کفین ( موزوں ) کے مشابہ ہو چمڑے کو چھپانے والے جوارب پر (2)جو کپڑے کے بنے ہوئے موٹے موزے ہوں جو دونوں قدموں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہیں، اور اوپر پہنے جانے والے موزوں پر جو ٹخنوں کے اوپر ہوں طہارت صغری میں، ایک دن اور ایک رات مقیم کے لئے اور تین دن اور تین راتیں مسافر کے لئے حدث کے مثل دوسرے دن تک،(3) اللہ کے رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے ((مسافر مسح کرے کا تین دن اور تین راتیں، اور مقیم ایک دن اور ایک رات ))۔ اور جب اس نے مسح کیا تو مدت پوری ہو گئی یا اس نے اتار دیئے اس سے پہلے موزے- تو اس کی طہارت باطل ہو گئی ، اور جس نے مسافر ہو کر مسح کیا پھر مقیم ہو گیا، یا پھر مقیم ہونے کی حالت میں اس نے مسح کا آغاز کیا رائے یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں وہ مقیم کے مسح کی طرح مسح کرے گا ۔ (4)اور پگڑی پر مسح جائز ہے جبکہ وہ ایک کنارے والی ہو ،(5) ایسی پگڑی جو پورے سر کو چھپانے والی ہو سوائے اس کے جس پر عادتا کھلا رکھا جائے(( کان ، کنارے کے بال)) وہ اگر ظاہر ہیں تو کوئی بات نہیں ورنہ سر کے بال پورے چھپے ہوئے ہونے چائیے۔ ان تمام چیزوں پر مسح کرنے کے شروط میں سے ہے اسے کامل طہارت کی حالت میں پہنا ہوا ہو ۔ پٹی پر مسح جائز ہے ، جب تجاوز نہ کیا ہو اس کےباندھنے میں ضرورت کے مقام سے یہاں تک کہ وہ اسے کھول دے یا اسے شفا مل جائے۔ (6)مرد اور عورت برابر ہیں ان ساری چیزوں میں، ایک فرق ہے عورت پگڑی پر مسح نہیں کر سکتی - (1))☆ اس لئے کہ یہ پگڑی مردوں کی علامت ہے جو اللہ اور رسول کی مخالفت کرے وہ شرعی رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا( ) (2)☆ اگر وضو کے اصولوں میں کوئی زخم ہے اور اس کو دھونے میں کوئی نقصان نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اس کو دھونے میں نقصان ہے مگر پانی اس پر پھیرا جا سکتا ہے تو اس پر بھی مسح کرنا جائز ہے پوری جگہوں کو دھوئیں گے مگر اتنی جگہ پر صرف ہاتھ گیلا کر کے پھیر دیں گے لیکن تیسری حالت یہ ہے کہ نہ ہی اس کو دھویا جا سکتا ہے اور نہ ہی پانی لگایا جا سکتا ہے کھلا ہوا زخم ہے پانی سے زخم بڑھ جائے گا تو ایسی صورت میں وہ وضو کرے گا تمام اعضاء پر اور وہ جوحصہ چھوٹا ہوا ہے جس میں وہ مسح بھی نہیں کر سکتا وہ باقاعدہ تیمم کرے گا اور چوتھی صورت یہ ہے کہ اس کے اوپر پٹی بندھی ہے تو وہ پٹی پر مسح کرے گا تو اس کا وضو کامل ہو جائے گا کفین کے مسح کے لئے مدت مقرر ہے مگر پٹی کے لئے کوئی مدت نہیں ہے جب تک کہ وہ اسے کھول نہ دے خفین پر مسح اور جبیرة پر مسح میں تھوڑا فرق ہے جبیرة کی کوئی مدت نہیں خفین کی مدت ہے مسح کی( )☆ (3) اگر وضو کے کسی اعضاء پر چوٹ لگی ہو اور پٹی باندھی ہو جائے وہ لکڑی کی ہو کپڑے کی ہو یا پلاسٹر ہو اس کو جبیرة کہتے ہیں ( ☆))(4) جمیع " میں آ جائیں گے چمڑے کے موزوے ، اوون کے بنے ہوئے موزے ، اسی طرح "جرامیق " جو موزوں کے اوپر موزے پہنے جاتے ہیں اور اسی طرح پگڑی آ جائے گی ، یا عورتیں اپنے دوپٹے کو مضبوطی کے ساتھ باندھے ہوئے ہو جو امامہ پر قیاس کرتے ہیں اس پر بھی مسح جائز ہے مغیرہ بن شعب کہتے ہیں کہ میں جھکا تاکہ آپ ﷺ کے موزے نکال سکوں آپ ﷺ فرمایا نہیں میں نے ان موزوں کو پاکی کی حالت میں پہنا ہوا ہے اس حدیث سے علماء نے دلیل لی کہ موزوں پر مسح اس وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ انہیں پاکی کی حالت میں وضو کے بعد پہنا ہو اسی پر پگڑی کو قیاس کیا گیا ہے (( " ☆(5))پگڑی کی دو قسمیں ہیں "مھنقہ" وہ جس کو مضبوطی سے باندھ کر اپنی تھوڑی کے نیچے سے نکال دے " ذات ذوابة " جس کو پیچھے سے باندھ کر ایک کنارہ نکالتے ہیں ایسی پگڑی جس کو باندھے اور کھولنے میں مشقت نہیں ہوتی اس پر مسح نہیں کر سکتے( ☆)(6) اگر موزے پر موزہ پہنے ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں جو اوپر موزہ پہنتے ہیں اس پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہے جب اس کو بھی طہارت کی حالت میں پہنے ہوئے ہوں ہم جس پر مسح کریں گے اسی پر مسح کا اعتبار ہو گا( |
L-6 عمدة الفقه صفہ-1
|
6 – باب نواقض الوضوء
(وضو کر باطل کرنے والی چیزوں کا باب) وضو کو توڑنے والی چیزیں سات ہیں : (1)سبیلیں (آگے اور پیچھے) سے نکلنے والی چیزیں ، (1)اور جو ناپاک چیز ہے جو ان دونوں راستوں کے سوا دوسرے راستے سے نکلتی ہے؛ جب وہ زیادہ مقدار میں ہو،(3) اور عقل کا زائل ہونا ؛ سوائے ہلکی سی نیند کے چاہے وہ بیٹھ کر ہو یا کھڑے ہو کر ہو ،(4) اور شرم گاہ کو اپنے ہاتھ سے چھونا ( براہ راست چھونا)، (5) اور عورت کو شھوت کے ساتھ چھونا، (6) اور اسلام سے مرتد ہونا ، (7) اور اونٹ کا گوشت کھانا : اس وجہ سے کہ اللہ کے رسولﷺ سے روایت کیا گیا ہے: کیا ہم اونٹ کے گوشت سے وضو کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا آپ وضو کیجئے پھر کہا گیا ہم بکری کے گوشت سے وضو کریں آپﷺ نے فرمایا((اگر چاھو تو وضو کرو اگر چاھو تو نہ کرو)) ۔ (8)اور جس نے یقین کیا طہارت کا، اور شک کیا حدث کا ، یا یقین کیا حدث کا ، یا شک ہو طہارت کا ، ان دونوں میں وہ اس طرح معاملہ کرے گا جس کا اسے یقین ہے ۔ ☆ کچھ ضروری باتیں ::- ☆((انسان کی عقل 4 اسباب سے زائل ہوتی ہے ایک تو اسے جنون ہو جائے کلی طور پر عقل زائل ہوتی ہے ایک وقتی طور پر یا جزوی طور پر عقل زائل ہوتی ہے‘ ایک تو وہ بیہوش ہو جائے ،
نشہ آوار چیز استعمال کرے ، اور گہری نیند آ جائے جزی طور پر عقل کو زائل کرنے والی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو چیز مختلف ہے وہ ہے نیند کے بارے میں رائےہے کہ وہ گہری ہو ایسی گہری ہو کہ اس کے بعد انسان کو ہوش نہیں رہتا کیا ہو رہا ہے اگر معمولی اونگھ ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا))
☆(( فی نفس براہ راست جو چیزیں وضو کو توڑتی ہیں وہ بول و براز، پیشاپ ہے گندگی ہے ہوا کا اخراج، عورتوں کے لئے استحاضہ ہے ،مذي آدمی جب کچھ شہوت کے خیالات پیدا کرتا ہے جو پانی خارج ہوتا ہے اس کو مذي بولتے ہیں بعض چیزیں وضو کو نہیں توڑتی مگر وہ سبب ہیں وضو کو توڑنے کا گہری نیند، )) |
L-7 عمدة الفقه صفہ-1
|
7 - باب الغسل من الجنابة
باب جنابت غسل کا :- ((غسل کہتے ہیں غ پر ضمہ کے ساتھ الاغتسال غسل کا مطلب ہے پورے بدن پر پانی استعمال کرنا سر سے پیر تک کلی اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے‘ غ پر فتح کے ساتھ وہ پانی جس سے غسل کیا جاتا ہے ‘ جنابت کہتے ہیں وہ حالت جس کے ذریعے غسل فرض ہو جاتا ہے اس کو جنابت کی حالت کہتے ہیں چاہے وہ منی کا نکلنا ہو یا بیوی سے مباشرت غسل فرض ہونے والی حالت ۔)) اور غسل کو واجب کرنے والی چیز ہے منی کا نکلنا ، اور وہ اچھلتا ہوا پانی ہے ، اور دو ختنوں کے مقامات کا ملنا۔ غسل میں جو چیزیں واجب ہیں اس میں نیت ہے، پورے بدن پر پانی کو پہنچانا، کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے ساتھ ۔ اور سنت ہے بسم اللہ کا کہنا، اور اپنے پورے بدن کو رگڑے اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ ۔ اور کرے اس طرح جس طرح میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں ""یہ غسل مسنون ہے""(( میں نے پردہ کیا اللہ کے رسولﷺ کے لئے، پس آپ نے غسل کیا جنابت سے ، آپ نے شروع کیا پہلے آپ نے دھویا اپنے دونوں ہاتھوں کو ، پھر پانی ڈالا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر، اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اس پانی کے ذریعے اپنی شرم گاہ کو دھویا ، جو اسے پہنچا ہوا ہے جو گندگی لگی ہوئی ہے( یعنی شرم گاہ یا اس کے آس پاس)، پھر آپ نے اپنے ہاتھ کو دیوار اور زمین پر مارا (مٹی سے صاف کرنے کے لیے ) ، پھر آپ نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا ، پھر پانی کو بہایا اپنے پورے بدن پر، پھر آپ اس جگہ سے ہٹ گئے، پس دھویا اپنے دونوں پیروں کو ))۔ اور بالوں کو جنابت کی حالت میں کھولنا وجب نہیں ہے ؛ جب وہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا دیں ۔ اور جب وہ نیت کرےاپنے غسل کر ذریعے دونوں طہارت کی تو غسل کافی ہو جائے گا، اسی طرح اگر وہ تیمم کرے دونوں حدث کے لئے( یعنی ایک تو اس نے ایسا کام کیا جس کے لئے وضو واجب ہو گیا یا ایسا عمل کیا کہ غسل بھی واجب ہو گیا) اور نجاست کے لئے جو بدن پر ہے ؛ کافی ہو جائے گا ایک تیمم دونوں حدث کی طرف سے ، اگر وہ کسی ایک چیز کی نیت کرے اس کے بعد؛ تو اسے نہیں ملے گا مگر وہ جس کی اس نے نیت کرے ۔ ((منی اچھلتے ہوئے پانی کو کہتے ہیں مؤلف رحمہ اللہ علیہ نے ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جس سے غسل واجب ہے اسلامی شریعت صفائی نظافت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے جیسا کہ ہم دیکھتےہیں وضو کو فرض کیا گیا بعض حالات میں اور بعض حالات میں غسل کو فرض کیا گیا آدمی پر جب غسل فرض ہو اس صورتمیں وہ اللہ کی عبادت نہیں کر سکتا جیسا کہ نماز پڑھنا ہے اور بعض حالات میں قرآن کی تلاوت بھی نہیں کر سکتا اگر وہ جنابت کی حالت میں ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ غسل کرے اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جس سے غسل لازم آتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ آدمی پر غسل واجب ہے پھر بھی اس کو علم نہ ہو اور وہ اسی طرح عبادت کرتا ہو تو یہ انسان کے لئے بہت خطرناک چیز ہے یہاں جو چیزیں ذکر کی گئی ہیں ان سے غسل واجب ہوتا ہے اللہ تعالٰی نے سورتہ المائدہ 6 میں کہا ((وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا)) اگر تم جنابت کی حالت میں ہو غسل تم پر فرض ہو جائے پس تم پاکی حاصل کرو" اور اس کی دوسری دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے (( انما الماء من الماء)) " پانی ضروری ہے پانی کی وجہ سے " صحیح مسلم پہلے پانی سے مراد غسل کرنا واجب یے پانی نکلنے کی صورت میں منی کے نکلنے کی صورت میں تیسری حدیث صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ ام سلیم رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا ((رسولﷺ سے پوچھا جاءت أم سليم امرأة أبي طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إن الله لا يستحيي من الحق هل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم نعم إذا رأت الماء)) " اللہ تعالٰی حق سے نہیں شرماتا کہ عورت پر غسل ہے جب اس کو احتلام ہو جائے رسولﷺ نے فرمایا ہاں اگر وہ پانی دیکھ لے" اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کی حالت جاگنے کی ہو یا سوتے ہوئے اسے منی خارج ہوتی ہے سوئے ہوئے اسے احتلام ہو گیا یا کوئی خواب دیکھا یا بغیر خواب کے اس کو منی نکل گئی یہ حالت ہو یا پھر جاگتے ہوئے آدمی مباشرت کی یا اس کو النزال ہو گیا یا وہ کچھ سوچ رہا تھا اس وجہ سے النزال ہوا یا چھونے سے اس کو النزال ہوا کسی بھی حالت میں ہو اس حالت میں نکلتا ہے کہ انسان جو اچھلتی ہوئی حالت میں نکلتا ہے تو اس پر غسل واجب ہو گیا بعض علماء نے ایک اور چیز کی شرط لگائی ہے وہ ہے لذت کے ساتھ نکلے تاکہ بیماری کی وجہ سے انسان کو اس طرح کی حالت پیش آتی ہے اگر کوئی انسان بیمار ہے اور لذت نہیں ہوتی بس بیماری کی وجہ سے منی خارج ہوتی ہے تو اس حالت میں وضو ہو گا اس کی حیثیت پیشاپ کی یا مذي کی ہو جائے گی ‘ |
L-7 عمدة الفقه صفہ-2
|
آدمی اتنی جگہ کو دھو لے گا اس کے بعد وہ وضو کرے گا اور نماز پڑھے گا منی کا اخراج اچھلتی ہوئی حالت میں یا پھر لذت کے ساتھ ہو تو غسل واجب ہے لیکن اگر جاگنے کی صورت میں منی کا اخراج ہوتا ہے لذت سے نہیں ہوتا بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے اس پر وضو ہے لیکن اگر آدمی سو رہا تھا اس کا احتلام ہو گیا اس کے بعد وہ صبح میں وہ جاگا اور دیکھا کہ اس کے کپڑے گیلے ہیں اس میں تین حالتیں ہیں -
|
(1) اگر اس کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ اس نے خواب دیکھا تھا اور اس میں احتلام ہو گیا اور وہ منی ہی ہے تو غسل کرے گا
(2) دوسری حالت میں اس کو پورا یقین ہے کہ وہ منی نہیں ہے بس کپڑے گیلے ہیں ہو سکتا ہے مذي ہو یا پیشاپ ہو تو اس کو دھونا ہے اور وضو کرنا ہے ۔ (3) تیسری حالت یہ ہے کہ آدمی کو یقین نہیں ہے اگر آدمی بو سے پہچان سکتا ہے تو ٹھیک ہے پر اس کو یقین نہیں ہے تو ایسی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ وہ غسل کر لے یہ اور بات ہے کہ کچھ جس کو اسے یقین ہے وہ اس کو ترجیح دے گا کسی دلیل یا قرینے کی بنیاد پر وہ تمام چیزیں نہیں ہیں تو احتیاط کے پیش نظر وہ غسل کر لے تو زیادہ اچھا ہے دو ختنوں کا ملنا بھی غسل کی شرائط میں سے ہے اگر کہ انزال نہ ہو مرد اور عورت نے ملاقات کی اور انزال نہیں ہوا اس سے پہلے وہ الگ ہو گئے تو غسل واجب ہو گیا دو چیزیں مؤلف رحمہ اللہ علیہ نے واجب کی ہیں مگر غسل کو واجب کرنے والی اور بھی چیزیں ہیں عام طور پر پانچ چیزیں ہیں فقہہ حضرات ذکر کرتے ہیں ان میں تیسری چیز ہے عورت کے لئے حیض و نفاس وہ حیض سے پاک ہو گی غسل کرے گی اس کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے (( تم ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں جب وہ پاک ہو جائیں تو غسل کر لیں )) پہلا تطھر ہے حیض و نفاس کا ختم ہونا پھر دوسری پاکی یہ ہے کہ جیسے ہی وہ پاک ہو گئی اس کے بعد وہ غسل کرے اس کے بعد وہ عبادت بھی کرنے لگے گی اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے ((نماز کو چھوڑ دو ان دنوں میں جن دنوں میں تمھے حیض آتا ہے پھر غسل کرو اور نماز پڑھو)) اس کو مطلب ہے کہ غسل کو واجب کرنے والی چیزوں میں حیض و نفاس‘(4) اور چوتھی چیز موت مسلمان کی موت واقع ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو گیا لیکن اس فرض کو اس کے وارث ادا کریں گے پانچویں چیز ہے کہ کافر کا مسلمان ہونا بعض احادیث میں رسولﷺ نے بعض صحابہ کو حکم دیا وہ اسلام لانے کے لئے پہنچے تو آپ نے کہا کہ تم ایسے پانی سے غسل کرو جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں بہت سی ایسی بھی احادیث ہیں جس میں اللہ کے رسولﷺ کے پاس بہت سے لوگ اسلام لائے مگر آپ نے ان کو غسل کرنے کا حکم نہیں دیا خاص طور پر فتح مکہ کے موقع پر ایک بہت بڑی تعداد مسلمان ہوئی لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ آپ نے انہیں غسل کا کہا ہو کہ غسل کرو اور پھر کلمہ پڑھو جمہور کا یا اکثر علماء کا خیال ہے راجح مسلک یہ ہے اسلام لانے کے موقع پر غسل کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے بعض موقع پر آپ نے حکم دیا اور بعض مواقع پر حکم نہیں دیا تو دونوں کو جمع کریں گے تو مستحب ہو گا - (5)غسل کی دو قسمیں ہیں ایک غسل مجزئ وہ غسل جو کافی ہے دوسرا مستحب یا غسل مسنون وہ غسل جو اللہ کے رسولﷺ نے کچھ خاص طریقے سے کیا یہاں پر غسل مجزئ کا ذکر ہے وہ غسل کافی ہو جائے گا کہ آدمی اپنے غسل کی نیت کرے اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہا لے تو اس کا غسل ہو گیا- (6)جسم کو رگڑنا بعض حالات میں واجب ہو سکتا ہے اگر ہمیں اندیشہ ہے کہ جسم کے کسی حصے میں پانی نہیں پہنچے گا تو واجب ہو جائے گا ہم رگڑ کر پانی پہنچائیں غسل کے واجبات میں سے ہے کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا لیکن اگر پانی پہنچ رہا ہے اور ہم مزید صفائی کے لئے رگڑ رہے ہیں تو رگڑنا اس وقت سنت ہو جائے گا- |
L-7 عمدة الفقه صفہ-3
|
غسل کا مسنون طریقہ :
آدمی سب سے پہلے نیت کرے جنابت کا غسل کر رہا ہے یا پھر حیض کا غسل کر رہا ہے پھر بسم اللہ کہے اس بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر اپنی شرم گاہ اور باقی گندگی کو صاف کرے پھر اپنے ہاتھ کو صابن وغیرہ سے صاف کرے پھر وضو کرے کلی کرے ناک میں پانی ڈالے اپنے چہرے کو دھوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے اپنے سر کا مسح کرے اس کے بعد پانی لے کر اپنے سر پر بہا لے اس کے بعد اپنے دائیں حصے پر پانی بہائے اس کے بعد بائیں حصے پر پانی بہائے جب غسل سے فارغ ہو جائے گا تو اپنی جگہ سے ہٹ جائے اگر اس کو یقین ہے کہ جہاں اس نے غسل کیا ہے وہاں پانی جمع ہے یا نجاست ہے وہاں سے ہٹ جائے اس کے بعد اپنے پیروں کو دھو لے اس میں دونوں چیزیں شامل ہو گئیں وضو اور غسل ۔
مسائل :
اگر آدمی مسنون غسل کرتا ہے اس کو وضو اور غسل دونوں حاصل ہو گئے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔اگر آدمی غسل مجزئ کرتا ہے جس میں وضو شامل نہیں ہے اگر جنابت کا غسل ہے تو وہ کافی ہو گا اللہ تعالٰی نے فرمایا((وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا)) اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاکی حاصل کرو " پاکی حاصل کرو جو غسل ہے وہ بڑی پاکی ہو گی طہارت کبری ہو گئی تو طہارت کبری میں طہارت صغری شامل ہو گئی اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آدمی جنابت کے غسل میں بھلے ہی وضو نہ کرے پانی بہا لے پورے بدن پر وضو بھی آ گیا اس میں اس کے بعد اس کو وضو کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اگر آدمی اس نیت سے غسل کرتا ہے کہ وہ ٹھنڈک پہنچانا چائتا ہے اپنے بدن کو پسینے سے پاک کرنا چاہ رہا ہے یا جمعہ کا غسل کرنا چاہ رہا ہے تو اس میں وضو شامل نہیں ہوتا اگر آدمی وضو کے ساتھ غسل کرتا ہے تو اس میں دونوں طہارتیں شام ہو گئی لیکن اپنے پورے بدن پر پانی بہانے سے اور اگر وہ جنابت کا غسل ہے تو اس کو وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس میں وضو بھی شامل ہوگیا لیکن جنابت کے علاوہ غسل ہے تو اس میں وضو شامل نہیں ہوا الہ یہ کہ وہ وضو شامل کرے-
غسل میں بالوں کا کھولنا:
بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے بعض علماء نے حیض کو بھی اس پر قیاس کیا ہے بعض علماء نے فرق کیا ہے انھوں نے جنابت کو خاص کیا ہے اس لئے کہ جنابت میں مشقت ہے آدمی کو بار بار ضرورت پیش آ سکتی ہے لیکن حیض کی مدت طویل ہے حیض کے لئے کوئی الگ سے نص نہیں ہے اس کی مدت بھی طویل ہے لیکن علماء کا راجع قول یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نوعیت کے غسل ہیں دونوں میں بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے لیکن بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا یہ ضروری ہے ۔
تیمم:
(( اگر وہ تینوں چیزوں کی نیت کرے گا طہارت کبری، طہارت صغری، اور نجاست تو اسے تینوں چیزوں کی پاکی حاصل ہو گی اگر وہ صرف غسل کی نیت کرے گا تو غسل ہی ملے گا اگر وہ وضو کی نیت کر رہا ہے تو وضو ملے گا جس چیز کی وہ نیت کرے گا وہی ملے گا اگر تینوں چیزوں کو نیت میں ملایا ہے تو تینوں چیزیں ملیں گی))۔
|
L-8 عمدة الفقه صفہ-1
|
8- // باب التیمم // تیمم کا باب
باب التیمم (1) تیمم کے لفظی معنی ہیں قصد کرنا ارادہ کرنا شریعت میں تیمم کہتے ہیں اللہ کی عبادت کرنا پاک مٹی کا ارادہ کرتے ہوئے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرتے ہوئے. تیمم کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہے سورتہ المائدہ 6 (( ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا)) " اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت کے بعد آئے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تم پانی کو نہ پاؤ تو پاک مٹی سے اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں کو اس سے مسح کر لو " اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے(( پانی انسان کی طہارت کا ذریعہ ہے اگر وہ پانی کو نا پائے جب وہ پانی کو پا لے وہ اپنی جلد کو پانی پہنچا دے)) ابوداؤد، ترمذی کی روایت ہے اہل علم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے تیمم بدل ہے پانی نہ ہونے کی صورت میں یا پانی کے استعمال کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں اور اس کی کیفیت یہ ہے: کہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پاک مٹی پر مارے، اور مسح کرے اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا؛ اللہ کے رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے جو عمار ابن یاسر کو کہا تھا:(( تمھارے لیے اس طرح کرنا کافی ہے ))، آپ ﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، پھر آپ ﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں سے مسح کیا اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا۔ اور اگر وہ تیمم کرے ایک سے زائد بار مار کر یا پھر زیادہ مرتبہ مسح کرے تو یہ ؛جائز ہے ۔ اور اس کی چار شرائط ہیں: پہلی شرط : پانی کے استعمال سے عاجز ہونا ؛ (اس کی قسمیں یہ ہیں ) 1پانی موجود نہیں ہے ،(2) یا پھر نقصان کا خوف پانی کے استعمال کرنے کی صورت میں بیماری کی وجہ سے یا سخت سردی کی وجہ سے، (3) یا پیاس کا خوف ہے اپنے آپ کے لئے یا اپنے مال کے لئے جانور پر یا اپنے ساتھیوں کے لئے ، (4) یا اسے خوف ہو اپنے نفس کا اپنے مال پر اسے تلاش کرنے کی صورت میں،(5) یا پھر پانی کا عدم حصول ( نہیں مل رہا ) مگر بہت زیادہ قیمت کے ساتھ۔ اگر اس کے لئے پانی کا استعمال بدن کے بعض حصوں پر ممکن ہے ؛ یا پھر پانی اسے حاصل ہوا ہے اتنا پانی جو اس کی طہارت کے لئے کافی نہیں ہے؛ تو وہ استعمال کرے گا اتنا حصہ، اور باقی حصے کے لئے تیمم کرے گا ۔ دوسری شرط : وقت کا داخل ہونا ، پس تیمم نہیں کرے گا کسی فرض نماز کے لئے اس کے وقت سے پہلے ، (6)اور کسی نفل کے لئے تیمم نہیں کرے گا اس کی ممانعت کے وقت پر۔ تیسری شرط : نیت بھی کرے گا، اگر وہ تیمم کرے گا کسی نفل نماز کے لئے تو اس سے فرض نہیں پڑھ سکے گا،(7) اور وہ تیمم کرے فرض نماز کے لئے تو اس کے لئے جائز ہے اس نماز کا پڑھنا اور جتنے چاہے فرض پڑھ لے اور نوافل یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے۔ چوتھی شرط : مٹی پر ہی تیمم کر سکتےہیں تیمم نہ کرے الا پاک مٹی سے جس میں غبار ہو دھول والی مٹی ۔ اور تیمم کو باطل کر دیتی ہے: وہ چیز جو پانی کی طہارت کو باطل کرتے ہے (غسل اور وضو) ،اور نماز کے وقت کا نکل جانا ( لیکن راجع ہے کہ نماز کے وقت کے نکلنے کے بعد بھی تیمم باقی رہے گا جب تک کہ تیمم ٹوٹتا نہیں ہے) ، (8)پانی کے استعمال کی قدرت کا حاصل ہونا ؛ اگرچہ کہ وہ نماز میں ہو ۔ }}}عمار ابن یاسر کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک دفعہ انھیں کسی کام کے لئے بھیجا اور وہ جنبی ہو گئے اور انہوں پانی نہیں ملا تو انھوں نے اپنے آپ کو مٹی میں اچھی طرح لوٹ لیا اس کے بعد نماز پڑھ لیا اس کے بعد وہ رسولﷺ کے پاس آئے اور بتایا رسولﷺ نے تمام باتیں سننے کے بعد فرمایا تمھارے لئے یہ کافی تھا کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرو پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر اپنے چہرے پر ملا پھر اپنے بائیں ہتھیلی سے اپنے دائیں ہتھیلی پر ملا پیچھے اور اندر پھر اپنے دائیں ہتھیلی سے بائیں ہتھیلی پر ملا }}}-
یہ تیمم کی کیفیت کے سلسلے میں صحیح حدیث ہے ۔
صعید کے معنی ہیں زمین کی سطح پر پائی جانے والی چیز کو یہ زمین کی جنس سے ہے مثلا پتھر کنکر دھول وغیرہ اس سے وضو کیا جا سکتا ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ۔ |
L-9 عمدة الفقه صفہ-1
|
9- // باب الحیض // حیض کا باب
باب الحیض ::دس چیزوں کے سلسلے میں یہ مانع ہے رکاوٹ ہے: (1) (1)نماز پڑھنا (2) اور اس کا واجب ہونا،(3) اور روزے رکھنا، (4) طواف کرنا، (5)قرآن پڑھنا،(6) مصحف کو چھونا، (7) مسجد میں ٹہرنا، (8) شرم گاہ میں وطی کرنا ، (9) طلاق کی سنت، (3) (10) اور مہینوں کے ذریعے عدت کو شمار کرنا ۔(4) تین چیزیں ایسی ہیں جو اس حالت کی وجہ سے واجب ہو جاتی ہیں حیض واجب کرتا ہے غسل کو، اور بلوغت کو (( منی کا نکلنا ، زیر ناف بالوں کا نکلنا ، اور 15 سال کا ہونا)) ،(3) اور اس کے ذریعے عدت کو شمار کرنے کو واجب کرتا ہے ۔ (5)جب خون رک جائے؛ تو مباح ہو جائے گا روزہ رکھنا اور ، طلاق ، اور دوسری ساری چیزیں مباح نہیں ہوں گی یہاں تک کہ وہ غسل کر لے۔ اور عورت سے لطف اندوز ہونا یہ جائز ہے شرم گاہ کے علاوہ رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے(( ہر چیز کرو سوائے نکاح کے نکاح سے مراد جماع ہے)) ۔ (6)حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے، اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور پاکی کی مدت کم سے کم دونوں حیضوں کے بیچ میں تیرہ دن ہے ، اور پاکی کی زیادہ سے زیادہ مدت اس کی کوئی حد نہیں ہے ۔ اور کم سے کم عمر جس میں عورت حائضہ ہوتی ہے وہ نو سال ہے ، اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ سال ہے مدت، اور وہ عورت جسے پہلی مرتبہ حیض آیا جب وہ خون دیکھ لے ایسے وقت میں ایسی عمر میں اس جیسی دوسری لڑکیاں حائضہ ہوتی ہوں بیٹھ جائے گی اگر رک جائے ایک دن یا ایک رات سے کم میں تو وہ حیض نہیں ہے،
(7)اگر چوبیس گھنٹے سے بڑھ گیا اورحیض کے اکثر ایام سے آگے نہیں بڑھا تو وہ حیض ہے۔
(8)جب تین مہینوں تک لگاتار اسی طرح ہو ایک ہی مدت میں؛ تو یہ عورت کی عادت ہو گی، اور اگر وہ پندرہ دن سے آگے بڑھ جائے تو یہ استحاضہ ہے، اور اسے چائیے کہ حیض کے آخری وقت میں غسل کرے گی، اور اپنی شرم گاہ کو دھوئے اور کپڑے لگا لے، اور وضو کرے ہر نماز کے وقت پر اور نماز پڑھے۔ اور یہی حکم اس شخص کے لئے ہے جس کو پیشاپ بہنے کی بیماری ہو اور ان کا جو اس جیسی بیماری رکھتے ہوں ( گیس، خون))۔ (10)پھر اگر جاری رہا مسلسل خون اگلے مہینے تک بھی اگر وہ عادت والی ہے: تو اس کے حیض کے دن اس کی عادت کے دن ہوں گے ،(11) اور اگر اسے عادت معلوم نہیں ہے لیکن اس کے پاس تمیز ہے اس کے ذریعے وہ خون میں فرق کر سکتی ہے- اس طرح کے اس کا بعض خون کالے رنگ کا ہو اور گاڑھا ہو اور بو ہوتی ہے دوسرا خون پتلا اور سرخ رنگ کا ہوتا ہے ۔ (12)اور جس کی حیض کی ابتداء ہوئی ہو، یا وہ اپنی عادت کو بھول چکی ہے، اور وہ خون میں فرق نہ کر سکتی ہو تو اس کا حیض ہر مہینے میں چھے دن تو رہے گا یا پھر سات دن رہے گا؛ (13)اس لئے کہ اکثر عورتوں کی یہ ہی عادت ہے۔ (14)اور حامل کو حیض جاری نہیں ہوتا ، سوائے اس کے وہ خون کو دیکھے بچے کی پیدائش سے ایک یا دو دن پہلے (درد کے ساتھ) ، تو اس صورت میں وہ نفاس کا خون ہو گا۔ خون کے اعتبار سے عورت کی پانچ قسمیں ہیں: (1) مبتداة : جس کو پہلی مرتبہ حیض آتا ہے 24 گھنٹے سے زیادہ رہے پانچ یا چھے دن دن تو حیض شمار کرے گی اس کے بعد غسل کرے گی ۔ (2) معتادة : وہ عورت جس کے ایام عادت کے مطابق ہوتے ہیں دو تین مہینے تک حیض کے ایام ایسے ہی رہیں تو وہ متعادة ہو گی ۔ (3) مميزة : جو خون کالا گاڑھا اور بو والا ہوتا ہے ان دنوں میں وہ حیض شمار کرے گی۔ (4) مستحاضة: جس عورت مسلسل خون جاری رہتا ہے پندرہ دن سے بڑھ جاتا ہے تو ایسی صورت میں وہ پندرہ دن کے بعد غسل کرے گی اور احتیاط کے ساتھ نماز پڑھے گی۔ (5) متحيرة: وہ عورت جس کے ایام متعین نہیں ہیں اور وہ وہ تمیز بھی نہیں کر پا رہی ہر مہینہ چھے سات دن وہ رکے گی اس خون کو وہ حیض شمار کرے گی باقی کو استحاضہ شمار کرے گی ۔ |
L-10 عمدة الفقه صفہ-1
|
10- // باب النفاس // النفاس کا باب
باب النفاس :: (1)نفاس وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے سبب سے نکلتا ہے ۔ (2)اور اس کا حکم حیض ہی کا حکم ہے اور جو حرام ہے –
(3)اور جو واجب ہوتی ہیں -
(4)اور اس سے ساقط ہوتی ہے ۔
(5)اور اس کے ایام کی اکثر مدت چالیس دن ہےاور کم سے کم مدت کی کوئ حد نہیں ہے۔ اور جب عورت پاکی دیکھ لے تو وہ غسل کر لے اور وہ پاک شمار ہو گی۔ اور اگر خون چالیس دنوں کے اندر پھر سے آ جائے تو وہ نفاس ہی ہو گا۔ |
عمدة الفقه
|
کتاب الصلاة
عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہتے ہیں: میں نے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا
پانچ نمازیں ہیں اللہ تعالٰی نے ان کو بندوں پر فرض کیا ہے رات اور دن میں جو ان کی حفاظت کرے تو اللہ کے پاس اس کے لئے عہد ہے کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور جو ان کی حفاظت نہ کرے اس کے لئے کوئی عہد نہیں ہو گا اللہ کے پاس اگر وہ چاہے اسے عذاب دے اگر چاہے تو اسے بخش دے
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب الاذان والاقامة
آذان اور اقامت کا باب
اور یہ دونوں پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مشروع ہیں ان کے علاوہ مردوں کے لئے عورتوں کے علاوہ اور آذان کے پندرہ کلمے ہیں ان میں ترجیع نہیں ہے، اور اقامت کے گیارہ کلمے ہیں ، اور چاہیے مؤذن امانت دار ہو بلند آواز ہو وقتوں کو جاننے والا ہو، اور مستحب ہے کہ وہ کھڑا ہو کر آذان دے پاکی کی حالت میں(باوضو ہو کر) بلند جگہ پر ٹہر کر قبلہ رخ ہوتے ہوئے، جب وہ الحیعلة (حی الصلاة اور حی الفلاح) پر پہنچے تو دائیں اور بائیں مڑ جائے اور اپنے قدموں کو نہ ہٹائے اور اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں رکھے ، اور آذان میں اطمینان اور ترتیل کا خیال رکھے ، اور اقامت تیزی سے دے ، اور صبح کی آذان میں الحیعلة کے بعد کہے اصلاة خیر من النعوم دو دفعہ ، اور اوقات سے پہلے آذان نہ دے سوائے فجر کے لئے رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے بلال رات میں آذان دیتے ہیں تم کھاؤ اور پیئو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم آذان دیں اور مستحب ہے جو موذن کو سنے کہ وہ بھی اسی طرح کہے جیسا وہ کہتا ہے رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے جب تم آذان سنو تو کہو جیسا وہ کہتا ہے ۔
( آذان کے معنی ہیں اطلاع دینے کے اور خبر دینے کے ہیں آذان اذان سے ہے وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ یہ اطلاع ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے آذان کے شرعی معنی ہیں ان تعبد للله تعالى بالاعلان بدخول وقت صلاة بذکر محصوص اللہ کی عبادت کرنا نماز کے وقت کے داخل ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے خاص ذکر کے ذریعے ۔
اقامت کہتے ہیں کسی چیز کو قائم کرنا سیدھا کرنا ۔اصطلاح میں اقامت کہتے ہیں ان تعبد للله تعالى بالعلان اقامة الصلاة اللہ کی عبادت کرتے ہوئے نماز کے لئے ٹہرنے کی اطلاع دیتے ہوئے خاص ذکر کے ساتھ
دونوں کی تعریف سے دونوں کا فرق واضح ہو گیا کہ آذان نام ہے وقت کے داخل ہونے کا اور اقامت نام ہے نماز میں داخل ہونے کا
آذان اور اقامت دونوں پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مشروع ہیں لیکن اس کا کیا حکم ہے یہ فرض کفایہ ہے فرض کفایہ کا مطلب ہے کہ یہ واجب ہے یہ ہر ایک پر واجب نہیں ہے کوئی ایک آدمی دے دے گا تو کافی ہو جائے گی
دلیل رسولﷺ کے پاس جب مالک ابن حویرث آئے وہ ٹہرے رہے انھوں نے جانا چاہا تو آپﷺ نے ان کو کچھ باتیں بتائیں اس میں ایک بات یہ بھی بتائی تم جب جاؤ اور نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں کوئی شخص آذان دے آذان مشروع ہے لیکن اس کا حکم فرض ہے فرض کفایہ پانچ وقت کی نمازوں کے لئے جس میں جمعہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ دوسری نمازوں کے لئے آزان نہیں دی جائے گی چاہے وہ اکیلے پڑھی جائے یا جماعت کے ساتھ مثلا عیدیں کی نماز، نماز استسقاء، نماز کسوف الصلاة جامعة کا اعلان کیا جائے گا کسوف کی نماز کے لئے)
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب شرائط الصلاة
نماز کے شروط کا باب
باب : مختلف مسائل کا مجموعہ
شرائط: یہ جمع ہے شرط کی شرط کے لفظی معنی علامت یا نشانی اللہ تعالٰی نے فرمایا سورتہ محمد 18 فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا اللہ تعالٰی نے یہاں علامتوں کے معنی میں استعمال کیا یہ لغوی معنی ہیں
اصطلاحی معنی ہیں: ما يلزم من عدمه العدم ولا يلزم من وجودہ وجوده جس کے نہ ہونے سے مشروط کا لازم آتا ہے شرط کے نہ ہونے سے مشروط کا نہ ہونا ایک ایسی چیز جو شرط پر رکھی گئی ہے جس کے نہ ہونے سے مشروط کا لازم آتا ہے لیکن اس کے ہونے سے مشروط کا لازم نہیں آتا مثلا نماز كے لیے وضو شرط ہے لیکن اگر وضو نہیں ہو گا تو نماز نہیں ہو گی جس کے نہ ہونے سے مشروط کا لازم آتا ہے اس کے ہونے سے مشروط کا ہونا لازم نہیں آتا مثال کے طور پر کہ کوئی وضو کرے تو ضروری نہیں کہ وہ نماز پڑھے شرط تو پوری کر لی ہے مشروط کو پورا کرے یہ ضروری نہیں ہے لیکن اگر نماز پڑھنا ہے تو وضو کرنا پڑے گا تو
نماز کے شرائط ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کے نہ ہونے کی صورت میں نماز بھی نہیں ہو گی یہاں چھے شرائط ذکر کی گئی ہیں جو نماز کے لئے ضروری ہیں اگر ہم اسے نہیں کریں گے تو نماز نہیں ہو گی
نماز کے شروط کا باب
(نماز کی بنیادی شرط اسلام ، عقل، اور بلوغت یہ تین ہیں)
باقی چھے یہ ہیں :
الشرط الاول حدث سے پاک ہونا، رسولﷺ کے فرمان کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی اس کی جو ناپاک ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کر لے
الشرط الثانی : وقت کا داخل ہونا اور ظہر کا وقت ہے زوال شمس( سورج کے ڈھلنے سے لے کر ) یہاں تک کہ ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہونے تک ہے ، اور عصر کا وقت ہے اور وہ نماز وسطی ہے ظہر کے آخری وقت سے لے کر یہاں تک کہ سورج زرد ہو جائے پھر وقت اختیار ختم ہو جاتا ہے اور وقت ضرورت باقی رہتا ہے (مجبوری میں) سورج کے غروب ہونے تک ، اور مغرب کا وقت باقی رہتا ہے یہاں تک کہ شفق احمر غائب ہو جائے( آسمان کے کناروں پر پائی جانے والی سرخی) ، اور عشاء کا وقت یہاں سے (مغرب سے) آدھی رات تک ہوتا ہے پھر وقت ضرورت باقی رہتا ہے فجر ثانی کے طلوع ہونے تک، اور فجر کا وقت یہاں سے شروع ہوتا ہے(طلوع فجر ثانی سے) سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے ، اور جو تکبیر تحریمہ کہے نماز کے لئے اس کے وقت کے ختم ہونے سے پہلے اس نے اس وقت کی نماز کو پا لیا، اور نماز اول وقت میں پڑھنا فرض ہے سوائے عشاء آخرة کے ( مغرب پر عشاء اولی کا اطلاق ہے) اور گرمی کی سختی میں ظہر نماز کی کے۔
الشرط الثالث (ستر کہتے ہیں ڈھنپنا یا چھپانا اور عورہ کہتے ہیں انسانی جسم کے وہ اعضاء جو انسان ستر کی وجہ سے چھپاتا ہے اردو میں ہم اس کو ستر بولتے ہیں ستر العورہ کا ترجمہ عام طور پر اہل علم نے کیا ہے ستر چھپانا عربی میں عورت ستر کو کہتے ہیں اردو میں عورت خاتون کو کہتے ہیں عربی میں عورت کو امراة کہتے ہیں) ستر چھپانا ایسے لباس یا ایسی چیز سے جو بدن کو ظاہر نہ کرتی ہو بدن کا وصف نہ بیان کرتی ہو اور مرد کا ستر اور لونڈی کا ناف سے گٹنے تک ہے اور آزاد عورت پوری کی پوری ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور ہتھیلیوں کے اور ام والد اور جس کا بعض حصہ آزاد ہوا ہو وہ لونڈی کی طرح ہے اور جو نماز پڑھے غصب کیئے ہوئے کپڑے میں یا غصب کیئے ہوئے گھر میں اس کی نماز نہیں ہوتی سونے اور حریر ریشم کا پہننا مباح ہے عورتوں کے لئے مردوں کے علاوہ مگر حاجت کے وقت پر (رسولﷺ نے ایک ہاتھ میں ریشم لیا اور ایک ہاتھ میں سونا لیا اور یہ فرمایا) رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے " سونے اور ریشم یہ دونوں چیزیں حرام ہیں میرے امت کے مردوں کے لئے ان کی عورتوں کے لئے حلال ہیں" اور مردوں میں سے جو ایک کپڑے میں نماز پڑھے اس کپڑے کا بعض حصہ اس کے کاندھے پر ہو وہ اس کے لئے کافی ہو جائے گا جو کوئی کپڑا یا کوئی چیز نہ پائے مگر اتنا ہی جس سے وہ اپنی شرم گاہوں(آگے اور پیچھے) کو چھپائے تو اس سے چھپائے گا اور اگر وہ دونوں شرم گاہوں کے لئے کافی نہ ہو تو وہ ان میں سے ایک کو چھپائے گا اور اگر وہ ستر بلکل ہی نہ پائے ہر حال میں تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا اشارہ کرے گا رکوع اور سجود میں اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ لے تو وہ جائز ہے۔ اور جو نہ پائے مگر کپڑا نجس ہے یا وہ جگہ جو نجس ہے تو انہی میں نماز پڑھے گا اس پر کوئی اعیادہ نہیں( نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ہو گی)
الشرط الربع نجاست سے پاکی حاصل کرنا اپنے بدن میں اپنے کپڑے میں اور نماز پڑھنے کی جگہ میں سوائے اس نجاست کے جو معفو ہے جیسا کہ تھوڑا سا خون اور اس کی طرح دوسری چیزیں اگر وہ نماز پڑھے اس حال میں کہ اس پر نجاست ہو جیسا کہ وہ جانتا نہیں تھا یا جان گیا تھا پھر بھول گیا تو اس کی نماز صحیح ہے اگر اسے نماز میں معلوم ہو اسے زائل (دور) کر دے گا اور اپنی نماز کو مکمل کرے گا زمین ساری کی ساری مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام (نہانے کی جگہ)اور ٹائلٹ(جاجت کی جگہ)اور اونٹ کے باندھنے کی جگہ اور راستے کے درمیان میں
