رقم الدرس - 1
حالة العرب الدينية قبل الإسلام
مع ترجمة أردوية
اسلام سے پہلے عربوں کی دینی حالت
|
L-1 سيرةالنبى صفہ-1
|
اسلام سے پہلے عربوں کی دینی حالت
اسلام سے پہلے عربوں کی دینی حالت ان کے بارے میں بنیادی طور پر عرب میں دین 5 طرح ادیان پائے جاتے تھے 1 ابراہیم علیہ السلام کا دین حنیف کہتے ہیں 2 یہودیت جو یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو بنی اسرائیل کہلاتے ہیں بنیادی طور پر یہ موسی علیہ السلام کی پیروی کرنے کے دعوے دار ہیں 3 اس کے بعد مسیحیت جو عیسائی کہلاتے ہیں عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اور 4چوتھے بتوں اور پتھر کے پجاری مشرکین اور5 پانچویں سیاروں اور ستاروں کی پوجا کرنے والا سورج چاند کی پرستش کرنے والے یہ پانچ ادیان قابل ذکر ہیں عام طور عرب میں بت پرستی بری طرح پھیل چکی تھی کہا جاتا ہے بنو قضا کے کے ایک دین دار شخص تھا جس کا نام امر ابن لحی تھااس نے اس کا آغاز کیا وہ ملک شام گیا وہاں دیکھا لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں یہ شام کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس بہت سے انبیاء آ چکے لہذا ان کا طریقہ برحق ہو گا وہاں سے یہ ہبل نامی بت لے آیا چونکہ یہ دین دار تھا مذہبی تھا لوگوں کی نظروں میں اور قابل احترام تھا اس طرح سے لوگ اس کے دھوکے میں آ گئے اور بت پرستی پھیلتی گئی اس کے بعد بہت سے بت وہاں پیدا ہو گئے یا لوگوں نے پھیلا دیئے کتاب میں عام طور پر مشرکین جن بتوں کو پوجتے تھے ان کے لئے دو طرح کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں ایک اوثان دوسرے اصنام ۔اصنام جمع ہے صنم کی صنم اس بت کو کہتے ہیں جو انسانی شکل میں بنایا گیا ہو ہر وہ چیز جو انسانی شک
ل دی گئی ہو اور اس کی پوجا کی جاتی ہو اس کو صنم کہتے ہیں اور وہ اصنام کی پوجا کرتے تھے اور وثن ہر وہ چیز جس کی کوئی شکل و صورت نہیں دی گئی لیکن اس کی پوجا کی جاتی تھی جیسے درخت پتھر پرندے مختلف حیوانات ہیں ان کو یہ وثن کہتے تھے وثن کی جمع اوثان اصنام اور اوثان یعنی بتوں پتھروں درختوں وغیرہ کی یہ پوجا کرتے تھے جن اصنام کی پوجا کرتے تھے اس میں لات عذی اور منات شامل تھے سورتہ النجم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ (19) وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ( کیا تم نے دیکھا لات عزی اور منات کو ) لات ایک نیک شخص تھے حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتے تھے جب ان کا انتقال ہو گیا تو لوگوں نے ان کی پوجا شروع کر دی اور عذی ایک درخت کا نام تھا جو وادی نخلہ میں موجود تھا مکہ اور طائف کے درمیان میں اس کی پرستش کرتے تھے عام طور پر بنو کنانہ اور قریش اس کی پوجا کرتے تھے اور منات بھی ایک بت تھا جو قدیب میں تھا اوس اور خزرج اس کی پوجا کرتے تھے یہ اصنام تھے جن کو پوجتے تھے اور بہت سے اوثان تھے درخت تھے پرندے تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی کہا جاتا ہے امر ابن لحی کے پاس ایک جن تھا اس نے خواب میں اس کو خبر دی کہ قوم نوح جن بتوں کی پرستش کرتی تھی وہ جدہ میں مدفون ہیں وہ وہاں پہنچا اور کھود کر ان کو لے آیا جن کو ود، سوا، یعغوث، یعوق، نصر مکہ لانے بعد جو لوگ حج سے باہر سے آئے ہوئے تھے ان میں تقسیم کر دیا اس طرح ان کی پرستش بھی پھیل گئی مشرکین نے خود کعبہ اللہ میں بہت سے بت رکھے ہوئے تھے 360 بت رکھ دیئے جیسا کہ مختلف سیرت کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے گویا آدمی چمکتی چیز کو نفع بخش سمجھتا اور اس کی پوجا کرتا تھا بتوں کی پرستش کے علاوہ بہت سی رسمیں بہت سی بدعتیں عبادت کے علاوہ انھوں نے رائج کر لیئے تھے جن کی تفصیلات اللہ تعالٰی نے سورتہ الاحزاب میں بیان کی ہے عام طور پر وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو ابھی بھی ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے جن کا اصل دین ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو آباد کیا تھا مکہ میں اور انہیں کی طرف یہ منسوب ہوتے تھے لیکن ایک زمانہ ہو چکا تھا ان کی باتیں متمٹ چکی تھی لیکن پھر بھی کچھ لوگ بتوں کی پوجا سے انکار کرتے تھے ایک اللہ کی پرستش کرتے تھے اسی لئے حنیف کہا جاتا ہے -
|
L-1 سيرةالنبى صفہ-2
|
ساری دینا سے کٹ کر اللہ تعالٰی کی عبادت کے لیے یک سو ہو جانا یہ دین حنیف پر قائم تھے یہ دین عرب میں پایا جاتا تھا جسے دین حنیف کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کے دین کو جہاں تک یہودیت کا سوال ہے یہودی عام طور پر یمن میں پائے جاتے تھے عرب کے بعض علاقوں میں اس کے اطراف میں انھوں نے بسیرا کر لیا تھا جیسے خیبر میں یثرب میں جس کا بعد میں نام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہجرت کرنے کے بعد مدینہ ہو گیا تو وہاں بھی یہ پائے جاتے تھے انھوں نے کوشش تو کی کہ عربوں میں یہودیت کو پھیلائیں لیکن عرب نے اسے قبول نہیں کیا لحاظہ یہودیت زیادہ پھیل نہیں سکی اس کے علاوہ جہاں تک مسیحیت کا سوال ہے تو مسیحیت نجران میں موجود تھی روم بہت بڑی سلطنت تھی جو عرب کے پڑوس میں تھے اور حبشے میں جن کی سلطنت تھی وہ بھی مسیح ہی تھے اور نجران یمن کا علاقہ تھا وہاں یہ پائے جاتے تھے اور ہیرہ میں بصری میں ان کا وجود تھا اور انہیں نے کوشش بھی کی کہ عرب میں مسیحیت کو پھیلائیں خاص طور پر ابرھة جس نے یمن میں بڑا کلنیسہ قائم کیا تھا اور لوگوں کو دعوت دی تھی کہ اس کا حج کریں اس نے قوت اور زور کے ساتھ کوشش کی مسیحیت کی اشاعت کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ عربوں نے اس کو قبول نہیں کیا لہذا مسیحیت ان علاقوں میں پائی جاتی تھی جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ ستاروں اور سیاروں کی جہاں تک پوجا ہوتی تھی خاص طور پر سورج اور چاند کی اللہ تعالٰی نے فرمایا سورتہ فصلت(( وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ)) سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہے لہذا تم ان کو سجدہ نہ کرو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے تمھے پیدا کیا ہے اگر تم اللہ کی عبادت کرنے والے ہو " جو لوگ سورج اور چاند کی پرستش کرتے تھے ان کو صابی کہتے تھے یہ دین بھی یہاں پایا جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بحثت کے وقت عرب میں جو ادیان پائے جاتے تھے یہ مختصر سی کچھ باتیں ہیں۔
|
L-1 سيرةالنبى صفہ-3
|
جواب دیجئے آنے والے سوالوں کا؟