الشرط الخامس قبلہ رخ ہونا سوائے نفل نماز کے سواری پر پڑھنے کے لئے مسافر کے لئے کیوں کہ وہ نماز پڑھے گا جدھر بھی اس کا رخ ہو اور جو قبلہ رخ ہونے سے عاجز ہو خوف کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے وہ نماز پڑھے گا جیسا اس کے لئے ممکن ہو اور جو ان دونوں کے علاوہ (مسافر،عاجز) ہیں اس کی نماز صحیح نہیں ہوتی مگر قبلہ رخ ہو کر۔اگر وہ کعبہ اللہ سے قریب ہو تو اسے عین قبلہ کی طرف رخ کرنا لازم ہو گا اور اگر وہ دور ہو تو جہت کعبہ کی طرف رخ کرنا کافی ہو گا اور اگر قبلہ پوشیدہ ہو گا حضر میں تو وہ لوگوں سے پوچھے گا اور مسلمانوں کے محرابوں سے دلیل(رہنمائی) لے گا اور اگر وہ غلطی کرے گا تو اسے نماز لوٹانا ہو گا اگر قبلہ مخفی ہو جائے سفر میں تو وہ اجتہاد(کوشش ) کرے گا اور وہ نماز پڑھے گا تو اس کے لئے کوئی اعیادہ نہیں ہو گا(نماز لوٹانا نہیں ہو گا )اور اگر دو مجتہد اختلاف کریں تو ان میں کوئی بھی دوسرے کی بات کی پیروی نہیں کرے گا اور پیروی کرے گا اور جو اندھا اور جو العامی پیروی کرے گا دونوں میں سے زیادہ اعتماد والے پر
الشرط السادس عین نماز کی نیت کرنا اور نیت کو مقدم کرنا جائز ہے تکبیر سے تھوڑے وقت کے لئے بشرط ہے اسے فسخ نہ کیا ہو۔
(عین صلاة کی نیت کرنا (جو نماز مقصود ہے) اور نیت تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہونا چاہیے لیکن اگر اس سے تھوڑا پہلے کر لیتے ہیں تو کافی ہو گی نماز کی نیت میں دو طرح کی نیت ہونی چاہیے ایک تو ہم اللہ کے لئے پڑھ رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ فلاں نماز پڑھ رہے ہیں )
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب صفة الصلاة
یہ باب اہم ترین ہے عوام کے لئے بھی مردوں کے لئے بھی عورتوں کے لئے بھی عالم اور جاہل کے لئے بھی ہے کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نماز کو صحیح طور سے پڑھ سکیں
ہم اس میں علی بصیرة پڑھیں گے جو زیادہ واضح اور راجح ہونا چائیے اسی کی روشنی میں ہم پڑھیں گے ہم بنیادی طور پر جس نقطے کو رکھ کر پڑھ رہے ہیں کہ تعصب نہ ہو اور یہ تعصب کا نہ ہونا تین پہلوؤں سے ہے پہلا: ہے کہ گرچہ ہم ایک مسلک کی کتاب پڑھ رہے ہیں لیکن ہم دلائل کی بنیاد پر اختلاف کریں گے کیونکہ ہمیں ہر اس چیز کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف رجوع کریں
دوسرا پہلو : جن مسائل میں اختلاف ہو گا اور جن سے ہو گا ہم ان کی ملامت نہیں کریں گے کیونکہ ان کے پاس بھی اپنے دلائل ہیں ہم عذر تلاش کریں گے ان کے لئے اور ہم جو کچھ بھی اس کی بنیاد پر انہیں ملامت نہیں کریں گے
تیسرا پہلو : ہم جو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں یہ فروعات میں ہے اصول میں نہیں ہے کسی کا اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ سجدہ کرنا چاہیے کہ نہیں کرنا چاہیے رکوع ہونا چائیے کہ نہیں ہونا چائیے مسائل فروعات میں ہیں جس کا زیادہ تر تعلق سنتوں سے ہے اس کی بنیاد پر ہم کسی کے نمازوں کے نہ ہونے کے فتوے نہیں دیں گے جن سے ہم اختلاف کریں گے کسی کے نمازوں کے ضائع ہونے کے فتوی نہیں دیں گے اس کا تعلق فروعات سے ہے اصول سے نہیں ہے اس سبق میں ہم یہ بھی پڑھیں گے کہ شاید ہم جن باتوں پر عمل کر رہے ہیں یہ باتیں ان کے خلاف ہیں اور یہ ممکن بھی ہے کیونکہ ہم دین کے کاموں میں تحقیق نہیں کرتے جیسے دینا کے کاموں میں کرتے ہیں یہ اختلاف اگر دین کی بنیاد پر ہے تو ہم اس کو قبول کریں گے اگر دین کی بنیاد پر نہیں ہے تو ہم اس کو رد کر دیں گے
سبق
اور جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو کہے اللہ اکبر، امام اس کو بلند آواز سے کہے گا اور ساری تکبیرات کو تاکہ ان لوگوں کو سنا سکے جو ان کے پیچھے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے اس کو چھپائیں گے،اور اپنے ہاتھوں کو اٹھائیں گے تکبیر کی ابتدا میں اپنے ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں تک بلند کریں گے یا پھر اپنے کان کی لو تک بلند کریں گے اور اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھے اور اپنے آنکھوں کو سجدے کے مقام پر دیکھے اور پھر کہے سبحانك اللھم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا اله غیرك: "پاک ہے تو اے اللہ اور تیری ہی تعریف ہے اور تیرا نام بلند ہے بابرکت ہے اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں " اور پھر کہے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم "پناہ میں آتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے" اور پھر کہے" بسم اللہ الرحمن الرحیم "شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے " اور ان میں سے کوئی بھی چیز بلند آواز سے نہ کہے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول کی وجہ سے " میں نے نبی کریمﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالٰی عنھم کے پیچھے میں نے ان میں سے کسی کو نہیں سنا بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے ہوئے " پھر سورتہ الفاتحہ پڑھے اور نماز نہیں ہوتی جو اسے نہ پڑھے غیر مقتدی کے اس لئے کہ امام کی قرأت مقتدی کی ہی قرآت ہے اور مستحب ہے آدمی امام کے سکتے کے وقت پر پڑھے اس جگہ پر جہاں وہ بلند آواز سے نہیں پڑھ رہا پھر کوئی سورتہ پڑھے جو صبح کی نماز میں طوال المفصل سے ہو اور مغرب کی نماز میں قصار مفصل سے پڑھے اور ان کے علاوہ باقی نمازوں میں وساط مفصل سے پڑھے اور امام بلند آواز سے قرات کرے فجر کی نماز میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اور ان کے علاوہ دوسری جو رکعتیں ہیں ان میں آہستہ قرات کرے پھر اللہ اکبر کہے اور رکوع کرے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھائے جیسا کہ اس نے پہلے اٹھایا تھا(تکبیر تحریمہ کے وقت) پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیوں کو کھلا رکھے اور اپنی پیٹھ کو پھیلائے اپنے سر کو پیٹھ کے برابر رکھے پھر کہے " پاک ہے میرا رب عظمت والا( سمع اللہ لمن حمدہ) " تین مرتبہ پھر اپنے سر کو یہ کہتے ہوئے اٹھائے اللہ تعالٰی نے سن لی جس نے اس کی تعریف کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے جیسا اس نے پہلی بار اٹھایا تھا تکبیر تحریمہ کے وقت پر پھر جب اچھی طرح اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے کہے (ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد) تیرے ہی لئے تعریف ہے آسمانوں اور زمینوں کے برابر اور ہر چیز کے برابر جو تو چاہے " مقتدی اختصار کرے کہنے پر یعنی (ربنا لک الحمد کہے سمیع اللہ لمن حمدہ نہ کہے ) پھرسجدہ کرے تکبیر کہتے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو نہ اٹھائے، اور زمین پر جو سب سے پہلی چیز اس میں سے اپنے دونوں گھٹنے پھر اپنی ہتھیلیوں کو پھر اپنی پیشانی اور اپنی ناک کو؛ اور اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھے اور اپنے پیٹ کو نہ ملا دے اپنی ران سے فاصلہ رکھے اور اپنے ہاتھوں کو کاندھوں کے برابر رکھے یعنی اپنے ہاتھوں کو پھیلا نہ دے بلکہ اسے اپنے کاندھوں کے برابر رکھے، اور اپنے قدم کے کنارے ان کو کھول کر رکھے دونوں پیروں کی انگلیوں پر وہ رہے، پھر کہے "سبحان ربي الاعلی" پاک ہے میرا رب جو بلند ہے تین مرتبہ کہے پھر اپنا سر اٹھائے تکبیر کہتے ہوئے اور مفترش ہو کر بیٹھ جائے بچھا دے اپنے بائیں پیر کو اور اس پر بیٹھ جائے اور دائیں پیر کو کھڑا رکھے اور اپنی انگلیوں کو قبلے کی طرف پھیر دے اور موڑ دے اس کی انگلیوں کو قبلے کی طرف اور کہے "ربي اغفر لي" اے میرے رب مجھے بخش دے تین دفعہ کہے پھر دوسرا سجدہ کرے پہلے سجدے کی طرح پھر اپنے سر کو اٹھائے تکبیر کہتے ہوئے اور دوسری رکعت پڑھے پہلی رکعت کی طرح ۔
جب فارغ ہو جائے دو رکعتوں سے تشھد کے لئے بیٹھے گا مفترش ہو کر اور اپنے بائیں ہاتھ کو رکھے گا بائیں ران پر اور اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں پیر کی ران پر رکھے گا اور وہ بند کر لے گا دو آخری چھوٹی انگلیوں کو اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے ساتھ حلقہ بنائے گا اور تشھد کی انگلی اشارہ کرے گا کئی دفعہ اور کہے گا ( التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه)ُ تمام زبانی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں اور بدنی عبادتیں اور مالی عبادتیں سلامتی ہو آپ پر اے نبی اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں اور سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالٰی کے نیک بندوں پر میں شھادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں " یہ سب سے زیادہ صحیح ہے جو نبی کریمﷺ سے روایت کیا گیا ہے تشھد کے بارے میں پھر کہے ((اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ) " اے اللہ صلاة درود بھیج محمد ﷺ پر اور محمدﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر تو تعریف والا ہے اور بزرگی والا ہے اور برکت نازل فرما محمدﷺ پر اور محمد ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے برکت نازل کی ابراہیم علیہ السلام پر اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے" اور مستحب ہے وہ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگے اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے پھر سلام پھیرے اپنے دائیں جانب السلام و علیکم ورحمة اللہ سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت ہو اور اپنے بائیں جانب بھی اسی طرح
اور نماز دو رکعتوں سے بڑھ کر ہو تو کھڑا ہو جائے گا تشھد اول کے بعد سجدے سے کھڑے ہونے کی طرح پھر دو رکعت پڑھے گا سورتہ الفاتحہ کے بعد اس میں کچھ بھی نہیں پڑھے گا جب وہ بیٹھ جائے گا تشھد اخیر میں تین رکعت والی ہے تو تین رکعت میں چار رکعت والی ہیں تو چار رکعت میں تو وہ تورک کرے گا اپنے دائیں پیر کو کھڑا کر دے گا اور پھیلا دے گا اپنے بائیں پیر کو اور اس کو دائیں جانب نکال دے گا ، اور تورک نہیں کرے گا مگر اس نماز میں جس میں دو تشھد ہوتے ہیں آخری کے تشھد میں جب وہ سلام پھیر دے گا مغفرت طلب کرے گا تین دفعہ اور کہے گا (اللھم انت السلام ومنك السلام تبارکت یا ذا الجلال والإكرام) اے اللہ تو ہی سلام ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے تو بابرکت ہے اے جلال و اکرام والے
سبق کی کچھ ضروری باتیں:
( مولف رحمة اللہ علیہ نے نماز کا آغاز کیا اللہ اکبر سے گرچہ نماز شروع ہوتی ہے نیت سے نیت کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ نیت شروط میں سے ہے اور وہ نماز سے پہلے ہوتی ہے اور جب نماز شروع ہوتی تو سب سے پہلے اللہ اکبر رسولﷺ نے کہا (((مفتاح الصلاة الطهور، وتحريمها التكبير، وتحليلها التسليم)) نماز کی چابی پاکی ہے جس کا تعلق جس کا تعلق وضو سے ہے جس کو حرام کرنے والی چیز تکبیر ہے " یعنی وہ چیزیں جو اب تک حلال تھیں نماز میں داخل ہونے کے بعد حرام ہو جاتی ہیں اور پھر اس کو حلال کرنے والی چیز جو حرام تھیں وہ حلال ہو جاتی ہیں وہ ہے سلام تکبر تحریمہ اس لئے کہتے ہیں اب تک جو چیزیں حلال تھیں وہ اب حرام ہو جاتی ہیں آدمی مکمل طور پر نماز میں داخل ہو جاتا ہے سب سے پہلے اللہ اکبر ہے اور ضروری ہے وہ انہی الفاظ کے ساتھ ہو اللہ اعظم ، اللہ ھو اجل اگر کوئی کہتا ہے تو اس کی تکبیر تحریمہ مکمل نہیں ہو گی جس کی تکبیر نہیں ہوتی اس کی نماز ہی شروع نہیں ہوتی اس کو حرام کرنے والی چیز تکبیر ہے اللہ اکبر کے الفاظ ہونا ضروری ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو گی وہ لوگ جو مسجد میں اس وقت پہنچتے ہیں جب امام رکوع میں ہوتا ہے وہ اس وقت جھکتے وقت اللہ اکبر کہتے ہیں تو ان کو سمجھنا چائیے کہ ان کی تکبیر نہیں ہوئی جب نماز کے لئے کھڑا ہو اس کا مطلب تکبیر قیام کی حالت میں ہوتی ہے رکوع کی حالت میں نہیں ہوتی اس کا مطلب انھوں نے تکبیر تحریمہ نہیں کہی انتقال کی تکبیر کہی ہے وہ نماز کا پھر سے آغاز کریں۔
تکبیر امام بلند آواز سے کہے گا اس لئے کہ مقتدی اس کی ابتدا کرنے والے ہیں جب امام کی آواز نہیں آئے گی تو مقتدی اس کی ابتدا کیسے کریں گے اور باقی ساری تکبیرات کو جیسے آدمی رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہتا ہے اسی طرح سجدے میں جاتے ہوئے تکبیر کہتا ہے یہ تکبیرات انتقالی ہیں پہلی تکبیر تحریمہ کہلاتی ہے اور باقی تکبیرات انتقالی کہلاتی ہیں چار رکعت والی نماز میں تکبیرات بائیس مرتبہ ہوتی ہیں تین رکعت والی نماز میں سترہ دفعہ اور دو رکعت والی نماز میں گیارہ مرتبہ ہوتی ہیں تکبیر تحریمہ کو ملا کر یہ تکبیرات امام اور مقتدی دونوں کو کہنا ہے منفرد کو تو کہنا ہے امام کے ساتھ پڑھے گا رب بھی منفرد کہے گا ۔
اگر مقتدی بلند آواز سے تکبیر کہیں گے تو ظاہر ہے کہ امام کو تشویش ہو گی اور جو نماز میں شریک ہیں ان کے لئے بھی پریشانی کی بات ہو گی ، اپنے ہاتھوں کو پہلے نہیں اٹھائیں گے جائز ہے کوئی حرج نہیں ہے لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ ادھر ہماری زبان سے اللہ اکبر نکلتا ہو اور ادھر ہمارے ہاتھ حرکت کرتے ہوں بلندی کی طرف دونوں کو ایک ساتھ ہونا چائیے یہ زیادہ افضل اور بہتر ہے لیکن اگر تھوڑا بہت آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے
اپنے ہاتھوں کو بلند کریں گے مونڈھوں تک مونڈھا کہتے ہیں ہمارے کاندھے اور کانوں کے بیچ کے جوڑ کو یا پھر اپنے کان کی لو تک بلند کریں گے مولف رحمة اللہ نے یہ نہیں بتایا ہمارے ہاتھوں کی کیفیت کیا ہونی چاہیے حدیث سے معلوم ہوتا ہے ہماری دونوں ہتھیلیاں قبلے کی طرف ہونی چاہیے انگلیاں نہ ہی کھولیں نہ ہی بند کریں ان کو اپنی نارمل حالت میں چھوڑ دیں کاندھوں تک یا کانوں تک رسولﷺ سے دونوں کیفیت مروی ہیں اس لئے دونوں ہی کرنے چائیے تاکہ رسولﷺ کے ہر طریقے عمل ہو لیکن کانوں کو چھونا غلط ہے ہاتھوں کو بلند کرنا تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور تین جگہ پر بھی ہے رفع الیدین رکوع میں جاتے ہوئے رکوع سے اٹھتے ہوئے اسی طرح چار رکعت والی اور تین رکعت والی نماز میں دوسری رکعت سے اٹھتے ہوئے یہ چار جگہ پر ذکر ہے صحیح بخاری میں عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان چار جگہوں پر اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے تھے تکبیر تحریمہ کے وقت رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت اور چوتھی مرتبہ تین یا چار رکعت پڑھاتے تو دوسری رکعت میں اٹھتے وقت بعض صحابہ سجدے میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہو ہاتھ اٹھاتے تھے اللہ کے رسولﷺ نے اس سے منع کیا
مولف رحمة اللہ کہتے ہیں ہاتھوں کو ناف پر رکھنے کی کیفیت نہیں بیان کی دائیں ہاتھ کو بائیں پر ابن خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ہے میں نے اللہ کے رسولﷺ کے پاس نماز پڑھی میں نے دیکھا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور اپنے سینے پر رکھا" شیخ البانی نے لطیف استدلال کیا ہے ابوداؤد کی حدیث پر اس پر غور کرنے سے واضح نہیں ہے اللہ کے رسولﷺ اپنے ہاتھوں کو رکھتے تھے سینے پر ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر اپنے جوڑ پر رکھتے تھے اس کیفیت کے ساتھ اگر ہم رکھ کر دیکھتے ہیں تو ممکن نہیں ہے اس حدیث کو دیکھ کر اسی وقت ممکن ہوتی ہے یہ کیفیت جب ہم اپنے سینے پر رکھیں یا سینے سے قریب رکھیں اپنے ہاتھ پر اپنے جوڑ پر رکھتے تھے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اس کیفیت کے ساتھ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ تو سینے پر رکھیں گے یا اس کے قریب رکھیں گے یہ افضل ہے یہ کتاب کا قول ضعیف ہے ۔
آنکھوں کو سجدے کی جگہ پر رکھنے کی وجہ توجہ کے لئے بہتر ہے ۔
ہم اللہ تعالٰی کو تمام عیوب سے پاک قرار دیتے ہیں اللہ تعالٰی کو کمال متصف قرار دیتے ہیں جب ہم تسبیح کرتے ہیں تو اس کی تحمید بھی کریں گی جہاں اللہ کو پاک بتائیں گے عیوب سے وہاں تمام تعریف سے متصف قرار دیں گے اس کو دعا إستفتاء جس سے نماز شروع ہو کہتے ۔
اعوذ باللہ ہم تلاوت کے لئے پڑھتے ہیں نماز کے لئے نہیں ۔ہم یہاں بھی سورتہ الفاتحہ کے سلسلے میں سب کا اس بات پر اتفاق کہ سورتہ الفاتحہ پڑھیں گے جو تنہا نماز پڑھنا چائیں وہ مرد ہو یا عورت امام کے پیچھے جب نماز پڑھتے ہیں اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ سورتہ الفاتحہ سری پڑھیں گے چار رکعت والی نماز میں دو رکعت کے بعد سری پڑھنا چائیے اس میں اہل علم کا اتفاق ہے اختلاف اس پر ہے کہ امام جب بلند آواز میں پڑھے تو مقتدی پڑھے کہ نہ پڑھے رسولﷺ نے فرمایا (اس کی نماز نہیں ہوتی جو ام کتاب نہ پڑھے) صحیح بخاری
رسولﷺ نے فرمایا (کوئی چیز نہ پڑھو سوائے ام کتاب کے ) ابوداؤد اور رسولﷺ نے فرمایا کیا( تم کچھ پڑھ رہے تھے صحابہ نے کہا ہاں آپ نے فرمایا مت پڑھو سوائے سورتہ الفاتحہ کے ) لوگوں نے ابوہریرہ سے پوچھا ہم کیسے پڑھیں جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے آپ نے فرمایا اپنے نفسوں میں پڑھ لیا کرو منفرد تو پڑھیں گے اور جب امام کے پیچھے پڑھیں کے سری میں بھی اور جہری میں بھی پڑھیں گے یہ زیادہ راجع مسلک ہے دلائل کے اعتبار سے ۔
رسولﷺ سے دو ہی سکتے ثابت ہیں پہلا سکتہ اللہ اکبر تکبیر کے بعد دعائے استفتاء کے لئے دوسرا سکتہ قرات سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے سورتہ الفاتحہ کے بعد والا سکتہ ثابت نہیں ہے ۔
طوال مفصل کہتے ہیں سورتہ ق سے لے کر سورتہ الناس کی سورتوں کو مفصل فصل سے ہے اس لئے کہ یہ سورتیں چھوٹی چھوٹی سی ہیں اور بسم اللہ کے ذریعے اس میں بار بار فصل ہو جاتا ہے لیکن ہم راجح قول لیں گے تو مفصل سورتہ ق سے سورتہ عم یتسائلوں ۔
وساط مفصل یعنی مفصل کی درمیانی سورتیں عم یتسائلوں سے واضحی تک۔
اور قصار مفصل قصار معنی چھوٹی سورتہ الضحی سے سورتہ الناس تک اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی دوسری سورتیں بھی پڑھنا چائیے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ پڑھتے تھے۔
رکوع کے وقت اپنے گٹنوں پر ایسے ہاتھ رکھیں گے گویا کہ ہم انہیں پکڑ رہے ہیں
سبحان ربی العظیم کے علاوہ دوسری دعائیں بھی ہیں لیکن ان کو جمع نہیں کریں گی کبھی وہ پڑھیں گے کبھی یہ پڑھیں گے البتہ اس کے بعد دعا ربنا اتنا فی الدنيا پڑھیں گے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہے (بندہ اپنے رب کے قریب اس وقت ہوتا ہے جب سجدے میں ہوتا ہے) ۔
سات اعضاء کے ساتھ ہمیں سجدہ کرنا چاہیے ۔
سجدے میں اپنے پیروں کو ملانا افضل ہے اس سلسلے میں بعض احادیث آئی ہیں ۔
تکبیر کو رکن ادا کرتے کرتے بولیں گے رکوع میں جاتے ہوئے بولیں گے سجدے میں اٹھتے ہوئے بولیں گے ایسا نہیں کہ بول دیا اٹھیں یا پھر اٹھ گئے پھر بول رہے ہیں اس طرح نہیں ہے بلکہ انتقال کے دوران بولیں گے ۔
سب سے چھوٹی انگلی خنصر ہے اس کے بعد والی بنصر اسے کے بعد والی انگلی وسطٰی اس کے بعد والی انگلی سبابة سبابہ اس لئے کہتے ہیں عرب میں جب کسی کو برا بھلا کہتے تھے تو سبابہ سے اشارہ کرتے تھے بعض اہل علم کہتے ہیں ہم اس سے تسبیح بیان کرتے ہیں تو ہم اسے سباحہ کہیں گے لیکن لغت میں ایک نام آیا ہے تو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے انگوٹھے کو ابھام کہتے ہیں ۔
یا تو ساری انگلیوں کو انگوٹھے کے ساتھ بند کریں گے انگوٹھے کو اپنی درمیانی انگلی پر رکھ دیں گے یا پھر دو انگلیوں کو بند کریں گے حلقہ بنا کر سبابہ سے اشارہ کریں گے اشارہ کرتے وقت اللہ کے رسولﷺ مستقل اشارہ کرتے تھے یا جب دعا کرتے تو اشارہ کرتے دعا کے دو طریقے ہیں یا تو ہاتھ اٹھا کر دعا کریں یا تو انگلی سے دعا کریں یہ کیفیت ہے نماز میں ہم ایک خاص کیفیت میں ہوتے ہیں اس لئے اپنی انگلی سے دعا کریں گے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے جہاں دعا کا مقام آئے گا وہاں اپنی انگلی کو حرکت دیں گے اہل علم اس طرف گئے ہیں لیکن شیخ البانی کا کہنا کہ جب ہم دعا کے وقت پر انگلی کو اٹھاتے ہیں چھوڑتے ہیں یعنی نیچے کرنا اوپر کرنا وہ کہتے ہیں حرکت یہ ہو گی ہم اس کو درمیان میں رکھ کر تیزی کے ساتھ ہلائیں گے دونوں طریقے ثابت ہیں رسولﷺ سے یا تو انگلی کو برابر حرکت دیتے تھے یا انگلی اٹھاتے تھے ۔
سلام پھیرتے وقت ہم السلام علیکم و رحمہ ہی کہیں گے و برکاتہ نہیں کہیں گے
افضل یہ کہ سنت رات میں پڑھیں یا دن میں پڑھیں دو دو رکعت کر کے پڑھنا چائیے ابوداؤد کی روایت میں ہے ( سنت دو دو رکعت پڑھیں) لیکن بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں اگر کوئی پڑھتا ہے تو وہ سورتہ الفاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورتہ بھی پڑھے گا
اللہ کے رسولﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کو نماز کے بعد یہ دعا سکھائی تھی((" اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمَُ)) اے اللہ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا مجھے بخش دے مجھ پر رحمت فرما تو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب ارکان الصلاة وواجباتھا
سبق سے متعلق ضروری ہدایات:
نماز میں کچھ اقوال ہیں کچھ افعال ہیں کچھ باتیں ہیں جو ہم کہتے ہیں اور کچھ چیزیں ہیں جو ہم اپنے اعضاء و جوارح سے کرتے ہیں جس کو افعال کہتے ہیں کچھ اقوال و افعال ایسے ہیں جن کو کبھی بھی چھوڑا نہیں جا سکتا ان کو رکن کہتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کو بعض حالت میں چھوڑا جا سکتا ہے اس کو واجب کہتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسے سنت کہتے ہیں ۔
نماز کے تمام اقوال و افعال میں ان تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے یا رکن ہے یا واجب ہے یا سنت ہے
رکن لغة میں رکن کہتے ہیں جانب الشيء الاقوی کسی بھی چیز کا قوی کنارہ ۔
واصطلاحا : ما تترکب منه العبادة ولا تصح بدونھا جس سے عبادت مرکب ہوتی ہے یا بنتی ہے اور اس کے بغیر عبادت صحیح نہیں ہوتی ۔
واجب : لغة: اللازم جو ضروری ہے۔
اصطلاحا: ما ثبت الامر به في الکتاب او السنة ولا دلیل علی رکنیته السنة کتاب یا سنت میں جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہو لیکن اس کے رکن ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو ۔
سنت لغة : الطریقة
واصطلاحا: ما واظب النبیﷺ من العبادت دائما او غالبا ، ولم یامر به أمر ایجاب، ویثاب فاعلھا ولا یعاقب تارکھا رسولﷺ نے عبادات میں جن چیزوں کی پابندی کی ہمیشہ یا اکثر اوقات میں اور وجوبی حکم نہیں دیا۔
رکن (فرائض): کا حکم یہ ہے کہ اس کو ادا کرنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی
واجب: کو انسان عمدا چھوڑے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی اگر بھول کر چھوڑے گا تو آخر میں دو سجدہ سھو کے ذریعے اس کی کمی پوری ہو جائے گی ۔
سنت: کو رسولﷺ نے ہمیشہ کیا لیکن واجب کبھی نہیں قرار دیا کرنے والےکو ثواب ہو گا جو نہیں کرتا اسے گناہ نہیں ہو گا ۔
سبق :
نماز کے اور ان کے واجبات کا باب
اس کے ارکان بارہ ہیں :
1: قدرت رکھنے کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا۔
2: تکبیر تحریمہ ۔
3: سورتہ الفاتحہ کی قرأت ۔
4: اور رکوع کرنا:
5: رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا۔
6: سجدہ کرنا سات اعضاء پر۔
7: اور بیٹھنا اس سے (سجدے کے بعد)۔
8: ان ارکان کو اطمینان کے ساتھ ادا کرنا ۔
9: اور آخری تشھد ۔
10: اور آخری تشھد کے لئے بیٹھنا۔
11: پہلا سلام پھیرنا (دونوں سلام پھیرنا) ۔
12:نماز کو اسی ترتیب کے ساتھ پڑھنا۔
مولف رحمة اللہ علیہ کے پاس بارہ ہیں لیکن اہل علم نے چودہ بتایا ہے ۔
13: رسولﷺ پر درود پڑھنا۔
14: دوسرا سجدہ کرنا ۔
وواجباتھا سبعة
1:تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسری تکبیرات۔
2: رکوع اور سجدے میں ایک ایک دفعہ تسبیح پڑھنا۔
3:سمع اللہ لمن حمدہ کہنا۔
4: رکوع سے اٹھنے کے بعد ربنا و لك الحمد کہنا۔
5: دو سجدوں کے درمیان ربي اغفر لي کہنا۔
6: اور تشھد اول اور اس کے لئے بیٹھنا ۔
7 : نبی کریمﷺ پر درود بھیجنا تشھد کے اخیر میں ۔
اگر وہ یہ چیزیں جان بوجھ کر چھوڑ دے گا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور اگر ان کو بھول کر چھوڑےگا تو وہ اس کے لئے سجدہ کرے گا، اور جو ان کےعلاوہ ہیں وہ سنتیں ہیں ان کے عملا قصدا چھوڑنے سے نماز باطل نہیں ہو گی اور انہیں بھول کر چھوڑنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب سجود السھو
سجود سھو کا بیان ۔
سھو (بھولنے) کی تین اسباب ہیں۔
احدھا: کسی فعل کی زیادتی جو نماز کی جنس سے ہو : مثلا رکعت کی زیادتی یا کسی رکن کی زیادتی، پس نماز باطل ہو جائے گی اس کے قصدا کرنے سے اور سجدہ کرے گا بھولنے کی صورت میں، اور اگر وہ جان لے اس حال میں کہ وہ زائد رکعت میں ہو فی الفور بیٹھ جائے گا ، اور اگر وہ سلام پھیر دے نماز میں کوئی کمی کے بعد تو وہ ادا کرے گا جو اس پر باقی ہے پھر سجدہ سھو کرے گا، ، اور اگر وہ کوئی ایسا کام کرے جو نماز کی جنس سے نہیں ہے تو اس کا قصدا اور اس کا بھول کر کرنا برابر ہے، پس اگر وہ زیادہ ہو تو نماز باطل ہو جائے گی، اگر وہ تھوڑا ہو جیسا کہ نبی کریمﷺ کا فعل ہے امامة کو اٹھانے میں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لئے دروازہ کھولنے میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
الضرب الثاني دوسرا سبب: کمی کرنا جیسا کسی واجب کو بھول جانا پھر اگر وہ تشھد اول سے کھڑا ہو جائے اور یاد کرے پوری طرح کھڑا ہونے سے پہلے تو واپس آ جائے گا اور اسے پورا کرے گا اور اگر وہ پوری طرح کھڑا ہو جائے تو نہیں لوٹے گا ، اور اگر وہ کسی رکن کو بھول جائے اور اسے یاد کر لے دوسری رکعت میں قرأت پڑھنے سے پہلے واپس آ جائے گا وہ چھوڑے ہوئے رکن کو پورا کرے گا اور جو کچھ اس کے بعد ہے اسے بھی، اور اگر اسے یاد آئے اس کے بعد قرات کے بعد تو باطل ہو جائے گی وہ رکعت جس رکعت سے اس نے وہ رکن چھوڑا ہے ، اور اگر چار سجدے بھول جائے چار رکعتوں میں اور یاد کرے تشھد میں تو سجدہ کر لے گا اور ایک رکعت اس کی صحیح ہو جائے گی پھر وہ تین رکعتیں پڑھے گا۔
الضرب الثالث تیسرا سبب: جب وہ شک کرے کسی رکن کے چھوٹنے کے بارے میں تو وہ ایسے ہی سمجھے گویا وہ چھوٹ گیا، اور جو شک کرے رکعتوں کی تعداد کے بارے میں تو وہ یقین پر بنا کرے گا یقین کا اعتبار کرے گا سوائے امام کے بطور خاص وہ ظن غالب پر بنا کرے گا ۔
اور ہر سھو میں دو سجدے ہیں سلام سے پہلے سوائے اس کے جو سلام پھیر دے نماز میں کمی کرنے کی صورت میں اور امام جو ظن غالب پر بنا کرے بھولنے والے سجدہ سھو سلام کرنے سے پہلے کرے گا تو وہ دو سجدے کرے گا سلام پھیرنے کے بعد پھر تشھد پڑھے گا اور سلام پھیر دے گا، اور مقتدی پر سجدہ سھو نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کا امام سھو (بھول) کر لے پس وہ سجدہ اس کے ساتھ کرے گا، اور جس کے امام سے بھول جاتے یا کوئی معاملہ پیش آئے اس نماز میں تو مردوں کے لئے تسبیح ہے اور عورتوں کے لئے تالی بجانا ہے ۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب الصلاة التطوع
نفل نماز کا باب
مولف رحمة نے اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ساری نفل نمازوں کو ۔
احدھا السنن رواتبة یہ وہ نمازیں ہیں جس کے بارے میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ دس رکعتیں ہیں جن کو میں نے اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے یاد کیا ہے ظھر سے پہلے دو رکعتیں، اور ظھر کے بعد دو رکعتیں، اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں، اور دو رکعتیں عشاء کی اپنے گھر میں اور دو رکعتیں فجر سے پہلے حفضہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے مجھے بیان کیا کہ اللہ کے رسولﷺ جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اور مؤذن آزان دے دیتا دو رکعت نماز پڑھتے تھے یہ دو رکعتیں ان میں سب سے زیادہ موکد ہیں اور ان تخفیف ( کو ہلکا پھلکا پڑنا) مستتحب ہے اور ان کو گھر میں ادا کرنا افضل ہے اسی طرح مغرب کی دو رکعتیں۔
الضرب الثانی دوسری قسم وتر کی نماز اور اس کا وقت عشاء کی نماز اور فجر کے درمیان کا ہے اور اس کی سب سے کم تعداد ایک رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں ہیں اور کمال کا ادنی درجہ ہے تین رکعتیں دو سلام کے ساتھ اور قنوت پڑھے گا تیسری رکعت میں رکوع کے بعد۔
الضرب الثالث تیسری قسم نفل المطلق اور رات میں نفل پڑھنا دن میں پڑھنے سے افضل ہے اور رات کا آخری آدھا حصہ پہلے دوسرے آدھے حصے سے افضل ہے ، اور رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے گی اور بیٹھ کر نماز پڑھنا لیٹ کر نماز پڑھنے والے کی نماز سے آدھی شمار ہو گی ثواب کے اعتبار سے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے اعتبار ہے ۔
الضرب الربع چوتھی قسم کس کے لئے جماعت مسنون ہے اور اس کی تین قسمیں ہیں :
احدھا : نماز تراویح اور بیس رکعت ہے عشاء کے بعد رمضان میں ۔
والثاني: گرہن کی نماز جب سورج اور چاند کو گرہن لگ جائے تو لوگ فورا نماز کی طرف بڑھیں گے تیزی سے اگر وہ چائیں تو جماعت کے ساتھ اگر چاہیں تو منفرد ، وہ اللہ اکبر کہے گا اور سورتہ الفاتحہ پڑھے گا اور ایک طویل سورتہ پڑھے گا پھر ایک طویل رکوع کرے گا پھر اٹھے پھر سورتہ الفاتحہ پڑھے گا اور ایک طویل سورتہ پڑھے گا پہلے والی سورتہ سے کم پھر رکوع کرے گا اور لمبا رکوع کرے گا لیکن جو پہلا رکوع کیا تھا اس سے کم پھر رکوع سے اٹھے گا دو طویل سجدے کرے گا پھر اٹھے گا اسی طرح کرے گا دوسری رکعت میں بھی اس طرح کرے گا تو پھر یہ چار رکوع ہوں گے اور چار سجدے ۔
الثالث : بارش کی طلب میں نماز جب زمین خشک ہو جائے بارش رک جائے لوگ امام کے ساتھ نکلیں گے سکوں اور وقار کے ساتھ زیب و زینت سے خالی ہو کر سادگی کے ساتھ عاجزی انکساری کے ساتھ اس احساس کے ساتھ کہ وہ اللہ کے محتاج ہیں ، پس پڑھائے گا ان کو دو رکعت نماز عید کی نماز کی طرح ، پھر انہیں خطبہ دے گا ایک خطبہ ، اور کثرت سے استغفار کرے گا اور ان آیتوں کی تلاوت کرے گا جس میں استغفار کا ذکر ہے اور لوگ اپنی چادروں کو پلٹیں گے اور اگر ان کے ساتھ ذمی نکلیں تو انہیں روکا نہیں جائے گا، اور انہیں حکم دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں سے الگ کسی مقام پر رہیں۔
الضرب الخامس نفل نماز کی پانچویں قسم سجدہ تلاوت اور یہ چودہ سجدے ہیں سورتہ الحج میں اس میں سے دو ہیں اور سجدہ تلاوت مسنون ہے قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے اور غور سے سننے والے کے لئے توجہ کے بغیر سننے والے کے علاوہ اور وہ اللہ اکبر کہے گا اور سجدہ کرے گا اور جب اٹھے گا تب بھی اللہ اکبر کہے گا جب اپنا سر اٹھائے گا پھر وہ سلام کرے گا
تطوع کہتے ہیں تبرع کو یعنی اضافہ کرنا نفل زیادہ کرنا یہ فرض کے مقابلے میں ہے جو بھی نماز فرض سے زیادہ ہے وہ نفل ہے (تطوع نام ہے اس نماز کا جو فرض سے زیادہ ہو اور اسے مشروع کیا گیا ہو یعنی تطوع اس عبادت کا نام ہے جس کو فرض کے علاوہ مشروع کیا گیا ہو) صحیح احادیث میں یہ بات مذکور ہے کہ" قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا اگر وہ کامل نکلی تو بندہ کامیاب ہو جائے گا اگر نہیں تو وہ نقصان میں رہے گا بندے کے فرائض کو دیکھا جائے گا اگر اس کے پاس فرائض مکمل نہیں ہیں تو اللہ تعالٰی فرمائے گا میرے بندے کے پاس کوئی تطوع نماز ہے تو دیکھ لو اگر تطوع اس کے پاس ہے تو وہ فرض کے برابر کی جائے"
سنن راتب وہ ہیں جو فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جائیں راتب اس لئے کہتے ہیں یہ ہمیشہ پڑھی جائیں اور فرض کے بعد مرتب یعنی ترتیب وار ہیں یہ فرض کے ساتھ مرتب ہیں راتب کی جمع ہے رواتب یہ دس رکعتیں ہیں اس حدیث کے مطابق لیکن ام حبیبہ رضی اللہ عنھا سے جو حدیث مروی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے "جس نے ایک دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا " اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ظھر سے پہلے چار رکعتیں ہیں ہم اس کو دس نہیں سمجھیں گے بارہ سمجھیں گے اہل علم کہتے ہیں کہ جو سنن راتب نماز سے پہلے ہیں انہیں مسجد میں پڑھنا افضل ہے اور جو بعد میں ہیں انہیں گھر میں پڑھنا افضل ہے رسولﷺ ساری سنتیں گھر ہی میں پڑھتے تھے کچھ غیر مؤکدہ ہیں ظھر سے پہلے ظھر کے بعد دو یعنی چار پہلے تھیں پھر دو اس کے بعد یہ دو غیر مؤكدہ ہے اور عصر سے پہلے چار ہیں ہر نماز اور اقامت کے درمیان دو رکعت نماز فجر کی دو رکعتیں سب سے افضل ہیں اس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا "فجر کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر ہیں" اللہ کے رسولﷺ جب سفر میں ہوتے تھے تو ساری سنتیں چھوڑ دیتے تھے ان دو رکعتوں اور وتر کے علاوہ ان کو سفر مں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے فجر کی سنتوں کو ہلکا پڑھنا عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کہتی ہیں کہ" کبھی کبھی مجھے لگتا کہ آپ نے ام الکتاب پڑھی ہے کہ نہیں" ان کی قضاء ثابت ہے حدیث کی رو سے۔
وتر طاق کو کہتے ہیں یہ جفت کے مقابلے میں ہے وتر ایک تین پانچ سات پڑھی جاتی ہے یہ سنت مؤكدہ ہے اگر کسی نے کسی وجہ سے جمع تقدیم مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھ لیا ہے جس میں پہلے مغرب پڑھی جاتی ہے پھر عشاء پڑھی جاتی ہے وتر پڑھنے کے لئے عشاء کا انتظار نہیں ہو گا اس کا وقت وہیں سے شروع ہو جائے گا وتر کا رسولﷺ نے فرمایا" اگر تمھے صبح ہونے کا خوف ہو جائے تو ایک رکعت وتر پڑھ لو" بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے ایک بھی پڑھ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعت ہیں عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں "رسولﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے " رسولﷺ نے تیرہ بھی پڑھی تھی جیسا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ تیرہ رکعتیں بھی پڑھی تھیں یہ غالب کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس سے بڑھ کر بھی ہے اس کی دلیل ہے " رات کی نماز دو دو ہے جب کوئی تم میں سے صبح کے ہونے کا ڈر محسوس کرے ایک رکعت نماز پڑھے وہ پوری نماز کو وتر بنا دے گی" اس میں آپ نے یہ نہیں کہا دو دو کر کے اٹھ پڑھو دس پڑھو گیارہ پڑھو تیرہ پڑھو جتنا چاہے پڑھ سکتا ہے اگر کوئی بیس رکعت پڑھے اور ایک رکعت پڑھ تو اکیس ہو جائے گی یا پھر کوئی چالیس رکعت پڑھے ایک رکعت پڑھ لے وہ اکتالیس ہو جائے گی وتر ہو جائے گی لیکن گیارہ رکعتیں مسنون ہے اور یہ افضل ہے لیکن طویل سورتوں کے ساتھ طویل رکوع کے ساتھ طویل قیام کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ کمال کا ادنی درجہ تین رکعتیں ہیں یا تو تین رکعتیں ایک ساتھ پڑھیں درمیان میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیریں اور افضل اور بہتر یہ طریقہ ہے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر تیسری رکعت پڑھیں رسولﷺ نے مختلف طریقوں سے نماز پڑھی کبھی آپ پانچوں رکعتیں ایک ساتھ پڑھتے دو رکعت کے بعد نہ ہی بیٹھتے نہ ہی سلام پھیرتے پانچویں رکعت میں بیٹھتے اور سلام پھیرتے کبھی سات پڑھتے تو چھے رکعتیں ایک ساتھ پڑھتے پھر بیٹھتے سلام پھیرتے اس کے بعد آخری رکعت پڑھتے نویں رکعت ایسا کرتے اللہ کے رسولﷺ کے طریقے مختلف ہوتے تھے اس لئے ہر کیفیت کے ساتھ پڑھنا چاہے تاکہ ہر سنت پر عمل ہو جائے ۔ قنوت کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دعا سکھائی تھی "اللھم اھدنی فیمن ھدیت و عافنی فیمن عافیت " اور اللہ کے رسولﷺ نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سکھائی تھی " اللھم انی نستعینك واستغفرك " مختلف دعا پڑھی جا سکتی ہیں لیکن رسولﷺ نے اپنی نماز میں کبھی دعائے قنوت نہیں پڑھی تھی وتر میں اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قنوت وتر میں شرط نہیں ہے انسان کو کبھی پڑھنا چائیے کبھی چھوڑ دینا چاہیے ۔
اگر فرض نماز جانتے بوجھتے بیٹھ کر پڑھے گا تو اس نے ایک رکن چھوڑ دیا اس کی نماز نہیں ہو گی لیکن سنت نماز آدمی طاقت رکھنے کے باوجود بھی بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے لیکن اس کو ثواب آدھا ملے گا لیکن اگر اس کے پاس عذر ہے تو اس وقت پورا ثواب ملے گا رسولﷺ نے فرمایا "اگر کوئی بندہ بیمار ہو جائے یا سفر کرے اس کو وہ ثواب ملے گا جو وہ صحت کی حالت میں کرتا تھا سفر کے باوجود بھی اللہ تعالٰی اس کو وہ اجر لکھے گا کیونکہ عذر کی وجہ سے اس نے بیٹھ کر نماز پڑھی"
تراویح کو تراویح اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بہت طویل ہوتی ہے اور ہر چار رکعت کے بعد اس تھوڑا آرام کیا جاتا ہے اس کو رمضان میں تراویح کہا جاتا ہے اور عام دنوں میں اس کو قیام اللیل کہا جاتا ہے یا تہجد کہتے ہیں عام طور پر مسالک کا یہ خیال ہے یہ بیس رکعتیں ہیں لیکن یہ محدود نہیں ہیں سلف سے بیس چالیس ،چھتیس، رکعتیں بھی ثابت ہے یہ اس سے زائد بھی ہیں لیکن راجح بات یہ ہے کہ مسنون گیارہ رکعتیں ہیں جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے فرمایا کہ رسولﷺ "رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے " ہمیں گیارہ رکعتوں کا اہتمام کرنا چاہیے لیکن طویل رکعتوں کے ساتھ لیکن اگر کوئی زائد پڑھتا ہے تو یہ جائز ہے ہم اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کرنا چاہیے اگر ہم گیارہ رکعتیں پڑھتے ہیں اور اگر کسی مسجد میں امام گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے ہم اس کے پیچھے پڑھ رہے ہوں تو ہم امام کے ساتھ نماز مکمل کریں حدیث ہے "جب کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ سلام پھیرنے تک انتظار کرتا ہے تو رات بھر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا " بہت سے لوگ اس فائدے سے مستفید نہیں ہوتے عام طور پر عرب اہل علم اس چیز کی ترغیب دلاتے ہیں تراویح سنت مؤكدہ ہے۔
کسوف کی نماز بھی سنت مؤكدہ ہے یہ اللہ کی عظمت کی دلیل ہے یہ رسولﷺ کی زندگی میں ایک ہی مرتبہ ہوا تھا۔
بارش کی دعا جمعہ کے خطبہ میں کی جائے انسان کو چائیے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نکلیں اور زیب و زینت اختیار نہ کریں یہ عید کی نماز کی طرح پڑھیں گے عید کی نماز میں پہلی رکعت تکبیر تحریمہ کے ساتھ سات زائد تکبیرات کہیں گے اس کے بعد عام نماز کی طرح پڑھیں گے پھر دوسری رکعت کی قرأت کرنے سے پہلے پانچ تکبیرات کہیں گے باقی عام نماز کی طرح ہے امام ایک ہی خطبے میں کثرت سے استغفار پڑھے گا قرآن کی وہ آیتیں جس میں استغفار کا ذکر ہے وہ کریں گے رسولﷺ نے اپنی چادر کو پلٹ دیا تھا اور ہاتھوں کو اتنا بلند کیا تھا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آ رہی تھی چاروں کو پلٹنا امام اور مقتدی دونوں کے لئے مسنون ہے اور ذمی کہتے ہیں اہل کتاب یہود و نصاری یہ اسلامی ریاست میں جزیہ دیتے ہیں ان کی ذمی کہتے ہیں کافر ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں جیسے اللہ تعالٰی مسلمانوں کا رب ہے ویسے ان کا بھی رب ہے اس لئے ان کو روکا نہیں جائے گا عورتیں بھی زیب و زینت کے بغیر نکل سکتی ہیں ۔
سجدہ تلاوت نماز کی طرح ہے لیکن یہ واجب نہیں ہے یہ سنت مؤكدہ ہے دو سجدے سورتہ الحج میں ہیں والاعراف ،و الرعد ، والنحل ، الاسراء ، ومریم ، والفرقان ،و النمل ،و ال تنزیل ،و حم سجدہ ، و النجم ، والانشقاق ، و اقرا دیگر اہل علم کے پاس یہ پندرہ ہیں سورتہ ص میں بھی ہے وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ص 24 یہ مسنون ہے تلاوت کرنے والے کے لئے
مستمع کہتے ہیں جو خاموشی سے تلاوت کو غور سے سنتا ہے اور سامع بغیر ارادے اور بغیر غور کیئے سننے والا جب ہم اس کو نماز کہتے ہیں تو نماز کے لئے جو ساری شرطیں پائی جاتی ہے وہ شرطیں سجدہ تلاوت میں موجود رہیں گی یہ راجح قول یہ ہے کہ یہ نماز کی طرح نہیں ہے ذکر کی طرح ہے رسولﷺ سے یہ ثابت نہیں ہے سجدے میں جاتے وقت اللہ اکبر کہیں گے دعا پڑھیں گے بغیر اللہ اکبر کہ کر سر اٹھا لیں گے اس کے لئے نماز والی شرطیں نہیں ہیں جیسا کہ باوضو ہونا قبلہ رخ ہونا وغیر اچھا ہے باوضو ہونا قبلہ رخ ہونا لیکن ضروری نہیں ہے مولف رحمة اللہ علیہ کے قول کے مطابق یہ نماز کی طرح ہے لیکن راجح قول یہ نہیں ہے اگر نماز میں سجدہ تلاوت کریں گے تو اٹھتے ہوئے اللہ اکبر کہیں گے رسولﷺ نماز میں نیچے جاتے وقت اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے تو ہم وہ نماز میں کہیں گے وہ نماز کی وجہ سے کہیں سر اُٹھاتے وقت سجدہ تلاوت کی وجہ سے نہیں ۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب الساعات التي نھي عن صلاة التطوع فیھا
ان وقتوں کا باب جس میں نفل نماز پڑھنا منع ہے۔
اور یہ پانچ اوقات ہیں: فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور سورج طلوع ہونے کے بعد یہاں تک کہ ایک نیزے کے برابر بلند ہو جائے ،اور سورج کے درمیانی آسمان کے درمیان میں پہنچنے کے وقت یہاں تک کہ وہ زائل ہو جائے، اور عصر کے بعد ڈوبنے کی طرف مائل ہو جائے ، اور جب ڈوبنے لگے یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے ، پس یہ اوقات ہیں جس میں نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی مگر سوائے جماعت کو لوٹانا جب اقامت کہ دی جائے اور وہ مسجد میں ہو ، اور طواف کے بعد والی دو رکعتیں اور نماز جنازہ اور سنن رواتب کی قضاء ان میں سے دو اوقات میں فجر اور عصر کے بعد یہ چار چیزیں جائز ہیں دو اوقات میں اور فرض نمازوں کی قضاء جائز ہے تمام اوقات میں ۔
اگر ہم اجمالی طور پر لیں گے تو یہ تین اوقات ہیں اگر تفصیل کریں گے تو پانچ ہیں
1: فجر کی نماز سے سورج طلوع ہو کر سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہونے تک
2: سورج کے وسط آسمان سے
لے کر اس کے مغرب کی طرف زائل ہونے تک ۔
3: عصر کی نماز کے بعد سے سورج غروب ہونے تک
اگر ان تین اوقات کو پانچ اوقات لیں گے تو
1: پہلا فجر کی نماز سے لے کو سورج کے طلوع ہونے تک۔
2: سورج کا ایک نیزے کے برابر بلند ہونے تک۔
3: سورج کا آسمان میں پہنچنے سے لے کر اس کے مغرب کی طرف زوال ہونے تک۔
4: عصر کی نماز کے بعد سے سورج کے غروب کی طرف مائل ہونے تک ۔
سورج کے غروب کی طرف مائل ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک
اجمالی طور پر تین اوقات ہیں تفصیلی طور پر پانچ اوقات ہیں۔
تین اوقات چھوٹے ہیں سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے تک اس کا اندازہ دس سے بارہ منٹ ہے اہل علم کہتے ہیں پندرہ منٹ انتظار کر لینا چاہیے یہ چھوٹا وقت ہےدوسرا وقت بھی چھوٹا ہے سورج آسمان میں پہنچنے سے مغرب کی طرف مائل ہونے تک اس کے زوال تک یہ بھی پانچ چھے منٹ کا وقت ہے اور تیسرا وقت بھی چھوٹا ہے سورج کے غروب ہونے کے آغاز سے لے کر اس کے ڈوبنے تک یہ بھی مختصر وقت ہے ۔لیکن دو اوقات کافی طویل ہیں فجر کی نماز سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کی نماز سے لے کر سورج کے غروب کی طرف مائل ہونے تک مولف رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں ان دو طویل اوقات میں بعض نوافل جائز ہیں مثلا کوئی شخص کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھ لے یا اپنے گھر میں نماز پڑھ لے اس کے بعد وہ کسی مسجد میں جائے وہاں نماز ہو رہی تھی فجر کی اس وقت وہ دوبارہ نماز پڑھ لے جماعت کی نماز کو دوبارہ پڑھنا جب اقامت کہی جائے جب وہ مسجد میں ہو اس کی شکل یہ ہی ہے اللہ کے رسولﷺ نے دو آدمیوں کو دیکھا کہ وہ نماز نہیں پڑھ رہے آپ نے کہا کیا بات ہے تم نے نماز نہیں پڑھی انھوں نے کہا ہم نے گھر میں نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے کہا جب تم اپنے گھر میں نماز پڑھ لو مسجد کو آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہے تم ان کے ساتھ پڑھ لو وہ تمھارے لئے نفل شمار کر لی جائے گی "
اور طواف کی نماز بھی ان دو اوقات میں پڑھ سکتے ہیں فجر کی نماز میں سورج کے طلوع ہونے تک اور عصر کی نماز میں سورج کے غروب ہونے کی طرف مائل ہونے تک اس کی دلیل رسولﷺ نے فرمایا: " اے بنی عبد المناف تم کسی کو جو اس گھر کا طواف کرے تم کسی کو منع نہ کرو نہ نماز پڑھنے سے چاہے وہ دن میں ہو یا رات میں ہو "
جنازے کی نماز بھی ان اوقات میں پڑھی جا سکتی ہے ۔
سنن رواتب کی قضاء ان دو اوقات میں کی جا سکتی ہے فجر کی دو رکعتیں بھی بعد میں پڑھی جا سکتی ہیں رسولﷺ نے ایک آدمی کو فجر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا آپ نے فرمایا کیا فجر کی نماز چار رکعتیں ہو گئی ہیں تو اس نے کہا کہ میں فجر کی سنت نہیں پڑھی تھی تو آپ خاموش رہے"
فجر کے بعد دو سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں اسی طرح عصر کے بعد بھی وہ ظھر کی سنن رواتب کو قضا کر سکتا ہے ایک دفعہ رسولﷺ کے پاس وفد بنی قیس آئے تھے آپ ظھر کی سنیں نہیں پڑھ سکے تھے تو آپ نے عصر کے بعد پڑھی تھیں " رسولﷺ جب کوئی نیک عمل کرتے تو اس میں مدوامت کرتے آپ نے پھر ساری زندگی اس کا معمول بنایا لیکن ظھر کی قضاء نہیں اہل علم کہتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت ہے
ان کی قضاء کی جا سکتی ہے چاہے وہ ممنوع اوقات میں ہو یہ مولف رحمة اللہ علیہ کا مسلک ہے اہل علم کا راجح قول یہ ہے امام مالک ، امام احمد بن حنبل، اما ابو حنیفہ رحمة اللہ علیھم ان تینوں کا یہ ہی مسلک ہے لیکن امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ نمازیں جو سبب ہے جیسا کہ طواف کی دو رکعتیں، تحیت المسجد، یا وضو کی دو رکعتیں یہ سبب والی نماز ممنوع اواقات میں پڑھی جا سکتی جو ممنون اقاوت میں جو نماز منع ہے مطلق نفل ہیں لیکن جن کا سبب پایا جاتا ہے وہ منع نہیں ہیں یہ ہی قول راجح ہے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق آدمی جب بھی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے پھر بیٹھے سبب والی نماز کو ممنوع وقت میں پڑھی جا سکتی ہے ان پانچواں اوقات میں فرض نمازوں کی قضاء منع نہیں ہے اس کے لئے انتظار کی ضرورت نہیں رسولﷺ نے فرمایا " جو کوئی سو جائے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب بھی یاد آ جائے یا جاگ جائے تو ان نمازوں کو پڑھ لے" اس میں وقت کو خاص نہیں کیا گیا مؤلف رحمة اللہ علیہ کی جو ممانعت ہے وہ فرض کی نہیں ہے یہ ہی قول راجح ہے۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب الامامه
ابو مسعود البدري رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا(( قوم کی امامت وہ کریں گے جو کتاب اللہ کے سب سے بڑا قاری ہو اگر وہ قرأت میں برابر ہوں تو وہ امامت کرے گا جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو، اگر وہ سنت کے جاننے میں بھی برابر ہو تو وہ امامت کرے جو پہلے ہجرت کیا ہو ، اور اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو وہ امامت کرے جو عمر میں بڑا ہو، اور کسی شخص کی امامت نہیں کی جائے گی اس کے گھر میں اور نہ ہی اس کی حکومت میں، اور نہ بیٹھے اس کی عزت افزائی والی جگہ پر مگر اس کی اجازت سے )) اور ""رسولﷺ نے فرمایا مالک ابن حویرث اور ان کے ساتھی سے جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم دونوں میں سے کوئی اذان دے اور تم میں جو بڑی عمر والا ہے وہ امامت کرے" اور قرأت میں وہ دونوں برابر تھے ، اور نماز صحیح نہیں ہو گی اس شخص کے پیچھے جس کی نماز فاسد ہو سوائے اس شخص کے جو اپنے حدث کا علم نہ رکھتا ہو اور مقتدی کو بھی اس کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ سلام پھیرے تو وہ اکیلا نماز کو لوٹائے گا (پڑھانے والا) اور نماز صحیح نہیں ہوتی کسی رکن کو چھوڑنے والے کے پیچھے سوائے محلے کے امام کے جب وہ بیٹھ کر پڑھے کسی بیماری کی وجہ سے جس سے شفا کی امید ہے تو لوگ اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے سوائے اس حالت میں کہ وہ کھڑے ہونے کی حالت میں ابتدا کرے پھر بیمار ہو جائے اور بیٹھ جائے تو وہ اس کے پیچھے اقتداء کریں گے کھڑے ہو کر ، اور عورت کی امامت صحیح نہیں ہے اور اس کی امامت بھی صحیح نہیں جس کو سلس البول ہو، اور اس ان پڑہ کی بھی جو سورتہ الفاتحہ صحیح طور سے بھی نہیں پڑھ سکتا یا اس کے کسی حرف میں خلل ہو( کوئی حرف غلط پڑھتا ہو) مگر ان جیسوں پر ۔
اور جائز ہے وضو کرنے والے کا تیمم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا اور فرض پڑھنے والے کا نفل پڑھنے والے کے پیچھے ، اور جب مقتدی ایک ہو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اگر وہ کھڑا ہو جائے اس کے بائیں جانب یا اس کے آگے یا پھر اکیلا تو نماز صحیح نہیں ہو گی ، سوائے عورت کے تو وہ اکیلی کھڑی ہو گی اس کے پیچھے ، اور اگر وہ جماعت ہو تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اگر وہ اس کے دائیں جانب کھڑے ہو جائیں یا دونوں جانب تو صحیح ہو جائے گا ، لیکن اگر وہ کھڑے ہو جائیں امام کے آگے یا پھر بائیں جانب تو نماز صحیح نہیں ہو گی، اور اگر عورت عورتوں کو نماز پڑھائے تو وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو گی ان کے درمیان میں، اور اسی طرح بغیر لباس کے نماز پڑھنے والے مردوں کا امام ان کے درمیان میں کھڑا ہو گا اور اگر جمع ہو جائیں مرد بچے اور خناثي (ہجڑے) تو امام کے پیچھے پہلے مرد ہوں گے پھر بچے پھر خناثي پھر عورتیں ہوں گے، اور جو امام کے سلام پھیرنے سے پہلے تکبیر تحریمہ کہے گا تو اس نے جماعت کو پا لیا اور جس نے رکوع کو پا لیا اس نے رکعت کو پا لیا ورنہ وہ نہیں پایا ۔
اس سبق کی کچھ ضروری باتیں
1)امام کہتے ہیں آگے رہنے والے
2)بظاہر نام سے لگتا ہے ابو مسعود البدری نے بدر میں شرکت کی تھی لیکن انھوں نے بدر میں شرکت نہیں کی تھی بلکہ بدر کے ایک چشمے کے پاس انھوں نے قیام کیا تھا اس لئے البدری کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ اس وقت یہ چھوٹے تھے ان کا نام عقبہ بن عمرو انصاری ہے اور انھوں نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔
3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امامت کے کون مستحق ہیں ان کی ایک ترتیب معلوم ہوتی ہے پہلا قرآن کا عالم زیادہ قرآن کو جاننے والا یاد کرنے یا اچھی طرح پڑھنے والا مراد ہے اگر کوئی اچھی طرح پڑھنا بھی جانتا ہو حفظ بھی اچھی طرح کیا ہو تو بغیر کسی شبہ کے وہ مقدم ہو گا دوسرے اگر وہ تجوید کے لحاظ سے بھی برابر ہوں حفظ کے لحاظ سے بھی تو سنت کے زیادہ جاننے والا مقدم ہو گا اگر سنت میں بھی برابر ہوں تو ہجرت کو مقدم کیا جائے گا اگر ہجرت میں برابر ہیں یا قدیم الاسلام ہوں اگر ان میں برابر ہوں تو عمر کو مقدم کیا جائے ۔
4) اگر کوئی زیارت کے لئے کسی کے گھر جائے نماز کا وقت ہو جائے اور مسجد قریب نہ ہو تو جو مہمان ہے وہ امامت نہیں کرے گا صاحب بیت امامت کرے گا بادشاہ، حاکم ، ولی ، یا مسجد کا امام ہے تو ان کے ہوتے ہوئے دوسرا امامت نہیں کرے گا اگر گھر والا امامت کے احکام کو نہیں جانتا اور وہ مہمان کو اجازت دے یا حفظ نہیں جانتا اس صورت میں دوسرا آدمی آگے بڑھے گا چاہے وہ مہمان ہی ہو ۔
5) مالک ابن حورث رسولﷺ کے پاس آئے تھے یہ رسولﷺ کے ساتھ انیس یا بیس دن رہے اور بہت سے احکام سیکھ کر واپس جا رہے تھے ۔
6) ایک آدمی فاسد ہو جیسے اس نے وضو نہیں کیا ہمارے سامنے اور وہ نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے ۔
7) اگر ایک آدمی بھول گیا وضو کرنا اوراس نے نماز پڑھا دی اور جو پیچھے نمازی ہیں ان کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے ایسی صورت میں جو نماز پڑھا رہا ہے اور نماز پڑھنے کے بعد یاد آیا وضو کا تو صرف وہ نماز لوٹائے گا مقتدی نماز نہیں لوٹائیں گے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک بار جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی بعد میں لوگوں کو بتایا لوگوں نے نماز نہیں لوٹائی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غسل کرنے کے بعد نماز لوٹائی ایسا ہی ایک واقعہ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تعلق سے بھی ہے یہ خلفاء راشدین کا عمل ہے ایک مرتبہ رسولﷺ مسجد کو آئے اقامت دی گئی آپ ﷺ مصلح پر پہنچے لوگوں کی صفوں کو درست کیا پھر آپﷺ کو یاد آیا آپﷺ کو غسل کرنا ہے تو آپﷺ نے کہا اپنی جگہوں پر کھڑے رہو آپﷺ اپنے گھر گئے آپﷺ نے غسل کیا آپﷺ کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اس کے بعد آپﷺ نے تکبر کہی اور نماز شروع کی انسان سے نسیاں ہو سکتا ہے ۔
8)اگر کوئی امام بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو مقتدی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے وہ علیحدہ نماز پڑھیں گے سوائے محلے کے امام اور ایسی بیماری جس کی شفا کی امید ہے تو وہ بیٹھ کر پڑھا رہا ہے تو مقتدی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے رسولﷺ ایک دفعہ کسی جانور پر پھسلنے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تو آپﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی جو پیچھے کھڑے تھے آپﷺ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا دوسری حدیث جب رسولﷺ بہت بیمار ہو گئے تھے وفات سے پہلے دو تین دن پہلے آپﷺ کو کچھ افاقہ ہوا ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے آپﷺ مسجد میں آئے ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ نے ہٹنا چاہا تو آپ نے انہیں روک دیا اس کے بعد رسولﷺ ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ کے بازو بیٹھ گئے ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے دائیں جانب تھے رسولﷺ بیٹھے ہوئے تھے ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ رسولﷺ کی اقتدا کرتے اور لوگ ابوبکرہ صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے تو اس نماز میں رسولﷺ بیٹھ کے نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔
9) عورت مردوں کو نماز نہیں پڑھائے گی عورت کے ستر کے خلاف ہے عورت پوری کی پوری ستر ہے.
10) جس آدمی کو سلس البول کی بیماری ہے وہ صرف ان لوگوں کی امامت کر سکتا ہے جن کو پیشاپ کی بیماری ہے اس کی طہارت تو نہیں ہوتی لیکن اس کے لئے نماز کو مباح کیا گیا ۔
11) امام بخاری اور علماء کا ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ سورتہ الفاتحہ جس کی چھوٹ گئی اس کی نماز نہیں ہوتی اکثر اہل علم کہتے ہیں کم از کم وہ رکوع میں پہنچ گیا تو اس کو ایک رکعت مل جائے گی ابو بکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس سلسلے میں ایک معروف حدیث ہے وہ مسجد میں داخل ہوئے جبکہ اللہ کے رسولﷺ رکوع میں تھے تو اسی جگہ انھوں نے رکوع کر لیا تو اسی طرح وہ صف میں شامل ہو گئے تو اللہ کے رسولﷺ نے انہیں نماز لوٹانے کے لئے نہیں کہا یہ قوی دلیل ہے جو رکوع کو پا لے گا تو قیام اور سورتہ سے اس کو معاف ہے اگر وہ رکوع کو نہیں پائے گا تو وہ رکعت اسے نہیں ملی۔
|
عمدة الفقه
|
باب صلاة المسافر
اور جب اس کے سفر کی مسافت سولہ فرسخ ہو اور وہ دو دن کی سافت کے برابر ہے (یعنی درمیانی رفتار سے) اور سفر مباح کام کے لئے ہو تو اس کو خاص طور پر چار رکعت والی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے سوائے اس کے کہ کسی مقیم کی اقتدا کرے یا قصر کی نیت نہ کرے یا حضر میں کوئی نماز بھول جائے اور سفر میں اسے یاد کرے یا سفر کی نماز بھول جائے اسے حضر میں یاد کرے تو اسے مکمل پڑھنا ضروری ہے، اور مسافر کو مکمل نماز پڑھنے کی اجازت ہے ، اور قصر افضل ہے، اور جو کسی جگہ اکیس نمازوں سے زیادہ اقامت (رکنے) کی نیت کرے تو وہ مکمل نماز پڑھے گا، اور اگر وہ اس کی نیت نہ کرے تو وہ ہمیشہ قصر کرے گا
تفصیل:
عام طور پر فقہ لکھنے والے تین طرح کے لوگوں کی نماز کا ذکر کرتے ہیں مسافر ، مریض ، خوف کی نماز ۔
پہلی شرط:
فرسخ کو ہم ایسے سمجھتے ہیں ایک فرسخ پانچ کلو میٹر ہے تو سولہ فرسخ ہو گئے 80 کلومیٹر یہ ہم سفر کا اعتبار کر رہے ہیں مسافت کے اعتبار سے 80 کلو میٹر ہو ایک فرسخ تین میل کے برابر ہے اور سولہ فرسخ 48 میل کے برابر ہے اور ایک میل تقریبا ڈیرھ کلو میٹر یا پھر پونے دو کلو میٹر ہے اس طرح 48 میل 80 کلو میٹر ہوں گے ۔
درمیانی رفتار میں اونٹ معیار ہے اونٹ کی رفتار ہے گھوڑے کی رفتار نہیں مسلسل بھی نہ ہو کہ آدمی رات کو آرام بھی نہ کرے اور ایسی بھی نہ ہو کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد رک رہا ہو بلکہ درمیانی رفتار سے ایک اونٹ پر آدمی سفر کرے گا اتنی مسافت جو دو دنوں میں ہوتی ہو اہل علم کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ کتنے کلو میٹر کے سفر پر کتنی مسافت پر قصر کیا جا سکتا ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسافت کو نہیں لیا صرف مدت کو ہی لیا ان کے پاس تین دن کی مدت ہے یعنی اونٹ کی درمیانی رفتار سے تین دن کے سفر میں مسافر قصر کر سکتا ہے لیکن دوسرے اہل علم نے دو دن کی حدیث کو لیا کیوں کہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ سفر اتنی مدت کا ہو تو قصر کرنا چائیے کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سفر میں قصر کیا تو آپ کے سفر کو دیکھ کر یا بعض احادیث سے لوگوں نے یہ نتائج اخد کئے یہ اجتہاد ہے لیکن اگر مدت پر حکم کو رکھا جائے کہ تین دن کے اونٹ کی جو درمیانی رفتار ہے تین دن کا سفر ہو اتنی مدت کا سفر ہو تب قصر کریں گے اس میں عوام کے لئے بہت دشواری ہے لوگ اس کا صحیح فیصلہ نہیں کر پائیں گے اس لئے مسافت کی جو مقدار ہے لوگوں کے لئے زیادہ آسان ہے اس لئے راجح قول یہ ہے کہ وہ 80 کلو میٹر کا سفر ہو شیخ الاسلام ابن تیمیہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہر وہ سفر جس کو ہم عرف عام میں سفر کہتے ہیں کہ آدمی باقاعدہ تیاری کرتا ہے زاد راہ لیتا ہے کپڑے لیتا ہے تو اس میں وہ قصر کرے گا لیکن لوگوں کے لئے اس میں مشکل ہے اسی لئے راجح قول یہ ہے جو مولف رحمہ اللہ کا ہے کہ اگر وہ سولہ فرسخ 80 کلو میٹر کا سفر ہے۔
دوسری شرط : اس کا سفر مباح ہو بعض سفر ایسے ہیں جو مطلوب ہیں جیسے علم ، جہاد، بیمار کی عیادت ، کسی جگہ کی زیارت اور بعض سفر افضل تو نہیں ہیں مستحب تو نہیں ہیں لیکن مباح ہیں جیسے تجارت کے لئے سفر کرنا یا سیر و تفریح کے لئے سفر کرتا ہے بغیر کسی گناہ کے ارادے کے لئے لیکن اگر وہ مباح سفر نہیں ہے جیسے چوری ، غلط کام یا قتل کے لئے سفر کر رہا ہے تو وہ قصر نہیں کر سکتا اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جو رخصتیں ہیں وہ وہ برے کام کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی ۔
دو حالتوں میں وہ پوری نماز ادا کرے گا:
دو اور تین رکعت والی نماز میں قصر نہیں ہے صرف چار رکعت والی نماز میں قصر ہے اس میں انھوں نے دو چیزوں کو مستثنی کیا اگر کوئی مقیم اپنی جگہ پر نماز پڑھ رہا ہے ظہر کی نماز جب اس کے پیچھے پڑھے اور یہ مسافر ہے تو اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ امام کی مخالفت کرے اس وقت اس کو چار رکعت مکمل پڑھنے پڑیں گے اس کے برعکس مقیم اگر مسافر کی اقتدا کرتا ہے تو اس وقت مسافر کو اجازت ہے وہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے مقیم اپنی نماز پوری کرے گا اگر کبھی ایسا ہو مسافر ایسے وقت پر پہنچے امام ظہر عصر عشاء میں دو رکعت مکمل کر چکا ہے امام کی دو رکعت باقی ہیں ایسے وقت میں مسافر پہنچے تو اس کو مقیم کی ہی اقتدا کرنا پڑھے گا اس کو پوری کی پوری نماز پڑھنی پڑے گی ۔
اگر اس کے ذہن میں قصر نہیں تھا اس نے نماز شروع کر دی تو اسے پوری پڑھے گی مثلا اگر کوئی مسافر نماز پڑھنے لگا اور اسے خیال نہیں آیا قصر کا تو وہ پوری نماز پڑھے گا ۔
سفر میں اگر اسے حضر کی نماز یاد آئے تو وہ پوری پڑھے گا مثلا اگر وہ بھول گیا تھا نماز پڑھنا اور وہ سفر میں چلا گیا جب آدمی سفر کے لئے نکلتا ہے شہر سے باہر ہی پہنچتا ہے تو اس کے لئے سفر کی رخصتیں شروع ہو جاتی ہیں اگر 80 کلو میٹر کا ارادہ ہو تو لیکن سفر کی سہولتیں جو ہیں جیسے قصر ، جمع ، موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن تین رات، اس کو سفر میں داخل ہونے کے بعد جیسے ہی شہر سے باہر نکلا چاہے ابھی اس نے پانچ کلو میٹر ہی طے کیا ہے وہ باہر جیسے ہی نکلا وہ سہولتیں اس کو حاصل ہو گئیں یعنی اپنے گھر سے نہیں شروع ہوں گی ایئرپورٹ سے شروع ہو سکتی ہیں اگر وہ مسافر یاد کرے کہ اس نے حضر میں ایک نماز چھوڑ دی تو وہ اس نماز کو مکمل پڑھے گا واضح ہے کہ وہ حضر کی نماز ہے وہ مکمل پڑھے گا یا پھر سفر کی نماز کو پڑھنا بھول گیا تو اس کی حضر میں یاد آیا اگرچہ کہ نماز سفر کی ہے وہ حضر میں پہنچ چکا ہے وہ مکمل پڑھے گا لیکن یہ اصول کے خلاف ہے جیسے ہم کہ رہے ہیں مولف رحمہ اللہ علیہ احتیاط کی طرف گئے ہیں احتیاطا اس بات کو اختیار کیا ہے کہ اب وہ مقیم ہو چکا ہے نماز اگرچہ کہ سفر کی ہے بہتر ہے کہ وہ مکمل کرے گا اہل علم کے ایک طبقے کے مطابق قصر نماز چلے گی ۔
علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ قصر پڑھنا افضل ہے یا مکمل پڑھنا افضل ہے بعض اہل علم کا خیال ہے عزیمت مکمل پڑھنا ہے اور قصر رخصت ہے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کی ایک حدیث ہے کہ اصل جو نماز تھی وہ دو رکعت تھی بعد میں اس میں اضافہ کیا گیا چار رکعت کر دیا گیا اور فجر اور عصر میں اصل کو باقی رکھا گیا یہ ان لوگوں کے خلاف جاتی ہے جو کہتے ہیں اصل چار رکعت ہے بلکہ اصل دو رکعت ہے اور اگر ۔مکمل پڑھنا افضل ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ افضل عمل چھوڑتے آپ نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سفر میں قصر کرنا ہی افضل ہے جیسا کہ مولف رحمہ اللہ کی رائے ہے اسی لئے انھوں نے کہا مسافر کو اجازت ہے کہ وہ مکمل پڑھے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اگر وہ مکمل پڑھے گا تو نماز نہیں ہوتی نماز اس کی ہو جائے گی مگر افضل قصر ہی ہے " اللہ تعالی کا یہ صدقہ ہے جو اس نے تمھے دیا ہے اس کے صدقے کو قبول کرو قرآن مجید میں الفاظ ہیں (( فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ )) جب تم سفر کرو تمھے دشمن کا خوف نہیں ہے تو نماز قصر کرو " اس حدیث کی بنیاد پر ابو یعلی نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا تھا کہ اب تو ہمیں امن ہے تو ہم قصر کیوں کریں انھوں نے کہا یہ ہی سوال میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ کا صدقہ ہے جو اس نے تمھے دیا ہے لہذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو " سفر پر قصر کرنا ہی افضل ہے چار رکعت کو دو رکعت پڑھنا ۔
اگر کوئی چار دن سے زیادہ اقامت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ مکمل پڑھے گا اگر وہ چار دن سے کم قیام کرے گا تو وہ قصر کرے گا اس بارے میں بھی کوئی حدیث وارد نہیں ہے آپ نے اقامت کی مدت کو معیار بنایا ہو ایسی کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف عمل ثابت ہیں اس لئے اہل علم کی رائے اس میں بہت مختلف ہے مولف رحمہ اللہ نے جو چار دن کی بات کی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کو لیا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے تھے چار ذلحجہ تاریخ کی فجر کو اس کے بعد آپ برابر قصر کرتے رہے آپ چار سے آٹھ تک رہے آٹھ کو آپ منی میں چلے گئے تھے یہ چار دن آپ مکے میں رہے اور برابر قصر کرتے رہے یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تھا اس لئے اہل علم نے اسے راجح قرار دیا ہے اس سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مختلف رہے ہیں جیسے کہ فتح مکہ میں آپ انیس یا بیس دن رہے آپ برابر قصر کرتے رہے اور تبوک میں آپ بیس بائیس دن رہے وہاں بھی آپ قصر کرتے رہے بعض اہل علم پندرہ، اکیس ، انیس لیتے ہیں کسی نے فتح مکہ کی مدت کو لیا کسی نے تبوک کی مدت کو لیا کہ اتنے دن ہم رہیں گے تو ہم قصر کریں گے ورنہ نہیں کریں گے جن لوگوں نے چار دن کو معیار قرار دیا وہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کو لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ اور تبوک میں رکنے کا ارادہ نہیں تھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح میں اور تبوک میں قیام کے ارادے کے لئے نہیں گئے تھے جیسے جیسے ضرورت پیش آتی گئی آپ کے رکنے میں تاخیر ہوتی گئی راجح قول یہ ہی ہے کہ چار دن مقیم ہو اگر آدمی کا ارادہ اقامت کتنے دن ہو یہ متعین نہیں ہے یا پھر یہ کہ اس کا ارادہ چار دن سے کم کا ارادہ تھا لیکن دنوں میں اضافہ ہوتا گیا تو اس کے لئے دنوں کی مدت نہیں ہے جتنے دن وہ ٹھرے گا چاہے وہ ایک سال ہی کیوں نہ ہو وہ قصر کرتا رہے گا اس کی دلیل ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ آزربائیجان گئے تھے تو راستے میں بہت برف باری تھی جس کی وجہ سے وہ واپس نہیں ہو سک رہے تھے تو چھے مہینے وہ وہاں رکے رہے اور وہ مسلسل قصر کرتے رہے کیونکہ وہاں رکنے کا ارادہ نہیں تھا جیسے ہی برف باری رک جائے گی وہ واپس ہونے والے تھے
اجتہادی مساہل میں ہم دوسرے کو کبھی غلط نہیں بولیں گے بلکہ کہیں گے یہ راجح اور افضل ہے کیونکہ صحیح کی ضد غلط ہے۔
|
عمدة الفقه
|
باب صلاة الخوف
نماز خوف کا باب
نماز خوف جائز ہے ہر اس کیفیت کے ساتھ جس کیفیت کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا ہے اور ان میں بہترین کیفیت کہ امام لوگوں کو دو جماعتوں میں تقسیم کرے ایک جماعت نگرانی کرے اور دوسری جماعت اس کے ساتھ ایک رکعت پڑھے جب امام دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو وہ جماعت امام سے الگ ہونے کی نیت کرے اور اپنی نماز مکمل کرے اور نگرانی کرنے کے لئے چلی جائے اور دوسری جماعت آئے اور امام کے ساتھ دوسری رکعت پڑھے جب امام تشھد کے لئے بیٹھ جائے جماعت کھڑی ہو جائے تو وہ جماعت دوسری رکعت ادا کرے اور امام اس جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ تشھد پڑھ لے پھر اس کے ساتھ سلام پھیر لے ،اور جب خوف شدید ہو جائے تو وہ پیدل نماز پڑھ لیں گے یا سوار ہو کر یا جیسا چائیں قبلے کی طرف رخ کر کے یا رخ کئے بغیر، اشارہ کریں گے رکوع اور سجدوں کا ، اسی طرح ہر خوف زدہ شخص جسے اپنی جان کا خوف ہے اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھے گا اپنی حالت کے مطابق اور وہ سب کرے گا جو وہ کرنے کا محتاج ہے جیسے بھاگنا ہے یا اس کے علاوہ ہے ۔
تفصیل :
عذر والوں کی نماز صلاة المریض ، صلاة المسافر ، صلاة الخوف اس پر اہل علم عذر کا اطلاق کرتے ہیں عذر والوں کی نماز
سورتہ النساء 102 میں اللہ تعالی نے صلاة الخوف کا ذکر کیا ہے وہی طریقے ذکر کیا ہے جس کا اس کتاب میں ذکر ہے ۔
یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف ایک سے زائد مرتبہ پڑھا ہے صلاة الخوف کو محدثین نے جمع کیا ہے ابو داؤد رحمة اللہ علیہ نے اپنے سنن میں باب صلاة الخوف اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صلاة الخوف کے جو مختلف طریقے ہیں اس کو بہت اچھے طریقے سے جمع کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کیفیت کے ساتھ بھی پڑھا ہے اس کیفیت کے ساتھ یہ نماز جائز ہے حقیقت یہ ہے کہ خوف کا درجہ ہمیشہ ایک نہیں ہوتا کبھی شدید ہوتا ہے کبھی کم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف کیفیتوں کے ساتھ اس لئے نماز پڑھی نماز کے لئے سہولت ہو جیسے خوف رہے گا اس درجے کے حساب سے نماز پڑھے گا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جماعت کو ایک ایک رکعت پڑھائی اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہو گئیں اور لوگوں کی ایک ہو گئی اور صلاة الخوف ایک بھی جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے ہر ایک کو دو دو رکعتیں پڑھائی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار ہو گئیں اور لوگوں کی دو ہو گئیں یہاں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ سب سے بہتر ہے یہ طریقہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں آیا ہے امام احمد بن خنبل رحمة اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کے چھے یا سات طریقے ثابت ہیں اور ان میں سب سے بہترین طریقہ یہ ہی ہے جس کا مولف رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اس کتاب میں۔
امام لوگوں کو دو حصوں میں منقسم کرے ایک حصہ نگرانی کرتا رہے جس کا رخ دشمن کی طرف ہے اور دوسرا حصہ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے جو حصہ شامل ہوا ہے امام اس کو ایک رکعت پڑھا دے اور کھڑا ہو جائے اور کھڑا ہی رہے اور لوگ امام سے الگ ہونے کی نیت کر لیں جو نماز پڑھ رہا ہے اور ایک رکعت اپنے طور پر مکمل کر لے پھر سلام پھیر کر نگرانی کے لئے چلے جائیں اب جو حصہ نگرانی کر رہا ہے وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے امام قیام کی حالت میں ہی ہو گا جب دوسری جماعت شامل ہو گی امام ان کو ایک رکعت پڑھائیں گے اس کے بعد تشھد کے لئے بیٹھ جائے گا امام وہ بیٹھا رہے گا اور وہ لوگ اپنے طور پر ایک رکعت مکمل کریں گے بیٹھ کر تشھد پڑھ لیں گے اتنا امام انتظار کرے گا اس کے بعد سلام پھیریں گے۔
جب خوف شدید ہو تو اس کے لئے شرط نہیں ہے کہ وہ قیام کرے یا رکوع کرے وہ چلتے ، سوار ، قبلہ ، یا غیر قبلہ اشارے سے یا جیسے چاہے نماز پڑھے اگر ایسی خوف کی حالت ہو جب رکوع اور سجدہ ممکن نہیں ہے علماء کے ایک طبقے کی رائے ہے کہ نماز خوف جنگ خندق میں مشروع نہیں ہوئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج غروب ہونے کے بعد عصر اور مغرب پڑھی تھی دوسرے طبقے کی رائے ہے کہ نماز خوف مشروع ہو گئی تھی اگر خوف کی شدت زیادہ ہو تو نماز کو موخر کیا جا سکتا ہے جیسا کہ تستر ایک مقام کا نام ہے تستر کی فتح کے موقع پر مسلمانوں نے نماز فجر نہیں پڑھی تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں میں سے کوئی قلعہ کے دروازے کے پاس تھا کوئی دیوار پر چڑھا ہوا تھا ان کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ وقت پر نماز پڑھیں تو اس وقت مسلمانوں نے سورج کی روشنی تیز ہونے کے بعد نماز پڑھی تھی اور عبد بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تھے کہ وہ نماز مجھے ساری دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر محبوب ہے باوجود انھوں نے سورج کے طلوع ہو کر روشنی پھیلنے کے بعد پڑہی تو مسلمان اس وقت اللہ کے راستے میں جہاد میں مصروف تھے ممکن نہیں تھا نماز پڑھنا تو انھوں نے فتح کے بعد نماز پڑھی تھی جب آدمی کے لئے رکوع اور سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو ایسے حالت میں وہ نماز کو موخر کر سکتا ہے اس سلسلے میں علماء کے دو رائے ہیں کہ اگر خوف شدید ہو جائے سجدہ اشارے سے بھی کرنا ممکن نہ رہے دوسری رائے ہے کہ وہ جس حالت میں بھی ہے وہ پڑھ لے گا اور جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کے موقع پر ہوا تھا اس کو ہم محمول کریں گے نماز خوف سے پہلے کے واقعہ پر خوف جیسا رہے گا اسی اشارے سے نماز پڑھ لیں گے اس رائے پر ہم جائیں گے اگر ہم تستر کے فتح کے موقع پر جاتے ہیں کہ صحابہ نے نماز کو دیر سے پڑھا تھا تو اگر ہم اس کو لیتے ہیں کہ جب اشاروں سے نماز ممکن نہیں ہو گی خوف کی حالت شدید ہو گی تو مسلمان وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھیں گے۔
اگر کوئی شخص ہے جس کے پیچھے جنگلی جانور لگا ہے یا کوئی دشمن اس کے پیچھے لگا ہے تو اس کے لئے بھی یہ ہی حکم ہے دو رکعت پڑھ سکتا ہے تو دو پڑهے گا ایک پڑھ سکتا ہے تو ایک پڑهے گا کھڑے ہو کر پڑھ سکتا ہے تو کھڑے ہو کر پڑهے گا اگر کھڑے ہو کر ممکن نہیں ہے تو وہ چلتے چلتے نماز پڑھے گا یا سواری پر پڑهے گا جو بھی اس کی کیفیت ہے رکوع اور سجدہ اشارے سے کرے گا اگر وہ دشمن کے خوف سے بھاگ رہا ہے تو اسی طرح نماز پڑھے گا یا دشمن کے خوف سے بیٹھ گیا ہے یا چھپنا پڑھ گیا ہے سب کام کرے گا وہ نماز کے دوران ہر وہ چیز جس کے کرنے کا وہ محتاج ہے۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب صلاة المریض
مریض کی نماز کا باب
اور مریض کے کھڑے ہونے سے اس کے مرض میں اضافہ ہو رہا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا ، اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے (بیٹھ) تو اپنے (دائیں) پہلو پر نماز پڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی وجہ سے کہا تھا عمران بن حصین (( کھڑے ہو کر نماز پڑھو اگر تمھے طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے پہلو پر پڑھو )) اگر اسے اس پر مشقت ہو تو اپنی پیٹھ کے بل نماز پڑھے ( سیدھا لیٹ کر) اور اگر وہ عاجز آ جائے رکوع اور سجدہ کرنے سے تو ان دونوں کا اشارہ کرے، اور اس پر قضاء کرنا ضروری ہے ان نمازوں کا جو فوت ہو چکی ہوں اس کی بہوشی کی (حالت میں قضاء ہو جائیں) ، اور اگر اس کے لئے مشکل ہو ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا تو اسے جمع کرنے کی اجازت ہے ظہر اور عصر کے درمیان اور دونوں عشاؤں یعنی مغرب اور عشاء کے درمیان ان دنوں میں سے کسی ایک کے وقت پر ( عصر کو ظہر کے وقت پر ظہر کو عصر کے وقت پر ، مغرب کو عشاء کے وقت پر عشاء کو مغرب کے وقت پر) ، اور اگر وہ پہلی نماز کے وقت پر جمع کی نیت شرط ہو گی اس نماز کو ادا کرتے وقت ، عذر کا باقی رہنا یہاں تک کہ وہ شروع کرے دوسری نماز ( یعنی جو نماز شروع کر رہا ہے اس دوران وہ عذر بھی باقی رہے) ، اور ان دونوں نمازوں میں تفریق( الگ الگ) نہ کرے مگر وضو کرنے کے وقت کے برابر( یعنی اتنا جتنا وضو کرنے کا وقت لگتا ہے) (یہ تین شرطیں ہو گئیں) ، اور اگر وہ جمع تاخیر کرے تو اعتبار ہو گا عذر باقی رہے گا دوسری نماز کے وقت کے داخل ہونے تک اور وہ جمع کی نیت کرے پہلی نماز کے وقت پر اسے پہلے کہ تنگ ہو جائے اس کی نماز کو ادا کرنے کا وقت اور مسافر کے لئے جمع کرنا جائز ہے اس لئے جس کے لئے قصر کرنا جائز ہے اور بارش کی وجہ سے مغرب اور عشاء جمع کرنا جائز ہے خاص طور پر ۔
تفصیل :
تین طرح کے معذور کی نماز بیمار، مسافر، خوف
مسافر کے مقابلے میں مقیم۔
مریض کے مقابلے میں صحت مند ۔
خوف کے مقابلے میں امن ۔