سوال1: وہ کون سے اہم ادیان ہیں جو جزیرہ عرب سے پہلے پہنچ تھے؟ جواب : پانچ ادیان ہیں ایک دین حنیف دوسرا ،یہودیت تیسرا مسیحیت ، بتوں اور پتھروں کی پرستش، پانچواں ستاروں اور سیاروں کی پرستش ۔ سوال2 : وہ کون سے اوثان ہیں جن کی عرب پرستش کرتے تھے؟ اور یہ اوثان کس چیز سے بنائے جاتے تھے؟ جواب : جیسا کہ وضاحت کی گئی وثن ان تمام چیزوں کو کہتے ہیں جن کی کوئی انسانی شکل نہیں دی گئی اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے درخت ، پتھر ، پرندے ، حیوانات ۔ یہ اوثان سونے سے پتھر سے الماس سے لکڑی سے مختلف چیزوں سے وہ اوثان بنایا کرتے تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے ۔ سوال 3: وہ کون سے بت ہیں جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے ۔؟ جواب : اس سبق میں تین کا ذکر آیا ہے لات ، عزی، منات۔ سوال 4 : صابئة کون ہیں حنفاء کون ہیں ؟ جواب : صابئہ وہ لوگ ہیں جو ستاروں اور سیاروں کی جو سورج چاند کی پرستش کرتے تھے اور حنفاء جمع ہے حنیف کی یہ وہ لوگ ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم تھے جو بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے ۔ سوال 5: جزیرہ عرب میں یہود کہاں آباد تھے؟ کیا عرب میں یہودی دین پھیل گیا تھا اور کس لئے ؟ جواب : یہودی یمن میں تھے اور خیبر اور یثرب کے آس پاس تھے یہودی مذہب نہیں پھیلا تھا عرب میں کیوں عربوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا۔ سوال 6: وہ کون سے علاقے ہیں جہاں مسیحیت نے اپنے قدم گاڑیگاڑ دیئے تھے جزیرہ عرب میں؟ جواب : نجران جو یمن کا علاقہ تھا اور حیرة اور بصری میں اپنے قدم گاڑے تھے انہیں علاقوں میں وہ موجود تھے۔ سوال 7: کیا ابرھة کامیاب ہوا تھا اس نے جو کلنیسہ بنایا تھا عربوں کو اس کی طرف حج کرائے؟ جواب : ابرھة کامیاب نہیں ہوا تھا اپنی کلنیسہ کی طرف حج کے لیے عربوں کو لے جانے میں ۔ |
L-2 سيرةالنبى صفہ-1
|
حبشہ میں نصرانی حکومت
حبشہ میں نصرانی حکومت تھی اہل مسیحیوں کی حکومت تھی اور یمن میں جو گورنر تھا وہ انکی طرف سے مقرر کیا ہوا تھا اس کا نام ابرھة تھا اس نے دیکھا لوگ حج کے لئے مکہ جاتے ہیں اس نے کہا لوگوں کو مکہ جانے سے روک دیں اس نے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا کلنیسہ بنایا اس نے کلنیسہ کی تعمیر کی اور اس کا نام رکھا القلیس، کلنیسہ بلند اور عظیم تھا اور وہ چائتا تھا لوگ کعبہ اللہ کو جانے کی بجائے اس کلنیسہ کو آئیں اور وہاں اس کا حج کریں لیکن عرب اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ کہا جاتا ہے بنو کنانہ کے ایک شخص کو جب علم ہوا تو وہ رات میں اس کلنیسہ میں داخل ہوا اور اس کا جو قبلہ بنایا گیا تھا اس نے وہاں گندگی کر دی اس کی وجہ سے ابرهة بہت برہم ہوا اور اس نے کعبہ اللہ کو ڈھانے کا ارادہ کیا اس نے ساٹھ ہزار فوج کا لشکر تیار کیا فوج اکٹھا کر لی اور کہا جاتا ہے ہاتھیوں کی جماعت بھی اکٹھا کر لی کہا جاتا ہے نو یا تیرہ ہاتھی اس کی فوج میں شامل تھے اس میں ایک بہت بڑا ہاتھی تھا جو آگے آگے رہتا تھا اس کے ساتھ وہ آگے بڑا کعبہ اللہ کو ڈھانے کے ارادے سے راستے میں جتنے بھی عرب علاقے موجود تھے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تو انھوں نے ہتھیار ڈال دیئے جب آگے بڑا اس نے الاسود بن مقصود کو بھیجا تاکہ مکہ پر حملہ کرے وہ مکے کے آس پاس پہنچا اور مکے والوں کے جانور یا مویشی ان کو ہانک کر لے گیا اس میں عبد المطلب بن ہاشم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا تھے ان کے بھی دو سو اونٹ شامل تھے ان کو بھی وہ ہانک کر لے گیا اس کے بعد وہ مزید آگے بڑا اس نے حمیر کے ایک شخص کو مکے والوں کے پاس پیغام دے کر بھیجا اس کا نام تھا حناطة الحميري تاکہ جانیں مکے میں کون سردار ہیں اور ان کو ابرھة کا پیغام پہنچائے انھوں نے وہاں پہنچ کر عبد المطلب سے ملاقات کی اور کہا ابرھة کا مقصد جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ کعبے کو ڈھانا ہے اگر کوئی اس کے لئے رکاوٹ نہیں بنیں گے تو وہ خون ریزی نہیں کرے گا وغیرہ وغیرہ عبد المطلب نے جواب دیا کہ ہم بھی اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ہم بھی اس سے لڑنا نہیں چائتے تو اس نے کہا چلئے آپ ہمارے سردار سے بات کیجئے عبد المطلب اس کے پاس گئے عبد المطلب شکل و صورت کے اعتبار سے بہت خوبصورت تھے اور بہت متاثر کن شخصیت کے مالک بھی تھے جب ابرھة نے انہیں دیکھا تو بہت متاثر ہوا بہت تکریم کی اور انھیں اپنے پاس بٹھایا اور بہت عزت کا معاملہ کیا جب گفتگو شروع ہوئی تو عبد المطلب نے کہا آپ کے آدمیوں نے میرے دو سو اونٹ اٹھا لیئے ہیں لہذا مجھے واپس کر دو تو ابرھة نے جواب دیا جب میں نے آپ کو دیکھا تھا تو آپ کی شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا لیکن آپ کی باتیں بہت معمولی ہیں آپ اپنے دو سو اونٹ کے بارے میں مجھ سے بات کر رہے ہیں اور اس گھر کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہے جس کو میں ڈھانے کے لئے آیا ہوں جس کو تمھارے باپ دادا نے تعمیر کیا تھا جو تمھارے دین سے تعلق رکھنے والا گھر ہے جو تمھارا دین ہے تمھارے باپ دادا کا دین ہے جس کو میں ڈھانے آیا ہوں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تو عبد المطلب نے جواب دیا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں اور جہاں تک اس گھر کا سوال ہے اس کا ایک اور رب ہے وہ اس کی حفاظت کرے گا ابرھة نے کہا کیا آپ رکاوٹ نہیں بنیں گے تو عبد المطلب نے کہا نہیں میں رکاوٹ نہیں بنوں گا تو ابرھة نے ان کے اونٹ ان کو لوٹا دیئے اس کے بعد عبد المطلب ابن ہاشم قریش کے پاس آئے اور ساری باتوں کی انہیں خبر دی اور انہیں کہا مکے سے نکل جاؤ مختلف وادیوں میں پھیل جاؤ کیونکہ ابرھة اور اس کی فوج کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے -
|
L-2 سيرةالنبى صفہ-2
|