جہاں بیماری ہوئی ہے وہاں وہ گناہوں کے کفارے کا ذریعہ بھی ہوتی ہے (( مومن کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں مل جاتی ہے تاکہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے اس لئے وہ دنیا میں دوچار ہوتا ہے وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے کوئی جنتی ہے جو زمین میں چل رہا ہو )) یہ ایک مومن کے لئے گناہوں کا کفارہ ہے انبیاء اور نیک لوگوں کے لئے یہ درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوتا ہے انسان زندگی کے احکام کے مطابق ہیں اسلامی احکام انسان کی بعض حالتیں خصوصی احکام کا تقاضہ کرتی ہیں اللہ تعالی نے انسانوں کی حالتوں کے لئے آسانی کی ( اللہ تعالی تمھارے لئے آسانی پیدا کرتا ہے سختی کا ارادہ نہیں کرتا )
فرض میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے اور سنت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے لیکن اجر آدھا ہو جائے گا اگر مریض کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہو تکلیف بہت ہوتی ہو مشقت ہوتی ہو تو بیٹھ کر پڑھے گا
وہ صحابی جن کا ذکر آتا ہے وہ دائیں پہلو پر ہی پڑھتے تھے اور ہمیشہ تکریم کے باب میں دائیں کو مقدم کیا جائے گا صحابہ سے عمل دائیں پہلو ہی کا ہے اگر دائیں کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو بائیں کی بجائے سیدھے پڑھے اپنے پیر قبلے کی طرف کرے سیدھے لیٹ کر
عمران رضی اللہ تعالی عنھا کو بواسیر کی بیماری تھی وہ بہت ہی نیک متقی تھے یہاں تک کہ فرشتے ان سے مصافحہ کرتے تھے ان کی تکالیف کی وجہ سے ان کے گناہ معاف ہو چکے تھے یہ بخاری کی روایت ہے سنن ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تم اس کی طاقت بھی نہ رکھو تو سیدھے لیٹ کر پڑھ لو
یہاں ایک بات یاد رکھیں اگر وہ رکوع کر سکتا ہو اور سجدہ نہ کر سکے تو وہ رکوع کرے گا سجدے کا اشارہ کرے گا اگر دونوں نہیں کر سکتا تو وہ اشارہ کرے گا دونوں کے لئے لیکن رکوع کے لئے جتنا جھکتا ہے سجدے کے لئے زیادہ جھکے گا دونوں میں فرق کرے گا اگر وہ لیٹ کر نماز پڑھتا ہے تو سر کو سینے کی طرف جھکائے گا رکوع میں کم کرے گا سجدے میں ذیادہ کرے گا ۔
مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بہوش جتنی دیر بہوش رہے گا تو وہ تمام نمازیں قضا کرے گا جتنی اس کی نمازیں چھوٹی ہوں گی اور یہ اختلافی مسئلہ ہے دوسرا ہے کہ جس وقت وہ بہوش ہو گیا ہے اس نماز کا وقت اگر باقی ہے اس وقت ہوش آیا اس وقت قضاء کرے گا جیسے ظہر کا وقت تین بجے تک ہے تین بجنے سے دو منٹ پہلے ہوش آیا عصر کا وقت آ جائے گا تو ظہر کی قضاء کرے گا شیخ العثیمین اسی طرف گئے ہیں
تیسرا قول ہے کہ وہ ایک دن ایک رات کی نمازوں کی قضاء کرے گا یہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے ان کو بہوشی ہو جاتی تھی یہاں تک کے ظہر عصر مغرب عشاء چھوٹ گئی آدھی رات کو ہوش آیا پھر انھوں نے پہلے ظہر عصر مغرب پھر عشاء پڑھی
چوتھا قول ہے کہ وہ اتنی نمازوں کی قضاء کرے گا جتنی میں اسے مشقت نہیں ہوتی تین دن اور تین رات کی نماز میں مشقت نہیں ہوتی شیخ بن باز رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں اور اہل علم بھی اس طرف گئے ہیں اگر اس سے زیادہ چھوٹی ہے تو وہ قضاء نہیں کرے گا ۔
بلکہ آسان یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات کو معیار بنائیں اگر اس سے ذیادہ چھوٹی ہے تو مشقت ہے اس کے لئے تو اس کی قضاء کی ضرورت نہیں ۔
اگر بیمار ہونے کی وجہ سے وضو کرنا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوتا ہو تو وہ جمع کرے گا جمع تقدیم کرے یا جمع تاخیر کرے ظہر عصر کو اور اسی طرح مغرب عشاء کو اگر وہ جمع تقدیم کر رہا ہے تو اس کے لئے تین شرطیں ہیں
1:نیت کی شرط پہلی نماز کی ادائیگی کے وقت پر وہ جمع کی نیت کرے لیکن یہ ضروری نہیں ہے
2: عذر کا باقی رہنا مثلا ایک آدمی بیمار تھا وہ ظہر اور عصر کی نماز کو جمع کر رہا ہے لیکن جیسے ہی ظہر پڑھی اس کو محسوس ہوا کہ وہ صحت مند ہو گیا ہے تو وہ جمع نہیں کرے گا عصر کی نماز عصر پر پڑھے گا اور اگر عذر کے مطابق ادا کر لی دونوں کو تو اس کو پھر لوٹانی کی ضرورت نہیں۔
3: دونوں میں تاخیر نہ کرے مگر وضو کرنے کے برابر جمع ہے دونوں کو ملانا اگر دونوں میں فصل کر دیں گے تو ملا نہیں ہوا یعنی جمع فورا کرنا ہو گا
اگر اس نے ارادہ کیا دوسری نماز کے وقت ظہر اور عصر پڑھے گا جمع تاخیر کرے اور اس کا عذر ختم ہو گیا تو جمع نہیں ہو گا تو پہلی والی قضاء کرے گا ۔
وقت اولی کے نماز کے تنگ ہونے سے پہلے نیت کرے گا وقت ختم ہونے سے پہلے نیت کرے گا جمع تاخیر میں جب ظہر کا وقت ختم ہونے والا ہو گا تو وہ نیت کرے گا اگر وہ نیت نہیں کرے گا تو وہ قضاء ہو جائے گی ظہر کی نماز۔
مسافر 80 کلو میٹر کی مسافت کا سفر کر رہا ہو اور چار دن سے زیادہ رکنے کا ارادہ رکھتا ہو اور سفر گناہ کے لئے نہ ہو اگر یہ تین شرطیں ہوں تو وہ قصر کر سکتا ہے ۔
بارش ہونے کی صورت میں ظہر عصر کو جمع نہیں کر سکتے یہ مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں لیکن راجح قول ہے کہ جس طرح مغرب عشاء کر سکتے ہیں اسی طرح ظہر عصر جمع کر سکتے ہیں ۔
|
عمدة الفقه
|
باب صلاة الجمعة
جمعہ کی نماز کا باب
ہر وہ شخص جس پر فرض نماز لازم ہے اس پر جمع کی نماز بھی لازم ہے جبکہ وہ مقیم ہو عمارت میں ہو اس کے اور مسجد( جہاں جمع پڑھا جاتا ہے) کے درمیان ایک فرسخ (5 کلو میٹر ) کا فاصلہ ہو یا اس سے کم سوائے عورت کے غلام کے اور مسافر کے اور معذور ہو معذور وہ بیماری کے سبب سے بارش کے سبب سے ہو یا خوف کے سبب سے ہو، اور اگر وہ حاضر ہو جائیں تو وہ ان کے لئے کافی ہو جائے گی لیکن جمعہ ان کے ساتھ منعقد نہیں ہو گا، سوائے معذور کے اگر وہ آ جائے تو اس پر جمعہ واجب ہو جائے گا اور اس کے ساتھ منعقد بھی ہو گا ( چالیس میں جمع بھی کریں گے)، اور جمعہ کے صحیح ہونے کے شرط میں سے ہے اس کو وقت پر کرنا اور قریہ میں کرنا (راستے میں نہیں) ، مقامی رہنے والوں میں سے چالیس آدمی اس میں شریک ہوں مقامی رہنے والوں میں سے جن پر یہ واجب ہے، جمعہ سے پہلے دو خطبے ہوں ہر خطبے میں اللہ کی حمد بیان کی جائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور ایک آیت کی کم سے کم تلاوت کرنا اور نصیحت کرنا۔
اور مستحب ہے کہ امام منبر پر خطبہ دے، جب منبر پر چڑھ جائے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو اور انہیں سلام کرے پھر بیٹھ جائے اور مؤذن آذان دے، پھر امام کھڑا ہو جائے اور خطبہ دے پھر بیٹھ جائے (پھر کھڑا ہو) پھر دوسرا خطبہ دے پھر نماز قائم کی جائے امام نیچے اترے اور ان کو دو رکعتیں پڑھائے جس میں بلند آواز سے قرات کرے ، پس جو شخص اس میں سے ایک رکعت پا لے تو وہ اسے جمعہ کے طور پر پورا کرے گا ورنہ وہ ظہر کے طور پر پورا کرے گا، اسی طرح اگر وقت نکل جائے یا تعداد کم ہو جائے اور انھوں نے ایک رکعت پڑھ لی ہو تو اسے جمعہ کے طور پر پورا کر لیں گے ورنہ اس کو ظہر کے طور پر پورا کرے گا، اور جائز نہیں شہر میں ایک سے زائد جمعہ پڑھی جائے مگر یہ کہ اس کی ضرورت ہو اس سے زیادہ کی ، اور مستحب ہے اس کے لئے جو جمعہ کی نماز کے لئے آئے کہ غسل کرے اور دو صاف ستھرے کپڑے پہنے اور خوشبو لگائے اور مسجد کی طرف جلدی آئے، اور اگر وہ آئے اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو نہیں بیٹھے گا یہاں تک کہ دو رکعتیں پڑھ لے جس میں وہ اختصار سے کام لے، اور بات کرنا جائز نہیں اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو سوائے امام کے یا اس شخص کے جس سے امام بات کرے۔
تفصیل : جمعہ کے لئے انھوں نے چار لوگوں کو مستثنی کیا
یہ تین ہو گئے جن میں عورت ، غلام، مسافر اور معذور کوئ معذوری میں ہیں بیماری کے سبب سے یا تیز بارش کے سبب سے یا باہر کوئی جانور بیٹھا ہو جیسے شیر ہے یا دشمن اس کے انتظار میں باہر بیٹھا ہو کہ قتل کر دے گا تو وہ معذور ہے ۔
عورت، مسافر یا معذور اگر آ جاتے ہیں جمعہ ہو جائے گا ان کا لیکن منعقد نہیں ہو گا اس کا مفہوم ہے مولف رحمہ اللہ جمعہ کے ہونے کے لئے شرط لگاتے ہیں کہ کم سے کم چالیس آدمی ہوں اور وہ مقیم ہوں اور باقاعدہ پختہ عمارتوں میں رہتے ہوں ایسا نہیں کہ ڈیرے ڈال کے رہ رہے ہوں منعقد نہیں ہو گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ چالیس میں ان کو جمع نہیں کریں گے مثلا اگر 50 عورتیں آ جائیں اور دس مرد ہوں تو جمعہ نہیں ہو گا عورتوں کے لئے جمعہ کی نماز ہو جائے گی لیکن وہ چالیس میں شامل نہیں ہوں گی اگر چالیس آدمی ہیں اور کچھ عورتیں آ جاتی ہیں تو جمعہ ہو جائے گا لیکن ان کے ساتھ منعقد نہیں ہو گا چالیس کی تعداد میں ان کو شامل نہیں کریں گے اگر ایک لاکھ آدمی ہیں اور وہ سب مسافر ہیں تب بھی جمعہ نہیں ہو گا ظہر پڑھیں گے ۔
اگر معذور آ جاتا ہے اس پر مستثنی ہے کہ وہ گھر پر نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر بیمار آ جاتا ہے تو اس کو چالیس میں شامل کریں گے اور اس پر آنے کے بعد جمعہ واجب ہو جائے گا
جمعہ کا غسل واجب ہے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(( غُسْلُ يَوْم الْجُمُعَة وَاجِب عَلَى كُلّ مُحْتَلِم )) جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے " اس حدیث سے بعض اہل علم نے کہا ہے جمعہ میں شریک ہونے والے کے لئے غسل واجب ہے لیکن دوسرے الفاظ یہ بھی آتے ہیں کہ بعض صحابہ بغیر غسل کے بھی شریک ہوئے تھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہیں کہا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ واجب اصطلاحی معنی کے لئے نہیں ہیں لیکن وہ اہم ہے غسل جمعہ مسنون ہے جو باتیں یہاں آئی ہیں کہ جمعہ کے دن صاف ستھرے کپڑے پہنے خوشبو اور جلدی جانا چائیے تبکیر کے معنی ہیں کسی کام کو جلدی کرنا جتنا جلدی ہو سکے جمعہ کی نماز کے لئے جانا چائیے اس سلسلے میں سنن ترمذی 456 کئ ایک حدیث (( * مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا* )) جو جمعہ کے دن غسل کرے اور غسل کرائے یعنی اپنے گھر والوں کو اور جلدی جائے اور گھر والوں کو بھی جلدی لے کر جائے اور امام کے قریب بیٹھے غور سے سنیں اور خاموش رہے پھر فرمایا ایسے شخص کے لئے اس کے ہر قدم کے بدلے جب وہ چلے گا ایک سال صیام کا اور ایک سال قیام کا ثواب ملے گا " یہ چیز ثابت ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جب جمعہ کے لئے جاتا ہے جمعہ شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جائے اس وقت سے لے کر امام کے خطبے کا آغاز کرنے کے وقت اس وقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور کہا
1:جو مسجد میں سب سے پہلے وقت میں جائے گا اس کو ایک اونٹ ذبح کرنے کا ثواب ملے گا۔
2: جو دوسرے حصہ میں جائے گا اس کو ایک گائے ذبح کرنے کا ثواب ملے گا۔
3: جو تیسرے حصے میں جائے گا اس کو ایک بکری ذبح کرنے کا ثواب ملے گا۔
4: جو چوتھے حصہ میں جائے گا اس کو ایک مرغی ذبح کرنے کا ثواب ملے گا ۔
5: اور جو پانچویں حصے میں جائے گا اس کو ایک انڈا صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ۔
جب امام آتا ہے اور منبر پر چڑھ جاتا ہے خطبہ دینے کے لئے تو فرشتے اپنے صحیفے لپیٹ دیتے ہیں اور جمعہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔
جمعہ کے دن جب آدمی ایسے وقت میں داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت دو رکعت مختصر نماز پڑھے اس کے پاس ایک اہم واجب موجود ہے خطبہ سننا اس لئے وہ نہ بیٹھے اس کی دلیل ہے کہ "ایک صحابی مسجد میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے ان کا نام ہے سلیك الغطفانی رضی اللہ تعالی عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہے کہا کھڑے ہو دو رکعت نماز پڑھو اس کے بعد بیٹھے" اس کے علاوہ اور کوئی حدیث نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھنے کے لئے کہا اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ جمعہ میں سنتوں کے پڑھنے کی کوئی تخصیص معلوم نہیں ہے آدمی جب آئے جتنا چاہے نماز پڑھ سکتا ہے اس کی خاص تعداد نہیں ہے بعض اہل علم کہتے ہیں جمعہ کو ظہر میں قیاس کیا ہے جیسے ظہر سے پہلے چار رکعت سنتیں ہیں اسی طرح جمعہ کے پہلے بھی چار رکعت سنتیں ہیں لیکن جمعہ اور ظہر کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جمع کے احکام الگ ہیں اور نماز ظہر کے احکام الگ ہیں صحیح قول یہ ہی ہے کہ جمعہ سے پہلے سنتیں نہیں ہے سوائے ان دو رکعتوں کے جو پڑھنا چائیے یا آدمی جتنا پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے البتہ جمعہ کے بعد کی سنتیں مختلف ہیں بعض احدیث سے معلوم ہوتا ہے چار سنتیں پڑھنا چائیے بعض سے دو معلوم ہوتی ہیں اور دونوں طرح کی حدیث صحیح ہیں اس لئے بعض اہل علم نے فرق کیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پڑھی تھیں تو آپ نے اپنے گھر میں پڑھی تھی جب چار پڑھی تھی تو وہ مسجد میں پڑھی تھی شیخ صالح العثمین کہتے ہیں اگر مسجد میں پڑھ رہے تو چار پڑھے اگر گھر میں پڑھے تو دو پڑھے لیکن بعض اہل علم نے دونوں کو جمع کیا اور اس رائے کے قائل ہوئے کہ چھے پڑھنا چائیے آدمی دو پڑھے چار پڑھے چھے پڑھے اس میں کوئی توسع نہیں ہے لیکن بعض سنتیں ثابت ہیں دو چار یا چھے جتنا وہ پڑھ سکتا ہے بہر حال اگر مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے گھر میں پڑھے تو دو پڑھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ((( إذا قلت لصاحبك والإمام يخطب يوم الجمعة أنصت فقد لغوت )). رواه البخاري ( 892 ) ومسلم ( 851 )
" اگر کوئی اپنے ساتھی سے کہے کہ خاموش ہو جاؤ تو تم نے لغو کام کیا" خطبے کے دوران اگر کوئی آدمی بات کر رہا ہو اور اس پر بھی اپنی زبان سے اس کو کہنا کہ خاموش رہو یہ بھی لغو کام ہے اس کا مطلب ہے کہ دوسری باتیں بدرجے اولی نہیں کی جا سکتی امام کے خطبے کے وقت پر بات کرنا جائز نہیں ہے مگر امام کے لئے یا امام کسی سے بات کرے جیسا کہ "سلیك رضی اللہ عنہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کی کہ کیا تم نے نماز پڑھ لی انھوں نے کہا نہیں " جس سے امام بات کرے وہ بات کر سکتا ہے ان کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں وہ بات کرے۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
کتاب الجنائز
جب اس میں موت کا یقین کر لیا جائے تو اس کی آنکھیں بند کر دی جائیں اور اس کے جبڑوں کو باندھ دیا جائے اور اس کے پیٹ پر کوئی آئینہ رکھ دیا جائے یا کوئی چیز جیسے لوہے کا ٹکڑا جب اسے غسل دینا شروع کیا جائے تو اس کی شرم گاہ کو چھپایا جائے پھر اس کے پیٹ کو دبایا جائے ہلکے سے پھر غسل دینے والا اپنے ہاتھ میں لپیٹ لے کوئی کپڑا اور اس سے گندگی کو دور کرے ، پھر اسے وضو کروائے پھر اس کے سر اور داڑھی کو دھوئے پانی اور بیری کے پتوں سے پھر اس کے دائیں جانب اور پھر بائیں جانب ، پھر اسے اسی طرح غسل دے دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ گزارے ہر دفع اپنے ہاتھ کو اس کے پیٹ پر سے اگر اس میں سے کچھ نکلے تو اس کو دھو دے اور اسے روئی سے بند کر دے اور اگر نہ رکے تو خالص مٹی سے بند کرے آزاد مٹی سے (ایسی مٹی جس میں ریت ملی ہوئی نہ ہو ) اور پھر دوبارہ اس کو دبائے اور اگر وہ صاف نہ ہو تین دفع غسل دینے سے تو پانچ دفعہ غسل دے یا سات دفع پھر اسے سکھائے کسی کپڑے سے اور اس کے پوشیدہ جگہوں پر ( مغابن مغبن کی جمع ہے انسان کے وہ مقامات جہاں گندگی جمع ہوتی ہے جیسے بغل کان اندرونی مقامات) خوشبو لگائے، اور اس کے سجدوں کی جگہوں پر اور اگر اس کے پورے جسم پر خوشبو لگائے تو یہ اچھا ہو گا ، اور اس کے کفن کو بخور دے ، اور اگر اس کے مونچھ کے بال یا ناخن لمبے ہوں تو اس کو کاٹ دے اور اس کے بالوں میں کنگھی نہ کرے اور عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائی جائیں اور پیچھے چھوڑ دیا جائے ، پھر اسے (مرد) تین سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے جس میں قمیض اور عمامہ (پگڑی) نہ ہو اس میں ادراج کیا جائے اور اگر قمیض اور ازار میں اسے کفن پہنایا جائے اور ایک لپیٹنے والے کپڑے میں کفن دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور عورت کو پانچ کپڑوں کا کفن پہنایا جائے گا قمیض ، اوڑھنی، ازار، اور دو لپیٹنے والے کپڑوں میں۔
اور لوگوں میں غسل دینے کا زیادہ حق دار اور اس پر نماز پڑھانے کا اور اسے دفن کرنے کا وہ ہے جس کے لئے مرنے والا وصیت کرے ، پھر والد پھر دادا پھر وہ جو ذیادہ قریب ہوں یا ان لوگوں میں جو عصبہ ہیں( وہ مرد وارثوں میں سے جن کا حصہ مقرر نہیں ہوتا وہ وارثوں میں تقسیم کرنے کے بعد باقی حصے کے حقدار بن جاتے ہیں) ، اور عورت کو غسل دینے میں زیادہ حقدار ہے ماں پھر نانی پھر وہ جو ذیادہ قریب ہیں ان کی عورتوں میں سے ، مگر امیر کو آگے بڑھایا جائے گا نماز کے لئے باپ اور اس کے بعد (باپ دادا پر مقدم کیا جائے گا امیر کو نماز پڑھانے کے لئے) ۔
اور اس پر نماز پڑھنے کا طریقہ ہے تکبیر تحریمہ کہے اور سورتہ الفاتحہ پڑھے ، پھر تکبیر کہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة بھیجے پھر تکبیر کہے اور یہ دعا پڑھے (( * ( اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا ، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ*
اے اللہ بخش دے ہمارے زندوں کو ہمارے مردوں کو اور ہمارے حاضر لوگوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارےچھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو تو اچھی طرح جانتا ہے ہمارے پلٹنے کے مقام کو اور ہمارے ٹھکانے کو اور ہر چیز پر تو قدرت رکھتا ہے اے اللہ تعالی ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام اور سنت پر زندہ رکھ اور جسے تو وفات دے دے تو ان دونوں پر( اسلام اور سنت) پر وفات دے اے اللہ تعالی اس کو بخش دے اے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت عطا فرما اور اسے معاف درگزر فرما ، اور اس کی خوب مہمان نوازی فرما ، اور اس کی قبر کو کشادہ کر دے اور اس کے گناہوں کو دھو دے پانی برف اور اولے سے اور اسے پاک کر دے گناہوں سے جیسا سفید کپڑا گندگی سے پاک کیا جاتا ہے اور اسے اس گھر سے بہتر عطا فرما اور اس پڑوس سے بہتر عطا فرما اور بیوی اس بیوی سے بہت عطا فرما اور اسے جنت میں داخل کر دے اور اسے قبر کے عذاب سے محفوظ فرما اور جہنم کے عذاب سے ، اور اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کی قبر میں روشنی فرما دے" پھر تکبیر کہے (یہ چوتھی تکبیر ہے) اور ایک سلام پھیرے اپنے دائیں جانب اور ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے ہر تکبیر کے ساتھ ۔
اور ان میں واجب ہے چاروں تکبیرات (یہاں واجبات رکن کے معنی میں ہے) اور سورتہ الفاتحہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا اور کم سے کم دعا زندہ کی میت کے لئے اور سلام اور جس کی نماز فوت ہو جائے وہ قبر پر پڑھے گا ایک مہینے تک اور اگر میت غائب ہو شہر سے (انتقال کسی دوسرے مقام پر ہوا ہو) تو اس کی غائبانہ نیت سے نماز پڑھ لے گا
تفصیل کتاب الجنائز
جنازہ ج پر فتح کے ساتھ بھی کہا جاتا ہے اور کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا اہل علم کہتے ہیں ج پر فتح کے ساتھ ہو گا تو میت مراد ہو گی اور ج پر کسرہ کے ساتھ پڑھیں گے تو میت کی چارپائی مراد ہو گی جس میں اس کو رکھا جاتا ہے بعض اہل علم اس کے برعکس کہتے ہیں بہر حال یہ دونوں الفاظ استعمال کیئے جاتے ہیں اللہ تعالی نے انسان کو بہترین خلقت پر پیدا کیا اللہ تعالی نے کہا اس نے بنی آدم کی تکریم کی جیسے وہ اپنی زندگی میں عزت والا تھا ویسے ہی مرنے کے بعد اس کے کچھ حقوق ہیں جو مقرر کیئے گئے وہ حقوق ہیں اسے غسل دیا جائے، کفن دیا جائے، اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور دفنایا جائے یہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر عائد ہوتے ہیں بطور انسان سب کے اور بطور مسلمان خاص طور پر ایک دوسرے مسلمان کے اللہ نے جو تکریم کی ہے اس میں سے یہ اس کا حصہ ہے ۔
اہل علم نے موت ہونے کی کچھ علامتیں بیان کی ہیں جب کسی کی وفات ہو رہی ہو اور وہاں کوئی انسان موجود ہو تو ان کے لئے کچھ آداب بتائے گئے کہ وہاں پر لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہے گویا تلقین ہو گی کہ وہ بھی لا الہ الا اللہ پڑھ لے اگر وفات ہو جائے تو کچھ نشانیان بتائیں ہیں اہل علم نے
1: کن پٹیاں انسان کی دھنس جاتی ہیں ۔
2: ناک ٹیڑھی ہو جائے۔
3: ہتھیلیاں بدن سے گویا علیحدہ ہو جاتی ہیں ۔
4: پیر ڈھیلے ہو جائیں ۔
5: بدن ٹھنڈا ہو جائے۔
6: سانس رک جائے۔
یہ علامتیں ہیں وفات پا جانے کی موت کا یقین ہو جائے تو آنکھ بند کر دی جائیں "" اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب داخل ہوئے ابو سلمہ کی وفات کے موقع پر تو آپ نے ان کی آنکھیں بند کر دی حدیث صحیح میں ہے کہ بے شک جب روح قبض کر لی جاتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے ))
فقہاء آنکھ بند کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آنکھ کھلی رہے تو منظر برا لگے گا ۔
جبڑے کو کسی دھاگے یا رسی سے باندھ دیا جائے فقہاے کرام اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا منہ بند نہیں ہو سکتا اس کو بند کرنا اسلئے ضروری ہے کہ اس کے منہ میں کچھ چلا نہ جائے اگر کھلا رہے گا تو منظر خراب لگے گا اس لئے اس کو بند کر دیں کیڑے مکوڑوں سے اس کی حفاظت بھی ہو جائے ۔
پیٹ پر وزنی چیز کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کا پیٹ پھول نہ جائے بہت زیادہ انتظار کرنے سے پیٹ پھولتا ہے اہل علم کہتے ہیں کہ زیادہ انتظار کرنا ٹھیک نہیں ۔
غسل کا طریقہ :
1: اس کی شرم گاہ کو چھپا دیا جائے مرد کو مرد کی شرم گاہ دیکھنے کی اجازت نہیں عورت کو عورت کی شرم گاہ دیکھنے کی اجازت نہیں چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ اور میت کے کپڑے نکالنے سے پہلے اس کی شرم گاہ کو چھپا دیا جائے ۔
2: ہلکے سے پیٹ کو دبائے اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہو پیٹ میں تو نکل جائے ۔
غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر کوئی کپڑا باندھ لے یا دستانے پہن لے پیٹ کو دبائے اس کے ذریعے کوئی چیز نکلی ہو تو اس کو صاف کر دے براہ راست ہاتھ نہ لگے شرم گاہ کو کپڑے یا دستانے کے ذریعے ۔
3:وضو کرائے منہ میں پانی ڈالے ناک میں پانی ڈالے پھر چہرے کو دھلائے پھر ہاتھوں کو دھلائے پھر سر کا مسح کرائے پھر پیر دھلائے جیسا عام وضو ہوتا ہے ۔
4: سر اور داڑھی کو بیری کے پتوں سے دھوئے بیری کے پتوں کا پانی پورے جسم میں کرے غسل کا آغاز چونکہ سر سے ہو رہا ہے تو پہلے سر اور داڑھی کو بیری کے پتوں سے دھوئے جیسے زندہ شخص کرتا ہے اہل علم کہتے ہیں اگر شیمپو کا استعمال کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن پانی اور بیری زیادہ بہتر ہے وضو اور غسل اسی پانی سے ہو۔
5: پھر دائیں جانب دھوئے پھر بائیں جانب یہ ایک دفعہ غسل ہو گیا۔
6: اسی طرح دوسری دفعہ غسل دے سر ڈاڑھی پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب دھوئے یہ دوسری دفعہ ہو گیا اسی طرح تیسری مرتبہ بھی کرے
7: جتنی دفعہ غسل دے گا اس کے پیٹ پر سے اپنا ہاتھ گزارے ہلکا سا دباتے ہوئے ۔
7: اگر کوئی چیز رک نہیں رہی تو روئی سے اسے بند کر دیں اگر نہ رکے تو خالص مٹی ڈال لے کر جس میں ریت شامل نہ ہو اس کے ذریعے سے بند کر دے تاکہ کفن گندہ نہ ہو پھر اس کو دوبارہ دبائے ۔
8: اگر اس کی تین دفعہ دھونے سے صفائی نہ ہو تو پانچ دفعہ یا سات دفع دھوئے
جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب کی وفات ہوئی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل دینے والی عورتوں کو ہدایت دی تھی یہ وہ ہی ہدایتیں علماء نے جمع کی ہیں یہ تمام اسی حدیث کے الفاظ ہیں ضرورت کے حساب سے مزید دھویا جا سکتا ہے علی ابن طالب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا میں یہ چاہ رہا تھا کہ کوئی ایسی چیز جو انسان کے بدن پر گندگی ہوتی ہے اس کو صاف کر دوں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر کوئی ایسی چیز نہیں تھی آپ اپنی زندگی میں بھی پاکیزہ تھے موت کے بعد بھی پاکیزہ تھے یہ آپ کی خصوصیت تھی ۔
9 : جب غسل سے فارغ ہو گئے تھے تو کسی کپڑے سے پونچھ دے تاکہ کفن گیلا نہ ہو ۔
10: اس کے اندرونی حصے جہاں گندگی جمع ہو سکتی ہے وہاں خوشبو لگائے عام طور پر کافور استعمال کیا جاتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے سجدے کے سات جگہوں پیشانی جس میں ناک بھی شامل ہے ، دونوں ہتھیلیاں ، دونوں گهٹنے ، دونوں قدم اہل علم کہتے ہیں شرف کے طور پر خوشبو لگائی جاتی ہے اگر پورے بدن پر خوشبو لگائے تو اچھا ہو گا اہل علم کہتے ہیں اگر پیٹ سے اس کے گندگی نکلے گی تو دوبارہ وضو کروائیں گے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
11: اس کے کفن کو بخور کا دھواں دے یعنی کفن کو تیار کیا جائے پہنانے سے پہلے بخور کے دھوئیں سے۔
12: اگر اس کے مونچھ کے بال اور ناخن لمبے ہوں تو چھوٹے کر دیئے جائیں اور بالوں میں کنگھی نہ کی جائے اہل علم کہتے ہیں یہ اس لئے کہ بال نہ گریں۔
13: عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائی جائیں اور اس کو پیچھے چھوڑ دیا جائے ۔
14: اب اسے کفن پہنایا جائے تین کپڑوں میں مرد کا اس کی دلیل صحیح حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تین یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے اچھا کپڑا سفید کپڑا ہے اور اسی میں تم اپنے مردوں کو کفن دو سلے ہوئے کپڑے نہ ہوں تینوں کپڑوں کو یکے بعد دیگر ایک دوسرے کے اوپر بچھا دیا جائے زمین پر پھر میت کو اس کے اوپر ڈالا جائے اوپر والی چادر کا دائیاں حصہ لپیٹا جائے پھر بائیاں حصہ لپیٹا جائے پھر دوسری چادر کا دائیاں حصہ لپیٹا جائے پھر بائیاں حصہ لپیٹا جائے پھر نیچے جو چادر پے اس کا بائیاں حصہ لپیٹا جائے پھر بائیاں حصہ لپیٹا جائے اس کو باندھ دیا جائے اسے ادراج کہتے ہیں لیکن اگر قمیص ازار ہو اور اوپر ایک کپڑا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
15: عورت کے لئے پانچ کپڑے ہوں ایک قمیص ، ازار ایک اس کے سر پر اوڑھنی کے طور پر مکمل پردے کے ساتھ پھر دو کپڑے مکمل لپیٹ دیئے جائیں پہلے ایک لپیٹا جائے پھر دوسرا لپیٹا جائے پانچ کپڑوں کے بارے میں اہل علم نے کلام کیا ہے جیسے مرد کے لئے بھی تین کپڑے ہیں عورت کو بھی تین کپڑوں میں کفن دیا جا سکتا ہے۔
میت کے لئے دعا پڑھنا یا کم سے کم دعا پڑھنا یہ ضروری ہے اگر کم سے کم پڑھیں تو اللھم اغفرہ اللھم ارحمه یہ کم سے کم ہے
سنت میں ہاتھ بلند کرنا یہ صحابہ سے ثابت ہے جب صحابہ سے ثابت ہے تو انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہو گا کیونکہ یہ چیز ایسی ہے جس پر انسان قیاس پر نہیں چلتا تعبدی عبادت کا تعلق ہے اس سے امور تعبدی میں انسان اپنی رائے اپنے قیاس سے نہیں چلتا اس لئے صحابہ سے ثابت ہے اس لئے اہل علم کہتے ہیں تکبیر کہنا چائیے
(بعض احادیث میں چار
تکبیریں آئی ہیں بعض میں آئی ہیں بعض میں نو تکبیریں آئی ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں 9 اور 5 تکبیریں یہ پہلے تھیں بعد میں اس کو چار تکبیروں پر باقی رکھا گیا بعض کہتے ہیں نہیں تکبیرات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے ہر تکبیر میں اس کے لئے مزید دعا کریں گے چار کے بعد جب پانچویں کہیں گے تو مزید دعا ہو گی اس کے لئے پھر چھٹی تکبیر کہیں گے تو مزید دعا ہو گی ساتویں تکبیر کہیں گے تو دعا کریں گے پھر سلام پھیر دیں گے یعنی جتنی تکبیرات ہوں گے اتنی دعا ہو گی نو تکبیرات تک ثابت ہیں ۔
جب سعد ابن وقاص کی وفات ہوئی تھی تو ام المومنیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا تھا ان کے جنازے کو پہلے ہمارے پاس لاؤ مسجد میں لے جانے سے پہلے تو پہلے وہاں لایا گیا تھا انھوں نے نماز جنازہ پڑھی تھی پھر مسجد لے جایا گیا پھر وہاں لوگوں نے پڑھی اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے ایک سے دو جگہوں پر پڑھی جا سکتی ہے عورتوں کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے گھر میں پڑھیں پھر جنازہ مسجد جائے پھر وہاں پر پڑھیں جیسا کہ ام المومنیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے عمل سے ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے ایک سے دو جگہوں پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے اگر لوگوں کی کثرت ہو یا مقامات مختلف ہوں
پہلی تکبیر تحریمہ واجب ہے باقی تین کے بارے میں اختلاف ہے مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں کے نذیک باقی بھی واجب ہیں
نماز جنازہ کے پانچ رکن ہو گئے
1: تکبیرات ۔
2: سورتہ الفاتحہ کی قرات۔
3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ۔
4:چھوٹی سے چھوٹی دعا کرنا اللھم اغفرہ اللھم ارحمه رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میت پر دعا پڑھو خالص دعا کرو خصوصی طور پر۔
5: ایک سلام پھیرنا
قبر پر نماز پڑھنے کا ثبوت جیسا کہ ایک صحابیہ تھیں وہ مسجد کی صفائی کا کام کرتی تھیں صحابہ نے ان کی تدفین کر دی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہیں آئیں آپ نے پوچھا کیا بات ہے تو صحابہ نے کہا ان کا انتقال ہو گیا آپ نے کہا بتایا کیوں نہیں آپ نے ان کی قبر پر نماز پڑھی ۔
ایک مہینے کی تخصیص اس لئے کی کہ ام سعد رضی اللہ تعالی عنھا کا انتقال جب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے۔
باہر تھے مدینے سے ایک مہینہ گزر چکا تھا آپ کو پتا چلا تو آپ نے جا کر ان کی قبر پر پڑھی اس لئے ایک مہینے کی تخصیص کی گئی ایک مہینے سے زیادہ کی ہمارے پاس دلیل نہیں ہے ۔
نماز غائبانہ کے سلسلے میں چار اقوال ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے نجاشی بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی تھی ایک تو یہ دلیل ہے دوسرا قول ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی جائے گی نجاشی کی نماز جنازہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خاص رکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے صحابہ جو مکے میں رہتے تھے ان کا بھی انتقال ہوا لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تیسرا قول ہے کہ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی جس کی نماز اس کے اصلی ملک میں نہ پڑھی گئی ہو جیسے کہ نجاشی وہ مسلمان تھے لیکن ان کے ملک میں ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی شیخ العثیمین اسی رائے کی طرف گئے ہیں چوتھی رائے یہ ہے کہ نماز جنازہ اس شخص کی پڑھیں گے جس کی خدمات بہت ہوں چاہے بادشاہ کی حیثیت سے ہو یا عالم کی حیثیت سے یا کسی بہت بڑے عالم کی حیثیت سے ہو اس کی پڑھیں گے دلیل نجاشی بادشاہ کی طرف لوٹتی ہے لیکن یہ کہنا کہ نجاشی اکیلے مسلمان ہوئے ہوں ان کے ساتھ اور کوئی مسلمان نہیں ہوا یہ بات کہنا مشکل ہے کہ ان کے بھی ساتھی مسلمان ہوئے ہوں گے اور انھوں نے نماز جنازہ پڑھی ہو گی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پڑھی ہو گی اس مسلے میں سب سے بہتر یہ ہے اس بات کو وسیع نہ کیا جائے ہر کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہ پڑھے لیکن اگر کسی قریبی رشتے دار کی وفات ہوئی ہے جیسے بیوی کی یا بہن یا بھائی یا والدین کی پڑھی جائے نجاشی کی دلیل کی بنیاد پر لیکن اس باب کو اتنا وسیع نہ کرے کہ غائبانہ نماز جنازہ کو ایک عام نماز بنا لے کہ ہر ایک کی پڑھی جائے ۔
(( اور جسے غسل دینا ممکن نہ ہو پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا اس کے ٹکڑے ہونے کے خوف سے جیسے وہ شخص جسے جزرا کی بیماری ہو (جس میں جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے ہیں ) یا جو جل چکا ہو یا اس لئے کہ کوئی عورت مردوں کے درمیان ہے یا کوئی آدمی عورتوں کے بیچ میں ہے تو اسے تیمم کرایا جائے گا مگر یہ کہ شوہر بیوی میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھی کو غسل دینا جائز ہے، اور یہی معاملہ ہے ام الولد کا اپنے آقا کے ساتھ، اور شہید جب جنگ میں مرے اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی اور اس سے لوہے اور چمڑے کو ہٹا دیا جائے گا (جو جنگ میں لوہے اور چمڑے کا لباس پہنتے ہیں) پھر اسی کپڑوں میں اسے کفن دیا جائے گا، اگر دوسرے کپڑوں میں اسے کفن دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
اور وہ شخص جو احرام کی حالت میں ہو پانی اور بیری کے پتوں سے اسے غسل دیا جائے گا، اور اسے کوئی سلا ہوا کپڑا نہیں پہنایا جائے گا، اور کوئی خوشبو نہیں لگائی جائے گی اور اس کا سر نہیں ڈھانکا جائے گا، اور اس کے بال اور ناخن نہیں کاٹے جائیں گے ۔
اور میت کو لحد( بغلی قبر) میں دفن کرنا مستحب ہے اور لحد پر کچی مٹی کی اینٹیں اس پر کھڑی کر دی جائیں گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا اور نہ داخل کرے پکی مٹی کی اینٹوں کو اور نہ کوئی لکڑی کو اور نہ کوئی ایسی چیز جسے آگ نے چھوا ہو ۔
اور میت کے گھر والوں کے لئے ماتم پرسی مستحب ہے، اور اس پر رونا مکرو نہیں ہے اگر اس کے ساتھ خوبیاں بیان نہ کی جائیں اور نوحہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، مردوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جب وہ قبرستان کے پاس سے گزرے تو کہے:(( السَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤمِنينَ ، وإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ ، اللھم لا تحرمنا اجرھم ولا تفتنا بعدھم واغفر لنا ولھم ، نسال اللہ لنا ولکم العافیة ))
"سلامتی ہو تم پر مومن قوم کے گھروں کے رہنے والے اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اے اللہ ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ فرما اور ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈال اور ہمیں اور انہیں بخش دے، ہم سوال کرتے ہیں اللہ تعالی سے ہمارے لئے اور تمھارے لئے عافیت" ۔ اور کوئی بھی نیکی کرے اور اس کا ثواب مسلمان میت کے لئے پہنچائے تو وہ چیز اسے نفع پہنچائے گی ۔
تفصیل:
اس میں بتایا گے مسلمان کو غسل دینا ممکن نہ ہو اور اس کی مولف رحمہ اللہ نے تین حالتیں بیان کی ہیں
1: پانی نہ ہو
2: اس کے ٹوٹنے کا خوف جیسے اس کے ٹوٹنے کا خوف ہو ۔جزرا کی بیماری ہو جس کے جسم میں دانے ہوں چھوٹے چھوٹے سے یہ بیماری متعدی ہے اور جس کو ہاتھ لگانے سے زخم پھٹ جائیں ۔ جو جل جائے اس کا ڈر ہو کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔
3: کوئی ایسا مقام ہے جہاں عورت کا انتقال ہوا اور وہاں صرف مرد ہی ہیں کوئی عورت نہیں ہے غسل دینے کے لئے یا مرد عورتوں کے درمیان ہے کسی بھی حال میں مرد عورت کو غسل نہیں دے گا چاہے وہ محارم میں سے ہو چاہے وہ عورت کے والد ہو بھائی ہوں یا بیٹے ہوں تو صرف تیمم کرایا جائے گا بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب غسل نہیں ہو تو اسے ویسے ہی چھوڑ دیا جائے گا لیکن بعض اہل علم کہتے ہیں غسل نہ ہو تو تیمم کرائیں گے اس کی صورت یہی ہے کہ اپنا ہاتھ مٹی پر ماریں گے پھر اس کے چہرے اور اس کے ہتھیلوں پر مل دیں گے لیکن ایک صورت لو مولف رحمہ اللہ مستثنی کر رہے ہیں مگر شوہر بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں دلیل " اسمہ بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنے شوہر ابو بکر رضی اللہ عنہ کو غسل دیا تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ نے وصیت کی تھی اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے کہا تھا اگر ہمیں جو بات بعد میں معلوم ہوئی ہے پہلے معلوم ہو جاتی تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ازواج مطہرات ہی غسل دیتی " اسی طرح شوہر کو بیوی کے غسل دینے کی مثال علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کو غسل دیا تھا دوسری وہ حدیث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے کہا تھا اگر میری موجودگی میں تمھارا انتقال ہو گا میں خود تمھے غسل دوں گا کفن پہناؤں گا تمھاری نماز پڑھاؤں گا اور تمھے دفناؤں گا یہ بھی دلیل ہے شوہر کے بیوی کو غسل دینے کی"
ام الولد جو اپنے آقا کے بیٹے کی ماں بن چکی ہو لڑکے کی ماں ام الولد کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی وہ وراثت کا مال نہیں ہو گی اگر وہ مر جائے تو اس کا آقا اسے غسل دے سکتا ہے۔
جو معرکے میں شہید ہو اس کو غسل اس لئے نہیں دیا جاتا قیامت کے دن ان کا خون گواہی بنے گا اس میں سے خوشبو آئے گی اس کے خون کا رہنا اس کے لئے خوبی ہے اور نماز اس لئے نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ میت کی نماز جنازہ اس کے لئے مغفرت کے لئے پڑھی جاتی ہے لیکن شہید کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے سارے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں سوائے ایک چیز کے قرض کے علاوہ اس کی دلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر کا عمل ہے آپ نے جنگوں میں یا خاص طور پر شہدائے احد کی نماز نہیں پڑھی تھی یہ جمہور کا قول ہے البتہ احناف اس بات کے قائل ہیں کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور نماز بھی پڑھی جائے گی اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے احد کے شہداء کی نماز پڑھی تھی تقریبا 8 سال کے بعد وہ اس سے دلیل لیتے ہیں لیکن راجح قول پہلا والا ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوسروں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی اہل علم کہتے ہیں یہ شہداء احد کے لئے خاص تھا لیکن اگر وہ جنگ میں زخمی ہوئے اور وفات ایک ماہ بعد ہوئی تب کفن بھی پہنائیں گے اور نماز بھی پڑھی جائے گی یہ معرکے میں مرنے والے شہداء کا ذکر ہے اس کے علاوہ دوسرے شہید جو اجر اور فضل میں شہید کہلاتے ہیں اس امت پر فضل کرتے ہوئے اللہ تعالی نے جنگ میں شہید ہونے والوں کے علاوہ دوسروں کو بھی یہ فضیلت عطا کی ہے بخاری و مسلم کی حدیث ہے (( أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ, وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ پانچ قسم کے لوگ شہید کہلاتے ہیں
1: جوطعون کی بیماری میں مرے۔ اگر ایسی بیماری پھیلے تو اس کے لئے حکم ہے وہ لوگ کہیں نہ جائیں اور نہ باہر رہتے ہیں وہ داخل نہ ہو۔
2: پیٹ کی بیماری میں مرنے والا۔
3: جو ڈوب کر مرے۔
4:جس پر کوئی چیز گرے دیوار وغیرہ۔
5: اللہ کے راستے میں مرنے والا ۔
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا
وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ
وہ عورت جو زچگی کی دوران انتقال کرتی ہے وہ بھی شہید کہلاتی ہے
ایک حدیث میں وَالْحَرِقُ شَهِيدٌ کا ذکر آیا جو جل کر مرتا ہے ان کو باقاعدہ غسل دیا جائے گا اگر غسل دینا ممکن ہے ان کی نماز بھی پڑھی جائے گی ۔
جس کی موت احرام کی حالت میں ہو اہل علم کا اختلاف ہے اس بارے میں کہ وہ حالت احرام میں ہی رہتا ہے لبیک کہتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی کو اس کے اونٹ نے کچل دیا احرام کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو پھر کہا دو کپڑوں میں اسے کفن پہناؤ اسے کوئی خوشبو نہ دو اس کے سر کو مت ڈاھانکو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے تلبیہ بلند کرتے ہوئے اٹھے گا " ۔
قبر جو کھودی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں لحد اور شق
شق ( قبر کھودی جائے میت کو ڈال کر مٹی ڈال دی جائے۔
لحد: جہاں تک قبر کھودی جاتی ہے اس میں جتنی جگہ میت کو رکھنے کے لئے چائیے اتنا اور کھودا جاتا ہے قبلے کے طرف اس میں میت کو ایک طرف رکھ کر کچی اینٹوں کو رکھ کر بند کیا جاتا ہے میت کو دائیں کروٹ پر لٹایا جائے اور اس کا چہرہ قبلے کی طرف کیا جائے گا مدینے میں دو صحابی تھے ایک لحد کھودتے تھے دوسرے شق کھودتے تھے یہ دونوں جائز ہیں ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لحد ہمارے لئے ہے شق دوسروں کے لئے ہے لحد افضل ہے اسی لئے یہاں پر مستحب کا لفظ استعمال ہوا ہے دونوں جائز ہیں۔
سلف کے دور سے ایسی کوئی چیز قبر میں نہیں رکھی جاتی جس کو آگ نے چھوا ہو اور دوسرا میت کے نیک فال کے طور پر کہ اسے آگ نہیں چھوئے گی اس لئے آگ کی کوئی چیز نہیں رکھیں گے ۔
میت کے گھر والوں سے کہنا اعظم اللہ اجرکم یا کوئی بھی ایسی چیز جسے میت کے لئے مغفرت طلب کرے اور گھر والوں کو صبر کی تلقین کرے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے بیٹے انتقال کر رہے تھے اور وہ نرع کی حالت میں تھے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا رہی تھی آپ نے اس وقت کہا تھا .. إِنَّلِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَىْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ اللہ کے لئے ہے جو دے دے اور جو لے لے ہر چیز اللہ کے پاس ایک مقرر وقت کے لئے اور اللہ کے رسول نے کہا اس سے کہو صبر کرے اور اجر کی امید کرے " اس کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں ہے کہنے کے لئے رونا منع نہیں ہے جیسا کہ سعد ابن عبادہ نے کہا آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں آپ نے کہا یہ وہ رحم ہے جو اللہ تعالی نے ہمارے دلوں میں رکھا ہے آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے لیکن ہم اپنی زبان سے وہی چیز کہیں گے جس سے اللہ راضی ہوتا ہے " ۔
قبر کی زیارت کر کے انسان آخرت کی یاد کرتا ہے اور دم کو نرم کرتا ہے اور ان کے لئے سلام اور دعا کرتا ہے یہ میت کے لئے بھی فائدہ ہے اور دعا کرنے والے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ رکھنا مناسب نہیں ہے ۔
احمد بن حنبل کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ میت کے لئے ہم ہر وہ چیز جو نیکی کرتے ہیں ہم کہ سکتے اس کا ثواب ان کو پہنچا دو جیسے نماز ذکر وغیرہ اس کے قائل ہیں حناف اور حنابلہ دوسرا قول ہے میت کو ہمارے اعمال میں سے کچھ کا ثواب پہنچے گا ہر چیز کا ثواب نہیں پہنچتا
ہم تین طرح کے اعمال سر انجام دہتے ہیں
1: بدنی اعضاء وجوارح کرتے ہیں نماز روزہ یا قرآن کی تلاوت ذکر وغیرہ ۔
2: مالی صدقہ و خیرات ۔
3: بدنی اور مالی جیسے عمرہ اور حج
مالی عبادت میں سب کا اتفاق ہے کہ یہ پہنچتی ہے وہ صدقہ جاریہ ہے اس کا ثواب میت کو پہنچے گا اور وہ عمل جو بدن اور مال میں مشترک ہیں اس کا ثواب بھی پہنچے گا حج عمرہ اس کے نصوص ہیں کسی صحابہ نے سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم اپنے مرے ہوئے والد کی طرف سے حج کرو یہ نص ہے اس ک ثواب پہنچے گا اختلاف صرف بدنی عبادت میں ہے جو خالص بدنی ہے قرآن مجید کی آیک آیت ہے (( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ )) انسان کو اسی کا ثواب ملے گا جس کی وہ کوشش کرے گا" یہ بنیاد ہے انسان اپنے اعضاء و جوارح سے کوشش کرتا ہے اسی کا ثواب ملے گا جس کی کوشش نہیں کی اس کا ثواب نہیں ملے گا یہ محکم نہیں البتہ صحیح مسلم میں ہے (( *إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ إِلا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ) رواه مسلم (1631)
انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ ، نفع بخش علم ، نیک اولاد جو دعا کرتی ہے " ۔
میت کو چار چیزیں پہنچتی ہیں صدقہ دعا حج اور عمرہ قیاس نہیں کریں گے عبادت توقیفیہ ہیں یہ ہی چیزیں میت کو پہنچتے ہیں شیخ العثمین کہتے ہیں انسان کے لئے افضل یہ ہے کہ نیکی اپنے لئے کرے دعائیں ان کے لئے کرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نیک اولاد دعا کرتی ہے ۔
قبر میں میت کو دفناتے وقت پڑھیں گے بسم اللہ وعلی ملة رسول اللہ قبر کو بس اتنا اونچا کریں گے جتنا اونٹ کا کوہاں ہوتا ہے۔
|
عمدة الفقه
|
باب صلاة العیدین
نماز عیدین کا باب
اور وہ فرض کفایہ ہے جب شہر کے چالیس آدمی اسے قائم کرے تو وہ سارے لوگوں پر سے ساقط ہو جائے گئ، اور اس کا وقت سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے سے زوال تک ہے (سورج وسط آسمان تک پہنچ جائے) اور سنت ہے اس کو صحرا میں پڑھنا(چٹیل میدان میں )، اور عید الاضحی میں جلدی کرنا سنت ہے اور عید الفطر میں تاخیر کرنا اور فطر کرنا(کچھ کھانا) عید الفطر میں خاص طور پر نماز سے پہلے، اور سنت ہے وہ غسل کرے صفائی اختیار کرے اور خوشبو لگائے ، جب نماز کا وقت ہو جائے تو امام آگے بڑھے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائے آزان اور اقامت کے بغیر پہلی قرات میں سات تکبیرین کہے (اللہ اکبر) تکبیر احرام ( تکبیر تحریمہ) کے ساتھ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہے تکبیر قیام کے علاوہ (جو اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑا ہوا ہے) اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے ہر تکبیر کے ساتھ (رفع الیدین) ، اور اللہ کی حمد بیان کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے ہر تکبیر کے درمیان(ہر تکبیر کے بعد االصلاة والسلام کہے) ، پھر سورتہ الفاتحہ پڑھے اور پھر کوئی اور سورتہ پڑھے اور دونوں رکعتوں میں قرات بلند آواز سے کرے ، جب سلام پھیر دے تو دو خطبے دے، اگر وہ عید الفطر ہو تو لوگوں کو صدقہ و خیرات (صدقہ فطر )پر ابھارے اور ان پر اس کا حکم واضح کرے ، اور اگر عید اضحی ہو تو انہیں قربانی کا حکم بیان کرے، اور تکبیرات زوائد(تکبیر تحریمہ کے علاوہ ) اور دونوں خطبے سنت ہیں ، اور نفل نہ پڑھے عید کی نماز سے پہلے اور نہ اس کے بعد عید گاہ میں، اور جو امام کو پا لے اس کے سلام پھیرنے سے پہلے تو وہ پورا کرے گا اس کی صفت(تکبیرات زوائد) کے ساتھ، اور جس سے عید کی نماز فوت ہو جائے تو اس پر قضاء نہیں ہے ، اگر وہ چاہے تو اسے بطور نفل کے طور پر پڑھے اگر چاہے تو دو رکعت اور اگر چاہے تو چار اور اگر وہ چاہے تو عید کی نماز کیفیت کے مطابق پڑھے(اس کی مرضی پر ہے) ۔
اور دونوں عید کی راتوں میں تکبیر مستحب ہے، اور تکبیر کہے عید اضحی میں فرائض کے بعد جماعت میں عرفہ کے دن فجر کی نماز سے ایام تشریق کے آخری دن کے عصر تک (9 ذلحجہ سے 13 ذلحجہ کے عصر تک) ، سوائے اس کے جو احرام کے حالت میں ہے وہ تکبیر کہے گا یوما النحر( 10 ذالحجہ) ظہر کی نماز سے ایام تشریق کے آخری دن کے عصر تک، اور تکبیر کی شفعا( دہری) کیفیت یہ ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر (دو بار)، لا الہ الا اللہ ( ایک بار)، اللہ (اکبر دو بار) ولله الحمد۔
تفصیل:
عید کی تثیہ ہے عیدان حالت (رفع) یا عیدین حالت (نصب اور جر ) عید کہتے ہیں اسم لما یعود ویتکرر وہ چیز جو بار بار پلٹ کر آتی ہے اس کو عید کہتے ہیں مسلمانوں کے لئے کچھ عیدین ایسی ہیں جو ہر ہفتہ آتی ہیں یعنی جمعہ کا دن کچھ عیدین ایسی ہیں جو ہر سال آتی ہیں یہ دو عیدین ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو آپ نے دیکھا مدینے والے دو دن خوشی سے منایا کرتے تھے اور وہ تھے نیروز اور مہرجان جو ایران اور فارس سے ان کے پاس آئے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے انھوں نے کہا ہم قدیم زمانے ہی سے دو دن مناتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ )) ابودؤود 1134 صحیح البانی"" اللہ نے اس کے بدلے اللہ تعالی نے تمھے دو دن عطا کیئے ہیں عید الفطر اور عید الاضحی ہے"" اسلام نے ان مناسبوں کو ختم کیا جو غیر مسلموں میں پائی جاتی ہیں اور ان مناسبوں کو رکھا جو اسلام میں پائی جاتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علامتوں کو ختم کیا جو غیر مسلموں سے ہمارے پاس آئی ہیں اور اس کے بدلے دو دن عطا کیئے جن کی مناسبتیں بہت ہی بہتر ہیں عید کی نماز کا ذکر سورتہ الکوثر میں موجود ہے (( * فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ* )) " نماز پڑھو اپنے رب کے لئے اور قربانی کرو " بعض اہل کا خیال ہے فَصَلِّ سے مراد عید کی نماز ہے اس کا ذکر قربانی کے ساتھ کیا گیا ہے اور قربانی ہم لوگ یوم النحر کو کرتے ہیں 10 ذی الحجہ کو اس کا ذکر قرآن میں ہے اور حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے اب اس کا حکم ہے یہ فرض کفایہ ہے فرض کفایہ فرض عین کے مقابلے میں ہے فرض عین کا حکم ہر عاقل بالغ پر ہے اور فرض کفایہ اس کو کہتے ہیں جو چند لوگوں نے ادا کر لیا تو باقیوں پر سے ساقط ہو جاتی ہے مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ فرض کفایہ کے سلسلے میں تین قول ہیں ۔
1: فرض عین ہے اور ان کی دلیل یہ ہے اللہ تعالی نے کہا (( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )) نماز پڑھو یہ حکم ہے تو یہ فرض ہو گیا اس کے علاوہ صحیح بخاری کی حدیث ہے ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنھا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا (( أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ، الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ. وَعَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ. وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى )) " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ عید کی نماز کے لئے نکلیں یہاں تک کہ وہ عورتیں جو ماہ واری سے ہوتی ہیں ان کو بھی یہ حکم تھا وہ عید کی نماز کے لئے نکلیں " یہ آیت اور حدیث سے وہ دلیل لیتے ہیں کہ عید کی نماز فرض عین ہے ۔
2: دوسرا قول یہ ہے کہ یہ سنت موکدہ ہے اور ان کی دلیل ہے وہ اعرابی جو صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق (( * يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُهُ عَنِ الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ". فَقَالَ هَلْ عَلَىَّ غَيْرُهَا قَالَ " لاَ، إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ*)) ""اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اللہ تعالی نے مجھ پر کیا فرض کیا ہے تو آپ نے کہا پانچ وقت کی نمازیں پھر انھوں نے پوچھا اس کے علاوہ کچھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں الہ یہ کہ تم نفل اور سنت پڑھو "" اس کا مطلب فرض عین صرف پانچ نمازیں ہیں اس کے علاوہ فرض عین نہیں ہے ۔
3:مولف رحمہ اللہ کی نظر میں یہ فرض کفایہ ہے کیونکہ اگر ہم ان دونوں قولوں کو جمع کرتے ہیں تو یا فرض عین ثابت کرتے ہیں یا سنت ثابت کرتے ہیں ان دونوں کو جمع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے یہ سنت سے افضل ضرور ہے کیونکہ قرآن میں حکم ہے پڑھو اور آپ نے کہا نکلو لیکن فرض عین نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ نے اس اعرابی کو کہا پانچ وقت کی نمازیں ہی فرض ہیں تو مولف رحمہ اللہ نے درمیانی حکم لیا وہ ہے فرض عین اور سنت کے درمیان میں ہے فرض کفایہ یہ اگرچہ کہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے فرض ہے لیکن فرض عین کے حکم میں نہیں ہے
تو انھوں نے فرض کفایہ لیا ۔
چالیس آدمی جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے کہ رہے ہیں کیونکہ مولف رحمہ اللہ کے پاس جمعہ کی نماز کے لئے چالیس آدمی شرط ہیں لیکن ہم لوگ راجح قول کے مطابق تین آدمی اگر پڑھ لیں تو وہ دوسرے تمام لوگوں پر سے ساقت ہو جائے گی یہ فرض کفایہ ہے اگر عید کی نماز میں دو آدمی ہوں تو عید کی نماز نہیں پڑھیں گے کم از کم تین آدمی چائیے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ باہر تھے قریوں میں آپ نے انہیں نہیں کہا تھا پڑھنے کے لئے کہ وہ مدینے میں آئیں ۔
سورج طلوع ہونے سے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے کا اندازہ یہ ہے دس سے پندرہ منٹ سورج نکلنے کے 15 منٹ کے بعد سے زوال تک جیسے ہی سورج درمیانی آسمان میں پہنچ جائے اس وقت تک عید کی نماز کا وقت ہے ۔
صحراہ میں پڑھنا سنت ہے اس لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں نہیں پڑھی عید کی نماز بلکہ۔آپ لوگوں کو لے کر شہر سے باہر نکلے اور آپ نے چٹیل میدان میں نماز پڑھی سنت ہے اس کو شہر کے باہر صحرا میں پڑها جائے ۔
عید الضحی جلدی پڑھی جانے کی مصلحت یہ بیاں کی جاتی ہے کہ عید الضحی میں سب سے عظیم عمل قربانی ہے عید کی نماز جلدی پڑھی جائے تاکہ لوگ قربانی کر سکیں اور عید الفطر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی مصلحت یہ ہے کہ لوگ صدقہ فطر ادا کر سکیں کیونکہ صدقہ فطر کا سب سے افضل وقت شروع ہوتا ہے عید کے دن فجر کے بعد سے لے کر عید کی نماز تک ۔
بعض اہل علم کے پاس جب کوئی چیز یسن کہا جاتی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت ہے اور یستحب کہی جاتی یے تو وہ قیاس سے ثابت ہے اس کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے لیکن وہ مستحب ہے یہاں پر یسن کہا لیکن یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے جمعہ کے لئے غسل کرنا جمعہ کے لئے مشروع ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں احادیث میں اس بات کا حکم دیا کی جمعہ کے دن غسل کیا کرو عید کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے البتہ صحابہ کے عمل سے ثابت ہے اور یہ ہی معاملہ پاکی صفائی اور خوشبو لگانے کا ہے کہ یہ چیز جمعہ کے لئے ثابت ہے لیکن دیگر مواقعہ کے لئے قیاس سے ثابت ہے جمعہ ایک اجتماع ہے وہاں لوگ جمع ہوتے ہیں کسی کو تکلیف نہ ہو تو اس وجہ سے آدمی غسل کر لے خوشبو لگائے پاکی صفائی حاصل کرے اسی طرح عیدیں بھی ایک اجتماع ہے جمعہ کی طرح قیاس یہ ہی کہتا ہے اگر وہاں اس کا اہتمام کرتے ہیں یہاں بھی کرنا چائیے ۔
ہمیں معلوم ہوتا ہے عید کی نماز دو رکعت ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے نہ آزان ہے نہ اقامت ہے اور ایک اور چیز بھی ہے کہ ولا ندا اس کے لئے پکار بھی نہیں لگائی جائے گی جیسا ندا آواز لگانے کو کہتے ہیں جیسے کہ نماز کسوف کے لئے آواز لگائی جاتی ہے اصلاة جامعة عیدین کے لئے نہ آزان ہے نہ اقامت اور نہ ہی ندا ہے ۔
عید کی نماز میں اور عام دو رکعتوں میں فرق یہ ہے عید کی رکعت میں کچھ تکبیرات ہیں جنھیں تکبیرات زوائد کہتے ہیں ان تکبیرات میں اہل علم کے 12 اقوال ہیں اور ان میں اکثر چیزیں صحابہ سے ثابت ہیں اس لئے جو سب سے اسان ہے وہ یہ ہی ہے جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول عیدین کی نماز میں سات تکبیریں کہتے تھے پہلی رکعت میں قرات سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد تکبیر تحریمہ وہ تکبیر ہے جس سے ہم نماز کا آغاز کرتے ہیں پہلے تکبیر تحریمہ کہیں گے پھر سات تکیرات کہیں گے بعض اہل علم کا اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ ہیں یا اس کے ساتھ ہی تکبیرات ہیں بعض اہل علم کہتے ہیں وہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہے جیسے کہ مولف رحمہ اللہ کا بھی یہ ہی موقف ہے کہ یہ سات تکبیرات تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہیں اس طرح ایک تکبیر تحریمہ ہو گئی اور چھے تکبیرات زوائد ہو گئی دوسرا قول ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیرات گویا وہاں پر آٹھ ہو گئی اور دوسری رکعت میں جب اللہ اکبر بول کر کھڑے ہوں گے تو پانچ تکبیرات کہیں گے گویا تکبیرات زوائد یہ کل بارہ تکبیرات ہو گئیں اور اگر ہم سات شامل کرتے ہیں اور اگر ہم چھے شامل کرتے ہیں تو یہ گیارہ ہو جائیں گے ایک قول امام ابو حنیفہ کا قول ہے وہ بھی بعض صحابہ سے ثابت ہے اور یہ چھے تکبیرات ہے دونوں رکعتوں میں پہلی تکبیر تحریمہ کے بعد قرات سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد لیکن رکوع سے پہلے تین تکبیرات بعض صحابہ سے تین تکبیرات تکبیر تحریمہ کے بعد کہیں گے اور دوسری تین تکبیریں یا تو رکوع سے اٹھنے کے بعد کہیں گے یہ بھی ایک قول ہے اور دوسرا ایک قول ہے قرات کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے لیکن اسان یہ ہے جو مولف رحمہ اللہ کا قول ہے کیونکہ اس سلسلے میں ابودؤد کی ایک حدیث ہے اور اسے اہل علم نے صحیح قرار دیا اور اس میں دونوں طرح کا احتمال ہے تکبیر تحریمہ کے ساتھ آٹھ تکبیرات یا تکبیر تحریمہ کے ساتھ سات تکبیرات تکبیر تحریمہ کے ساتھ تو ہاتھ اٹھائیں گے یہ ثابت ہے تکبیرات زوائد کے ساتھ اٹھائیں گے بعض صحابہ نے ہاتھ اٹھایا تھا ان کے طریقے پر چلتے ہوئے ہاتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے معروف ہے انھوں نے ہاتھ اٹھایا تھا جنازے کی تکبیرات میں بھی اور عیدین کی تکبیرات میں تکبیرات زوائد کا حکم سنت کا ہے اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اس وقت ملے جب کہ امام تین تکبیرات زوائد کہ چکا ہو پہلی رکعت میں ہو یا دوسری رکعت میں ہو تو اس کو چائیے کہ امام کہ ساتھ جو مل جائے اس کو کر لے جو باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دے کیوں کہ سنت جب چھوٹ جائے اس کا کوئی بدل نہیں جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں سجدہ سہو کے باب میں کہ نماز میں کچھ فرائض ہیں جن کو ہم رکن کہتے ہیں جب ہم نماز میں رکن میں کمی کر دیتے تو ہمیں لوٹانا ہو گا کچھ واجبات ہیں اور کچھ سنت ہیں اور واجبات بھولنے پر ساقط ہو جائے گا سجدہ سہو کر لیں گے اور عمدا کرنے پر نماز باطل ہو جائے گی لیکن سنت کے لئے سجدہ سہو نہیں ہے نہ ہی دوبارہ کرنا ہے اگر وہ ایسے موقع پر پہنچا ہے جب تکبیرات زوائد اسے ملی کچھ چھوٹ گئی تو جو ملی اس کو کر لے جو چھوٹ گئی اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے وہ امام کے ساتھ نماز میں مشغول ہے اپنی تکبیرات لوٹائے گا تو امام کی مخالفت ہو جائے گی جو تکبیرات اسے ملی ہیں اس میں اکتفا کر لے اور نماز میں باقی رہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی چیز پڑھنا ثابت نہیں ہے کہ دو تکبرات کے بیچ میں درود ہو صرف تکبر ہے لیکن بعض احادیث آئی ہیں جن پر اہل علم نے کلام کیا ہے ضعیف احادیث ہیں اس کی بنیاد پر مولف رحمہ اللہ کہ رہے ہیں جب اللہ اکبر کہیں گے تو الحمد للہ والصلاة السلام علی رسول کہیں گے بعض احادیث آئی ہیں اس کی بنیاد پر مولف رحمہ اللہ نے اس کو نقل کیا ہے لیکن عام طور پر جو راجح اور معروف ہے وہ صرف تکبیر ہے کچھ اور زبان سے نہیں کہنا۔
سورتہ الفاتحہ کے بعد سورتہ الاعلی پڑھے اور دوسری رکعت میں سورتہ الغاشیة پڑھے یا پہلی رکعت میں سورتہ ق پڑھے دوسری رکعت میں سورتہ القمر پڑھے کبھی یہ پڑھے کبھی وہ پڑھے تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل ہو جائے یہ افضل ہے لیکن اگر کچھ اور سورتیں پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں نماز میں اللہ تعالی نے بنیادی طور پر کہا (( * ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ* )) قرآن میں جو بھی آسان لگے وہ پڑھو " لیکن اگر اس کا خیال رکھا جائے یہ سنت کی پیروی بھی ہو گی ۔
اجتماع ہے اور لوگ جمع ہیں امام بلند آواز سے قرات کرے۔
عیدین کی نماز جمعہ کے بالکل برعکس ہے جمعہ میں پہلے دو خطبے ہیں بعد میں نماز ہے عیدین کی نماز میں پہلے نماز ہے بعد میں خطبہ ہے سلام پھیرنے کے بعد دو خطبے ہیں ۔
اگر عید الفطر کا موقع ہے تو دو خطبوں میں صدقہ فطر کے لئے ابھارے روزے میں جو انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں چھوٹی موٹی اس کو دور کرنے کے لئے اور جو مسلمانوں میں جو مساکین ہیں ان کے لئے عید کے موقع پر کھانے کا انتظام کرنے کے لئے صدقہ فطر فرض کیا گیا ہے صدقہ فطر ایک صاع ہے جو ڈھائی کلو سے تین کلو تک اناج اور غلہ ہے جو مقامی غلہ استعمال ہوتا ہے اس میں سے دے عید کی نماز کے بعد وہ عام صدقہ ہو گا صدقہ فطر نہیں ہو گا صدقہ فطر کی حیثیت ختم ہو جائے گی بعد عام صدقہ ہو گا اس کے طور پر وہ قبول ہو جائے گا صدقہ فطر کا اصل وقت شروع ہوتا ہے عید کے دن جب چاند مغرب میں نظر آ جاتا ہے اس کا افضل وقت عید کی نماز کے وقت سے پہلے ہے لیکن ایک دو دن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے خطیب کو چائیے اپنے مقام کے لوگوں کی ضرورت یا جو حاجات ہیں اس کے مطابق لوگوں کو خطبے میں بیان کرے کہ ان کو فائدہ ہو ۔
عید الضحی میں اس کا اصل عمل قربانی ہے خطیب کو چائیے اس سلسلے میں لوگوں کو بتائے کہ قربانی کیسی ہونی چائیے کس طرح کا جانور ہونا چائیے کیا شروط ہونے چائیے جانور کن عیوب سے پاک ہونا چائیے وغیرہ وغیرہ ۔
تکبیرات زوائد سنت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں یہ واضح ہے لیکن خطبوں کے بارے میں غور کیجئے یہ جمعہ کے برعکس ہے کیونکہ جمعہ کے دن دو خطبے فرض ہیں نماز کی طرح اس لئے اس کا اہتمام ضروری ہے لیکن عید کے خطبے مسنون ہیں لیکن اگر کوئی شخص جانا چاہے تو جا سکتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( إِنَّا نَخْطُبُ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ )) "ہم خطبہ دے رہے ہیں جو چاہتا ہے کہ بیٹھا رہے خطبے کے لئے تو وہ بیٹھے اور جو جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے " ابودؤد ، ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے اس حدیث کی بنیاد پر اہل علم نے کہا یہ مسنون ہے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو وہ جا سکتا ہے لیکن اگر وہ بیٹھ کر غور سے سنے کا تو وہ اس کے لئے ثواب کا ذریعہ بنے گا وہ سنت ہے یہ واجب نہیں ہے نہ سننے پر وہ ثواب سے محروم ہو گا گنہگار نہیں ہو گا ۔
علماء کے قول کے مطابق عید گاہ میں عید کی نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہے جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے عید گاہ مسجد کے حکم میں نہیں ہے البتہ عید کی نماز اگر مسجد میں پڑھی جائے گی تو تحیة المسجد پڑھیں گے اگر عید گاہ میں پڑھیں گے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے ثابت نہیں کہ انھوں نے عید سے پہلے کوئی نماز پڑھی ہو عید گاہ تحیة المسجد کے حکم میں نہیں ہے اور نہ ہی عید کے بعد۔
جمعہ میں اگر کوئی شخص امام کو دوسری رکعت کے بعد پائے یعنی سلام میں پائے تو اس موقع پر اسے ظہر پڑھنا پڑے گا لیکن عید کی نماز کو عید کی نماز کی طرح ہی پورا کرے گا اگر وہ سلام میں پہنچا تو وہ سلام میں بیٹھ جائے گا امام کے ساتھ امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ کھڑا ہو گا اس کے بعد پہلی رکعت میں سات تکبیرین کہے گا اور دوسری رکعت پانچ تکبیرات کہے گا عید کی نماز کی کیفیت کے مطابق وہ پورا کرے گا اور وہ لوگ بھی جن کو سلام بھی نہیں ملا جو دیر سے پہنچے اور وہ لوگ بھی جو گھروں میں رہے تو وہ بھی عید کی نماز کو اسی طرح پورا کریں گے اب ان کا حکم مختلف ہو گا جن کے پاس یہ فرض عین ہے اس کی قضاء واجب ہو گی جن کے پاس فرض کفایہ ہے ان کے لئے قضاء کرنا ضروری نہیں ہو گا کیونکہ کچھ لوگوں نے ادا کر لیا فرض کفایہ یہ ہی ہے کہ کچھ لوگوں نے ادا کر لیا تو وہ کافی ہے دوسرے لوگوں کے لئے ضروری نہیں ہے اور جن کے پاس سنت ہے وہ مسنون ہو گی چاہے تو وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں ان کے پاس اختیار ہو گا راجح قول یہ ہے یہ فرض کفایہ ہے جیسا کہ مولف رحمہ اللہ نے کہا ہے اس سلسلے میں دلاہل میں بہت اختلاف ہے اس سلسلے میں اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ بات ثابت ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب کسی وجہ سے عید کی نماز کے لئے نہیں پہنچ سکے تھے تو انھوں نے اپنے گھر میں اپنے بچوں اور غلاموں کو جمع کیا اور ان میں سے عبد ابن عتبہ رحمہ اللہ آگے بڑھے اور انھوں نے عید کی نماز پڑھائی گویا انھوں نے اپنے گھر میں بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔
عید کے موقع پر دو طرح کی تکبیرات ثابت ہیں ک 1):تکبیر مطلق : جو فرض نمازوں کے بعد کے ساتھ وہ مقید نہیں ہے کوئی قید نہیں انسان جب چاہے اسے کہ سکتا ہے عید الفطر کی رات میں کہیں گے اور عید الاضحی کی رات میں کہیں گے پورا ذی الحجہ کے دس دن بعض قول کے مطابق ذی الحجہ کے پورے تیرہ دن اس کا فرض نمازوں کے بعد سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انسان کو جب موقع ملے گا گھر، بازار، آفس ، چلتے ہوئے بیٹھے ہوئے جہاں بھی ہو وہ پڑھ سکتا ہے۔
2): تکبیرات مقیدہ : یہ فرض نمازوں کے بعد کہا جائے گا یہ عید الاضحی کے موقع پر مسنون ہے عرفہ کے دن نو ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کے عصر تک یہ فرض نمازوں کے بعد تین دفعہ کہیں گے بلند آواز سے محرم کے لئے یوم النحر سے ظہر کی نماز سے شروع کرے گا کیونکہ وہ نو ذی الحجہ کو تلبیہ کہنے میں مصروف ہے تیرہ ذی الحجہ کے عصر تک ہر فرد کہے گا امام اور مقتدی دونوں کہیں گے یہ صحابہ سے ثابت ہے ۔
تکبیرات کی کیفیت شفع ہے دو دو بار
1):اللہ اکبر دو دفعہ
2):لا الہ الا اللہ ایک بار
3) :اللہ اکبر دو بار
4):وللہ الحمد ایک بار
اللہ تعالی نے قرآن مجید فرمایا (( وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون )) " تاکہ تم اللہ کی تکبیر بلند کرو کہ اللہ تعالی نے تمھے ہدایت دی تاکہ تم شکر گزاری کرو" ان تکبیرات کے سلسلے میں اہل علم دلیل لیتے ہیں اس کی کیفیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ مختلف صحابہ سے ثابت ہیں لیکن زیادہ تر جو معروف ہیں وہ یہ ہی ہیں اس کے بعد جو معروف ہے وہ تین مرتبہ اللہ اکبر پھر لا الہ الا اللہ پھر دو بار اللہ اکبر پھر وللہ الحمد اس کے علاوہ اللہ اکبر کبیرا الحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرة واصیلا یہ بھی ثابت ہے کبھی یہ پڑھ سکتے ہیں کبھی وہ پڑھ سکتے ہیں
|
عمدة الفقه
|
کتاب الزكاة
کتاب: مستقل مسائل کے مجموعہ کو کتاب کہتے ہے جس میں ابواب اور فصول شامل ہوتے ہے ۔
*اور وہ واجب ہے (زکوة واحب ہے ) ہر مسلمان پر جو آزاد ہو نصاب کا مالک ہو مستقل اور پوری طرح ملکیت رکھتا ہو اور کسی مال میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے سوائے زمین سے نکلنے والی چیزوں کے، اور نصاب کا اضافہ جو جانوروں کی اولاد میں ہو اور تجارتی فائدے میں ، اس لئے کہ ان کا سال ان کے اصل کا سال ہے (حولھما اس کی ضمیر تثنیہ النتاج اور والربح کی طرف رہی ہے یعنی جانوروں کی اولاد تجارتی فائدے کا سال) ان کے اصل کا سال ہو گا ان کے اصل کے اعتبار سے ہو گا، زکوة واجب نہیں ہوتی مگر چار قسم کے مالوں میں: 1چرنے والے چوپایوں میں ، 2 زمین سے نکلنے والی چیزوں میں، 3 نقدی میں، 4 تجارتی اموال میں ، اور زکوة واجب نہیں ہے ان میں سے کسی چیز پر یہاں تک کہ وہ نصاب کو پہنچ جائے ، اور جو نصاب سے زیادہ ہو اس کی زکوة اس کے حساب کے مطابق واجب ہے سوائے چرنے والے جانوروں کے ان کے درمیانی تعداد میں کوئی زکوة نہیں ۔
اوقاصھا کا معنی : اوقاص جمع ہے وقص کی اور وقص کہتے ہیں دو فریضوں کے درمیان جو تعداد ہوتی ہے مثلا بکریوں میں زکوة واجب ہوتی ہے اس وقت جب ان کی تعداد چالیس ہو چالیس بکریوں میں ایک بکری اگر 39 بکریاں ہوں گی تو کوئی زکوة نہیں ہے اور پھر 120 تک ایک ہی بکری ہوتی ہے چالیس ہوں تب بھی ایک بکری پچاس ہوں تب بھی ایک بکری سو میں ایک بکری ایک سو دس میں ایک بکری ایک سو بیس میں بھی ایک بکری اور 121 ہو جائیں تو دو بکریاں 41 سے لے کر 120 تک کے درمیان کو وقص کہتے وقص دو فریضوں کے درمیانی عدد کو وقص کہتے ہیں دو فریضوں کے درمیانی عدد میں کوئی زکوة نہیں ہے۔
زکوة یہ مصدر ہے زکا یزکو کا اس کے دو معنی بہت معروف ہیں
1) : النماء یعنی اضافہ ہونا زیادتی ۔
2): الطہارة یعنی پاکی۔
جب کھیت میں فصل تیار ہو کر لہلہانے لگتی ہے زکا الزرع کھیتی میں اضافہ ہو گیا یہ بڑھنے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور جہاں تک پاکی کے معنی میں ہے قرآن میں آتا ہے ( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ) کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا " یہ لفظ پاکی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے
لغت میں یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک زیادتی اور دوسرا پاکی
لغوی طور پر جو معنی پائے جاتے ہیں زکوة میں وہی معنی پائے جاتے ہیں زکوة کے معنی ہیں جو لغوی طور پر کیا عملا جب ہم ادا کرتے ہیں تو اس میں وہ معنی پائے جاتے ہیں (( مَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ)) جو سود تم دیتے ہو تاکہ مال میں اضافہ ہو اللہ کے پاس اس سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا لیکن تم زکوة دیتے ہو اللہ تعالی کی رضامندی کے لئے وہی اس کو بڑھانے والے ہیں " اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زکوة دینے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے جہاں تک طہارت کے معنی میں ہے (( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا)) ان لوگوں کے مال سے صدقہ دیجئے تاکہ آپ ان کو پاک و صاف کریں زکوة دینے سے انسان کا مال اور نفس دونوں پاک ہوتے ہیں انسان کا مال بخل سے پاک ہوتا ہے اور دوسری باتوں سے پاک ہو جاتا ہے بہت سے معنی ہیں اس میں بہر حال جو لغوی معنی ہیں وہ زکوة میں پائے جاتے ہیں ۔
زکوة کی اصلاحی تعریف:
التعبد لله تعالی باخراج حق واجب فی مال خاص لطائفة مخصوصة فی وقت مخصوص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے واجب حق کو ادا کرتے ہوئے خاص مال میں خاص طرح کے مال میں خاص لوگوں کے لئے (زکوة کے مستحقین جو آٹھ قسم کے لوگ ہیں ) خاص وقت میں نکالی جاتی ہے اللہ تعالی کی عبادت کرنا واجب حق کو ادا کرتے ہوئے۔
تفصیل :
واجب کے کئی درجات ہیں جو ارکان میں شمار کیئے جاتے ہیں اور یہ وہ واجب ہے جو رکن میں شمار ہوتا ہے زکوة اسلام کا تیسرا رکن ہے توحید اور نماز کے بعد زکوة ہے قرآن مجید میں اہل علم کہتے ہیں زکوة کا لفظ 30 دفعہ استعمال ہوا جس میں 27 دفعہ اس کا استعمال نماز کے ساتھ ہو (( وَأَقِيمُوا الصَّلَاة وَآتُوا الزَّكَاة)) جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے نماز کے بعد اسلام میں سب سے اہم چیز زکوة ہے اللہ تعالی نے مختلف عبادتیں فرض کی ہیں کچھ عبادتیں ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کے جسم سے ہے جیسے کہ نماز اور کچھ عبادتیں ایسی ہیں جن کا تعلق مال سے ہے جیسے کے زکوة اور کچھ عبادتیں ایسی ہیں جس کا تعلق جسم اور مال دونوں سے ہے جیسے حج عمرہ اور کچھ عبادتیں ایسی ہیں جس کا تعلق نفسانی خواہشات کی قربانی سے ہے روزہ جس میں انسان کھانا پانی اور شہوت سے اپنے آپ کو دور کرتا ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کی ہر طرح سے آزمائش ہو کیونکہ بعض لوگ ایسے ہیں جو بہت نماز پڑھیں گے لیکن مال خرچ کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا ان کے دل میں بخل ہوتا ہے بعض لوگ ایسے مال خرچ کرتے ہیں لیکن نماز کی طرف مائل نہیں ہوتے اللہ تعالی بندوں کو ہر طرح سے آزماتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر آزمائے جائیں کہ واقعی وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں کہ نہیں کرتے اس کے علاوہ انسان کی طبیعتیں مختلف ہیں کسی کی طبیعت نماز کی طرف بہت مائل ہوتی ہے نماز اسے بہت محبوب ہوتی ہے کسی کی طبیعت زکوة کی طرف مائل ہوتی ہے مال بہت محبوب ہوتا ہے اسے لیئے اللہ تعالی نے انسان کو موقع دیا ہے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ۔
جس چیز کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے اس میں نوافل کی طرف توجہ دے اگر زکوة کے ساتھ کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے تو صدقہ و خیرات کرے نماز کے ساتھ کچھ پڑھنا چاہتا ہے تو نوافل کا اہتمام کرے جنت کا وہ دروازہ اس کے لئے خاص ہو جائے جس عمل کو وہ زیادہ کرے گا خصوصیات کے ساتھ اس عمل کو اپنائے گا وہ دروازہ اس کے لئے کھلے گا جنت کا اس طرح اللہ تعالی نے انسان کا امتحان لیا ہے زکوة اوجب واجبات میں سے ہے واجب میں جو ارکان ہیں اس میں سے ایک رکن ہے جیسا کہ اس کے بارے میں بہت سی آحدیث ہیں اوپر گزر چکی ہیں ۔
زکوة واجب ہے اگر کوئی شخص اس کی فرضیت کا انکار کرتا ہے کہ زکوة فرض نہیں ہے کیونکہ اس کو کہتے ہیں معلوم من الدین بالضرورة دین میں جو معروف بات ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہوتی اگر اس کا کوئی انکار کرتا ہے اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ رہتا ہے مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہے تو وہ کافر ہوتا ہے لیکن اگر وہ قریب میں اسلام لایا ہے یا مسلمانوں سے دور کسی ملک میں رہتا ہے ابھی اسلام کے احکام اس تک نہیں پہنچے اس شخص کو کافر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ لاعلم ہے اس کو بتایا جائے گا اور آگر کوئی وجوب کا انکار کرے بغیر اس کو ادا نہیں کرتا تو وہ بہت بڑا گنہار ہے اس سے زبردستی لی جائے گی اس کو قید میں ڈالا جائے گا لیکن اگر زکوة کا انکار کرنے والوں کی جماعت بن جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم زکوة نہیں دیں گے مسلمان باقاعدہ اس کے ساتھ جہاد کریں گے جیسا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جہاد کیا تھا یہ کہ کر جیسے نماز جسم کا حق ہے ویسے زکوة مال کا حق ہے یہ زکوة کے وجوب کی تفصیلات ہیں یہ جن پر واجب ہیں اس کی انھوں نے چار شرطیں رکھی ہیں ۔
1): مسلمان ہو مسلمان کے مقابلے میں کافر ہوتا ہے کافر سے زکوة قبول نہیں ہو گی جو چیز مانع ہوئی ہے ان کے نفعقات کے قبول کرنے میں وہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے ہیں زکوة ان پر فرض ہے لیکن زکوة ان سے قبول نہیں ہو گی اسلام کے فرائض ان پر ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے زکوة نہ دینے کی وجہ سے آخرت میں ان کا حساب بھی ہو گا زکوة دیں گے تو زکوة ادا نہیں ہو گی لیکن آخرت میں نہ دینے پر ان کا حساب بھی ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عذاب میں اضافہ میں اضافہ ہو گا ۔علماء اس کی یہی تشریح کرتے ہیں اگر وہ دنیا میں خیرات کرتے ہیں تو دنیا میں ان کی تعریف ہو گی ان کی نیک نامی ہو گی ان کو مقام و مرتبہ حاصل ہو گا لیکن آخرت میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا الہ یہ کہ اگر وہ اس کے بعد مسلمان ہوتے ہیں انھوں نے جتنے بھی نیکی کے کام کیئے تھے وہ سب ان کے حساب میں شامل ہو جائیں گے کافر جب کفر سے اسلام میں داخل ہوتا ہے جو نیکیاں کی ہوتی ہیں ان نیکیوں کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور جو برائیاں کی تھیں ان کی مغفرت کے ساتھ وہ داخل ہوتا ہے اگر وہ کفر کی حالت میں وفات پاتا ہے تو اس کی ساری چیرٹی ساری نیکیاں جو اچھے کام لوگوں کے لئے کیئے تھے اللہ کے پاس کوئی فائدہ نہ ہو گا لیکن لوگوں کے پاس اس کی نیک نامی ہی اس کا فائدہ ہو گا ۔