پھر عبد المطلب کعبہ اللہ میں داخل ہوئے اور اس کے دروازے کے ایک حصے کو انھوں نے پکڑا اور قریش نے اللہ سے مدد کی دعا کی درخواست کی اور عبد المطلب نے اے رب ہم تیرے سوا کسی سے امید نہیں کرتے اپنے گھر کی تو حفاظت فرما اس لئے کہ جو تیرے گھر کو ڈھانے کے لئے آ رہا ہے وہ تیرے گھر کا دشمن ہے اس کے بعد عبد المطلب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے اپنے آدمیوں کو لے کر اس انتظار میں کہ وہ داخل ہو گا اور قتل و خون ریزی کرے گا جب وہ آگے بڑا اور وادی محصر پہنچا جو منی اور مزدلفہ کے درمیان میں ہے تو اس مقام پر اس کا اونٹ بیٹھ گیا اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا جب وہ اس کے رخ کو شمال کی طرف جنوب کی طرف یا مشرق کی طرف پھیرا جاتا تو وہ دوڑ کر چلا جاتا لیکن جب کعبہ اللہ کی طرف اس کا رخ کیا جاتا تو وہ بیٹھ جاتا اسی حال میں تھے تو اللہ تعالٰی نے پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے پرندوں کے لشکر کو کہا جاتا ہے ہر پرندے کے ساتھ تین پتھر تھے چھوٹے چھوٹے جو چنے کے برابر تھے ایک چونچ میں دو ان کے پنجوں میں جس آدمی کو بھی لگتے تو اس کا جسم گھلنے لگتا پتھروں کے علاوہ اس کی فوج میں جو بگھ دڑ مچلی کئی لوگ پانی میں گر گئے کئی لوگ کچلے گئے ابرھة کا خود یہ حال تھا اس کو ایک دو کنکر لگ گئے اس کا جسم گلنے لگا سڑنے لگا یہاں تک کہ اس کی انگلیاں کٹ کٹ کر گرنے لگیں بھگدڑ مچلی یہ بھاگنے لگے یہاں تک کہ ابرھة کا یہ حال تھا وہ صنا پہنچتے پہنچتے وہ چوزے کے ماند ہو گیا یہاں تک کہ اس کا سینا پھٹ گیا اور دل باہر نکلا اور وہ مر گیا اللہ تبارک و تعالٰی نے سورتہ الفیل میں فرمایا ((أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ○ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ○وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ○ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ○ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ)) آپ نے نہیں دیکھا آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا •کیا اس نے ان کی تدبیروں کو ناکارہ نہیں کر دیا•اور ان پر ابابیل پرندوں کو بھیجا •وہ ان کو پتھروں سے مارتے تھے•اور ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا " اس طرح اللہ تبارک و تعالٰی کے دشمن جو اللہ کے گھر کو ڈھانے کے ارادے سے آئے تھے وہ ختم کر دیئے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے یہ واقعہ پیش آیا گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش عام الفیل کو ہوئی ہاتھی والوں کے سال عرب کے لوگ تاریخ کے سلسلے میں کوئی بڑا واقعہ پیش آتا اس کی طرف منسوب کرتے تھے کہ اس سال یہ واقعہ ہوا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش اسی سال ہوئی یہ 571 عیسوی فروری کا مہینہ تھا جیسا کہ اہل علم نے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے پہلے اس طرح کا واقعہ گویا ایک تنبیہ تھی کہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو ابرھة کے واقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ساری دنیا اس ابرھة کے واقع کے بعد مکہ کی طرف متوجہ ہو گئی سب کے علم میں آ گیا کہ مکہ جہاں اللہ تعالٰی کا گھر ہے ایک بڑا واقعہ پیش آیا گویا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بحثت کا واقعہ جو پیش آنے والا ہے اللہ نے اس نشانی کو یہاں پر ظاہر کیا ہے۔
|
|
L-3 سيرةالنبى صفہ-1
|
نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم - 3
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کون ہیں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوي بن غالب بن فھر بن مالك بن النصر بن کنانة بن خزیمة بن مدرکة بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نسب ہے اور عدنان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی 21 پشت میں آتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نسب کو عام طور پر سیرت نگاروں نے یا محققین نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک وہ جو یقینی طور پر ثابت ہیں اور وہ عدنان تک ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے نسب کا ذکر کرتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے تھے اور یہ ثابت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا نسب خود بیان کیا اور یہ 21 پشت پر آتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نسب کا دوسرا حصہ وہ عدنان سے شروع ہو کر ابراہیم علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے اور اس کے بارے میں مورخین کے بارے میں کچھ اختلاف ہے اگرچہ یہ ثابت ہے پر اختلاف سے خالی نہیں ہے اور تیسرا حصہ ابراہیم علیہ السلام سے آدم علیہ السلام تک یا نوح علیہ السلام تک اور یہ ثابت نہیں ہے اور یہاں عدنان تک ہے یہ 21 پشت پر آتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ابراہیم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے تھے اور اسماعیل علیہ السلام کے بیٹوں میں کیدار کی نسل میں سے تھے۔ والد کی جانب سے یہ نسب ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جہاں تک آپ کی والدہ کا سوال ہے آمنہ بن وھب بن عبد مناف بن زھرة بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوي بن غالب بن فھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ آمنہ بنی زھرة کے سردار وھب بن عبد مناف أن کی بیٹی تھیں وھب بن مناف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ کے والد تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نانا تھے یہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اور نسب اور شرف میں بہت ہی عظیم تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد اور والدہ کا نسب چھٹی پشت پر جو کلاب بن مرة ہیں وہاں جا کر مل جاتا ہے یہاں ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نسب کی اس قدر اہمیت کیوں ہے یہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام انبیاء کو اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے قوم کے سب سے شریف اور بہتر نسب میں مبعوث کیا ہے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے اور کوئی ان کے بارے میں ایسی بات نہ کر سکے جو ان کے وقار اور مرتبے کے خلاف ہو اس لئے اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہاں اخلاقی طور پر ان کو بلند مرتبے پر رکھا اور ان کو ہر طرح کے عیوب سے مبرا پاک و صاف رکھا اسی طرح ان کا نسب بھی بہترین بنایا تاکہ وہ اپنے قوم کے سب سے بہترین ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نسب جتنے بھی نسب پائے جاتے ہیں سب سے زیادہ شریف ہے سب سے اچھا ہے آپ کے جتنے بھی آباؤ اجداد نسب میں مانے جاتے ہیں سب کے سب اپنے قوم کے سردار تھے اور عرب میں ان کا وسعتی مقام تھا اور حکمت میں بہادری میں کرم میں فیاضی میں وہ معروف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آباؤ اجداد بہت معروف تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا تھے عبد المطلب اپنی قوم کے سردار تھے بہت معروف تھے اور اسی طرح ہاشم بھی بہت معروف ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ آمنہ بنی زھرة کے سردار تھے وھب بن عبد مناف انکی بیٹی تھیں اور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نانا تھے یہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اور نسب اور شرف میں بہت ہی عظیم تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والدین کا نسب چھٹی پشت پر جو کلاب بن مرة ہیں وہاں جا کر مل جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے قبیلے کے سب سے عظیم ترین نسب پر تھے ۔ |