2): آزاد کا جس کی ضد غلام ہے غلام پر زکوة فرض نہیں ہے اس لئے کہ وہ مال کا مالک نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود ملکیت ہے اپنے مالک کی ملکیت ہے اگر وہ مال کا مالک ہے تو اس کا مالک بھی اس کے مال کا مالک ہوتا ہے اس لئے اس پر زکوة نہیں ہوتی ہر مسلمان پر فرض ہے جو آزاد ہے۔
3) : نصاب کا مالک ہو نصاب اس مقدار کو کہتے ہیں جو زکوة کے واجب ہونے کے لئے مال کی کم سے کم مقدار ہے ۔ اللہ تعالی نے مال کی کم سے کم مقدار مقرر کی ہے اس کو نصاب کہتے ہیں مثلا سونے کا نصاب بیس دینار ہے یعنی 85 گرام عام طور پر اس کو ساڑھے سات تولے سونا بولتے ہیں اور چاندی کا نصاب ہے دو سو درھم یعنی 595 گرام اس کو عام طور پر بولتے ہیں ساڈھے باون تولے چاندی ۔لیکن تولہ ملک کے اعتبار سے زرا مختلف ہو جاتے ہیں کسی کے پاس آٹھ گرام ایک تولہ ہوتا ہے کسی کے پاس دس گرام ایک تولہ ہوتا ہے کہیں گیارہ گرام ہے تولہ مختلف ہو سکتا ہے اس لئے زیادہ بہتر اور افضل اور زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ گرام کو بنیاد بنایا جائے گرام مختلف نہیں ہوتے ۔ اور اسی طرح زرعی پیدا وار ہے جو غلہ اور اناج ہے اس کا نصاب ہے پانچ وسق یعنی 300 صاع یعنی چھے سو باون کلو گرام ۔اگر ہم دکتور قرضاوی کی تحقیق کے مطابق وسق کو صاع کو وزن میں لیتے ہیں تو اہل علم کا کچھ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن دکتور قرضاوی جنھوں نے فقہ الزکاة کتاب لکھی ہے اس میں انھوں نے چھے سو باون لکھا ہے اس کی بنیاد پر چھے سو باون ہے اگر کسی کے پاس اگر زرعی پیداوار ہے چھے سو باون کلو وہ پیداوار ہوتی ہے تو اس پر زکوة ہوتی ہے اگر اس سے کم ہوتی ہے تو نہیں ہو گی چھے سو باون سے اوپر جتنی بھی ہو گی اس پر زکوة ہو گی
ملکیت تامہ ہو مستقل اور پوری ملکیت ہو مثلا غلام مکاتبت کرتے ہیں اپنے آقا سے معائدہ کرتے ہیں کہ ہم فلاں رقم دیں گے تو ہم کو آپ آذاد کر دیں گے کوئی غلام اپنے مالک سے معائدہ کرتا ہے کہ ایک لاکھ ریال کے بدلے میں آپ مجھے آزاد کر دیں گے اور اس میں سے اس نے دس ہزار ریال دیئے اور اسے ابھی 90 ہزار ریال دینا ہے اگر ایک سال گزر جائے اور 90 ہزار ریال جو اس کو دینا ہے مالک پر اس کی زکوة نہیں ہو گی کیوں کہ اس 90 ہزار پر اس کی ملکیت تامہ نہیں ہے معائدہ ہو چکا ہے معائدے کے حساب سے وہ مال اس کے پاس آنا ہے لیکن اب تک اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ملکیت تامہ ہونے کی دو شرطین ہے ایک تو وہ اس کا مالک ہو دوسرا وہ اس پر تصرف کر سکتا ہو لین دین کر سکتا ہو اس کو کہتے ہیں تصرف مثال کے طور پر بعض کمپنیوں میں تنخوائیں میں دیر ہو جاتی ہے کسی کمپنی میں تنخوائیں دو تین سال تک لیٹ ہو گئیں اور ایک سال تک اس کی تنخواہ نصاب تک پہنچ گئی دو سال ہو گئے اور نصاب پر پہنچ کر ایک سال بھی ہو گیا اس پر زکوة نہیں ہو گی کیونکہ اس کی ملکیت تامہ نہیں ہے کیوں کہ وہ مال اس کی ملکیت میں نہیں آیا اور اس کا تصرف نہیں ہے اسی طرح جو لوگ حکومتوں میں یا کمپنی میں کام کرتے ہیں ان کے نکالنے کے وقت پر ان کو جو پیسے دیئے جاتے ہیں اس پر بھی کوئی زکوة نہیں ہے کیونکہ اس کی ملکیت تامہ میں نہیں آیا وہ یہ مفہوم ہے ملکیت تامہ کا۔
اگر میری ملکیت میں مال تھا اور میں نے کسی کو دیا قرضہ اس کی دو قسمیں ہیں قرضہ کسی ایسے شخص پر ہو جو مال دار ہے اور دوسرا یہ کہ وہ قرض کا اعتراف کر رہا ہے تو گویا یہ مال میرے اکاؤنٹ میں جو مال ہے اس کی طرح ہے کیونکہ وہ شخص مال دار ہے جس کو پیسہ دیا میں اپنے اکاؤنٹ میں رکھتا یا اس کے اکاؤنٹ میں رکھتا ایک ہی بات ہے مال دار بھی ہے اور وہ قرض کا اعتراف بھی کرتا ہے اور قرض کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شخص کو قرض دیا ہے جو کہ غریب ہے پتہ نہیں ادا کرے گا کہ نہیں کرے گا یا پھر یہ کہ وہ انکار کر رہا ہے کہ آپ نے مجھے دیا کہ نہیں دیا ایسے قرض پر زکوة نہیں ہو گی لیکن وہ مال مل جائے تو بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس موقع پر چاہے پانچ سال بعد ملے یا دس سال بعد ملے تو اس موقع پر ایک سال کی زکوة دیں گے لیکن بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ملنے کے بعد جب ایک سال گزر جائے گا تب ایک سال کی زکوة دے گا ۔
اسی طرح جو گھروں پر ڈپوزٹ دیا جاتا ہے جب تک وہ اس کے تصرف میں ہے ملکیت میں ہے مال ہے اس میں تصرف کا حق ہوتا ہے اس لئے اس کی زکوة بھی دی جائے گی یہ ایسے ہی ہے جیسے بنک سے قرض لیا ہے جبکہ بنک کو واپس کرنا ہے لیکن جب وہ مال ہے اور مجھے تصرف کا حق ہے تو زکوة ہو گی جیسا کہ میرے پاس دوسرے مال کی زکوة ہوتی ہے۔
4): اور کسی مال میں زکوة نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے حدیث ہے (( (لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول) [ رواه أبو داود )) کسی مال پر زکوة نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس پر سال گزر جائے" نصاب پر پہنچنے کے بعد سال گزرنا 85 گرام سونا ہونے کے بعد سال گزرنا اور ھجری سال (( يسألونك عن الأهلة قل هي مواقيت للناس)) وہ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ دیجئے وہ لوگوں کے وقتوں کے مقرر کرنے کا ذریعہ ہے اسلامی جتنے بھی احکام ہے چاہے وہ ھجرت کے ہوں زکوة کے ہوں وہ ھجری سال کے اعتبار سے ہوں گے ایک ھجری سال گزرنا کیونکہ وہ ہی ہمارے لئے مواقیت ہے ۔
اہل علم کہتے ہیں رمضان میں نیکیوں کا اجر زیادہ ہوتا ہے اس لئے کہتے ہیں زکوة نکالیں لیکن اس میں فرق ہے مثال کے طور پر مجھ پر شعبان میں زکوة فرض ہو گئی میرا مال شعبان میں نصاب کو پہنچا اور اس پر ایک سال گزر گیا تو شعبان میں مجھ پر نکالنا ضروری ہو گیا اگر میں رمضان کے برابر کرنا چاہتا ہوں تو میں ایک مہینے کی زکوة. كا اضافہ کر دوں گا اس کے بعد آئندہ رمضان میں کر لوں گا لیکن اگر مجھ پر شوال میں فرض ہوتی ہے لیکن میں رمضان کی فضیلت کی وجہ سے ایک مہینہ پہلے دے دیتا ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے زکوة پہلے ادا کی جا سکتی ہے زکوة کے اخراج کا اصل تعلق سال کے پورا ہونے سے ہے ۔
انھوں نے سال کے گزرنے سے چند چیزوں کو مستثنی کیا ہے سوائے اس کے جو زمین سے نکلنے والی پیدا وار ہے اناج یا پھل اس کے لئے سال کا گزرنا شرط نہیں ہے جب ان کی فصل کٹے گی تب زکوة نکالیں گے اللہ تعالی نے سورتہ الانعام 141 میں فرمایا (( وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ)) " اور فصل کے کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو " اسی وقت اس کو زکوة نکالیں گے جب اس کو کاٹیں گے اگر فصل دو سال میں ہو رہی ہے تو دو سال ہی میں اس کی زکوة ہو گی اگر چھے مہینے میں ہو رہی ہے تو چھے مہینے میں زکوة ہو گی اور اسی طرح زمین سے نکلنے والی معدنیات ہیں ان کے لئے بھی سال کا گزرنا شرط نہیں ہے اسی طرح وہ خزانے یا دفینی جو زمین میں مدفون ہوتے ہیں اس پر بھی سال گزرنا شرط نہیں ہے لوہا اور کوئلہ بھی معدنیات میں آتا ہے معدنیات کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے معدنیات چاہے وہ بہنے والی ہوں جیسا کہ پٹرول ہے تار کول ہے اگر وہ شخصی ملکیت میں ہے تو اس پر زکوة ہے اور اگر حکومت کی ملکیت ہے تو زکوة نہیں ہے کیونکہ حکومت کا مال پوری قوم کا مال ہے معدنیات دو قسم کی ہیں ۔
1): ماء سائل یعنی بہنے والی ہیں ۔
2) : جامد جیسے کوئلہ ، حقیقت میں سونا چاندی بھی ایک معدنیات ہے لیکن سونا چاندی مال میں شامل ہو گا مگر جو زمین سے نکلتا ہے اور جتنی بھی قسم کی معدنیات ہیں سب پر زکوة ہے ۔
پہلی زرعی پیداوار ہے دوسری جس چیز کو مستثی کیا ہے اور نصاب میں اضافہ ہوتا ہے جانوروں کی اولاد سے اس میں بھی سال گزرنا شرط نہیں ہے مثال کے طور پر کسی آدمی کے پاس 40 بکریاں تھیں سال کے ابتداء میں اور سال گزر گیا اس پر تو اس نے 40 بکریوں میں ایک بکری زکوة نکالی اب 40 بکریوں کے بعد ان بکریوں میں اضافہ ہوتا گیا درمیان میں ایک مہینے میں اضافہ ہوا یا دو مہینے میں اضافہ ہوا یہاں تک جب سال گزرا اس کے پاس 130 بکریاں تھیں لیکن 40 بکریوں پر سال گزرا باقی بکریوں پر جو اضافہ ہوا اس پر سال نہیں گزرا اسی لئے انھوں نے جانوروں کی اولاد پر سال کے گزرنے پر مستثی کیا جانوروں کی اولاد میں جو اضافہ ہوتا ہے اس میں سال گزرنا شرط نہیں ہے اصل اگر یہ 40 بکریاں نہ ہوتیں تو ان میں اضافہ بھی نہ ہوتا جو اضافہ ہوا وہ ان بکریوں کی وجہ سے ہے اس لئے جو درمیان میں اضافہ ہو گا ان پر بھی زکوة ہو گی سال کے درمیان میں جانوروں میں جو اضافہ ہوتا ہے ان کو باقاعدہ جمع کریں گے اور زکوة لیں گے اگر وہ نصاب کو پہنچتے ہیں کیونکہ ان کا سال ان کے اصل کا سال ہے ۔
اسی طرح جو تجارت پر فائدہ ہوتا ہے مثال کے طور پر زکوة تین لاکھ پر فرض ہوتی ہے اس کے مال میں ایک سال میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ سال جب مکمل ہوا تو اس کے پاس تیس لاکھ تھے تین لاکھ کی جگہ جبکہ تین لاکھ پر سال گزرا ہے باقی فائدے درمیان میں ہوئے اس پر زکوة ہو گی کیوں کہ اس کو بھی مستثی کیا کیوں کہ ان کے پاس تیس لاکھ جو ہیں وہ تین لاکھ کی وجہ سے ہوئے ہیں تجارتی فائدے میں جو درمیان میں اضافہ ہوتا ہے اس درمیان کے اضافے پر بھی زکوة ایسی ہو گی تیس لاکھ پر زکوة ہو گی ۔
مال مستفاد : پہلی قسم وہ مال جس کا اضافہ درمیانی سال میں ہوتا ہے جو اصل مال کا نتیجہ ہو اس کی پہلی قسم یہ ہے کہ مال میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ اصل کا نتیجہ ہے مثال کے طور پر کسی کے پاس بکریاں ہیں اور درمیان میں ان کا اضافہ ہوا تو اس میں اصل کے اعتبار سے جو اضافہ ہو گا اس پر زکوة ہو گی اسی طرح تجارتی مال میں جو اضافہ ہوتا ہے اس کے اصل کا جو سال ہو گا وہ اضافہ کا سال مانا جائے گا یعنی وہ اصل مال کا نتیجہ ہو ۔
مال مستفاد کی دوسری قسم یہ ہے جو مال میں اضافہ ہوتا ہے وہ اسی مال کی جنس سے ہے لیکن اس مال کا نتیجہ نہیں ہے مثال کے طور پر میرے پاس تنخواہ کی کچھ رقم ہے نصاب کو پہنچا ہوا مال ہے اس میں سے کچھ بچا اور اس کے بعد وراثت سے بھی کچھ مال میرے پاس آیا پھر کچھ مال میرے پاس ہدیہ کے ذریعہ آیا جو ہدیہ کے ذریعے آیا وہ میرے کسی مال کا نتیجہ نہیں ہے یعنی تنخواہ کا نتیجہ نہیں ہے لیکن جنس وہی ہے یعنی میرے پاس مال اسی جنس سے ہے لیکن کسی چیز کا نتیجہ نہیں ہے اس کے سال کا ہمارے پاس اختیار ہے یا تو ہر مال کا الگ سے نصاب رکھیں اور ہر مہینہ الگ حساب کریں یا ان سب کا ایک ساتھ حساب کریں یعنی سال گزرنے کے بعد جتنا مال ہوا ہے اس مال کی ایک ساتھ زکوة دے دیں اس میں سے جس مال پر ایک سال گزر چکا اس کی زکوة تو ہو جائے گئ جس پر سال نہیں گزرا اس کی زکوة پہلے ادا ہو جائے گی یعنی وہ مال جو اسی مال کی جنس سے ہے لیکن اس مال کا نتیجہ نہیں ہے اس کے سال کے حساب کرنے میں مجھے اختیار ہے یا ہر مال کا الگ سے حساب کروں یا جتنا بھی مال ہے چاہے تنخواہ ہے ہدیہ کا مال ہے وراثت کا مال ہے سب کو جمع کروں اور سب کی زکوة اکٹھی نکال دوں بہتر یہ ہے کہ ایک ساتھ جتنا بھی مال ہے اس کی زکوة نکال دے ۔
مال مستفاد کی تیسری قسم: مال مستفاد کی جنس الگ ہو جیسے کسی کے پاس بکریاں تھیں ان میں اضافہ ہوا اس کے پاس مال تھا سونا تھا کچھ نقدی کا اضافہ ہو گیا تو اس میں ہم ایک دوسرے کو آپس میں نہیں ملائیں گے ہر ایک کا الگ الگ حساب مانا جائے گا۔
|
عمدة الفقه
|
کتاب الزکاة
سبق کا نشان 📌
مثال کا نشان 🔺
بھیمة الانعام کا نشان 🔹
جن کی زکوة نہیں ہے اس کا نشان ❌
زکوة کس پر واجب :
1: مسلمان ہو کافر پر واجب نہیں ہے قبول بھی نہیں ہو گی۔
2: آزاد ہو غلام نہ ہو کیونکہ وہ مال کا مالک نہیں ہوتا اس کا مال مالک کا مال ہوتا ہے۔
3: نصاب کا مالک ہو شریعت میں ایک مقدار ہے کم سے کم مقدار کو نصاب کہتے ہیں ۔
یعنی یہ ملک نصاب ہے:
📌سونا : 85 گرام یعنی 20 دینار ۔
📌چاندی : 595 گرام 200 درھم ۔
📌 اونٹ کا نصاب ہے کم از کم 5 اونٹ ہوں۔
یہ مال پوری طرح اس کے تصرف میں ہو۔
4: کسی مال پر زکوة نہیں ہو گی الہ یہ کہ سال گزر جائے نصاب کا مالک ہونے کے بعد سال گزرے ۔
📌زمین سے نکلنے والی کھیتی ،غلہ گیہوں ، چاول وغیرہ جب فصل کاٹیں گے تب زكوة نکالیں گے سال شرط نہیں ہے اور زمینی خزانے ہیں یعنی رکاز جب ملے گا اس میں سے خمس نکال دیں گے اس میں سال شرط نہیں ہے پانچوں حصہ نکال دیں گے اگر حکومت کا مال ہے تو وہ لوگوں کا مال ہے اس پر زکوة نہیں ہے اگر بادشاہی حکومت ہے تو وہ زکوة دے گا وہ شخصی حکومت ہے اگر کوئی کمپنی نکالتی ہے تو وہ زکوة دے گی ۔
📌 چوپایوں کی اولاد کا سال کے درمیان میں اضافہ ہوتا ہے مثال کے طور پر
🔺بکری کا نصاب 40 بکریاں ہیں تو ایک بکری دے گا 120 تک ہو جائیں تب بھی ایک بکری ہی دے گا ۔
🔺ایک سال بعد 121 بکریاں ہو گئیں تو وہ 2 بکریاں دے گا حالانکہ 40 بکریوں پر سال گزرا درمیان والی بکریوں پر سال نہیں گزرا لیکن وہ 40 بکریوں کا نتیجہ ہے درمیان کا اضافہ اصل کے تابع ہے ان کے ماں کا جو سال ہو گا وہی نصاب ہو گا ۔
📌: تجارت شروع کی دس لاکھ سے اس پر زکوة فرض ہے سال میں رقم بڑھتی رہی یہاں تک کہ سال گزر گیا تو پچاس لاکھ ہو گے تو سال تو دس لاکھ پر گزرا لیکن زکوة سارے مال پر ہو گی چالیس لاکھ کا اضافہ ہوا سال کے درمیان میں یہ دس لاکھ کے نتیجے میں ہے ۔
📌تجارتی فائدہ اور جانوروں کی اولاد جو سال کے درمیان میں ہوتی ہے ان کے لئے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ ان کے جو اصل کا سال ہے وہی ان کا سال شمار ہو گا۔
📌 : ہر مال میں زکوة واجب نہیں ہے چار قسم کے مال پر زکوة واجب ہے ۔
1): 🔺عام چرا گاہوں میں چرنے والے چوپائے ۔ عربی میں بھیمة الانعام تین قسم کے جانوروں کو کہتے ہیں ۔
🔹اونٹ ۔
🔹گائے بھینس
🔹بکری بھیڑ تمام قسم کی بکریاں آ جائیں گی جو بکری کی نسل سے ہوں
❌ گھوڑے ، خچر، ہرن وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
❌ : جن چوپایوں کو ہم خود خرید کر چارہ دیتے ہیں ان پر زکوة نہیں ہے ۔
( اگر کوئی جانوروں کی تجارت کرتا ہے تو وہ تجارت کا مال نصاب کو پہنچ جائے وہ تجارتی مال کی طرح ہو گی جیسے ہاتھی، گھوڑا وغیرہ وغیرہ ) ۔
📌: زمین سے نکلنے والی چیزیں خزانے ، معدنیات، غلہ اور اناج اس پر زکوة فرض ہے ۔
📌: نقدی، سونا، چاندی روپیہ ،پیسہ، درھم اور دینار وغیرہ وغیرہ زکوة میں شامل ہیں۔
📌: تجارتی مال
عروض التجارة کے معنی ہیں ما یعد الانسان للبیع وہ سامان جو انسان کےلئے جمع کرتا ہے تو جس کے ذریعے تجارت کرتا ہے ۔
📌 جن چار چیزوں کا ذکر کیا ہے اس میں تب تک زکوة نہیں ہوتی جب تک کہ وہ نصاب کو پہنچ جائے ۔
📌 جو نصاب سے زیادہ ہو اس پر اسی حساب سے زکوة ہو گی مثلا
🔺اگر کسی کے پاس 85 گرام سونا ہے تو اس پر زکوة فرض ہے اور اگر کسی کے پاس 100 گرام سونا ہے تو اس کی زکوة اسی حساب ہو گی وہ پورے سو گرام پر زکوة نکالے گا ڈھائی پرسنٹ نکالے گا ۔
🔺اسی طرح غلے پر 652 کلو گرام پر زکوة ہوتی ہے لیکن اگر کسی کے پاس آٹھ سو کلو گرام پیدا ہوتا ہے تو وہ پورے آٹھ سو کلو گرام کی زکوة نکالے گا ۔
📌 سوائے عام چراگاہوں میں چرنے والے چوپائے ان کے وقص میں کوئی زکوة نہیں ہے ۔
🔺وقص کے معنی دو نصابوں کے درمیان کی تعداد مثال کے طور پر بکری کا نصاب 40 پر ایک بکری 121 پر دو بکریاں اگر کسی کے پاس 90 ، 119 یا 120 بکریاں ہوں تو ان پر ایک ہی بکری ہو گی درمیانی مقدار میں کوئی زکوة نہیں جب دوسری مقدار میں پہنچیں گے تبھی زکوة ہو گی۔
|
عمدة الفقه
|
الفقة
باب زکاة السائمة
عام چراہ گاہوں میں چرنے والے چوپایوں کی زکوة کا باب۔
اور وہ چرنے والے چوپائے اور وہ تین قسم کے ہیں ۔
احدھا: اونٹ : اس میں زکوة واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ پانچ اونٹ ہو جائیں، اس میں ایک بکری واجب ہو گی ، اور دس اونٹ میں دو بکریاں واجب ہوں گی، اور پندرہ اونٹوں میں تین بکریاں واجب ہوں گی، اور بیس اونٹوں میں چار بکریاں واجب ہوں گی چوبیس تک، پچیس اونٹوں میں بنت مخاض واجب ہو گی(ایک سالہ اونٹنی) اگر اس کے پاس ایک بنت مخاض( سالہ اونٹی) نہ ہو تو وہ ابن لبون دے گا اور وہ دو سالہ اونٹ ہے ، (25 سے لے کر 35 تک)، جب چھتیس 36 میں بنت لبون واجب ہو گی دو سالہ اونٹنی (36 سے 45 تک بنت لبون ہے) ، چھیالیس 46 پر حقة واجب ہو گی حقة تین سالہ اونٹنی کو کہتے ہیں ( 46 سے 60 تک)، اکسٹھ 61 میں جذعة واجب ہو گی وہ اونٹنی جو چار سال کی ہے(61 سے 75 تک )، جب وہ چھیتر 76 ہو جائے تو اس میں دو بنت لبون ہوں گی( دو سالہ دو اونٹنیاں)، جب وہ اکانوے 91 ہو جائیں اس میں دو حقے ہوں گے ( تین تین سالہ دو اونٹنیاں)، ایک سو بیس 120 تک ، جب ( 120 سے) ایک کا اضافہ ہو جائے گا (یعنی 121) تو اس میں تین بنت لبون ہوں گی (تین دو سالہ اونٹنیاں)، پھر ہر پچاس میں ایک حقة ہو گا (تین سالہ اونٹنی) اور پھر ہر چالیس میں ایک بنت لبون دو سو تک یہ ہی حساب چلے گا پھر اس میں دو فرض جمع ہو جائیں گے وہ چاہے تو پچاس کے حساب سے 4 حقة نکالے یا چالیس کے حساب سے پانچ بنت لبون نکالے جس پر کسی عمر کا جانور کی زکوة واجب ہو اور وہ نہ پائے تو وہ اس سے کم عمر والے جانور کو نکال دے مثال کے طور پر (مثال کے طور پر کسی کے پاس 36 اونٹ ہوں میں ایک بنت لبون ہے اور اس کے پاس بنت لبون نہیں ہے بنت مخاض ہے ایک سالہ اونٹی تو وہ بنت مخاض نکالے اور ساتھ میں دو بکریاں دے کسی کے پاس زکوة واجب ہوئی ہے اور اس کے پاس وہ جانور نہیں ہے لیکن اس سے کم عمر کا جانور ہے تو اس کو کہتے ہیں اس سے کم عمر کا نکالے اور دو بکریاں دے یا بیس درھم دے) اس کے ساتھ دو بکریاں دے گا یا بیس درھم دے گا وہ چاہے تو اس سے اعلی نکالے ( یعنی اس کے پاس حقة موجود ہے جو تین سالہ ہے) اور زکوة وصول کرنے والے سے دو بکریاں لے لے یا بیس درھم لے لے ۔
النوع الثاني: گائے: گائے میں کوئی زکوة واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ تیس 30 ہو جائیں ، اس کے اوپر ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی واجب ہو گی، یہاں تک کہ وہ چالیس 40 کو پہنچ جائیں تو اس میں دو سالہ بچھڑا واجب ہو گا، یہاں تک کہ وہ ساٹھ 60 کو پہنچ جائے تو( ایک سالہ) دو بچھڑے نکالیں گے، جب وہ ستر 70 ہو جائیں تو وہ ایک تبیع( ایک سالہ) اور ایک مسنة ( دو سالہ) نکالے گا ، پھر ہر تیس 30 میں تبیع ایک سالہ بچھڑا ہو گا اور ہر چالیس 40 ایک مسنة دو سالہ بچھڑا ۔
النوع الثالث : بکریاں بکری اس میں کوئی زکوة واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ ان کی تعداد چالیس 40 تک پہنچ جائیں تو ایک بکری ہے 120 تک پھر جب ایک کا اضافہ ہو جائے(121ہو جائے) تو اس میں دو بکریاں ہیں 200 تک ، پھر جب ایک کا اضافہ ہو جائے (201 ہو جائے) تو اس میں تین بکریاں ہیں ، پھر ہر 100 میں ایک بکری ہے ۔
اور صدقہ میں بقرہ (سانڈھ) نہیں لیا جائے گا، صدقے میں کوئی نر جانور نہیں لیا جائے گا اور عیب والا چوپایا نہیں لیا جائے گا اور بوڑھا نہیں لیا جائے گا اور اپنے بچے کو دودھ پلانے والی (تربیت کرنے والی) مادہ بھی نہیں لی جائے گی ، اور نہ حامل جانور، اور موٹا تازہ جانور بھی نہیں لیا جائے گا ، اور برا مال ناکارہ ردی مال نہیں لیا جائے گا اور نہ اعلی اچھا مال لیا جائے گا مگر یہ کہ اپنی خوشی سے تبرع کے طور پر دے دے اس کو مال والے، اور زكوة میں نہیں نکالے گا مگر نکالے گا مادہ جانور کو صحت مند ہو ، سوائے اس وقت جب 30 گائے ہوں ، اور ابن لبون کو نکالے گا بنت مخاض کی جگہ پر جب بنت مخاض نہ ہو ، سوائے ایسی صورت کے جس میں جب اس کے پاس چوپائے ہوں سارے کے سارے نر ہوں یا سب بیمار ہوں تو ان میں سے کوئی بھی کافی ہو جائے گا ، اور نہیں نکالے گا مگر جذعة کو ( چھے مہینے کا بھیڑ) یا ایک سال کی بکری کو نکالے گا اور وہ عمر کا جانور جس کو نص میں بتایا گیا ہے ، سوائے اس کے کہ مال کا مالک اس کو منتخب کرے بڑی اعلی عمر کے جانور کو نکالنا چاہے واجب سے (جو جانور واجب ہے اس سے اعلی نکالنا چاہے ) ، یا سارے کے سارے اس کے پاس چھوٹے ہوں تو وہ چھوٹا جانور نکالے گا (جس عمر کا جانور نکالنا ہے وہ نہیں ہے اس کے پاس سارے چھوٹے ہیں تو چھوٹا نکالے گا) ، اگر اس کے پاس ایسے جانور ہیں جو صحت مند بھی ہوں اور بیمار بھی ہوں (آدھے صحت مند آدھے بیمار) اور نر بھی ہیں مادہ بھی ہیں اور چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی ہیں تو صحت مند بڑے جانور کو نکالے گا جس کی قیمت دو مالوں کے برابر ہو ( دو مالوں کی درمیانی قیمت کے برابر ہو ) ، اگر اس کے پاس بخاتی اونٹ ہو (عجمی اور ترکی اونٹ جس کے دو کوہان ہوتے ہیں) یا عربی اونٹ ہوں اور گائے بھی ہے بھینس بھی ہے اور بھیڑ بھی ہے بکری بھی ہے اور اعلی جانور بھی ہے معمولی جانور بھی ہے اور موٹے بھی ہیں دبلے بھی ہیں تو ان دونوں قسموں میں سے لے گا دونوں مالوں کی قیمت کا جانور لے گا ( دونوں مالوں کی درمیانی قیمت کا جانور لے گا) ، اور اگر مشرک ہوں (ان کے اونٹ اکٹھے ہیں تین چار آدمی ہیں ان کے اونٹ ایک ساتھ ہیں) ، اور چرنے والے جانوروں کے نصاب میں کوئی جماعت مشرک سارا سال (پانچ آدمی کی یا دو آدمیوں کی بکریاں ہیں ) اور ان کی چراہ گاہ ، اور وہ جگہ جہاں مادہ اونٹی کا نر اونٹ سے تعلق قائم ہو، اور ان کی رات گزارنے کا مقام ، اور دودھ دوھنے کا مقام ، اور پانی پینے کا مقام مشترک ہے( ان سب میں وہ مشترک ہے) ، تو ان کی زکاة کا حکم ایک ہی آدمی کے جانور کی زکوة کا حکم ہو گا ، اور جب زکوة نکالی جائے گی ان میں سے کسی ایک کے مال سے تو وہ اپنے شریکوں کی طرف لوٹے گا ان کے حصے کو لینے کے لئے ، اور اشتراک اثر انداز نہیں ہوتی الا چرنے والے جانوروں کے۔
شرح الابل:
جب 130 اونٹ ہو گئے تو ہر پچاس میں ایک حقة دینا ہے ہر چالیس میں بنت لبون دینا ہے اگر چالیس کا حساب کریں گے تو اس کو تین بنت لبون دینا پڑے گا اور اگر 150 ہیں تو ہر پچاس میں ایک حقة یعنی تین حقة دینا پڑے گا اور اگر 200 ہیں تو چار حقة دینا ہے اگر 180 ہیں دو حقة دو بنت لبون ہر پچاس پر ایک حقة ہر چالیس ہے ایک بنت لبون اگر 300 ہو جائیں گے تو چھے حقة ۔
121 کے بعد اس پر فرض کو دو طریقہ سے ادا کیا جا سکتا ہے اگر وہ چاہے تو چار حقة نکالے ہر پچاس پر ایک اور اگر چاہے تو پانچ بنت لبون نکالے ہر چالیس پر ایک۔
کسی کی زکوة کی مقدار اتنی ہے کہ اس پر بنت مخاض فرض ہے جیسے 25 ہے یا بنت لبون فرض ہے جیسا کہ 36 ہے تو اس پر ایک عمر کی زکوة فرض ہے اگر اس کے پاس 36 اونٹ ہیں تو اس پر بنت لبون فرض ہے اس کے پاس بنت لبون نہیں ہے بنت مخاض ہے ایک سالہ اونٹنی تو وہ بنت مخاض کے ساتھ دو بکریاں دے گا یا بیس درھم دے گا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ۔
اور اگر وہ اعلی نکالے مثلا 36 میں اس کے پاس بنت لبون فوض ہے لیکن اس کے پاس بنت لبون نہیں ہے حقة ہے اگر وہ چاہے تو حقة نکالے اور زکوة وصول کرنے والے سے دو بکریاں لے لے یا بیس درھم لے لے بیس درھم اس وقت تھا جب بکریوں اور درھم کی تعداد مساوی ہوتی تھی اب اختلاف ہے قیمت کا تو اس کے مماثل رقم دے گا دو بکریاں یا اس کے مماثل رقم دے گا ۔
شرح البقر
اگر کسی کے پاس 29 گائے ہیں تو کوئی زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ 30 ہو جائیں اس پر ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی واجب ہو گی گائے میں بچھڑا بچھڑی میں فرق نہیں ہے اونٹ میں فرق ہے ۔
جب تعداد 40 سے 59 ہو جائے تو دو سالہ مسنہ دیں گے مسنہ دو دانتوں والے بچھڑے کو کہتے ہیں۔
60 میں ہر تیس پر ایک سالہ بچھڑا ہے تو 60 کے حساب سے دو بچھڑے نکال دیں گے جن کی عمر ایک سال ہو گی
60 سے 69 تک ہوں اس میں دو تبیع ہوں تیس کے حساب سے اور اگر وہ 70 ہیں تو چالیس میں ایک مسنہ اور تیس میں ایک تبیع 70 کے آگے یہ ہی حساب رہے گا۔
اگر اس کے پاس 80 ہو جاتے ہیں تو دو مسنہ نکالے گا (دو سالہ)۔
اگر 90 ہوتے ہیں تو تین تبیع (ایک سالہ) نکالے گا۔
اور اگر 110 ہیں تو چالیس چالیس کے حساب سے دو مسنہ دے گا اور تیس کے حساب سے ایک تبیع دے گا۔
150 ہیں تو چالیس کے حساب سے تین مسنہ دے گا اور تیس کے حساب سے ایک تبیع دے گا۔
شرح الغنم
بکری میں کوئی زکوة واجب نہیں یہاں تک کہ وہ چالیس ہو جائیں مثلا اگر کسی کے پاس 30 ہیں یہاں تک کہ 39 تک ہیں تو زکوة نہیں ہو گی اگر 40 بکریاں اس کے پاس تو ایک بکری زکوة ہو گی 40 سے 120 بکریاں ہوں تو ایک بکری ہی زکوة ہو گی چاہے 80 ہوں 120 تک ایک بکری ہی ہے اس کے بعد 120 میں ایک کا اضافہ ہو جائے 121 ہو جائے تو دو بکریاں ہوں گی زکوة 125 میں بھی دو بکریاں 150 میں بھی دو 190 میں بھی دو ہی بکریاں زکوة ہوں گی 200 تک دو بکریاں ہی ہوں جب 201 ہو جائے تو اس میں تین بکریاں ہوں گی 300 تک پھر ہر سو میں ایک بکری مثلا 400 میں چار بکریاں 500 میں پانچ بکریاں 600 ہوں تو چھے بکریاں 700 ہوں تو سات بکریاں ۔
شرح الابل ، البقر، الغنم
اب آگے کا تعلق اونٹوں ، گایوں اور بکریوں سے ہے زکوة میں کوئی نر جانور نہیں لیا جائے گا اس لئے کہ وہ قیمت کے لحاظ سے مادہ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اسلئے کہ مادہ سے اولاد ہو گی۔
عیب والا جانور زکوة میں نہیں لیا جائے گا قربانی میں بتایا گیا کہ کچھ عیوب ایسے ہیں کہ جن کی قربانی نہیں کی جا سکتی جو جانور بھینگا جانور ہو، جس کی آنکھ نہ ہو ، مریض ہو جس کا مرض واضح ہو ، لنگڑا ہے ، یا اس کی آنکھیں نہیں ہیں ان کو نہیں لیا جائے گا بوڑھا جانور جس کے دانت نہیں ہوتے وہ بھی نہیں لیا جائے گا ۔
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی نہیں لی جائیں گی جس میں خوبیاں پائی جاتی ہوں وہ جانور جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہو اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہو اس کو بھی نہیں لیں گے کیونکہ بچوں کو نقصان ہو گا۔
حامل جانور بھی نہیں لیا جائے گا اس لئے کہ بچہ ہو گا تو وہ اس کا مالک ہے اس کو اس کا فائدہ ہو گا ۔اور موٹا تازہ جس میں گوشت بہت زیادہ ہے یہ بھی نہیں لیں یعنی صدقے میں وہ مال بھی نہیں لیں گے جس میں زکوة لینے والوں کو نقصان ہوتا ہے اور وہ بھی نہیں لیں گے جس کا نقصان مال والوں کو ہوتا ہے ایسی کوئی چیز نہیں لیں گے جس میں کسی ایک فریق کا نقصان ہو ۔
اگر کوئی اپنی خوشی سے اچھا مال دے دے مثلا موٹا تازہ جانور تو یہ ایک الگ چیز یہ اس کی مرضی اور خوشی ہے لیکن زکوة وصول کرنے والے نہیں لیں گے اپنی مرضی سے۔
زکوة میں صحت مند مادہ ہی نکالیں گے ۔
سوائے گایوں کے جب وہ 30 ہوں ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ 30 گائے ہوں تو اس میں دونوں برابر ہیں یا تو ایک سال کا بچھڑا نکالیں یا ایک سال کی بچھڑی نکالیں گے ۔
اسی طرح بنت لبون نکالیں گے بنت مخاض کی جگہ جب وہ نہ ہو مثلا اگر کسی کے پاس 25 اونٹ ہیں اور وہ بنت مخاض ہیں ایک سالہ اونٹنی نکالنا ہے لیکن اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے تو وہ ابن لبون نکالے گا زکوة میں نر جانور ہی نکالیں گے اور صحت مند نکالیں گے صرف دو حالتوں کو مستثی کیا یا تو 30 گائے ہوں اس میں بیل بھی نکال سکتے ہیں اور اسی طرح جب کسی کے پاس بنت مخاض واجب ہوتی ہے اور اس کے پاس نہیں ہے تو وہ ابن لبون نکالے (دو سالہ نر اونٹ ) گا ۔
یا پھر اس کے پاس سارے جانور نر ہوں یا سب کے سب بیمار ہی ہیں تو ان میں سے کوئی بھی کفایت کر جائے گا اگر سارے نر ہیں تو نر نکال دے حالانکہ مادہ نکالنا چائیے اور اگر سارے بیمار ہیں تو بیمار ہی نکالے گے حالانکہ صحت مند نکالنا چائہے لیکن اس کے پاس صحت مند نہیں ہے تو کوئی بھی نکال دے اس سلسلے میں بہت ساری صحیح احادیث ہیں یہ نصوص سے ثابت ہے ۔
بکریوں کی زکوة میں خاص بات بیان کر رہے چھے سالہ بھیڑ یا ایک سالہ بکرا مثلا اگر کسی کے پاس چالیس بکریاں ہیں تو وہ کوئی بھی بکری اٹھا کر نہیں دے سکتا اس کو جزعة (چھے مہینے کا بھیڑ) دینا پڑے گا یا ایک سالہ بکری دینا پڑے گا ایسا نہیں کہ وہ کچھ دے دے ۔
جس عمر کا جانور نص میں صراحت کیا گیا ہے کہ اس عمر کا جانور دینا چائیے جیسا کی 25 اونٹوں میں ایک عمر وضاحت کی گئی ایک سالا اونٹی( بنت مخاض) ہو سوائے اس کے مال کا مالک اس بات کو منتجب کرے جو عمر واجب ہے اس سے اعلی جانور دینا مثلا اگر اس پر بنت مخاض واجب ہوتی ہے تو وہ بنت لبون دے دے ۔
اور اگر اس کے پاس سب چھوٹے جانور ہی ہیں سارے کے سارے بنت مخاض ہیں جبکہ اس پر بنت لبون واجب ہوتی ہے تو وہ چھوٹا جانور نکالے گا یعنی بنت مخاض ہی دے دے گا لیکن اس کے ساتھ دو بکریاں بھی دے گا یہ سراہت صرف اونٹوں میں کی گئی ہے کہ وہ کم عمر کا نکالے گا اور ساتھ میں دو بکریاں دے گا ۔
ایک اور صورت ہے کہ اس کے جانوروں میں کچھ صحت مند بھی ہیں کچھ مریض بھی ہیں ایک اور صورت بھی ہے اسی طرح اس کے پاس نر بھی ہیں مادہ بھی ہیں اور اسی طرح چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی ہیں مثال کے طور پر :
اولا: اس میں صحت مند بڑا ہے وہ زکوة میں نکالے گا لیکن اس کی قیمت دو مالوں کے درمیان کی ہو مثلا اس کے پاس صحت مند بھی ہیں اور بیمار بھی ہیں صحت مند بکری کی قیمت 1000 ریال ہوتی ہے اور بیمار بکری کی قیمت 500 ریال ہے تو وہ دونوں مالوں کے درمیان کی قیمت کی بکری لے گا ایسی بکری جس کی قیمت 750 ریال ہے ۔
الثانی:اسی طرح اس کے پاس بڑی عمر کا جانور بھی ہے چھوٹی عمر کا جانور بھی ہے بڑی عمر کا جانور 2000 ریال کا ہے اور چھوٹی عمر کا جانور 1000 ریال کا ہے تو وہ وہ لے گا جو صحت مند ہے اور بڑا بھی ہے لیکن اس کی قیمت دونوں کے بیچ میں ہے یعنی 1500 ریال ہے۔
الثالث:اسی طرح نر اور مادہ میں بھی ہو گا مادہ جانور لے گا مگر وہ قیمت کا لے گا جو دونوں کے درمیانی قیمت کا ہو ۔
اگر اس کے پاس عجمی اور عربی اونٹ ہوں اسی طرح گائے بھی ہیں بھینس بھی ہیں (جیسا کہ ذکر آیا تھا بھینس کی زکوة کا حکم گائے کی زکوة والا حکم ہی ہو گا) اسی طرح بھیڑ بھی ہے اور بکری بھی ہے اور اعلی مال بھی ہے اور معمولی مال بھی ہے اور موٹے تازے بھی ہیں دبلے پتلے بھی ہیں ظاہر ہے سب کی قیمتیں الگ ہیں تو ان میں سے زکوة لے گا جو قیمت میں دونوں کے درمیانی ہیں ان کے برابر لے گا مثال کے طور پر :
اولا: اگر اس کے پاس موٹے جانور بھی ہے دبلے بھی ہیں موٹی تازی کی قیمت 600 ریال ہے اور دبلی پتلی کی قیمت 300 ریال ہے تو موٹی لے گا مگر دونوں کے درمیانی قیمت ہو یعنی 450 ریال ہو ۔
الثانی: اسی طرح اگر عربی اور عجمی اونٹوں کے درمیاں ہو گا اسی طرح گائے اور بھینس کے درمیاں ہو گا اسی طرح بھیڑ اور بکریوں کے درمیان ہو گا مطلب یہ کہ زکوة والے کو نہ تو ایک دم اعلی لینا چائیے اور نہ ہی معمولی مال لینا چائیے بلکہ درمیانی مال لینا چائیے نہ ہی صاحب مال کا نقصان ہونا چائیے نہ ہی لوگوں کا نقصان ہونا چائیے ۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی بکریاں مشترک ہیں مثلا کسی شخص کی چالیس بکریاں ہیں اور دوسرے کی چالیس بکریاں ہیں اشتراک سے کبھی فائدہ کبھی نقصان ہوتا ہے اگر دونوں کے پاس 80 بکریاں ہیں ہر معاملے میں مشترک ہیں تو یہاں ایک بکری ہی ہو گی اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوتے تو ان دونوں کو ایک ایک بکری نکالنی پڑتی اشتراک کا فائدہ ہو گیا اشتراک کا نقصان بھی ہو سکتا ہے اگر ان کے پاس چالیس بکریاں ہیں اور دونوں کی بیس بیس ہیں اگر وہ الگ الگ ہوتیں تو زکوة نہیں ہوتی لیکن اب وہ مشترک ہیں تو ایک بکری دیں گے اشتراک کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے نقصان بھی ہو سکتا لیکن اگر زکوة سے بچنے کے لئے دو لوگ اپنے جانوروں کو الگ کر لیں یہ بھی حرام ہے اور اگر زکوة وصول کرنے والا دو الگ الگ لوگوں سے زکوة وصول کرنے کے لئے دونوں کی بکریاں کو ملا لے یہ بھی حرام ہے بلکہ جس طرح حقیقت ہے اسی طرح معاملہ ہونا چائیے ۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو چرنے والے جانوروں کے نصاب میں مشترک ہیں دونوں کی بکریاں ملی ہوئی ہیں ان کا اشتراک ایسا ہے کہ سال بھر ایک ہی حساب میں ہیں ایک ہی جگہ چرتے ہیں ، ایک ہی جگہ سوتے ہیں، ایک ہی جگہ ان کا دودھ بھی دھوا جاتا ہے ، ایک ہی جگہ پانی پیتے ہیں ، ایک ہی جگہ ان کے ملنے کی جگہ ہے ان کی زکوة ایک آدمی کی زکوة ہی کی طرح ہو گی الگ الگ زکوة نہیں ہو گی پورے سال بھر انھوں نے ایک ہی شمار کیا الگ الگ نہیں ہوئے جب ان میں سے کسی ایک کے مال سے زکوة لی جائے مثلا ان کے پاس 80 بکریاں تھیں مشترک تھے مکمل طور پر ایک شخص کے مال کی طرح ان سے ایک بکری لے لی گئی اب اس بکری کی قیمت 1000 ریال تھی تو وہ اپنے ساتھی سے 500 ریال لے لے گا اور اگر وہ تین آدمیوں میں مشترک ہے تو اس زکوة کو وہ تین حصوں میں تقسیم کرے گا ۔
صرف چرنے والے میں مشترک ہوں گے تو سب کا مال ایک مال مانا جائے گا لیکن اگر تجارتی مال ہے اگر کچھ پاٹنر تجارت کر رہے ہیں تو ان سب کو ایک آدمی کا مال نہیں مانا جائے گا بلکہ ان سب کا حصہ الگ الگ زکوة میں شمار کیا جائے گا اشتراک کا اثر صرف چرنے والے جانوروں میں ہوتا ہے زکوة کے دوسرے امول میں اشتراک کا اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ مشترک مال نہیں مانا جائے گا بلکہ ہر ایک کا حصہ مختلف زکوة میں آئے گا۔
(اگر 40 گائے ہو جائیں تو علماء کا راجح قول یہ ہے کہ اس میں مسنہ دیں گے مسنہ کا مطلب ہے کہ دو سالا مادہ دیں گی)۔
|
عمدة الفقه
|
الفقة
باب زکوة الخارج من الارض
"زمین سے نکلنے والی چیزوں کی زکوة کا باب"
النبات اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک قسم ہے نبات یعنی زرعی پیداوار : اس میں زکوة واجب ہے اناج اور پھلوں میں جیسے ناپا جا سکتا ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکتا ہو جب وہ اس کی زمین میں پیدا ہو اور اس کی مقدار پانچ وسق ہو جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (("اس فرمان کی وجہ سے کسی اناج اور پھل میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ وسق میں پہنچ جائے")) وسق 60 صاع ہے اور صاع ایک رطل ہے دمشقی کے اعتبار سے اور ایک اوقیة ساتویں حصے کے پانچ حصے (صاع دمشقی رطل ہے اور ایک اقیہ ساتویں حصے کے پانچ حصے) پورا نصاب تین سو بیالیس (342) رطل کے قریب ہے اور ایک رطل کے ساتویں حصے کے چھے حصے، اور دسواں حصہ واجب ہے جو آسمان کے پانی سے سیراب کیا جائے اور زمین کے بہتے ہوئے پانی سے اور یہ بیسواں حصہ ہے جس کو خرچ اور محنت سے سیراب کیا جائے (جن کھیتوں کو) جیسا کہ وہ کھیت جنھیں بیل اور اونٹوں کے ذریعے پانی دیا جاتا ہے اور جب پھلوں میں پختگی ظاہر ہو جائے اور دانوں میں سختی آ جائے اس وقت زکوة واجب ہو گئی ، اور اناج کی زکوة نہیں نکالیں گے مگر پاک و صاف کرنے کے بعد اور نہ پھلوں کو زکوة مگر ان کے خشک ہونے کے بعد (جیسے انگور ہے جو منقی یا کشمش بن جاتا ہے) ، اور زکوة نہیں واجب ہو گی جس کو وہ کماتا ہے مباح طریقے سے خواہ وہ پھل ہو اور اناج ہو اور نہ اس میں جس کو وہ اجرت کے طور پر لیتا ہے کھیتی کی وجہ سے (فصل کو کاٹنے کی وجہ سے یا جو گرے ہوئے اناج یا اٹھا لیتا ہے مثلا کچھ اناج گرا ہوا تھا اس کے مالکوں نے چھوڑ دیا تو اس نے اٹھا لیا تو اس میں بھی زکوة واجب نہیں ہو گی) اور نہیں ملایا جائے گا ایک قسم کے اناج کو اور پھلوں کو دوسرے قسم کے اناج یا پھلوں سے نصاب کو مکمل کرنے کے لئے سوائے یہ کہ وہ ایک صنف ہو انواع مختلف ہوں جیسے کہ کھجور ( ایک ہی جنس ہے لیکن اس کے نام مختلف ہیں جیسے کھجور میں عنبر بھی ہے سکری ہے مختلف نام ہیں وغیرہ وغیرہ) تو اس میں زکوة ہے- ہر قسم میں سے اس کی زكوة نکالے گا اور اگر اچھی نکالے گا معمولی چیز کے بدلے اونچے معیار کی کھجوریں نکالے گا معمولی معیار کی کھجوروں کے بدلے میں جائز ہو گا اور اس کو اس کا ثواب ملے گا۔
المعدن اس کی جمع ہے معادن دوسری قسم ہے معدنیات جو نکالے کوئی معدنیات میں سے کوئی چیز سونے اور چاندی کے نصاب کے مطابق یا پھر اس کی قیمت کو پہنچتا ہو جواہر میں سے یا گندھک (تار کول) یا پیتل یا لوہا یا اس کے علاوہ دوسری چیزیں (تانبا کوئلہ وغیرہ) تو پھر اس پر زکوة ہے ، اور زکوة نہیں نکالے گا مگر اس کو صاف کرنے کے بعد (اسے صاف کرنے اور پھیلانے کے بعد جب زمین سے نکالیں گے تو اس میں مٹی لگی ہو گی یا کچھ اور لگا ہو گا اس کو صاف کرنے کے بعد) ، اور موتی اور مونگے اور عنبر یا مچھلی میں کوئی زکوة نہیں ہے اور کوئی زکوة نہیں ہے بری اور بحری شکار میں، اور زمین سے حاصل ہونے والے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے زکوة کا (یہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ بغیر محنت کے حاصل ہوتا ہے) کسی بھی قسم کا مال ہو تھوڑا ہو یا زیادہ ہو اہل الفيء کے لئے دیں گے زکوة کا مال اور باقی مال اس کے پانے والے کو دیا جائے گا۔
کچھ الفاظ کے معنی:
حب دانے کو کہتے ہیں یہاں ترجمہ اناج کیا گیا ہے
بکلفة خرچ یا محنت کے ذریعے سیراب کیا جائے۔
الدوالي بیلوں کے ذریعے کھیتوں میں رہٹ چلا کر سیراب کرنا۔
النواضح: اونٹوں کے ذریعے کھیتوں کو سیراب کرنا ۔
الصلاح پختگی ظاہر ہو جائے
جواھر قیمتی پتھر جس کے نگینے وغیرہ بنائے جاتے ہیں
الکحل تار کول ۔
الصفر پیتل ۔
الحدید لوہا۔
العنبر بعض مچھلیاں ایسی ہیں جن کے فضلے سے خوشبو نکلتی ہے جب اس کو پیسا جاتا ہے تو اس میں سے خوشنو نکلتی ہے ۔
الرکاز جو زمین میں دفن ہوئے خزانے ہوں۔
تفصیل:
زمین سے نکلنے والی چیزوں پر زکوة اس کی دلیل ہے سورتہ البقرہ 267 کی آیت (( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ)) اے ایمان والو پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم کماتے ہو خرچ کرو اور اس میں سے جو ہم نے تمھارے لئے زمین سے نکالا ہے " یعنی یہ دلیل ہے زمین سے نکلی ہوئی چیزوں میں زکوة واجب ہے اور دوسری دلیل سورتہ الانعام 141 (( * كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ* )) " اس کے پھل کو کھاؤ جب وہ پختہ ہو جائے تو اس کا حق نکالو اس کے کٹنے کے دن " فصل کے کاٹنے کے وقت پر یہ بنیاد ہے قرآن کی آیتیوں میں سے اور بہت سی احادیث بنیاد ہیں جس میں سے کچھ احادیث یہاں موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے زمین سے نکلنے والی چیزوں کی زکوة نکالی جائے گی یہاں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں زمین سے نکلنے والی لیکن حقیقت میں تین قسمیں ہیں ۔
اولا :اناج پھل۔
ثانیا:معدنیات ۔
ثالثا : تیسری دفینے ہیں لیکن ان کو معدنیات میں ہی شامل کر لیا لیکن ہم الگ کریں گے وہ معدنیات میں نہیں آئے گی۔
نباتات یعنی زرعی پیداوار قرآن مجید کی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے نکلنے والی ہر چیز میں زکوة ہے (( وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ )) جو کچھ زمین میں سے ہم نے تمھارے لئے نکالا ہے الفاظ میں عمومیت پائی جاتی ہے ان الفاظ کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے زمین سے نکلنے والی ہر چیز پر زکوة ہے جس کو انسان اپنی زمین میں بوتا اس کی وہ زکوة دے گا چاہے اسے محفوظ رکھا جا سکتا ہو جیسے انگور ہے جسے سکھا کر کشمش کے طور پر رکھا جاتا ہے یا جیسے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا جیسے سیب ہے انجیر ہے کوئی بھی چیز ہو یا پھر مخلتف قسم کی سبزیان ہیں ان سب میں زکوة ہے بشرط ہے کہ وہ نصاب کو پہنچے۔
اگر قرآن کی روشنی میں دیکھیں گے تو ہر چیز میں زکوة نکالیں گے البتہ ایک حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کیا کہ زکوة نہ نکالی جائے سوائے حنطتہ (گندم)، تمر (کھجور) ،شعیر (جو)، اور زبیب (کشمش، منقی) کے اس حدیث کی روشنی میں امام احمد ابن حنبل کا مسلک یہ ہے کہ زکوة زرعی پیداوار میں ان چار چیزوں میں لیں گے اور کسی میں نہیں لیں گے امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے انھوں نے یہ کہا کہ یہ چار چیزیں حصر کے لئے نہیں ہیں کہ انہی میں زکوة لی جائے باقی میں زکوة نہ لی جائے بلکہ ان تمام چیزیں جو اس قسم سے ہیں ان چار چیزوں میں سے ہیں زرعی پیداوار میں سے ان چار قسم کی چیزوں کی نوعیت کی چیزیں ہیں اس میں سے زکوة لی جائے گی تو نوعیت ہو گی امام شافعی اور امام مالک کا مسلک ہے کہ وہ جو غذا بن سکتے ہوں غذائی اجناس میں سے ہوں اور دوسرا ان کو محفوظ رکھا جا سکتا ہو یہ مسلک انھوں نے ان چار چیزوں پر غور کیا ان میں کیا علت پائی جاتی ہے علت یہ ہے کہ چاروں غذائی چیزیں ہیں کھجور ، گندم ، جو، منقی ہے انھوں نے کہا ہر وہ زمین سے نکلنے والی پیداوار جو غذائی اجناس میں سے ہوں اور پھر انہیں محفوظ بھی کیا جا سکتا ہو اس میں زکوة ہو گی یہاں جو مسلک بیان کیا جا رہا ہے صاحب کتاب مولف رحمہ اللہ وہ احمد ابن حنبل کا جو دوسرا مسلک ہے وہی صاحب کتاب کا مسلک ہے یعنی حنبلی ہر وہ پیداوار میں زکوة ہو گی جن کو ناپا جا سکتا ہو کیوں کہ پہلے ناپتے تھے ایک صاع ناپ ہوتا تھا جیسے آج کل تولتے ہیں ایک کلو دو کلو اس وقت پیمانے تھے جس میں ناپا جا سکتا تھا انھوں نے جو علت نکالی چار چیزوں کی ہر وہ چیز جس کو ناپا جا سکتا ہو یا تولا جا سکتا ہو آج کے حساب سے یا پھر اس کو زخیرہ کیا جا سکتا ہو محفوظ کیا جا سکتا ہو اس میں زکوة دی جائے گی کیونکہ حدیث میں ذکر کیا گیا جس کو ناپا جا سکتا ہو پانچ وسق سے کم میں زکوة نہیں اس کا مطلب اس کو ناپا جاتا ہے اس لئے مولف رحمہ اللہ نے علت نکالی ہر وہ چیز جس کو ناپا جا سکتا ہو یا زخیرہ کیا جا سکتا ہو زکوة کے واجب ہونے کی پانچ شرطیں ہیں:
اولا: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اناج ہو یا دانے ہوں یا پھل ہو ۔
ثانیا: اس کو ناپا (توا) جا سکتا ہو ۔
ثالثا: اس کو زخیرہ کیا جا سکتا ہو زخیرہ کرنے کے لئے آج کے زرائع ہیں وہ مراد نہیں ہیں جیسے آج عام طور پر جس کو رکھا جا سکتا ہے جیسے ٹماٹر سیب ہے آج ہو سکتا ہے کچھ ایسی چیزیں ایجاد ہو گئی ہوں جس کے لئے اس کو ایک زمانے تک رکھا جا سکتا ہو اس میں وہ مراد نہیں ہے بلکہ عام طریقے سے جس کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ انگور ہے اس کو بغیر کسی چیز کے ہم کشمش بنا سکتے ہیں زخیرے سے مراد ہے بغیر کسی چیز کے استعمال کیئے بغیر اسے زخیرہ کیا جا سکتا ہو ۔
رابعا: چوتھی شرط یہ ہے کہ اس کی زمین سے نکلے یعنی وہ اس زرعی پیداوار کا مالک ہو ۔
خامسا: پانچویں شرط ہے کہ پانچ وسق ہو جائے اس کی مقدار نصاب کو پینچے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے اس میں سال گزرنا شرط نہیں ہے پانچ شرطوں میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے اگر ایک دفع فصل پیدا ہو گئی اور نصاب کو پہنچ گئی تو سال میں ایک دفعہ ہو گی یا دو سال میں ایک دفعہ فصل تیار ہوئی اور نصاب کو پہنچی تو زکوة ہو گی اور اگر سال میں فصل تین دفعہ پیدا ہو رہی ہے نصاب کو پہنچ رہی ہے اور زکوة ہو گی مطلب واجب ہو گی زکوة نکالیں گے اس کا تعلق سال سے نہیں ہے ان پانچ شرطوں سے ہے ۔
نصاب کی دلیل ہے لَيْسَ فِي حَبٍّ وَلَا ثمْرٍ صَدَقَةٌ کسی اناج میں اور پھل میں کوئی زکوة نہیں ہے * حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ* یہاں تک کہ وہ پانچ وسق کو پہنچ جائے ۔
رطل اور اوقیہ ایسے نام ہیں جو اس وقت استعمال نہیں ہوتے تو ان سمجھنا مشکل ہے اور اس کا فائدہ بھی نہیں ہے ۔
وسق 60 صاع ہے ایک وسق کے 60 صاع ہو گئے تو پانچ وسق کے 300 صاع ہو گئے تو اناج کسی کے کھیت میں اتنا ہو کہ وہ تین سو صاع ہو جائے ۔
صاع ایک صاع چار مد ہوتا ہے ۔
مد ایک درمیانی قسم کے آدمی کے ہاتھ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے لپ بھر کر اناج اگر چار مرتبہ ڈالے تو یہ ایک مد ہو گیا ۔
اگر آپ صدقہ فطر نکالنا چاہتے ہیں تو وہ ایک صاع ہے اگر ہم چار مرتبہ اپنے ہاتھ سے اناج لے کر ڈال دیں گے تو وہ ایک صاع ہو جائے گا ۔
544 گرام ایک مد ہوتا ہے 544 کو ہم چار سے ضرب دین گے تو اس میں 2کلو سے اوپر ہوگا یعنی 2،176 یہ ایک صاع ہو گیا۔
زرعی پیداوار کا نصاب300 صاع ہوتا ہے یعنی پانچ وسق اب ہم اس کو 300 سے ضرب دین گے
652 کلو گرام ہو گئے اگر کسی کے کھیت میں 652 کلو گرام پیدا ہوتا ہے یا اس سے زیادہ پیدا ہوتی ہے تو اس میں زکوة ہے اگر کم ہوتی ہے تو اس میں زکوة نہیں ہے۔
( نصاب 5 وسق ایک وسق میں 60 صاع تو پانچ وسق 300 صاع اور ایک صاع 4 مد ہے پانچ مد میں 544 گرام ہوتے ہیں تو ایک صاع 2000 سے زیادہ ہوتے ہیں اگر ہم اس کو 300 صاع سے لیتے ہیں تقریبا تو 652 کلو گرام ہوتے ہیں اگر اتنی پیداوار ہے یا زیادہ ہے تو زکوة ہے اس سے کم پر زکوة نہیں ہے) ۔
دسواں حصہ نکالیں گے زكوة کے طور پر ان کھیتوں میں جنھیں بارش یا زمین میں بہنے والے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے نہروں کا پانی آسمان کا پانی یا پھر زمین خود زرخیز ہے اسے پانی کی ضرورت نہیں ہے زمین میں خود ہی نمی ہے اسی سے کھیت میں اناج ہو جاتا ہے ایسی صورت میں آدمی نے نہ ہی محنت کی نہ ہی خرچ کیا تو اس میں دسواں حصہ نکالے گا اور اگر ایسی زمین ہے جس میں باقاعدہ جانوروں کے اور مشینوں کے ذریعے پانی پینچاتا ہے کھیتوں کو تو اس نے خرچ کیا ہے تو اس میں بیسواں حصہ ہو گا زکوة کے نصاب انسان کی آسانی کے علاوہ اس کی صلاحیت کے مطابق ہے نہ صاحب مال پر ظلم ہے نہ ہی غریبوں کے ساتھ ظلم ہے ہر ایک کو گویا اس کا حق دیا گیا ہے ۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے وہ کھیت جن کو نہروں سے اور بارش کے پانی سے سیراب کیا جائے اس میں دسواں حصہ ہے اور جن کو مشینوں جانوروں سے سیراب کیا جائے اس میں بیسواں حصہ ہے ۔
زکوة تب نکالیں گے جب پھلوں میں پختگی آ جائے پختگی کی علامت یہ ہے کہ اس میں زرد یا سرخی پن آ جائے یعنی پھل پیلے ہو جائیں گے یا لال ہو جائیں گے تب ان کی زکوة کا وقت ہو گا اور اناج کے دانے جب سخت ہو جائیں گے جب ان کو دبایا جائے گا تو وہ ٹوٹیں پھوٹیں گے نہیں اس کو اس کی زکوة نکالیں گے ۔
ایسا نہیں کہ کبھی بھی نکال دیں گے یا شروع ہی میں نکال دیں گے بلکہ اس کا وقت مقرر کیا گیا ہے جب پھلوں میں سرخی یا پیلا پن آ جائے یا اناج میں سختی آ جائے تب زکوة واجب ہو گی۔
اناج کے لئے یہ نہیں ہے کہ ابھی ان کو ان کی بالیوں سے الگ نہ کیا ہو اور زکوة نکال دیں ایسا نہیں ہے بلکہ جب ان کو بالیوں سے الگ کر دیں گے صاف حالت میں ذکوة نکالیں گے اور پھلوں کے سوکھنے کے بعد نکالنے گے لیکن ان کے سوکھنے کا اندازہ ان کے درختوں سے لگا سکتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا یہودیوں کے کھیتوں کے خراج جو لیتے تھے اس سلسلے میں کہ وہ اندازاہ لگائیں کہ وہ سوکھنے کے سلسلے کے بعد وہ کتنے ہوتے ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوة میں بھی یہ حکم دیا تھا کہ اندازہ لگائیں کہ کھیتوں میں جو انگور ہیں جب وہ سوکھ جاتے ہیں تو کتنے ہوتے ہیں یہ چیز جائز ہے ان کو لیں گے ان کے سوکھنے کے اعتبار سے لیں گے جب ان کے اندر وہ صلاحیت ہے کہ ان کو باقی رکھا جا سکتا ہے تب زکوة دیں گے لیکن اس وقت تک انتظار کی ضرورت نہیں ہے جب فصل کاٹیں گے یا ان کے اندر پختگی آ جائے تو اس وقت اندازہ لگایا جا سکتا ہے ماہرین سے جو اس سلسلے میں علم رکھتے ہیں جب سوکھ جائیں گے کشمکش یا منقی بن جائیں گے تو ان کی کیا مقدار ہو گی تو اسی حساب سے زکوة دیں گے جب وہ تازے ہوتے ہیں ان کی سوکھی حالت کا اندازہ لگانا جائز ہے۔
اناج اور پھلوں میں سے جس کو وہ مباح طریقے سے کماتا ہے یعنی آدمی نے اپنے کھیت میں سے اناج نکال کر کچھ غریبوں کو دے دیا اور وہ غریب ان میں سے زکوة نہیں نکالیں گے کیونکہ جب اس کے وجوب کا وقت ہوا تھا اس وقت وہ اس کے مالک نہیں تھے وجوب کے وقت کے بعد وہ مالک ہوئے ہیں مثال کے طور پر ایک آدمی نے اپنی کھیتی میں اناج بویا اس کے بعد اس میں پختگی آ گئی اور آناج میں سختی آ گئی اور اس نے کسی کو بیچ دیا تو جس کو بیچا ہے اس نے وجوب کے وقت کے بعد خریدا ہے وہ زکوة نہیں دے گا لیکن وجوب کا جب وقت آیا اس کا مالک وہ تھا جس نے اگایا تھا وہ زکوة دے گا خریدنے والے پر زکوة نہیں ہو گی بیچنے والے پر زکوة ہو گی لیکن اگر اس نے پختگی آنے سے پہلے خریدہ تھا اور بعد میں پختگی آئی تو وجوب کے وقت وہ مالک ہو گا خریدنے والا تو وہ زکوة نکالے گا اسی طرح اگر کوئی آدمی کھیتی میں کچھ اناج چھوڑ دے غریبوں کے لئے کسی وجہ سے بھی چھوڑ دے تو انھوں نے مباح طریقے سے حاصل کیا اس کو تو ان پر زکوة نہیں ہو گی وہ مالک بعد میں بنے وجوب کے وقت پر وہ مالک نہیں تھے وجوب کے وقت پر مالک کوئی اور تھا ۔
کچھ لوگوں کو کھیتی کے کاٹنے پر مقرر کیا گیا اور اسی اناج کو ان کی اجرات کے طور پر دیا گیا ان کو کہا گیا ہماری یہ فصل ہے اس کو کاٹ دو انھوں نے کاٹا تو وہ بھی اس کی زکوة نہیں نکالیں گے وہ وجوب کے وقت پر وہ مالک تو بنے مگر وجوب کے وقت کے بعد زرعی پیداوار میں اگر ایک بار اس کی زکوة نکال دی تو اس کو نکالنے کی ضرورت نہیں مثال کے طور پر ایک آدمی کے پاس 900 کلو گرام اناج ہے اس کے کھیت میں پیدا ہوا اس نے اس کی زکوة نکال دی اس کے بعد اگلا سال آیا اور ابھی بھی اس کے پاس 800 کلو گرام اناج موجود ہے یا 600 کلو گرام اناج موجود ہے تو وہ اس کی زکوة نہیں نکالے گا کیونکہ زرعی پیداوار کے حساب سے وہ اس کی زکوة نکال چکا ہے۔
ایک جنس کے اناج کو دوسرے جنس کے اناج سے نہیں ملایا جائے گا اور ایک جنس کے پھلوں کو دوسرے جنس کے پھلوں سے نہیں ملایا جائے گا مثال کے طور پر کسی آدمی کے پاس 500 کلو گیہوں ہے اور دوسری طرف 300 کلو چاول ہے دونوں میں سے کوئی بھی نصاب کو نہیں پہنچتا اگر دونوں کو ملا دیا جائے تو نصاب کو پہنچ جائے گا زکوة کی تکمیل کے لئے دونوں کو نہیں ملایا جائے گا جیسے سونے کو چاندی سے نہیں ملایا جا سکتا ویسے دونوں الگ الگ جنس ہیں اسی طرح پھلوں میں بھی کھجور اور کشمش ہے کجھور 300 کلو ہے اور کشمش 500 کلو ہے دونوں پر زکوة واجب نہیں ہے اگر دونوں کو ملا دیا جائے تو نصاب کو پہنچ جائیں گے لیکن دونوں کو نہیں ملایا جائے گا کیونکہ دونوں کی جنس الگ ہے ۔
اگر کوئی ایسی جنس ہے جس کے انواع مختلف ہیں جیسے کھجور ہے لیکن اس کی قسمیں مختلف ہیں کوئی سکری، امبری، عجوہ وغیرہ وغیرہ یہ سب تھوڑی تھوڑی ہیں مثلا 100 کلو ہے کوئی دوسری بھی اسی طرح ہیں نصاب کو نہیں پہنچ رہی اور اگر سب ملا دیا جائے اور نصاب کو پہنچ جائے تو ملا دیا جائے گا لیکن ان کی زکوة کا طریقہ ہو گا ہر ایک میں سے اسی کی زکوة نکالیں گے اگر کسی نے پانچ قسم کی کھجوروں کو ملا کر نصاب مکمل کر دیا جائے تو ہر قسم کی کھجوروں میں سے اتنی زکوة نکالیں گے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ جو بھی ہو یعنی ایک سو سکری میں سے بیسواں حصہ ایک سو امبری میں سے بیسواں حصہ اسی طرح ہر ایک میں سے زکوة نکالے گا زکوة کھجوروں ہی کی نکالنی ہے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ جو اس پر واجب ہے ۔
اگر وہ ساری زکوة اچھی قسم کی کھجوریں نکالتا ہے تو جائز ہو گا لیکن اگر وہ ردی قسم کی کھجور نکالنا چاہے تو جائز نہیں ۔
راجح مسلک یہ ہے کہ ہم جس نوعیت کی زکوة نکال رہے ہیں اسی نوعیت میں سے نکالیں گے الا یہ کہ زکوة وصول کرنے والے یہ مصلحت سمجھتے ہیں کہ ان کو پیسے زکوة میں مل جائیں تو بعض علماء اس کی اجازت دیتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ جس چیز کی زکوة ہم نکال رہے ہیں اسی میں سے نکالیں گے چاہے وہ کسی چیز کی بھی زکوة ہو۔
اگر کسی نے زمین سے اتنا سونا نکالا کہ وہ 85 گرام سونا ہے اور 595 گرام چاندی ہے تو اس میں سے زکوة نکالے گا معدنیات کی زکوة دس فیصد یا بیس فیصد نہیں ہے اگرچہ خارج من الارض ہے اس میں ڈھائی پرسنٹ ہے
% 5۔2 تجارتی مال کی طرح یعنی سونا اور چاندی اتنا نکالے جو نصاب کو پہنچتا ہو یا پھر دوسری چیزیں اتنی نکالے جو سونے چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو جواہر ، گندھک ، لوہا ،پیتل ہو کوئی بھی چیز ہو اتنی مقدار میں نکالے جتنی سونے کی قیمت کے برابر ہو گئی یا اس سے زیادہ ہو گئی وہ زکوة نکالے گا تو وہ ڈھائی پرسنٹ نکالے گا اسی وقت نکالیں گے جب ان کو صاف کر دیا جائے زمین میں رہنے کی وجہ سے جو چیزیں اس میں شامل ہو جاتی ہیں ان کو صاف کرنے کے بعد اس میں زکوة ہے قیمت کا اندازہ اس کے صاف کرنے کے بعد لگائیں گے مٹی لگی ہو گی تو وزن کچھ اور ہو گا صاف کریں گے تو وزن کچھ اور ہو گا یعنی سونے اور چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر نکالیں گے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موتی مونگے اور عنبر اور مچھلی پائی جاتی تھی لیکن آپ نے اس کی زکوة لینے کا حکم نہیں دیا نہ ہی خلفہ راشدین ان کی زکوة لی ہو یہ دلیل ہے جن چیزوں کی زکوة کا شرعیت نے حکم نہیں دیا ان کی زکوة نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ چیزیں تعبدی ہیں جیسے بتائی ویسے ہی کریں چاہے وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ان کی زکوة نہیں لی جائے گی الا یہ کہ کوئی ان چیزوں کا کاروبار کرتا ہو یا مچھلیوں کا کاروبار کرتا ہو تو تجارتی مال کی طرح اس کی زکوة ہو گی ۔
رکاز وہ خزانے جو زمانہ جاہلیت میں دفن کر دیئے ہوں مسلمانوں نے جو دفن کیا ہو اسے رکاز نہیں کہتے رکاز جو اسلام سے پہلے یا غیر مسلموں نے دفن کر دیا ہو جو جاہلیت کے دور میں زمین میں دفن کر دیئے ہوں اگر کوئی خزانہ ہمیں ملا اور اس کی علامتوں سے یہ لگتا ہے کہ کسی مسلمان نے چھپایا ہو گا تو اس کا اعتبار لقطہ کی طرح ہو گا گری ہوئی چیز کسی کو ملتی ہے ایک سال تک وہ اس کا اعلان کرے گا اس کا مالک آ گیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ چیز استعمال کر سکتا اس کا اعتبار رکاز کی طرح نہیں ہو گا بغیر جنگ کے جو مال حاصل ہوتا ہے وہ مال فے کی طرح ہے ایک مال غنیمت ہوتا جو جنگ کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے وہ زکوة فے کے مستحقین کو دیں گے زکوة کے مستحقین کو نہیں دیں گے
مال فيء کے مستحقین 5 ہیں اور زکوة کے مستحقین 8 ہیں ۔
اگر کسی کو سو درھم ملیں گے تو اس میں سے 20 درھم نکالے گا سو کا پانچوں حصہ بیس درھم نکالے گا سب سے زیادہ زکوة اسی میں ہے کیونکہ یہ بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے اس میں خمس نکالے گا کسی بھی قسم کا مال ہو سونا، چاندی ، دینار، درھم یا دوسری چیزیں جس کو مال مانا جاتا ہو اس میں نصاب کا بھی اعتبار نہیں ہے چاہے وہ زیادہ ہو یا کم کیونکہ وہ بغیر محنت کے ملا ہے یہ مال اصحاب فيء کو دیں گے زکوة کے مستحقین کو نہیں دیں گے
مال فيء کے مستحقین 5 ہیں
فيء کا ذکر اللہ نے سورتہ الحشر 7 میں کیا مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ اللہ اور رسول کے لئے یعنی مسلمانوں کی مصلحتوں میں خرچ کیا جائے گا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہیں ان کے لئے اور یتیموں کو دیں گے مسکینوں کو دیں گے اور مسافر "
اولا: اللہ اور رسول کے لئے یعنی مسلمانوں کی مصلحت کے لئے (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور رسول کے لئے خمس ہے وہ بھی تمھاری طرف لوٹا دیا جاتا ہے)۔
ثانیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے لئے بنو عبد المطلب اور بنو ہاشم کے لوگ۔
ثالثا: یتیموں ۔
رابعا: مسکینوں۔
خامسا: مسافروں کے لئے
مال فيء اس مال کو کہتے ہیں جو کافروں سے بغیر جنگ کے حاصل ہوتا ہے
مال غنیمت کا مکمل حصہ فوج میں تقسیم کر دیا جائے یا کچھ حصہ تقسیم کیا جائے یا کچھ حصہ مسلمانوں کی مصلحت کے لئے رکھیں دونوں چیزیں جائز ہے لیکن مال فيء کا پانچواں حصہ نکالیں گے اور اس کے پانچ مستحقین ہیں اگر سو درھم ملے ہیں تو 20 درھم نکالیں گے مال فيء کے طور پر نکال دیں باقی 80 درھم جس کو ملا ہے وہ رکھے گا ۔
زکوة کے مستحقین آٹھ ہیں
سورتہ التوبہ 60 (( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ))۔
اولا: لِلْفُقَرَاءِ فقراء کے لئے۔
ثانیا :وَالْمَسَاكِينِ : مسکینوں کے لئے۔
ثالثا: الْعَامِلِينَ عَلَيْهَا: زکوة کا کام انجام دینے والے عاملین۔
رابعا:الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ: جن کو اسلام کے قریب کرنا مقصود ہو جن کی تالیف قلب مقصود ہو چاہے وہ کافر ہوں ان کو اسلام کے قریب کرنا مقصود ہو یا پھر جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں۔
خامسا:وَفِي الرِّقَابِ: غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے۔
سادسا: وَالْغَارِمِينَ : قرض داروں کو۔
سابعا: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ۔
ثامنا:وَابْنِ السَّبِيلِ :مسافروں کو۔
|
عمدة الفقه
|
الفقہ
باب زکوة الاثمان
""ان چیزوں کی زکوة جو قیمت ہوتی ہیں""
بعض اہل علم نے اس باب کا نام رکھا ہے
باب زکوة نقدین
اس کو دوسرے الفاظ میں سونا چاندی کی زکوة کا نام بھی دے سکتے ہیں
الاثمان وہ چیزیں جو کسی چیز کی قیمت بنتی ہیں یعنی سونے چاندی اور نقدی کی زکوة ۔
*اور اس کی دو قسمیں ہیں سونا اور چاندی
چاندی میں زکوة واجب نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ دو سو درھم ہو جائیں تو اس میں واجب ہوں گے پانچ درھم اور سونے میں زکوة واجب نہیں ہوتی یہاں تک کی وہ بیس مثقال ہو جائیں تو اس میں آدھا مثقال زکوة واجب ہو گا ، اور اگر اس میں ملاوٹ ہو تو ان دونوں میں زکوة نہیں ہوتی یہاں تک کہ پہنچ جائے سونا نصاب کے برابر (یعنی اصلی سونا یا اصلی چاندی نصاب کو پہنچ جائے) ، اور اگر وہ اس بارے میں شک کرے تو اسے اس بارے میں اسے اختیار دیا جائے گا زکوة اسی طرح نکالنے کے سلسلے میں یا اسے گھلانے کا ڈھالنے کا تاکہ اس کی مقدار کو جان لیا جائے مباح اور استعمال کے لئے رکھے ہوئے زیورات میں زکوة نہیں ہوتی اور عاریتا دینے والے زیورات میں اور مباح ہے عورتوں کے لئے ہر اس زیور کو استعمال کرنے کا جس کا معمول ہو جس کا پہنے کا رواج ہو معاشرے میں سونے اور چاندی میں سے ، اور مروں کے لئے مباح ہے چاندی کی چیزوں میں سے انگوٹھی اور تلوار کا دستہ اور پٹی (وہ چیز جس کے ذریعے کمر کو باندھا جاتا ہے) اور اس جیسی چیزیں ، پس وہ جو کرائے پر دینے کے لئے رکھا گیا ہو یا جمع (زخیرہ) کرنے کی نیت سے رکھا گیا ہو اور وہ جو حرام ہو اس میں زکوة ہے*۔
تفصیل :
اثمان جمع ہے ثمن کی اس کے معنی قیمت کے ہیں اور اس سے مراد ان چیزوں کی زکوة جو چیزیں بنتی ہیں جیسے کہ میز ، کرسی ،جائیداد ، زمین ، گھروں ، کپڑوں، سامان کی وہ چیزیں جو کسی چیز کی قیمت بنتی ہیں پہلے سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے سونے کے سکے کو دینار کہتے چاندے کے سکے کو درھم وہی قیمت بنتے تھے دینار اور درھم دیتے تھے اور اشیاء خریدتے تھے اب ان کی جگہ پر ڈالر ، ریال ، روپے وغیرہ وغیرہ استعمال ہوتے ہیں یہ اسی حکم میں آئیں گے کیونکہ یہ قیمت بنتے ہیں الاثمان میں الفاظ عام ہیں اگر الاثمان لیں گے تو خود بخود اسی میں آ جائے گا اور اگر ہم ذھب اور فضة بولیں گے تو خود بخود اس کے حکم میں آ جائے گا نقدی پر بھی زکوة ویسے واجب ہے جیسے سونے اور چاندی پر یا تو اس لئے یہ سونا اور چاندی کی قیمت بنتے ہیں یا پھر اس لئے سونا اور چاندی ہی کے معنی ہی میں ہے چیزوں کے خریدنے میں۔
زکوة واجب ہونے کی پانچ شرطین:
1): مسلمان ہو اور آزاد ہو ۔
2): نصاب کا مالک ہو۔
3) :مالک اس کی ملکیت میں ہو قبضے میں ہو اور تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔(ملکیت تاما)۔
4: نصاب کو پہنچے۔
5) : اس پر سال گزرے ۔
نصاب کتنا ہے؟
(( چاندی )) دو سو درھم ہو جائے اس کی بنیاد یہ حدیث ہے
لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوة نہیں ہے (ایک اوقیہ چاندی چالیس درھم کے برابر ہے) پانچ اوقیہ چاندی دو سو درھم ہو گئے جب دو سو درھم ہو تو اس میں زکوة ہو گی۔
دو سو درھم موجودہ وزن کے اعتبار کا اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے لیکن جس رائے پر ہم چلیں گے شیخ محمد بن صالح عثیمین کا خیال ہے دو سو درھم برابر ہے پانچ سو پچانوے گرام کے اگر کسی کے پاس پانچ سو پچانوے گرام چاندی ہو تو زکوة اس پر ہوتی ہے ۔
*5 اوقیہ کے 200 درھم ۔
*200 درھم 595 گرام کے ہوتا ہے ۔
عام طور کہتے ہیں ساڈھے باون تولے لیکن تولے میں اختلاف ہو سکتا ہے تولہ ملکوں کے اعتبار سے بدل جاتا ہے گرام نہیں بدلتا ہم آسانی سے اس کو کر سکتے ہیں۔
اگر کسی کے پاس پانچ سو پچانوے گرام چاندی ہو گی تو وہ نصاب کو پہنچ گیا اگر تو اس میں پانچ درھم زکوة ہو گی کیونکہ حدیث ہے صحیح بخاری کی وَفِي الرِّقَّةِ رُبْعُ الْعُشْرِ چاندی میں ڈھائی پرسنٹ یعنی عشر کا جو ربع ہے ہم عشرہ کو چار حصوں میں تقسیم کریں گے تو اس کا ربع ڈھائی پرسنٹ زکوة ہے ڈھائی پرسنٹ بھی مشکل ہو تو اس سے بھی ایک آسان طریقہ ہے چالیسواں حصہ اگر ہم چالیس میں تقسیم کریں گے تو آسانی سے پتہ چل جائے گا ۔
(( سونا)) سونے پر زکوة واجب نہیں ہوتی جب تک کہ وہ 20 مثقال ہو جائے بیس مثقال( دینار) آج کل کے 85 گرام ہوتے ہیں اگر کسی کے پاس 84 گرام سونا ہے تو اس پر زکاة واجب نہیں ہو گی 85 گرام میں زکوة ہو گی چاندی میں جتنی زکوة ہوتی ہے یعنی ڈھائی پرسنٹ آدھا مثقال زکوة ہو گی عن ابن عمر و عائشة أن النبی صلی الله علیہ وسلم کان یاخذ من کل عشرین دینار فصاعدا نصف دینارا یہ حدیث ابن ماجہ کی ہے اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیا لیکن حکم اسی اعتبار سے ہے کیونکہ اس کے شواہد ہیں عبد اللہ ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنھما روایت کرتے ہیں کہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بیس دینا اور ہر اس سے زیادہ میں آدھا دینار زکوة دیتے تھے اس کا نصاب بیس مثقال یا بیس دینار یا آج کل کے وزن کے حساب سے 85 گرام سونا یہ نصاب ہے اس کا ڈھائی پرسنٹ نکالنا ہے یعنی اس کا چالیسواں حصہ زکوة میں نکالنا ہے (( نقدی میں زکوة ))
اور جو قیمت بننے والی چیزیں ہیں جیسے کہ ڈالر ہے ان میں زکوة یعنی نقدی میں زکوة اس وقت ہو گی جب تک وہ سونا اور چاندی کے مصاب کو پہنچ جائیں اس میں سونے کو معیار بنایا جائے گا یا چاندی کو معیار بنایا جائے گا اہل علم کا اس میں اختلاف ہے لیکن عام طور پر سونے کو معیار بنانے کا فتوی دیا جاتا ہے اگرچہ اس میں فائدہ چاندی کو معیار بنانے میں ہے کیونکہ سونے اور چاندی میں بہت بڑا فرق ہے عام طور پر سونے کو معیار بنایا جاتا ہے اگر کسی کے پاس نقدی ہے اور وہ سونے کے نصاب کو پہنچ جاتی ہے 85 گرام سونے کے برابر ہے مثال کے طور پر آجکل کے حساب سے 12000 ریال ہوتے ہیں اور اس پر ایک سال گزرتا ہے تو ان پر چالیسواں حصہ زکوة کے طور پر نکالیں گے اس کو ہم چالیس سے تقسیم کریں گے تو 308 ریال بنیں گے۔
غشن اس کے معنی ملاوٹ کے ہیں سونے اور چاندی میں پیتل اور تانبہ ملایا جاتا ہے اگر اس میں ملاوٹ ہو تو اس میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ اصلی سونا نصاب کو پہنچے مثال کے طور پر کسی آدمی کے پاس تقریبا 90 گرام کا سونا ہے لیکن اس کے اندر دس گرام پیتل یا تانبہ ملا ہوا ہے تو اس پر زکوة واجب نہیں ہوتی کیونکہ جو خالص سونا ہے وہ 80 گرام ہے تو زکوة 85 گرام پر ہو گی ملاوٹ والا
جیسے اس سونے اور چاندی کے ساتھ ملایا جاتا ہے مختلف چیزوں کے لیے کیونکہ 24 کیرٹ سونا اصلی ہے اس سے جو کم ہے 18 یا 21 اس میں بہت زیادہ ملایا ہوا ہے اگر کسی آدمی کے پاس ملاوٹ والا ہے تو زکوة واجب خالص سونے پر ہی ہو گی وہ جو دھات اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس میں زکوة نہیں ہے جو خالص ہے وہ نصاب کو پہنچے اور 85 گرام ہو اس پر زکوة ہو گی باقی جو ملایا ہے اس پر نہیں ہو گی یہ مسلک جمہور کا ہے یعنی امام مالک ، امام شافعی، اور امام احمد ابن جنبل رحمہ اللہ کا مسلک ہے لیکن امام ابو خنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ غالب کے اعتبار سے دیں گے یعنی غالب اس میں سونا ہے مثال کے طور پر میں نے کہا اس میں 90 گرام ہے تو اس میں 80 گرام سونا ہے تو اس میں سونے کا ہی اعتبار کریں گے اس حساب سے زکوة نکالیں گے وہ کہتے ہیں خالص سونا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں دونوں میں جو چیز غالب ہے اسی حساب سے اس کا فیصلہ کریں گے لیکن جمہور کا قول ہی راجح ہے جو مولف رحمہ اللہ کا قول ہے یعنی جو خالص سونا ہے اسی پر ہی زکوة ہے کیونکہ حدیث میں سونے اور چاندی کا زکر ہے کسی اور چیز کا ذکر نہیں ہے ملاوٹ کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہ ہی قول راجح ہے لیکن اگر کسی کو شک ہو کہ خالص سونا کتنا ہے ملاوٹ والا کتنا ہے تو اس کو اختیار ہو کہ وہ زکوة اسی طرح نکال دے ایک اندازہ کرے اور اندازے میں احتیاط سے کام لے مثال کے طور پر اگر اسے شک ہے کہ میرے 200 گرام سونا ہے اس میں کتنا خالص ہے اور کتنی ملاوٹ ہے شک ہے اسے تو مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں اسے دو باتوں کا اختیار ہے
1) یا تو اندازہ کرے اور احتیاط سے کام لے یعنی اس کا گمان ہے 150 خالص ہے تو احتیاط سے کام لے اس کا اندازہ 160 کر لے تو اس حساب سے زکوة نکال لے غالب گمان کے اعتبار سے خالص کتنا ہو سکتا ہے احتیاط سے زکوة نکالے ۔
2) یا وہ سنار کے پاس جائے اس سے باقاعدہ پوچھے یا پھر اسے ڈھالا جائے یا پگھلا دیا جائے کہ خالص کتنا ہے ۔
اس کو دونوں باتوں کا اختیار ہے۔
(( مباح زیورات میں زکوة نہیں ہے اور جو زیور استعمال کے لئے ہیں ان کا حکم یا جو زیورات عاریة یعنی ادھار دیئے جاتے ہیں )) یہاں ایک بات تو واضح ہو گئی وہ زیورات جو مباح نہیں ہیں ان پر زکوة ہے مثال کے طور پر مرد گلے میں کوئی چین پہنتا ہے تو وہ زیور مباح نہیں ہے حرام ہے لیکن اس پر زکوة ہے کیونکہ وہ سونا اس نے اپنے پاس رکھا ہے ۔
وہ زیور جو مال کے طور پر لئے ہوئے ہیں اس پر زکوة ہو گی اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہیں وہ زیور جو استعمال ہوتے ہیں پہننے کے لئے اور وہ زیور جو کسی کو استعمال کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں بغیر کسی بدلے کے کسی کو بغیر کرائے یا معاوضے کے استعمال کرنے کے لئے زیور دینا یعنی عاریة دینا مثال کے طور پر عورتیں کسی کو پہننے کے لئے دے دیتی ہیں یعنی ادھار کے طور پر ان میں بھی زکوة نہیں ہے یہ ایک اختلافی مسلہ ہے یہ مولف رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہی ہے مسلک کا مطلب ہے جمہور یعنی جمہور میں وہ تینوں آئمہ شامل ہیں امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ علیہ اور اسی طرح دوسرے بہت سے آئمہ ہیں سب کا یہ ہی قول ہے کہ۔استعمال والے زیورات میں زکوة نہیں ہے عورت کے استعمال والے زیورات میں زکوة نہیں ہے
اس کے عام طور پر اہل علم دو سبب بتاتے ہیں یہ لمبی تفصیل ہے لیکن ہم لمبی تفصیل میں نہیں جائیں گے سبق کے مطابق ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن اس کی وجہ کیا ہے وہ جانیں گے اہل علم اس کے دو اسباب بتاتے ہیں ۔
1) زیورات بھی استعمال والی چیزوں کے مشابہہ ہیں جیسے آدمی کے پاس گھر میں استعمال کے لئے فرنیچر ہے گاڑی ہے یا بہت سارا سامان ہوتا ہے ان کی زکوة نہیں ہوتی تو اس کی زکوة بھی نہیں ہو گی کیونکہ یہ زیورات بھی عورت کے استعمال کے لئے ہیں اس کو کہتے ہیں امول القنیة وہ مال جو آدمی استعمال کرتا ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے(( لیس علی مسلم فی فرصه ولا عبد صدقة)) آدمی پر اس کے غلام میں اور اس کے گھوڑے میں کوئی زكوة نہیں یہ حدیث بنیاد ہے امول القنیة میں زکوة کے نہ ہونے کے لئے یعنی یہ حدیث بنیاد ہے کہ استعمال والی چیزوں پر زکوة نہیں ہے اس پر اہل علم نے تمام چیزوں پر قیاس کیا کہ جو چیزیں آدمی استعمال کرتا ہے ان پر زکوة واجب نہیں ہوتی زیورات بھی استعمال والی چیزوں کی طرح ہیں۔
2) دوسرا سبب ہے زکوة جو فرض کی گئی اس کا اصل سبب مال کی زیادتی ہے عورتیں جو استعمال کرتی ہیں یا پہنتی ہیں اس سے مال تو نہیں بڑتا یہ مال کی زیادتی میں نہیں آتا مال کی زیادتی اس وقت آتی ہے جب آدمی مال جمع کرتا ہے کہ مال بڑھ جائے تاکہ وقتا فوقتا اسے بیچ سکے یا کسی کاروبار میں لگاتا ہے تب مال میں اضافہ ہوتا ہے اہل علم کہتے ہیں مال کی زکوة کی بنیادی وجہ ہے مال کا بڑھنا کیونکہ عورتوں نے جو پہنا ہوا ہوتا ہے اس سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا۔
یہ ان کے دلائل ہیں جو کہتے ہیں ان میں زکوة نہیں ہوتی لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں زیورات میں زکوة ہے اور یہ قول دلائل کے اعتبار سے قوی ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید کی آیت سورتہ التوبہ 34 (( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ )) وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو درد ناک عذاب کی خبر دیجئے " یعنی وہ لوگ جو سونا اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اللہ تعالی نے الذَّهَبَ کا لفظ استعمال کیا یہ نہیں کہا کہ ایسا سونا جو استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ الذَّهَبَ میں تمام سونا آ گیا عمومیت ہے یہ پہلی دلیل ہے اور دوسری دلیل حدیث (( مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ، لَا يُؤَدِّي زکوة حقها، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ )) نہیں ہے کوئی سونے والا اور چاندی والا جو اس کی زکوة نہیں نکالتا الا یہ کہ اس کے لئے وہ سکے بنائے جائیں گے ایسی پلیٹیں بنائی جائیں گی۔ آگ کی ذریعے اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ کو داغا جائے گا " صحیح مسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلاَ فِضَّةٍ * جو سونے کا مالک ہے اور جو چاندی کا مالک ہے سونے اور چاندی میں فرق نہیں کیا ہر طرح کا سونا شامل ہو گیا یہ عمومی دلائل ہو گئے اس کی حصوصی دلائل بھی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ ایک بچی تھی اس کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے آپ نے پوچھا تم اس کی زکوة نکالتی ہو تو اس نے فرمایا کی نہیں *اتحبین عن یسوركتابه الله بسوارین من النار کیا تمھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالی اس کے بدلے تمھے آگ کے کنگن پہنائے تو اس عورت نے وہ دونوں کنگن نکال کر آپ کے سامنے رکھ دیئے اور کہا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں یہ ابوداؤ کی حدیث ہے اہل علم کا اس میں اختلاف ہے لیکن شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا اور بھی احادیث ہیں استعمال کرنے والے زیورات کے لئے دلائل عمومی بھی ہیں اور خصوصی بھی ہیں عمومی مطلب جو سونے چاندی کے عام طور پر زکوة واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور خصوصی پر یہ کہ زیورات پر زکوة ہونے پر دلالت کرتی ہیں ماضی قریب میں جو اہل علم گزرے ہیں شیخ بن باز اور شیخ محمد بن صالح العثمین اور شیخ البانی بھی اسی کے قائل ہیں کہ استمعال والے زیورات پر زکوة ہے اسی میں احتیاط ہے اور آدمی بچ جاتا ہے مطمئن بھی کر سکتا ہے ہندوستان اور پاکستان میں اسی بنیاد پر فتوی دیا جاتا ہے بہر حال یہ اختلافی مسلہ ہے اگر عورتیں بو زیورات پینتی ہیں اس میں مال بڑھتا نہیں ہے لیکن ان زیورات میں بڑھنے کی صلاحیت تو ہے یہ قول راجح ہے اگرچہ مولف رحمہ اللہ نے اپنے مسلک کے اعتبار سے اس بات کا ذکر کیا کہ اس میں زکوة واجب نہیں ۔
عورتوں کے لئے مباح ہے تمام زیورات کا جس کا استعمال ہو جس کا معاشرے میں رواج ہو اس کے پہننے کا
جیسے کانوں میں بالی ہاتھوں کے کنگن ہار وغیرہ وغیرہ وہ تمام چیزیں جو عورتیں استمال کرتی ہیں زیورات کے طور پر یعنی الحلی المباح وہ زیوارت جو مباح ہیں جن زیورات کا استعمال کرنے کا رواج ہے وہ تمام مباح ہے عورتوں کے لئے ۔
مردوں کے لئے مباح ہے چاندی کی انگوٹھی کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنائی تھی مہر کے لئے آپ کو بتایا گیا تھا کہ بادشادہ خطوط کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جبکہ کہ اس پر مہر نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنائی تھی جس پر محمد رسول اللہ لکھا تھا اور اگر مرد چاہے تو اپنی تلوار کے دستے پر بھی چاندی لگوا سکتا ہے اور وہ چیز جو باندھی جاتی ہے پٹکے کے طور پر وہ بھی مباح ہے لیکن سونے کی کوئی چیز مرد کے لئے حلال نہیں ہے الا یہ کہ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو جیسے کوئی دانت ٹوٹ گیا اور سونے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے جو رہ سکے تو اس وقت کر سکتے ہیں اس طرح کے واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کے ساتھ ہوئے تھے جب مجبوری کی حالت ہو ورنہ مرد کے لئے سونا استعمال کرنا حرام ہے(( حرم لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لإِنَاثِهِمْ )) ریشم میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لئے حلال ہے " یہ ابوداؤ کی حدیث ہے اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
وہ جو کرائے پر دینے کے لئے ہو یا زخیرے کے طور پر رکھا ہے یا وہ جس کا استعمال حرام ہے
آدمئ نے کچھ سونا رکھا ہے اور لوگوں کو کرائے پر استعمال کے لئے دیتا ہے یا پھر زخیرے کے طور پر رکھا یا جمع کیا ہے لیکن استعمال کے طور پر نہیں رکھا ان کا مقصد ہے ان کے پاس کچھ بچت ہو جائے یا مارکٹ میں قیمت بڑھے گی تو بیچ دیں گے۔
مرد کو سونا حرام ہے یا جو سونا چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں یا سونے اور چاندی کا پن استعمال کرتے ہوں ان میں مرد ہوں یا عورتیں ہوں یہ تمام ان چیزوں میں آئیں گے جن کو ہم حرام کہتے ہیں تو اس میں زکوة ہو گی۔
|
عمدة الفقه
|
الفقة
باب حکم الدین
قرض کی زکاة كے حکم کا باب
جس کا کوئی قرض ہو کسی مالدار پر یا کوئی مال ہو جس کو ختم کرنا یا حاصل کرنا ممکن ہو یا کوئی مال ہو جس کو وصول کرنا ممکن ہو جیسے وہ شخص جو انکار کرتا ہے جس کے بارے میں اس کے پاس دلیل ہو، اور وہ مال جو غصب کیا گیا ہو اور وہ حاصل کر سکتا ہو ممکن ہو اس کے لئے یا وہ قدرت رکھتا ہو اس کے لینے کی، تو اس پر اس مال کی زکوة ہے جب وہ اس مال کو حاصل کر لے گزرے ہوئے سالوں کی یا گزرے ہوئے وقت کی، اور اگر اس مال کو واپس لینا ممکن نہ ہو جیسا کہ وہ قرض جو کسی مفلس پر ہو یا اس پر ہو جو انکار کرتا ہو اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو اور وہ مال جو غصب کیا گیا ہو اور وہ مال جو گم ہو چکا ہو جس کے موجودگی کوئی امید نہ ہو تو اس میں زکاة نہیں ہے ، اور عورت کے مہر کا حکم قرض کے حکم کی طرح ہے، اور جس کے اوپر قرض ہو جو پورے نصاب کے ساتھ شامل ہو جو اس کے ساتھ ہے یا پھر نصاب کو کم کر دیتا ہو (یعنی قرض اتنا زیادہ ہے کہ نصاب کو کم کر دیتا ہے ) تو اس میں زکوة نہیں ہے۔
تفصیل :
قرض دو طرح کے ہیں :
اولا: ایک وہ قرض ہے جو ہم کسی کو دیتے ہیں۔
ثانیا: جو ہم کسی سے لیتے ہیں اور واپس کرنا ہوتا ہے۔
دونوں قرض کے سلسلے کا ذکر اس سبق میں بیان کیا گیا ہے ۔
قرض وہ جو ہم نے کسی کو دیا ہے اس کا حکم قرض اسلام میں تجارت نہیں ہے بلکہ تبروع ہے اس لئے اس پر زیادتی کی شرط رکھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی نیکی اور تقوی کے کام میں مدد کرو کیونکہ اس میں یہ چیز آتی ہے ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلَّا كَانَ كَصَدَقَتِهَا مَرَّةً " کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو دفعہ قرض دے تو اسے ایک دفعہ صدقہ کرنے کا اجر ہوتا ہے" جو قرض ہمارا کسی اور پر ہے اس کی زکوة کی دو صورتیں ہیں۔
جس کا کوئی قرض ہو کسی مالدار پر تو پہلی صورت یہ ہے کہ ہمارا قرض جس شخص پر ہے وہ مالدار ہے یا ہمارا مال ہے اس کو وصول کرنا حاصل کرنا ممکن ہے دوسرا کسی ایسے شخص پر ہے جو انکار کر رہا ہے کہ آپ نے ہمیں قرض نہیں دیا لیکن ہمارے پاس اس کی دلیل ہے ہم ثابت کر سکتے ہیں کورٹ میں کہ اس نے ہم سے قرض لیا اور تیسری چیز یہ ہے ہمارا مال غصب کیا ہے لیکن ہمارے پاس اتنی قوت ہے ہم جب چائیں اس سے مال لے سکتے ہیں یہ تینوں شکلیں ایک ہی صورت میں شامل ہیں ۔
پہلی جو مالدار ہے۔
دوسرا شکل وہ جو انکار کر رہا ہے لیکن ہمارے پاس اس کے خلاف دلیل ہے۔
تیسری شکل یہ ہے کہ ہمارا مال غصب کیا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس اتنی قوت ہے جب چائیں اس سے مال لے سکتے ہیں ۔
ان تینوں کا ایک ہی حکم ہے کہ وہ زکوة دے گا کیونکہ یہ مال ایسا ہے گویا کہ وہ مالک ہے گویا کہ اس نے بینک میں رکھا ہوا ہے جب چاہے نکال سکتا ہے ان سے جب چاہے لے سکتا ہے وہ طاقت رکھتا ہے واپس لینے کی یہ اس مال کی طرح ہے جو مال جمع مال کی طرح ہے اس لئے اس کی زکوة دی جائے گی لیکن اس کی زکوة کب نکالیں گے اس سلسلے میں مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی زکوة تب دیں گے جب مال وہ اپنے قبضے میں لے لے گا ایک مال دار پر ہمارا قرض ہے اور پانچ سال سے ہمارا مال اس کے پاس موجود ہے نصاب کو پہنچ گیا دس لاکھ ہمار قرض ہے اس کے اوپر پانچ سال گزر گئے تو مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی زکوة تو ہے لیکن تب دیں گے جن اس مال کو اپنے قبضے میں کریں گے تو ان پورے پانچ سالوں کی دیں گے ایک ساتھ دوسرا قول یہ کہ ہر سال اس کی زکوة نکال دیں گے قبضے میں لینے سے پہلے ہی ہر سال اس کی زکوة نکال دیں گے بنیادی طور پر قرض کے زکوة کی پہلی شکل ہے کہ قرض کسی ایسے شخص پر ہے مالدار ہے یا انکاربھی کرتا ہے تو اس کی دلیل ہے ہمارے پاس یا مال اس کے پاس ہے ہم جب چائیں اس سے مال لے سکتے ہیں ہمارے پاس طاقت ہے تو ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کی۔زکوة دیں گے یا تو ہم ہر سال کی زکوة نکال دیا کریں دوسرے مال کے ساتھ یا اس کی وصولی کے بعد پورے مالوں کی زکوة نکال دیں جتنے سال اس کے پاس قرض رہتا ہے۔
*اور اگر واپس لینا ممکن نہ ہو اس میں عذر پایا جائے اس لئے کہ قرض کسی مفلس پر ہے یا پھر وہ مالدار ہے لیکن انکار کر رہا ہے اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے یا پھر وہ ٹال مٹول کر رہا ہے کہ ہمیں کوئی قرض نہیں دیا یا وہ جو غصب کیا ہوا ہے اور ہم اس کو واپس کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یا پھر وہ مال جو گم ہو چکا ہے مثال کے طور پر کسی کے پاس بہت سارے اونٹ ہیں نو جنگل میں بھاگ چکے ہیں پتہ نہیں کہاں ہیں اور سال بھی گزر گیا جیسے کسی کے چھے اونٹ ہیں جنگل میں غائب ہو گئے اب وہ نہیں جانتا کہ ملیں گے کہ نہیں یہاں تک ایک سال گزر گیا یہ دوسری صورت کی مختلف شکلیں ہیں یعنی
*قرض کسی مفلس پر ہے۔
*مالدار پر قرض ہے دینے کا انکار کر رہا ہے کوئی دلیل نہیں ہے۔
*وہ مال جو غصب کیا ہوا اور میں واپس لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔
* یا مال گم ہو چکا ہے مجھے نہیں معلوم کہ وہ موجود بھی ہے کہ نہیں ۔
مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی زکوة نہیں ہے لیکن راجح قول یہ ہے کہ اس کی زکوة ہے اس سلسلے میں دو مسلک ہیں
پہلا مسلک ہے جب مل جائے گا چاہے وہ مال پانچ سال کے بعد ملے تو ایک سال کی زکوة نکالیں گے یا پھر جس وقت سے ملا ہے اس وقت سے سال شمار کرنا شروع کریں گے یہاں اس کا ذکر کر رہے ہیں جو نصاب کو پہنچا ہوا ہے ۔
ایسا قرض جو دوسری صورت میں آتا ہے مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی زکوة نہیں ہے لیکن راجح قول ہے اس کی زکوة ہے لیکن جب مال آ جائے گا اور ایک سال کی مدت ہے مولف رحمہ اللہ کے قول کے مطابق جب مل جائے گا تب سے اس سال شمار کریں گے کیونکہ وہ ایسا مال تھا جو میرے مال کی طرح نہیں ہے مجھے امید نہیں تھی مجھے ملے گا گویا وہ میرے قبضے میں نہیں تھا یا میرے لئے وصول کرنا ممکن نہیں تھا ۔
عورت کے مہر کا حکم قرض کے حکم کی طرح ہے وہ جو مؤجل تاجيل ہے مؤجل جو دیا گیا وہ تو عورت کی ملکیت میں آ گیا اور اس میں سال گزر گیا اور نصاب کو پہنچا ہوا ہو تو اس میں زکوة ہو گی مؤجل جو جلدی سے ہے
کہتے ہیں جو نکاح کے وقت دیا جاتا ہے۔
مؤجل تاجیل سے جو تاخیر کے معنی میں ہے
جو بعد میں دیا جاتا ہے ۔
دونوں طرح کا مہر جائز ہے۔
عورت کا مہر شوہر پر نصاب کو پہنچا ہوا ہے یا پھر اس کے پاس مال ہے اور وہ مہر کے مال کو ملائے گی تو وہ نصاب کو پہنچ جائے گا اس مہر کا بھی وہی حکم ہے جو قرض کا ہے اگر شوہر مانتا ہے کہ آپ کا مہر مجھے دینا ہے یا پھر وہ انکار کرتا ہے اور عورت کے پاس نکاح نامہ ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ اتنا دیا ہے اور اتنا دینا باقی ہے ثبوت ہے یا پھر شوہر مالدار ہے ان صورت میں عورت ہر سال زکوة نکالے گی یا کم سے کم اس وقت نکالے گی جب مال مل جائے گا اسے لیکن اگر شوہر مفلس ہے غریب ہے مہر مؤجل دینے کی طاقت نہیں رکھتا یا پھر وہ کہتا ہے اتنا ہی مہر تھا انکار کرتا ہے اور اس کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے عام طور پر جیسے پہلے ہوتا تھا کوئی چیز لکھنے میں نہیں آتی تھی تو ایسی صورت میں وہ زکوة نہیں نکالے گی الا یہ کہ اگر وصول ہو جائے تو ایک سال کی نکالے گی یا اس وقت سے اس کے نصاب کو شمار کرے گی یہ بھی قرض کے مال کی طرح ہے۔
اب اس قرض کا معاملہ ہے جو مجھ پر ہے کسی اور شخص کا قرض مجھ پر ہے حقیقت یہ ہے کہ قرض زکوة کے لئے معنی نہیں ہے رکاوٹ نہیں بنتا سوائے اس قرض کے جو اسی وقت ہم کو دینا ہے اس کی وجہ سے نصاب کو مال نہیں پہنچے گا مثال کے طور پر کسی کے اوپر کسی کا قرض ہے اتنا قرض ہے کہ وہ پورے نصاب کو شامل ہے کسی کے پاس دو لاکھ ریال ہے اور وہ نصاب کو پہنچا ہوا ہے اور اسے دو لاکھ قرض دینا ہے یہ ایسا قرض ہے جو پورے نصاب کو شامل ہے پورا پیسہ قرض میں دینا ہے یا پھر وہ نصاب کو کم کرنے والا ہے مثال کے طور پر اس کے پاس دو لاکھ ریال ہیں لیکن اس کا قرض ایک لاکھ اسی ہزار ہے اگر وہ ایک لاکھ اسی ہزار قرض دے گا تو اس کے پاس بیس ہزار بچ جائیں گے اور وہ نصاب کو نہیں پہنچتے یا تو وہ نصاب کو کم کرتا ہے مال تو مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں اس میں زکوة نہیں ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اسی صورت میں ہے ہم کو قرض دینا ہے لیکن وہ قرض ہمارا بعد میں دینا ہے جیسے عام طور پر ہوتا ہے ہم اسے قسط وار ادا کرتے ہیں فورا ادا نہیں کرتے تو وہ قرض رکاوٹ نہیں بنتا بعض جو قسط وار ادا کرنے والے ہوتے ہیں اپنی زکاة کے مال میں سے اس پورے مال کو بھی نکال دیتے ہیں مثال کے طور پر میرے پاس دو لاکھ ریال ہیں اور ایک لاکھ کا قرض ہے جبکہ وہ قرض مجھے اس وقت نہیں دینا ہے میں ماہانہ تھوڑا ادا کر رہا ہوں لیکن بعض لوگ پورے ایک لاکھ کو قرض کے مال کو نصاب میں سے نکال دیتے ہیں پھر ایک لاکھ کی زکوة ادا کرتے ہیں یہ غلط ہے صرف اسی قرض کا اعتبار ہو گا جو اسی وقت ہمیں ادا کرنا ہے ورنہ قرض زکوة کے لئے رکاوٹ نہیں بنتا اس کی دوسری مثال اس طرح ہے کسی کے اوپر قرض ہو جو پورے نصاب کو شامل ہو جو اس کے ساتھ ہے
اولا: جیسے کسی کے اوپر ایک لاکھ ریال قرض ہے اس نے اپنے دوست کو ایک لاکھ قرض واپس کرنا ہے اس کے پاس ایک لاکھ ریال موجود ہیں جو نصاب کو پہنچے ہوئے ہیں ایک سال سے موجود ہیں لیکن وہ ایک لاکھ ریال اسے اپنے دوست کو دینا ہے اس کا مطلب اس کے پاس اتنا قرض ہے جو پورے نصاب کو شامل ہے پورا پیسہ قرض میں چلا جائے گا ۔
ثانیا : اس کے پاس اتنا قرض ہے اگر وہ دے گا اس کے پاس جو مال ہے وہ نصاب سے کم ہو جائے گا مثال کے طور پر چالیس ہزار ریال نصاب کو پہنچتے ہیں اگر کسی کے پاس چالیس ہزار ریال ہے تو وہ نصاب کو پہنچتے ہیں تو کسی کے پاس ایک لاکھ ریال ہے اور اس پر ایک سال گزر گیا ہے لیکن اس پر اسی ہزار قرض ہے اگر وہ نکال دے گا تو اس کے پاس بیس ہزار بچیں گے تو مال نصاب سے کم ہو گیا یعنی اتنا مال جو نصاب کو کم کر دیتا ہے اس پر زکوة نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ قرض اسی وقت دینا ضروری ہو ورنہ اگر ایک دو مہینے بعد دیا جا سکتا ہے تو وہ زکوة سے مانع نہیں ہے بلکہ اس کو زکوة نکالنا پڑے گا صرف وہ قرض اثر کرے گا زکوة پر جس کو اسی وقت ادا کرنا پڑے گا ورنہ قرض رکاوٹ نہیں بنتا کسی کام کے لئے نہ تو حج کے لئے نہ ہی عمرے کے لئے بنتا ہے صرف وہی رکاوٹ بنتا ہے جس کی ادائیگی فی الفور ضروری ہے ۔
|
عمدة الفقه
|
الفقة
باب زکوة العروض
سامان تجارت کی زکوة کا باب ۔
اس میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کے وہ اس میں تجارت کی نیت کرے اور وہ نصاب کو پہنچے ایک سال مکمل ہو جائے ، پھر وہ اس کی قیمت کا اندازہ لگائے گا(اس کا حساب کرے گا) اگر وہ پہنچ جائے سونے اور چاندی کے سب سے کم نصاب کے برابر تو زکوة نکالے گا اس کی قیمت میں سے، اور اگر اس کے پاس سونا یا چاندی ہو تو اسے ملائے گا سامان تجارت کی قیمت کے ساتھ نصاب کی تکمیل میں ، اور اگر وہ سامان تجارت کو استعمال کرنے کی نیت کرتا ہو تو اس میں زکوة نہیں ہے پھر اگر وہ اس میں نیت کرے اس کے بعد تجارت کی تو ازسر نو (نئے سرے سے) سال کو شمار کرے گا۔
تفصیل:
عروض یہ جمع ہے عرض ر کے فتح کے ساتھ یا ر کے سکون کے ساتھ دونوں طرح سے اس کو پڑھا گیا ہے کل ما يعد للبیع وللشراء والتکسب ہر وہ چیز جو خرید و فروخت کے لئے تیار کی جائے تاکہ اس سے نفع حاصل کیا جائے خواہ وہ غیر منقولہ جائیداد ہو جیسا کی زمینیں اور مکانات یا پھر منقولہ ہو حیوان ، کھانا، الات، سامان وغیرہ وہ تمام چیزیں جو تجارت کی نیت سے تیار کی جاتی ہیں جس کا مقصد ان کی تجارت ہے تاکہ ان کو بیچے خرید و فروخت کرے اور نفع اٹھائے چاہے زمینیں ہوں مکانات ہوں یا پھر استعمال کی چیزیں ہوں پلاسٹک کی اشیاء ہوں یا پھر کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا پھر حیوانات ہوں زکوة کے باب میں یہ سب زیادہ وسیع باب ہے اس میں کوئی چیز مستثنی نہیں ہوتی تجارت کے لئے ساری چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں ہر وہ چیز جو تیار کی جاتی ہیں وہ ساری چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں خواہ وہ سونا ،چاندی، حیوانات ، غلہ، یا وہ چیزیں جو غیر منقولہ کہلاتی ہیں جن کو نقل نہیں کرتے جیسے کہ زمیںنیں ، مکانات ہوں یہ بہت وسیع باب ہے اہل علم کہتے ہیں عروض عرض کی جمع ہے اس کو عروض اس لئے کہتے ہیں کہ یہ انسان کے پاس آتی ہے پھر چلے جاتی ہے باقی نہیں رہتی زائل ہو جاتی ہے اصل مقصد انسان کا مال کمانا ہوتا ہے سامان اس کا مقصد نہیں ہوتا اس لئے آتی ہے چلی جاتی ہے اس لئے اس کو عروض کہتے ہیں انسان کے پاس باقی نہیں رہتی یہ فورا تبدیل ہو جاتی ہے پیسوں کی شکل میں اس کو سامان تجارت کہتے ہیں وہ تمام چیزیں جو انسان خرید و فروخت کے لئے تیار کرتا ہے تاکہ وہ اس سے نفع حاصل کرے چاہے وہ کسی بھی قسم کا مال ہو ان میں زکوة فرض ہے اس کی دلیل اہل علم نے سورتہ 19 (( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ )) اور ان کے مالوں میں حق ہے سوال کرنے والے کا اور اس کا جو محروم ہے" اس کے پاس جس کے پاس مال نہیں ہے مانگنے والے اور اس کا بھی جو مال سے محروم ہے ان کا حق ہے اللہ تعالی نے وَفِي أَمْوَالِهِمْ کہا تو سارے مال اس میں شامل ہے تو مال تجارت بھی مال ہے اس لئے وہ بھی اس میں داخل ہے یہ قرآن کی دلیل ہو گئی اور حدیث کی دلیل وہ ہے جو معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن بھیجا تھا تو اس وقت کہا تھا ان سے(( فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ )) صحیح بخاری1783 اس حدیث میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا پہلے ان کو توحید کی دعوت دو پھر نماز کے بارے میں دعوت دو جب دونوں چیزوں کی ان کو دعوت سے دو تو تیسری چیز یہ کہی کہ اللہ تعالی نے ان پر ایک صدقہ فرض کیا ہے ان کے مالوں میں جو ان کے مال داروں سے لیا جائے گا ان کے غریبوں کو دیا جائے گا فِي أَمْوَالِهِمْ کے الفاظ میں سارے مالوں کو داخل ہے تجارت بھی مال ہے وہ بھی اس میں داخل ہے اسی طرح مسلمانوں کا عمل ہے وہ سامان تجارت کی زکوة نکالتے ہیں۔
سامان تجارت کی زکوة: ہم لوگ کتاب میں پڑھ چکے ہیں مولف رحمہ اللہ (ابن قدامة رحمة اللہ ) نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ چار چیزوں میں زکوة فرض ہے :
اولا: چوپائے : عام چراگاہوں میں چرنے والے چوپائے۔
ثانیا: زمین سے نکلنے والی چیزیں کھیتی اناج غلہ وغیرہ۔
ثالث: سونا چاندی ۔
رابع : سامان تجارت۔
یہ غور طلب ہے
سامان تجارت میں زکوة نہیں یہاں تک کی وہ چیزیں پوری ہو جائیں جب یہ چیزیں پوری ہوں گی تب اس میں زکوة ہو گی اگر یہ چیزیں پوری نہیں ہوں گی تو زکاة نہیں ہو گی ۔
اولا: تجارت کی نیت۔
مثال کے طور پر اگر وہ گھر میں سامان لایا ہے، فرنیچر بہت سا ہے، اس کے پاس غلہ ہے، بہت سامان ہے ، بہت سے جانور ہیں اس کے پاس اگر وہ استعمال کی نیت کرتا ہے تو اس میں زکوة نہیں ہے زکوة اس وقت ہے جب وہ اس مقصد کے لئے لایا ہے بس رکھا ہے کہ اس میں تجارت کرے گا اور ان چیزوں کو وہ خریدتا اور بیچتا ہے تاکہ اس کے زریعے نفع کمائے اس میں زکوة اس وقت ہو گی جب کہ وہ تجارت کی نیت کرے گا تو زکوة ہو گی لیکن اگر تجارت کی نیت نہیں ہے رکھا ہوا ہے لیکن مال بیچ نہیں رہا ہے استعمال بھی نہیں کر رہا لیکن بعد میں اس کا ارادہ ہو گا بیچنے کا لیکن فی الحال جو اس کو رکھا ہوا ہے تجارت اس کا مقصد نہیں مثال کے طور پر بڑی بڑی کمپنیاں ہیں بڑے بڑے جماعتیں ہیں ان کے پاس بہت سا سامان گودام میں رہتا ہے اس پر تجارت کا حکم نہیں ہو گا لیکن مقصد ان کا تجارت ہی ہے ان کی نیت یہ ہی ہے کہ جب وہ مال ختم ہو گا تو وہ گودام سے مال نکال کر مارکٹ میں رکھ دیں گے اس فرق کو سمجھیں ایک آدمی نے مال کو خریدا اس کا مقصد ابھی خرید و فروخت کرنا نہیں ہے اس پر زکوة نہیں ہے لیکن ایک آدمی مال لایا ہی ہے اس میں خرید وفروخت کرنے کے لئے بس اتنی بات ہے وقت کا انتظار کر رہا ہے کہ جب سامان خالی ہو گا تو وہ وہاں رکھے گا۔
ثانیا: نصاب کو پہنچے والا سونے کا نصاب ہے 85 گرام بیس دینار یا بیس مثقال اور چاندی کا نصاب ہے 595 گرام یہ نصاب ہے یہاں کہ تجارت کا مال پہنچے اگر تجارت کا مال نصاب سے کم ہے تو زکوة نہیں ہے ۔
ثالثا: نصاب کو پہنچنے کے بعد ایک سال گزر جائے مثال کے طور پر ایک ادمی نے پچاس ہزار روپیوں سے اپنی تجارت شروع کی ہے اس میں ایک شرط پائی جاتی ہے اس میں اس کی نیت تجارت کی ہے لیکن اس کا مال نصاب سے کم ہے اور اس پر سال بھی گزر جاتا ہے تب بھی اس پر زکوة نہیں ہو گی اور اگر ایک ادمی نے دس لاکھ سے شروع کیا اور وہ نصاب کو پہنچا ہوا ہے اور اس پر ایک سال گزرتا ہے تب اس پر زکوة ہو گی۔ مولف رحمہ اللہ نے تین شرط رکھیں تجارت کی نیت، نصاب کو پہنچا ہوا ہے، سال گزر جائے اس میں ایک اور شرط کا اضافہ کریں
رابعا: اس مال کا وہ مالک ہو اس کو ملکیت تامہ حاصل ہو پوری طرح مال کا مالک ہو اس صورت میں مال میں زکوة ہو گی جو تجارت کے لئے رکھا ہے ۔
مولف رحمہ اللہ کے حساب سے جب تین چیزیں پوری ہو گئیں تو وہ اس کا حساب لگائے گا جب وہ سونے اور چاندی کے کم سے کم نصاب کو پہنچے گا یعنی سونا 85 گرام اور چاندی 595 گرام تو اس کے برابر تجارت کا مال پہنچ جائے گا تو وہ زکوة نکالے گا اس کی قیمت میں سے مثال کے طور پر وہ پلاسٹک کے سامان کی تجارت کر رہا ہے مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ زکوة پیسے کی شکل میں نکالے گا پلاسٹک کی چیزوں کی شکل میں نہیں نکالے گا تجارت سے اصل مقصد پیسہ ہے تو وہ پیسے کی شکل میں نکالے گا اگرچہ کہ بعض فقہ کرام اس طرف گئے ہیں کہ وہ اسی سامان سے نکالے گا جس کی وہ تجارت کرتا ہے لیکن راجح قول ہے کہ وہ قیمت میں سے نکالے گا کیونکہ مقصد اس کا نفع کمانا ہے سامان نہیں ہے سونے اور چاندی کی طرح ڈھائی گرام نکالے گا یعنی جتنا بھی مال اس کے پاس ہے اس کا ڈھائی پرسنٹ یا چالیسواں حصہ اس کا حساب اس طرح لگائے گا کہ مثال کے طور پر کچھ سامان کی تجارت کرتا ہے وہ اندازہ لگائے گا اس کے پاس جتنا بھی سامان تجارت میں شامل ہے سال گزرنے کے بعد وہ دیکھے گا وہ کتنا ہے اور وہ جو لوگوں کے پاس سے اس کو پیسے آنے ہیں اس کو بھی اس میں شامل کرے گا اور جو نفع اس کے پاس جمع ہوا ہے بنک میں جو نفع جمع ہے تین چیزوں کو شمار کرے گا
اولا: اندازہ لگائے گا دکان میں سامان کتنے کا ہے ۔
ثانیا: دوسروں کے پاس سے جو کچھ آنا ہے وہ کتنا ہے۔
ثالثا : نفع موجود ہے وہ کتنا ہے۔
ان تینوں کو شامل کریں گے اس میں سے وہ نکال دے گا جو دکان میں سے کسی کو قرض دے رہا ہے مثال کے طور پر وہ کسی اور جگہ سے مال لایا ہوا ہے تو اس کو نکال دے گا اس میں سے تو جو بچے گا اس میں سے وہ چالیسواں حصہ نکالے گا مثال کے طور پر کسی کو مہینے میں پچاس ہزار آتے ہیں اس میں سے تیس ہزار گھر میں خرچ ہو رہے ہیں بیس ہزار اس کے پاس جمع ہوتے ہیں تو تیس ہزار کا حساب نہیں ہے وہ خرچ ہو گئے جو باقی نفع موجود ہے اس میں سے زکوة کو شامل کریں گے اور وہ چیزیں زکوة میں شامل نہیں ہیں جن سے دکان کی ڈیکوریشن کی جاتی ہے جیسے اس کے قیمتی دروازے ہیں میز کرسیاں ہیں وغیرہ وغیرہ یہ چیزیں شامل نہیں ہیں وہ تجارت میں شامل نہیں ہیں۔
مولف رحمہ اللہ ایک اور بات کہتے ہیں اگر اس کے پاس سونا ہو یق چاندی ہو تو سامان تجارت میں اس کو بھی شامل کرے گا نصاب کئ تکمیل میں مثال کے طور پر اس کے پاس سامان تجارت اتنا ہے جو نصاب کو نہیں پہنچتا لیکن اس کے پاس گھر میں سونا چاندی ہے یا پھر دوسرا پیسہ ہے اس کے پاس یعنی اس کی ملازمت سے جو مال ملتا ہے اس میں سے کچھ پیسہ اس کے پاس ہے سامان تجارت نصاب کو نہیں پہنچتے لیکن اس کے پاس کچھ دوسرا مال ہے جس کا تجارت کے مال سے کوئی واسطہ نہیں ہے مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں وہ اس مال کو تجارت والے مال کے ساتھ ملا دے گا یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ نصاب کی تکمیل میں بھی ملائے گا اور اگر نصاب مکمل ہو تو اس کی زکوة بھی نکالے گا چاہے وہ اس کے ساتھ ملا کر نکالے یا الگ سے نکالے مثال کے طور پر یعنی اس کے پاس پیسہ کسی بھی لحاظ سے حاصل ہوا ہو چاہے سامان تجارت کا پیشہ ہو یا پھر وراثت کا ہو ملازمت کا ہو یا آمدنی سے بچے ہوئے پیسے ہوں کسی بھی قسم کا پیسہ ہو اگر اس کے پاس ہے سونے اور چاندی یا نقدی میں آتا ہے سب کی زکوة نکالے گا
( اگر الگ الگ مال ہے اور ہر مال کے نصاب کا سال الگ الگ ہے تو ہمیں دو چیزوں کا اختیار ہے ہر ایک کے سال کا شمار ہم الگ الگ کریں لیکن یہ بہت مشکل ہے اس لئے دوسرا طریقہ آسان ہے کہ سال کے اخیر میں جتنا ہمارے پاس پیسہ ہے سب کی زکاة نکال دیں گے اس کے اوپر سال گزر گیا اس کی زکوة وقت پر ادا ہو جائے گی جس کے اوپر سال نہیں گزرا اس کی زکوة وقت سے پہلے ہو جائے گی ) ۔
اگر وہ تجارت کا مال استعمال کرنے کی نیت کرے گا تو اس میں زکوة نہیں ہے تجارت کا مال الگ ہے استعمال کرنے والا مال الگ ہے تجارت کے مال میں زکوة ہے استعمال والے مال میں زکوة نہیں ہے قنیة کہتے ہیں ھی مااتخذہ الانسان لنفسه للانتفاع بھا لا للتجارة کنیة وہ مال ہے جس کو انسان اپنے نفس کے استعمال کے لئے لیتا ہے جیسے انسان اپنے لئے لیتا ہے اسے فائدہ اٹھانے کے لئے تجارت کے نہیں چاہے کھانا ، پینا، گاڑی جانور یا کوئی اور اشیاء کوئی بھی چیز ہو جسے انسان اپنے استعمال کے لئے رکھتا ہو تجارت اس کا مقصد نہیں ہوتا اس کو القنیة کہتے ہیں اور سامان تجارت کو عروض کہتے ہیں اگر کوئی سامان تجارت میں سے کوئی سامان اپنے لئے رکھ لیتا ہے مثال کے طور پر اگر ایک آدمی گاڑیوں کی تجارت کرتا ہے اور اس نے دس گاڑیاں خریدی اور نو تجارت کے لئے رکھ دی اور ایک گاڑی استعمال کے لئے رکھ لی تو اس گاڑی میں زکوة نہیں اسی طرح اگر کوئی گھروں کا کاروبار کرتا ہے اس میں سے تین گھر تجارت کےلئے رکھے اور ایک گھر اس نے اپنے لئے رکھا تو جب تک وہ اس گھر میں رہنے کا ارادہ کر رہا ہے اس گھر میں زکوة نہیں ہو گی اگر سامان تجارت میں اس کی نیت اپنا استعمال کرنا ہے تو اس میں کوئی زکوة نہیں ہو گی حدیث میں ہے *لیس علی مسلم في
فرسه ولا عبد صدقة* صحیح مسلم کی حدیث ہے مسلمان کے گھوڑے پر اور اس کے غلام پر کوئی زكوة نہیں ہے اس حدیث کو امام نوی رحمہ اللہ کہتے ہیں اموال القنیة استعمال والی مالوں میں زکوة نہیں ہے اس لئے یہ حدیث اصل کی حیثیت رکھتی ہے اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے آدمی کے استعمال کے لئے جو چیزیں ہوتی ہیں چاہے وہ ایک سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں چاہے ایک آدمی کی خدمت کے لئے دس غلام ہوں یا استعمال کے لئے دس گاڑیاں یا رہنے کے لئے تین چار گھر رکھا ہوا ہے بھلے ہی وہ سال میں ایک بار ہی رہتا ہو اس میں زکوة نہیں ہوتی جب تک اس کا ارادہ اس میں رہنے کا یا استعمال کا ہو ۔
پھر اگر استعمال کی چیز کو تجارت کے لئے استعمال کر لئے مثال کے طور پر جو گاڑی اس نے استعمال کی نیت کے لئے رکھی تھی پھر اس نے سوچا میں اس کو بیچ دوں گا تو پھر نئے سرے سے سال شمار کرے گا جب وہ نیت کرے گا بیچنے کی اور نصاب کو پہنچا ہوا ہے اس وقت سے وہ سال شمار کرے گا۔
|
عمدة الفقه
|
الفقة
باب زکاة الفطر
صدقہ فطر کا باب
صدقہ فطر واجب ہے ہر مسلمان پر جب وہ مالک ہو اپنی غذا یا اپنے اہل عیال کی غذا کا عید کے دن اور اس کی رات اور اس کے دن سے ( جو شخص عید کے دن اور اس کی رات میں جتنی غذا کی ضرورت پڑتی ہے اس سے زیادہ اس کے پاس ہے اس کے اور اس کے اہل و عیال کی) اور فطرے کی مقدار ایک صاع ہے گیہوں سے یا جو ان کا آٹا یا ان کا ستو یا کھجور یا کشمش یا منقی اور اگر وہ یہ نہ پائے تو اپنی غذا میں سے جو چیز چاہے نکالے ایک صاع ، اور جس پر اس کے نفس(اپنا) کا فطرہ لازم ہو اس پر لازم ہو گا اس کا فطرہ بھی جس کا نفقہ اس کے اوپر لازم ہے عید کی رات، جب وہ اس کا مالک ہو جس کو وہ ادا کر سکتا ہو( اس کے پاس اتنا ہو کہ وہ ان کی طرف سے ادا کر سکتا ہو) ، اور اگر اس کا نفقہ ایک جماعت پر لازم ہو جیسے مشرک غلام یا تنگ دست رشتے دار جو کسی جماعت کا ہو ( کسی جماعت کا تنگ دست رشتے دار) اس کا فطرہ ان پر ہو گا اس کے نفقہ کے مطابق اور اگر اس کا بعض حصہ آذاد ہو تو اس کا فطرہ اس پر ہو گا اور اس کے آقا پر ہو گا, اور مستحب ہے فطرے کا نکالنا عید کے دن عید کی نماز سے پہلے، اور عید کے دن سے اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے( عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا جائز نہیں ہے) ، اور فطرے کو آگے کرنا جائز ہے عید سے ایک دن یا دو دن ، اور جائز ہے دیا جائے کسی ایک شخص کو ایک جماعت کا فطرہ یا ایک کئی لوگوں کا فطرہ (کئی لوگوں کا فطرہ) ، اور جائز ہے ایک مسکین کو دیا جائے ایک جماعت کا فطرہ یا کئی لوگوں کا فطرہ اور ایک جماعت کو یا کئی لوگوں کو دیا جائے ایک شخص کا فطرہ۔
شرح :
زکوة فطر کو صدقہ الفطر بھی بولتے ہیں بعض مولفین رحمھم اللہ اس کا عنوان رکھتے ہیں باب صدقة الفطرہ صدقہ فطر اور زکاة فطر کا باب اور زکاة فطر ایک ایسا صدقہ ہے جو بدن کی طرف سے ہوتا ہے مال کا صدقہ نہیں جیسے زکاة ہے جیسے ہم جانوروں کی زکاة چوپایوں کی زکاة ہو تجارتی مال کی زکوة ہو یا سونے چاندی کی زکاة ہو یا مال کی زکاة ہو لیکن صدقہ فطر یہ مال کی زکاة نہیں یہ بدن کی زکاة ہے روزے دار سے جو لغو اور جو بے حیائی کی جو باتیں ہو جاتی ہے یہ روزے دار کے روزے کو پاک کرتی ہے اس لئے اس کو کہتے ہیں بدن کا صدقہ اس لئے بعض لوگ اس کا عنوان رکھتے ہیں باب زکاة الرؤس اور بعض لوگ کہتے ہیں باب زکاة الرقاب اور بعض لوگ اس کا عنوان رکھتے ہیں باب زکاة الابدان سروں کی زکاة ، گردنوں کی زکاة ، یا بدنوں کی زکاة کیونکہ یہ زکاة یا صدقہ یہ بدن کی طرف سے ہے اس کے مختلف عنوان ہیں یہ سب ایک ہی چیز ہے زکاة الفطر یہ اضافت کی گئی ہے فطر کی طرف وہ زکاة جو رمضان کے روزوں کے ختم ہونے کے سبب سے واجب ہوتی ہے اس کو کہتے ہیں باب اضافت شیء الی سبب کسی چیز کی نسبت کرنا اس کے سبب کی طرف " زکاة فطر کا سبب ہے رمضان کے روزوں کا ختم ہونا اس وجہ سے اس کو زکاة الفطر یا صدقہ الفطر کہتے ہیں اردو میں ہم اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں بعض اہل علم نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے صدقة تجب بالفطر من رمضان قبل صلاة العيد شکرا لله تعالى زکاة الفطر سے مراد وہ صدقہ ہے جو رمضان کے روزوں کے ختم ہونے پر واجب ہوتا ہے عید کی نماز سے پہلے اللہ کے شکر کے طور پر شکر الہی کے طور پر اس کی حکمت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ذکر کرتے ہیں(( * ابْنِ عَبَّاسٍ , رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " زَكَاةُ الْفِطْرِ طُهْرَةٌ لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ ، وَطُعْمَةٌ لِلْمَسَاكِينِ* )) یہ صدقہ ان دو حکمتوں کی وجہ سے یہ صدقہ یا پھر یہ زکاة مقرر کی گئی ہے روزے دار کو پاک کرنے کے لئے لغو اور بے حیائی کی چیزوں سے " روزے دار سے جو چھوٹی موٹی لغزشیں ہو جاتی ہیں کچھ باتیں یا حرکتیں سرزد ہو گئیں ان چیزوں کو پاک کرتا ہے صدقہ فطر اور مسلمان معاشرے میں جو غریب و مسکین ہوں گے وہ عید کے دن بھی کھانے سے محروم رہیں گے تو ان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا صدقہ ہے اس کی دو حکمتیں ہیں
اولا : ایک کا تعلق روزے داروں سے ہے۔
ثانیا: دوسری کا تعلق معاشرے سے ہے۔
یہ روزے دار کی چھوٹی موٹی لغزشیں ہو جاتی ہیں ان سے یہ پاک کرتا ہے اور دوسری حکمت جس کا تعلق معاشرے سے ہے وہ یہ کہ غریب لوگوں کے لئے عید کے دن عید کی خوشی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔
شرح :
یہ ہر مسلمان پر واجب ہے اس میں ہر مسلمان کے لئے عمومیت پائی جاتی ہے اس میں عمر کا کوئی اعتبار نہیں اور جنس کا کوئی اعتبار نہیں اور اس میں مالدار اور غریب کا کوئی اعتبار نہیں ہر مسلمان کے پاس اتنا ہو جتنا آگے ذکر کیا جائے گا اس کے اوپر یہ صدقہ واجب ہے واجب ہونے کی دلیل عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کی حدیث ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں ہے (( عَنِ اِبْنِ عُمَرَ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: { فَرَضَ رَسُولُ اَللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -زَكَاةَ اَلْفِطْرِ, صَاعًا مِنْ تَمْرٍ, أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ: عَلَى اَلْعَبْدِ وَالْحُرِّ, وَالذَّكَرِ, وَالْأُنْثَى, وَالصَّغِيرِ, وَالْكَبِيرِ, مِنَ اَلْمُسْلِمِينَ, وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ اَلنَّاسِ إِلَى اَلصَّلَاةِ)) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکاة فطر کو فرض قرار دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واجب ہے کھجور ایک صاع یا جو کا ایک صاع غلام پر بھی اور آذاد پر بھی مرد پر بھی عورت پر بھی چھوٹے پر بھی بڑے پر بھی مسلمانوں میں سے اور حکم دیا کہ یہ لوگوں کے عید کی نماز کے نکلنے سے پہلے اسے ادا کیا جائے اس کا حکم واجب کا ہے اس کے واجب ہونے کی شرط:
اولا:اسلام ۔
ثانیا: جب وہ مالک ہو زیادہ کا اپنی غذا سے اور اپنے اہل و عیال کی غذا سے بڑھ کر کا مالک ہے عہد کے دن اور اس کی رات کی غذا(عید کے دن اور اس کی رات کے کھانے سے بڑھ کر اس کے پاس اگر ایک صاع ہے تو اس کے اوپر یہ چیز واجب ہو گئی )۔
اور اگر اس کے پاس اتنا نہیں ہے عید کے دن اور اس کی رات کے کھانے کے لئے نہیں ہے تو پھر وہ مسکین ہو گیا اس کے اوپر واجب نہیں ہے ۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اب کسی کے پاس بڑھ کر تو ہے لیکن آدھا صاع بڑھ کر ہے اس کے لئے اور اس کے اہل عیال کے لئے عید کے دن اور عید کی رات کے کھانے کی جتنی ضرورت ہے اس سے زیادہ کے پاس جو ہے وہ ایک صاع کو نہیں پہنچتا تو اہل علم کہتے ہیں وہ جتنا نکال سکتا ہے ایک مد دو مد جتنا نکال سکتا ہے نکال دے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ " اللہ سے اتنا ڈرو جتنی استطاعت ہے " اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ جب میں تمھے کسی بات کا حکم دوں تو اتنا کرو جتنا تمھارے اندر طاقت ہو ایک ایک صاع ہے تو اتنا نکالے گا جتنا واجب ہے اگر ایک صاع نہیں ہے تو جتنی اس کے پاس ہے اتنی نکالے گا ۔
ایک صاع میں چاد مد ہوتے ہیں اور ایک مد ہوتا ہے درمیانے آدمی کے ہاتھ سے چار لیپ بھر کر اور اگر ہم اس کو وزن میں شمار کرتے ہیں تو اس میں اختلاف ہے لیکن زیادہ بہتر قول ہے کہ وہ ڈھائی کلو سے تین کلو کچھ لوگ کہتے ہیں دو کلو چالیس گرام ہے اس لئے ہم احتیاط اختیار کریں گے اور ہم غذا دیں گے
اولا: گیہوں یا ان کا آٹا یا ستو۔
ثانیا : جو یا اس کا آٹا۔
ثالثا : کھجور ۔
رابعا: کشمش۔
حدیث میں ایک اور چیز کا ذکر آیا ہے اقط پنیر دودھ کو سکھایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خشک ہو جاتا ہے اور سخت ہو جاتا ہے ۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تھے ہم نکالا کرتے تھے صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے ہر آذاد اور غلام کی طرف سے ایک صاع کھانے میں سے ان کا کھانا گیہوں ہوتا تھا ایک صاع پنیر میں سے ایک صاع جو میں سے اور ایک صاع کھجور اور ایک صاع کشمش میں سے یہ پانچ چیزیں بیان کی ہیں یہ پانچ چیزیں حصر کے طور پر مذکور نہیں ہیں کیونکہ اس دور میں یہ ہی چیزیں کھانے کے طور پر کھائی جاتی تھیں اگر آج چاول استعمال ہوتا ہے تو بدرجہ اولی چاول دے سکتے ہیں معاشرے کے لوگ جس چیز کو غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس میں سے ایک صاع نکالیں گے۔
اگر وہ ان پانچ چیزوں کو نہ پائے تو اپنی غذا میں سے وہ نکالے گا کچھ بھی ہو مقامی جو بھی غذا ہو وہ ایک صاع نکالے گا اناج کی صورت میں ہی بہتر ہے ورنہ حساب لگانا مشکل ہو گا۔
پیسوں کی صورت میں دینا یہ ایک اختلافی مسلہ ہے مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ جمہور اہل علم سے یہ ثابت ہے کہ اس کو پیسوں کی صورت میں نہیں دے سکتے اور حنفیہ کہتے ہیں پیسوں کی صورت میں دے سکتے ہیں بلکہ ان کے پاس زیادہ افضل ہے اس لئے کہ فقیر کے لئے زیادہ نفع بخش ہے کیونکہ وہ اس پیسے سے اپنے لئے جو چاہے خریدے کپڑا ، گوشت یا جو چاہے خریدے لیکن راجح مسلک جمہور کا مسلک ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیسے پائے جاتے تھے دینار و درھم موجود تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو دینار و درھم سے نکالنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غذا میں سے نکالنے کا حکم دیا یہ دلیل ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پیسے میں سے نکالے گا تو وہ قبول نہیں ہو گی عبادتوں کے معاملے میں ایک مسلمان کو احتیاط سے کام لینا چائیے کہ اگر وہ غذا میں سے نکالے گا تو سو فیصد قبول ہو گی پیسوں میں نکالے گا تو اس میں اختلاف ہے عبادتوں میں اپنے لئے وہ طریقہ اختیار کرنا چائیے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہمیں چاہیے کہ صدقہ فطر میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو اس قدر محتاج ہیں کہ وہ غذا سے محروم ہیں یا ان لوگوں کو پہنچائیں جو غذا کو قبول کرتے ہیں اس لئے شرط ہے کہ مسلمان کو ہی دیں ۔
آدمی جب اپنے بیوی بچے اور ماں باپ کے نفقے کا ذمہ دار ہے تو پھر ان کے صدقہ فطر کا بھی ذمہ دار ہے جیسے وہ اپنا صدقہ فطر نکالے گا تو ان کا بھی صدقہ فطر نکالے گا کیونکہ ان کا نفقہ اسی کے اوپر ہے اگر وہ عید کی رات تک ان کا زمہ دار ہے تو ان کے صدقہ فطر کا بھی ذمہ دار ہے یہ صدقہ فطر بیوی بچوں پر بذات خود لازم نہیں ہوتا اختلافی مسلہ ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیوی طاقت رکھتی ہے تو اس کو چاہے کہ خود نکالے لیکن مولف رحمہ اللہ کہتے ہیں جو آدمی ان کے نفقے کا ذمہ دار ہے وہ ان کے صدقہ فطر بھی نکالے گا اگر اس کے پاس اتنا ہے تو وہ صدقہ فطر نکالے گا۔
اگر کوئی شخص ایسا پے جس کے نفقے کی ذمہ دار ایک جماعت ہے جیسا کہ ایک غلام ہے وہ چار بھائیوں کا مشترک غلام ہے چار بھائی اس غلام کے مالک ہیں یا پھر ایک بھائی تنگ دست ہے اور دوسرے دو بھائی اس کی کفالت کرتے ہیں تو اس کا فطرہ اس کے اوپر اس کے نفقے کے مطابق ہو گا جو غلام چار ادمیوں میں مشترک ہو گا تو اس کا فطرہ چار آدمی ادا کریں گے چاروں ایک ایک مد ادا کریں گے اور اگر کوئی بھائی تنگ دست ہے تو دونوں بھائی اس کا آدھا آدھا دو دو مد ادا کریں گے صدقہ فطر ۔
اور اگر کسی غلام کا بعض آذاد ہے جیسے دو بھائی ایک غلام کے وارث ہوئے ایک بھائی نے اس کو آذاد کر دیا تو ظاہر ہے وہ پوری طرح آذاد نہیں ہوا تو آدھا حصہ اس کا آقا دے گا کیونکہ وہ پورا اس کا مالک نہیں ہے اور ادھا حصہ وہ غلام خود دے گا ۔
صدقہ فطر کا وقت شروع ہوتا ہے عید کے دن چاند دیکھنے کے بعد اس کے وجوب کا وقت شروع ہو گیا اس کا ایک وجوب کا وقت ہے ایک جائز وقت ہے ایک افضل وقت ہے فطرہ نکالنے کے تین اوقات ہیں
اولا: وجوب کا وقت جب چاند نظر آ جائے گا ۔
ثانیا: جائز وقت ہے دو تین دن پہلے ۔
افضل وقت : فجر کی نماز سے عید کی نماز سے پہلے تک ۔
مولف رحمہ اللہ کی رائے ہے عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا جائز نہیں ہے ورنہ صحیح یہ ہے کہ عید کی نماز سے زیادہ تاخیر کرنا جائز نہیں ہے مولف رحمہ اللہ کی رائے مرجوع ہے لیکن راجح قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگوں کے لئے عید کی نماز سے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے اور ایک حدیث میں ہے ابوداؤ کی حدیث ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا " جو نماز سے پہلے اسے نکالے گا تو یہ زکاة فطر کے طور پر قبول ہو گی جو نماز کے بعد نکالے گا وہ عام صدقہ ہے " عید کی نماز سے زیادہ اس میں تاخیر نہیں کرنا چائیے اگر اتفاق سے بھول گیا اور بعد میں ادا کرے تو وہ صدقہ فطر کے طور پر قبول ہو گا اور اگر عمدا کوئی کرتا ہے تو اسے توبہ کرنا چائیے کیونکہ یہ واجب ہے پھر بھی وہ ادا کرے گا لیکن وہ عام صدقے کے طور پر قبول ہو گا۔
عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرے اس کی دلیل عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں صحیح بخاری کی حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کو ایک یا دو دن پہلے ادا کرتے تھے اس کا مطلب ہے کہ جائز ہے اور بعض احادیث میں آتا ہے تین دن پہلے ادا کرتے تھے بعض اہل علم کہتے ہیں اس کا وقت 28 رمضان کی رات سے شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے پہلے نکالتا ہے تو راجح قول ہے کہ قبول نہیں ہو گا وہ صدقہ کے طور پر قبول ہو گا صدقہ فطر کے طور پر قبول نہیں ہو گا اس کو پھر سے ادا کرنا پڑے گا بعض اہل علم کہتے ہیں وہ ایسے ہے جیسے انسان وقت سے پہلے نماز ادا کرتا ہے ۔
کسی ایک مسکین کو دس آدمی کا فطرہ دیا جا سکتا ہے جیسے ایک آدمی کو پورے گھر والوں کا فطرہ دینا جائر ہے اس میں تحدید نہیں کی گئی اس میں عمومیت ہے کئی لوگوں کا فطرہ ایک کو دیا جا سکتا ہے اور اسی طرح ایک فطرہ کئی لوگوں کو دیا جا سکتا ہے ایک فطرہ چار مسکینوں کو دے سکتا ہے مطلب ایک ایک مد ہر مسکین کو دے سکتا ہے۔
|
Comments
Post a Comment