L-3 سيرةالنبى صفہ-2
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نسب کا ذکر کریں چھٹے دادا تک؟ جواب: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن مناف بن قصی بن کلاب یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد اور والدہ دونوں کا نسب ملتا ہے ۔ سوال 2: کس دادا سے مل جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد اور والدہ کا نسب ؟ جواب: کلاب ابن مرة جو چھٹی پشت پر ہیں۔ سوال 3: ابراهيم علیہ السلام کے کس بیٹے کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نسب پہنچتا ہے؟ جواب: اسمٰعیل بن إبراهيم علیہ السلام ۔ سوال4: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ حدیث ذکر کیجئے جو نسب کے شرف پر دلالت کرتی ہے؟ جواب : "((اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اسمعیل علیہ السلام کو منتخب کیا اور اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کو منتخب کیا بنی کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور نبی ہاشم میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منتخب کیا آپ تمام نسب میں سب سے بہتر ہیں))" سوال 5:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرب کے کس قبیلے کی طرف منسوب ہوتے ہیں؟ جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ قریش کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ |
L-4 سيرةالنبى صفہ-1
|
ولادت رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم - 4
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبد اللہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے راجح قول کے مطابق اس وجہ سے اور بعض خصوصیات کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبد المطلب کو بہت محبوب تھے کہا جاتا ہے کہ عبد المطلب نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر ان کے دس لڑکے ہو جائیں اور وہ سب کے سب طاقت اور قوت کو پہنچ جائیں تو ان میں سے ایک کو وہ کعبہ میں اللہ کے راستے میں دیں گے جب ان کی دس اولادیں ہو گئی اور انھوں نے اپنی نذر کا ذکر کیا اور تمام بیٹے اس بات پر راضی ہو گئے تو وہ کعبہ اللہ ہبل کے پاس گئے اور اس میں جو قرعہ کیا جاتا تھا وہاں انھوں نے سب کے نام لکھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کا نام آتا تھا لیکن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کے بھائی تھے ابوطالب وہ بیچ میں آ گئے اور کچھ دوسرے لوگ آڑے آ گئے پھر دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی پھر دوبارہ انہیں کا نام آیا تیسری دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور عبد اللہ ہی کا نام آیا لوگوں نے تسلیم نہ کیا پھر اس بات کا فیصلہ ہوا تو یہ لوگ جو غیب کی خبریں بتاتی ہیں کائن عورت کے پاس گئے تو اس نے کہا اس سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ عبد اللہ اور اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے جب اونٹ نکل آئیں گے جتنی تعداد کے اونٹوں پر ختم ہو گا قرعہ اتنی تعداد میں عبد اللہ کے بدلے اونٹ ذبح کر دیں عبد اللہ کے بدلے کافی ہو جائے گا ایک قرعہ میں دس اونٹ لکھے اور ایک قرعہ میں عبد اللہ کا نام لکھا عبد اللہ ہی کا نام نکلا اس کے بعد مزید 20 اونٹوں کا اضافہ کیا گیا پھر عبد اللہ ہی کا نام نکلا یہاں تک کہ جب سو اونٹ تک پہنچے تو اونٹوں کا نام نکلا تو انھوں نے سو اونٹ ذبح کیئے عبد المطلب نے نذر پوری کی اور عبد اللہ اس قربانی سے بچ گئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ " میں دو ذبیحوں کا لڑکا ہوں ایک ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہیں ایک آپ کے والد عبداللہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد جب نوجوان ہو گئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جو دادا تھے عبد المطلب وہ ان کے نکاح کے ارادے سے جو وھب بن عبد مناف جو آمنہ کے والد کے پاس پہنچے وھب بن عبد مناف بن زھرة جو اپنی قوم کے سردار تھے ان کو نکاح کا پیغام دیا تو انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد جو سب سے شریف النسب تھے ان کا نکاح آمنہ جو اپنے قبیلے کی سب سے شریف نسب تھیں ان سے ان کا نکاح ہو گیا وہ اس وقت نسب کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے قریش کی سب سے معزز خاتون تھیں آمنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کے نکاح کے کچھ ہی مدت کے بعد کچھ ہی دن گزریں ہوں گے تجارت کی نیت سے شام گئے ان کے والد جس وقت وہ گئے جس وقت وہ مکے سے گئے تو آمنہ اللہ کے رسول کے حمل سے تھیں جب عبد اللہ شام کی تجارت سے واپس آ رہے تھے وہ مدینے میں اترے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ننھال میں اترے بنو نجار میں اترے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینے گئے تھے ہجرت کر کے تو بنو نجار ہی کو عزت حاصل ہوئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے محلے میں رکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد ایک مہینے تک رہے لیکن بیمار ہو گئے اس دوران ان کی وفات ہو گئی اور یثرب جو مدینے کا پرانا نام ہے وہیں پر دفن کیئے گئے اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی عبد اللہ کے وفات کے بعد جب ان کے ترکے کا شمار کیا گیا جو انھوں نے چھوڑی تھی ان کی لونڈی تھیں ام ایمن یہ بہت عظیم خاتون تھیں جنھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سنبھالا ان کا نام برکة الحبشیة تھا ام ایمن ان کی کنیت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کا بہت احترام کرتے تھے، پانچ اونٹ تھے اور بکریوں کا ایک چھوٹا سا ریوڈ تھا یہ ان کا ترکہ تھا جو وہ چھوڑ کے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ کے انتقال کے ایک مہینے کے بعد یا اس سے کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت جہاں تک سال کا سوال ہے یہ معروف ہے کہ عام الفیل کے سال پیدا ہوئے جس وقت ہاتھیوں والا واقعہ پیش آیا تھا کہ جب ابرھة لشکر لے کر آیا تھا حملہ کرنے کے لیے تو اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے تھے یہ معروف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کا مہینہ بھی معروف ہے بلکہ ہم کہ سکتے ہیں کہ راجع قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ربیع الاول میں پیدا ہوئے تھے اور ان میں سب سے زیادہ جو چیز ثابت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش کا دن ہے اور وہ ہے پیر کا دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود کہا پیر ہی کے دن میری بعثت ہوئی اور پیر ہی کے دن میں پیدا کیا گیا دن بھی ثابت ہے سال بھی ثابت ہے جہاں تک تاریخ ہے اس کے بارے میں سخت اختلاف ہے عام طور پر یہ معروف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے |
L-4 سيرةالنبى صفہ-2
|
لیکن جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے سلسلے میں باقاعدہ حساب لگا کر ایک ایک دن کا حساب لگا کر تحقیق کی جیسا کہ قاضی منصور پوری رحمة اللہ ہیں جو رحمت العالمین کے مورخ ہیں اس کے علاوہ بہت سے عرب مورخین ہیں انھوں نے باقاعدہ تحقیق کی اور وہ اس بات پر پہنچے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت 9 ربیع الاول کو ہوئی 12 ربیع الاول کا قول ضعیف ہے تو ہم کہتے سکتے ہیں اللہ کے رسول کی ولادت پیر کے دن 9 ربیع الاول عام الفیل کو ہوئی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بہت سی باتیں معروف ہیں کچھ ثابت ہیں اور کچھ ثابت نہیں ہیں جسے کہا جاتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ حمل سے تھیں ان کو درد بھی نہیں ہوا اور کوئی وزن بھی محسوس نہیں کرتی تھیں اور بعض سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ہوئی تھی تو ان کی والدہ نے دیکھا شام کے محل روشن ہو گئے ہیں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیدا ہوئے تو انھوں نے یہ خوش خبری بھیجی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا کو عبد المطلب کو جو اس وقت کعبہ اللہ کا طواف کر رہے تھے جب ان کو اطلاع دی گئی کہ ایک عظیم الشان لڑکا انھیں پیدا ہوا ہے وہ ان کو لے کر کعبہ اللہ میں اور دعا کی اس کے بعد ان کی والدہ کے پاس واپس کر دیا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام محمد رکھا ان سے پوچھا گیا یہ نام ایسا ہے جو عرب میں معروف نہیں ہے انھوں نے کہا مجھے یہ امید ہے سارہ زمین میں میرے بیٹے کی تعریف ہو گی محمد کے معنی ہیں جس کی تعریف کی جائے اور مشہور قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ آمنہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا اور احمد کے معنی ہیں تعریف کرنے والا گویا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تعریف کرنے والے بھی ہیں اللہ تبارک و تعالٰی کی اور آپ کا نام محمد بھی ہے جس کی تعریف کی جائے سارے زمین کے انسانوں میں سب سے زیادہ ۔
|
L-4 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ کون ہیں؟ جواب آمنہ بنت وھب ۔ سوال 2: عبد اللہ بن عبد المطلب آمنہ سے ان کے نکاح کے بعد کہاں گئے تھے؟ جواب: شام گئے تھے تجارت کے لئے۔ سوال 3: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کا انتقال کہاں ہوا؟ جواب : یثرب میں ۔ سوال 4: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کی عمر کتنی تھی جب ان کا انتقال ہوا؟ جواب : 25 سال ۔ سوال 5: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کب ہوئی ؟ جواب : کتاب کی تفصیل کے مطابق 12 ربیع الاول پیر کے دن عام الفیل کے سال 571 عیسوی اگر تحقیق کے حساب سے لکھی گے تو 9 ربیع الاول پیر کا دن عام الفیل ۔ سوال 6: کس نے آپ کا نام محمد رکھا ؟ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبد المطلب نے ۔ سوال 7: جس سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ہوئی تھی اس کا نام عام الفیل رکھا گیا ہے ۔ کس لیے ؟ جواب: اس سال ہاتھی والوں کا واقعہ پیش آیا تھا ابرھة ایک عظیم الشان لشکر لے کر وہ کعبہ اللہ کو ڈھانے کے ارادے سے پہنچا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالٰی نے پرندوں کے جھنڈ بھیجے اور ان کو ہلاک کر دیا تھا۔ |
L-5 سيرةالنبى صفہ-1
|
رضاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دودھ پینا پیدائش کے بعد ۔ جیسا کہ یہ بات گزر چکی کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یتیم پیدا ہوئے تھے یتیم لغت میں کہتے ہیں منفرد ہونے کو الانفراد کسی کا منفرد ہونا اکیلے ہونا اور اصطلاح میں یتیم کہتے ہیں بلوغت سے پہلے اس کے والد کا انتقال ہو جائے تو اسے یتیم کہتے ہیں جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس سے یتیم کی صفت اس سے ختم ہو جاتی ہے اگر والد کے ساتھ والدہ بھی نہ ہوں تو اسے یتیم الأبوين کہتے ہیں اسے یتیم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ منفرد ہو جاتا ہے جب آپ کے والد نہیں تھے تو آپ کی والدہ نے آپ کی کفالت کی آپ کے دادا عبد المطلب کی نگرانی میں عرب کا یہ دستور تھا یا ان میں یہ عادت تھی کے اپنے بچوں کو پیدا ہونے کے بعد مختلف قریوں میں بھیج دیا کرتے تھے شہر کے افراد سے انہیں دور کرنے کے لیے اور قریوں کی صاف اور تازہ آب و ہوا سے مستفید کرنے کے لیے اور شہروں میں بھیڑ پائی جاتی تھی مختلف لوگ آتے تجارت کے لئے تو زبان میں بگاڑ پیدا ہو جاتا لیکن قریوں کی زبان بہت محفوظ تھی ان دو مقاصد کے پیش نظر ایک تو تازہ ہوا ملے اچھی صحت ہو جسم مضبوط ہو اور دوسرا یہ کہ فصیح و بلیغ عربی زبان سیکھیں عربوں میں یہودیت دستور تھا وہ اپنے بچوں کو عورتوں کے حوالے کرتے تھے مختلف قریوں میں رہنے والی عورتوں کے حوالے کرتے تھے رضاعت کی نیت سے لیکن یہ بات یاد رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سب سے پہلے آپ کی والدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا اور ان کے بعد ابو لہب کی لونڈی تھیں ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا ان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دودھ پلانے والی خاتون حلیمہ السعدیة اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دودھ پلانے سے پہلے ثوبیہ نے آپ کے چچا حمزھ رضی اللہ عنہ کو دودھ پلایا تھا اس طرح حمزھ رضی اللہ عنہ آپ کے رضاعی بھائی بھی ہوتے ہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنو سعد حلیمہ السعدیة کے پاس اس موقع پر حمزھ رضی اللہ عنہ کو دودھ پلایا تھا کیونکہ وہ بھی بنو سعد میں بھیجے گئے تھے دودھ پلانے کے لئے تو جس عورت نے حمزھ رضی اللہ عنہ نے دودھ پلایا تھا اس عورت نے ایک دفعہ جبکہ آپ حلیمہ السعدية کے پاس تھے آپ کو بھی دودھ پلایا تھا اس طرح حمزہ رضی اللہ عنہ دوہرے آپ کے رضاعی بھائی ہوئے ایک ثوبیہ کی طرف سے اور دوسرے بنو سعد کی اس خاتون کی طرف سے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی قریوں کے کسی مقام پر بھیجنے کا آپ کے دادا نے ارادہ کیا اور آپ کی والدہ نے ارادہ کیا اس موقع پر بنو سعد کی کچھ خواتین آئی ہوئی تھیں بچوں کو لینے کے لئے دودھ پلانے کی غرض سے کہا جاتا ہے سب کی خواہش یہ ہی تھی کہ انھیں کوئی ایسا بچہ ملے جس کے والدین بہت داد و دہشت بہت انعام و اکرام دے سکیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بنو سعد کی ہر خواتین پر پیش کیا گیا کسی نے قبول نہیں کیا کیونکہ وہ جانتی تھیں ان کے والد نہیں ہیں یتیم ہیں بہت زیادہ انعام و اکرام نہیں ملے گا اس کے بعد جتنی خواتین آئی ہوئی تھیں دایہ کے طور پر خدمت انجام دینے کے لیے ان سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا لیکن حلفیہ السعدیة ان کے شوہر کا نام تھا حارث بن عبد العزی ابو کبشہ أن کی کنیت تھی لیکن حلیمہ بنت ابی ضعیب کوئی بچہ نہیں ملا اب رسول اکرم اکیلے تھے ساری عورتیں ان سے کترا رہی تھیں حلیمہ السعدية نے اپنے شوہر سے ذکر کیا کسی بچے کو لئے بغیر باہر چلے جائیں اور دوسری عورتوں کے طعنے ہمیں سننا پڑے تو بہتر ہے ہم اسی بچے کو لیتے ہیں ان کے شوہر نے کہا ہاں بات بلکل درست ہے ہو سکتا ہے یہ بچہ ہمارے لئے خیر و برکت کا ذریعہ ثابت ہو لہذا ہم اس کو لے لیں گے تو انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دودھ پلانے کی غرض سے لے لیا اس کے بعد ابن اسحاق رحمہ اللہ نے سیرت کی جو زرخیم کتاب لکھی ہے تو ان کے حوالے سے مختلف سیرت نگاروں نے جنہوں نے سیرت پر کتابیں لکھی ہیں انھوں نے ان باتوں کا ذکر کیا وہ خود بیان کرتی ہیں حلیمہ السعدية کے حوالے سے جب انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے ساتھ لیا تو کس طرح بہت سی برکتیں ان پر ظاہر ہوئیں خود حلیمہ السعدية کے حوالے سے جو بات بیان کی جاتی ہے وہ خود کہتی ہیں کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو ہم ایک گدھی پر سوار تھے سفید رنگ کی تھی اور ہمارے ساتھ ایک اونٹنی تھی بہت سست تھی کیونکہ سخت ترین قحط کا دور تھا اور یہ بہت غریب تھے سارے لوگ پریشان تھے قحط کے اثرات بہت زیادہ ظاہر ہوئے تھے اس لیے ان کے جانوروں کو کچھ ملتا تھا تو وہ کہتی ہیں گدھی اتنی کمزور تھی کہ آتے وقت یعنی مکہ پہنچتے وقت وہ ہمیشہ پیچھے ہو جاتے یہاں تک کہ قبیلے کی خواتین بار بار شکایت کرتی کہ تم سست رفتار ہو اور وہ جس اونٹنی کو اپنے ساتھ لائے تھے ظاہر ہے کہ اسے خاص چارہ نہیں ملتا تھا وہ کمزور تھی |
L-5 سيرةالنبى صفہ-2
|
حلیمہ السعدیة کہتی ہیں جب میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لیا اپنے سینے سے لگایا ان کو دودھ نہیں آتا تھا لیکن سینے سے لگاتے ہیں اتنا دودھ آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شکم سیر ہو کر پی لیا اس کے بعد حلیمہ السعدیة کا جو بیٹا تھا جو ان کے ساتھ تھا اس نے بھی پیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات کا اظہار شروع ہو گیا جو اللہ تبارک و تعالٰی نے دکھایا تھا اس کے بعد وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر اونٹنی کا دودھ دھونے کے لئے گئے اونٹنی کے تھن جو سوکھ چکے تھے اتنا دودھ نکلا کہ وہ بھی شکم سیر ہو کر پیا اور میں نے بھی شکم سیر ہو کر پیا اور پہلی مرتبہ ہم آرام سے سوئے میرے شوہر نے کہا مبارک روح ہے جسے ہم نے لیا ہے وہ مزید بیان کرتی ہیں جب ہم اس کے بعد اپنے قریہ پہنچے بنو سعد میں ظاہر ہے کہ کھیت سوکھ چکے تھے بکریوں کو چرنے کے لئے کوئی چارہ نہیں ملتا تھا ہریالی نہیں ہوتی تھی اس کی وجہ سے بکریوں کا دودھ بھی نہیں نکلتا تھا عام طور پر گاؤں والوں کا یہ ہی حال تھا لیکن حلیمہ السعدیة کے ساتھ یہ برکتیں تھیں کہ ان کی بکریاں جب واپس آتیں ان کے تھنوں میں بہت سا دودھ ہوتا اور ساتھ ہی ان کے کھیتوں میں اناج بھی بہت اچھا پیدا ہوتا یہ برکتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تھیں جو اللہ تبارک و تعالٰی نے ظاہر کی تھیں یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چائیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بچوں کی طرح پیدا ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی ساری باتیں ہمارے سامنے ہیں ((إنما أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ )) یہ امتیاز ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ((میں تمھاری طرح انسان ہوں میری طرف وحی کی گئی ہے )) یہ امتیاز ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دوسرے انسانوں سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امتیازی خوبی کہ آپ اللہ تبارک و تعالٰی کے نبی ہیں اور اس حیثیت سے آپ اللہ تبارک و تعالٰی کے پیغمبر ہیں اللہ تبارک و تعالٰی نے شروع ہی سے اللہ تبارک و تعالٰی کی حفاظت کی لحاظہ حلیمہ السعدیة کہتی ہیں جب ہم اس بچے کو لے کر گئیں اس کے بعد جو برکتیں ہوئی اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی تھی یہ بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے بڑھنے لگا یہاں تک کہ جب آپ نو مہینے کی عمر کو پہنچے تو آپ اتنی صاف بات کرتے تھے وہ سمجھ میں آتی تھی اور بہت اچھی گفتگو کرتے اور شروع ہی سے آپ کا یہ حال تھا آپ خاموش رہتے زیادہ بات نہیں کرتے اور آپ کے کھیل کودھ بہت ہی سلجھے ہوئے تھے اس کے بعد وہ کہتی ہیں دو سال دودھ پلانے پلانے کے بعد دو سال کی مدت تک دیا جاتا تھا بچوں کو دودھ پلانے کے لئے جب مدت گزری دو سال کے بعد جب واپس کرنے کا وقت آیا تو ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم بچے کو رکھتے جو بچے کی وجہ سے برکتیں ہم دیکھ رہے تھے اس کی وجہ سے ان کو لے کر گئے اور میں نے ان کی والدہ سے اس بات کا ذکر کیا کہ کیوں نہ کچھ اور دن آپ ہمارے پاس رہنے دیں تاکہ مکہ میں جو وبا پھیلی ہوئی ہے لکھا جاتا ہے مکے میں اس وقت کوئی وبا تھی تو اس سے بچہ محفوظ رہے گا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ نے پھر سے ان کے حوالے کیا اس طرح پھر سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حلیمہ السعدیة کے پاس پہنچ گئے اور مزید دو سال رہے چار سال کی عمر تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہیں رہے کہا جاتا ہے کہ پانچ سال کی عمر تک لیکن معروف روایت میں چار سال کی عمر ہے اور اس درمیان میں شک صدر کا واقعہ پیش آیا عام طور پر سیرت کی جو مختلف باتیں ہیں ابن اسحاق رحمہ اللہ کی طرف سے نقل کی جاتی ہیں لیکن ظاہر ہے حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں موجود ہے اور شق صدر کا واقعہ صحیح مسلم کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سینہ چاک کرنے کا واقعہ جب آپ چار سال کے ہوئے تو جبریل علیہ السلام پہنچے آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے آپ کو انھوں نے اپنے ہاتھوں میں لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سینا چاک کیا اور اس میں سے ایک لوتھڑا گوشت کا ایک ٹکڑا نکالا اور کہا یہ شیطان کا حصہ ہے اس کے بعد آپریشن جو آجکل ہوتا ہے وہ فرشتے کے ذریعے کیا ہوا آپریشن تھا آسمان کے فرشتوں کے سردار نے زمین کے سردار کے سردار کا آپریشن کیا تھا اس کے بعد آپ کے دل کو زمزم کے پانی میں رکھا علماء کہتے ہیں اس سے زمزم کے پانی کی خوبی معلوم ہوتی ہے دنیا کے کسی اور پانی کو نہیں لیا بلکہ زمزم کے پانی کو لیا یہ مبارک پانی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سینے کو بند کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جو بھائی تھے جو ان کے ساتھ کھیل رہے تھے وہ دوڑتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور کہا ہمارا جو قریشی بھائی ہے اس کو کچھ لوگوں نے مار دیا ہے وہ حیران پریشان آئیں اور دیکھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحیح سالم ہیں لیکن آپ کے چہرے کا رنگ بدل چکا ہے وہ پریشان ہو گئیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جو چار سال کی مدت وہ مکمل ہو چکی تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر آئیں اور ان کی والدہ کے حوالے کر دیا اس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی والدہ آمنہ کے پاس واپس آ گئے دو سال
|
بعد جب آپ کی عمر چھے سال تھی آپ کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی زیارت کے لئے یا کسی اور کام سے مدینہ گئی ہوئی تھیں جب واپس آ رہی تھیں آپ کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبد المطلب بھی تھے واپسی پر مدینے کے پاس ابواء نامی مقام پر ان کا انتقال ہو گیا آمنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جو ان کی لونڈی تھیں برکتة ام ایمن وہ ان کو لے کر آئیں پیدائش سے پہلے آپ اپنے والد کے سائے سے محروم تھے جب چھے سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہوا اسی لئے آپ کو یتیم الأبوين بھی کہتے ہیں۔
|
L-5 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس نے دودھ پلایا ؟ جواب : حلیمہ السعدیة بنت ابی ضعیب سعد خاندان کی تھیں اس لئے ان کو سعدیہ کہا جاتا ہے ۔
سوال 2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کی وفات کے بعد آپ کی کفالت کس نے کی تھی ؟
جواب: آپ کی والدہ نے دادا عبد المطلب کی نگرانی میں ۔ سوال 3: قریش اپنے بچوں کو قریوں میں دودھ پلانے والی دایوں کے حوالے کیوں کرتے تھے؟
جواب: اس کے دو اسباب تھے ایک تو بچے کی قوت اور طاقت مضبوط ہو اسے صاف شفاف آب و ہوا ملے اور وہ اچھی صاف اور محفوظ عربی زبان سیکھ سکے ۔
سوال 4: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حلیمہ السعدیة کے پاس رہنے میں خیر و برکت تھی اس کی وضاحت کیجئے ؟
جواب: جو سبق میں بیان کیا ہے اس میں سے ایک دو باتیں ذکر کیجئے کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر پہنچیں تھیں ان کے خشک کھیت سرسبر و شاداب ہو گئے تھے اور ان کی بکریوں میں کسی طرح دودھ آتا تھا ۔
سوال 5: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حلیمہ نے ان کی والدہ کے حوالے کب کیا ؟
اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ انتقال ہوا آپ کی عمر کتنی تھی؟
جواب: 1جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر چار سال تھی –
اور نمبر2 ان کی عمر 6 سال تھی جب آپ کی والدہ کا انتقال ہوا-
|
L-6 سيرةالنبى صفہ-1
| |
کفالت عبد المطلب وابي طالب للرسول عليه الصلاة والسلام -6
عبد المطلب اور ابو طالب کی کفالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ آمنہ کے انتقال کے بعد براہ راست آپ کے کفیل آپ کے دادا عبد المطلب بن گئے آپ کی کفالت کی اس وقت جب آپ کی عمر سات سال تھی عبد المطلب اپنی قوم میں بہت ہی معزز سردار تھے فضل و کرم والے تھے اور قریش ان کا بہت احترام کرتے تھے ان کے ضمن میں کعبہ اللہ کے جو امور یا کعبہ اللہ کے جو مناسک ان کے حوالے کیئے گئے تھے وہ تھے الرفادة اور السقایة یہ دو مناسک ان کے حوالے تھے ان سے پہلے ہاشم کے حوالے تھے اور ہاشم کے بعد مطلب ان کے بھائی ان مناسک کے نگران بنے اس کے عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا نگران بنے الرفادة کا مطلب ہے حاجیوں کو کھانا کھلانا اور السقاية کہتے ہیں حاجیوں کو پانی پلانا معنی تو پانی پلانے کے ہیں پر یہاں معنی ہیں حاجیوں کو پانی پلانا عرب میں جو کعبہ اللہ کا مقام و منصب تھا مقام و احترام تھا اس کی وجہ سے وہ کعبہ اللہ کی خدمت کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے تو کعبہ اللہ کے تعلق سے مختلف چیزوں کو مختلف کاموں کو انھوں نے آپس میں بانٹ لیا تھا کچھ چیزیں ان کے حوالے تھیں کچھ چیزیں دوسرے خاندانوں کے حوالے تھیں تو بنو ہاشم کے پاس السقایة اور الرفادة انھوں نے ایک بڑا حوض انھوں نے بنا دیا تھا حج کے موسم میں وہاں پانی جمع کرتے اور پانی کو میٹھا کرنے کے لیے کشمش اور ستو ڈالتے اس طرح وہ حاجیوں کی خدمت کرتے تھے الرفادة کہتے ہیں حاجیوں کی ضیافت یعنی انھیں کھانا کھلانا قریش کے لوگوں کے ضمن میں حج کے موسم میں ضروری تھا کہ وہ حاجیوں کی خدمت کے لئے کچھ رقم جمع کرتے تھے ہر کے اوپر کچھ رقم کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اس رقم کو عبد المطلب اکٹھا کرتے اور حج کے موسم میں حاجیوں کی خدمت کے لیے کھانے کا انتظام کرتے جو غریب یا محتاج ہوتے ان کے لئے تو یہ دونوں خدمتیں عبد المطلب کے حوالے تھیں مطلب کی وفات کے بعد یہاں لکھا ہوا ہے ان کے والد ہاشم بن عبد مناف کی وفات کے بعد ہاشم بن عبد مناف کے پاس مختصر مدت کے لئے عبد المطلب کے حوالے تھی یہ خدمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے دادا عبد المطلب بہت چائتے تھے چائنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عبد اللہ جو ان کے چہیتے لڑکے تھے ان کے انتقال کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو ان کا انتقال ہو گیا اس کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور یہ بھی تھا کہ ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا تو محبت کے ساتھ ساتھ شفقت بھی شامل تھی اس لئے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بہت خیال رکھتے تھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انداز تھے طور طریقے تھے دوسرے بچوں سے ذرا مختلف نظر آتے تھے اس کی وجہ سے عبد المطلب محسوس کرتے تھے کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں ہے یہ یقینا کوئی عظیم بچہ ثابت ہو گا تو اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور ایسے احترام کرتے جیسے کسی بڑے کا احترام کیا جاتا ہے عبد المطلب کے لئے کعبہ اللہ کے پاس ایک چادر بچھائی جاتی جس پر وہ بیٹھتے ان کے سامنے ان کے آس پاس چادر پر کوئی بیٹھنے کی کوئی ہمت نہ کرتا جرأت نہ کرتا لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آتے اور آ کر چادر پر بیٹھ جاتے عبد المطلب کے ساتھ تو ان کے چاچا منع کرتے تو عبد المطلب نے انہیں روک دیا اور کہا انہیں چھوڑ دو اور انھیں میرے ساتھ ہی بیٹھنے دو کیونکہ ان کا ایک عظیم مقام ہے یہ ایک عظیم بچہ ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت عظیم ثابت ہو گا اس طرح وہ ان کو اپنے ساتھ بٹھاتے آپ کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ پھیرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بہت خیال رکھتے یہاں تک کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر جب آٹھ سال دو مہینے ہو گئی آپ کے دادا عبد المطلب کا بھی انتقال ہو گیا اس وقت عبد المطلب کی عمر 95 سال تھا انھوں نے وفات سے پہلے ابو طالب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کی کفالت کریں اس کے دو سبب تھے ایک تو یہ کہ وہ محسوس کرتے تھے ان کے بچوں میں سے خاص شفقت ابوطالب کرتے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ خصوصی خیال رکھتے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کے والد کے سگے بھائی تھے اپنی ماں کی جانب سے دونوں عبد اللہ اور ابو طالب دونوں سگے بھائی تھے ان اسباب کے تحت عبد المطلب نے وفات سے پہلے وصیت کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کفیل ابوطالب بنیں گے۔ | |
کفالت چچا ابي طالب : ابو طالب نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کفالت کی اور ان کا حق ادا کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نگران بنے نا صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کی بلکہ کفیل ہونے کی حیثیت سے جو حق ادا کرنا چاہیے انھوں نے کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر آٹھ سال تھی جب وہ نگران بنے اور اپنی وفات تک جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر پچاس 50 سال تھی بعثت کے بعد بھی جب آپ چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے گئے اور پھر جب پچاس سال کی عمر کو پہنچے اس وقت ابوطالب کا انتقال ہوا آٹھ سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر تک ابوطالب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا نبی بنائے جانے کے بعد بھی یہاں تک کہ اپنی پوری قوم کی مخالفت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ نہیں چھوڑا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پوری طرح ساتھ دیا اور جو کفالت کے طور پر جو کام ادا کرنے چائیے انھوں بخوبی ادا کیا – | |
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
سوال 1: عبد المطلب نے اپنے پوتے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کفالت کب کی ؟ جواب: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ کا انتقال ہوا آپ کی عمر چھے سال تھی عبد المطلب بن ہاشم نے آپ کی کفالت کی ۔ سوال 2: کیا عبد المطلب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے دوسرے بچوں کی طرح معاملہ کرتے تھے؟ جواب: اپنے بچوں سے بہتر معاملہ کرتے تھے ۔ سوال 3: کوئی ایسی مثال ذکر کیجئے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عبد المطلب اپنے پوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ترجیح دیتے تھے؟ جواب: جو مشہور واقعہ ہے کہ جب کعبہ اللہ کے پاس چادر بچھائی ہوئی تھی عبد المطلب کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئے اور چادر کے آس پاس بیٹھ گئے آپ کے چچا نے ہٹانا چاہا تو عبد المطلب نے انہیں روک دیا اور کہا ان کو چھوڑ دو ان کی بہت بڑی شان ہے ان کا بہت عظیم مقام ہے مجھے یقین ہے کہ یہ بہت عظیم ثابت ہوں گے ۔ سوال4 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا کی وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کیا تھی؟ جواب: آٹھ سال تھی ۔ سوال5 : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کفیل کون ہوئے آپ کے دادا کی وفات کے بعد؟ جواب: ابوطالب آپ کی کفالت کے ذمہ دار ہوئے ۔ سوال 6: عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابوطالب کو کیوں وصیت کی کفالت کے سلسلے میں؟ جواب: ایک تو ابو طالب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بہت چائتے تھے اور بہت خیال رکھتے تھے اور دوسری بات وہ آپ کے والد کے سگے بھائی تھے ۔ سوال 7: ابو طالب نے اپنے بھائی کے لڑکے کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟ جواب: انھوں نے بہت اچھا معاملہ کیا انھوں نے کفالت کے تعلق سے جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس کو انھوں نے اچھی طور پر ادا کیا جب آپ کی عمر آٹھ سال تھی تب سے لے کر بعثت کے بعد جب ان کا انتقال ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر پچاس سال تھی یعنی چالیس سال سے زیادہ عرصے تک ابوطالب نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا ۔ سوال 8 : کیا ابوطالب نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد آپ کو تنہا چھوڑ دیا تھا؟ جواب: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا اگرچہ کہ وہ ایمان نہیں لائے ۔ |
L-7 سيرةالنبى صفہ-1
| |
(( رسول اللہ ﷺ کا شام کی جانب سفر)) رحلة الرسول عليه الصلاة والسلام الی شام
مکہ کے باہر جانےکا یہ پہلا موقع تھا جو رسول اللہﷺ شام گئے تھے کہا جاتا ہے اللہ کے رسول ﷺ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ گئے تھے اس کتاب میں اس سبق کے بارے میں جو باتیں کی گئی ہیں ہم ان کا مطالعہ کریں گے اس سبق کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے ابو طالب اگرچہ کعبہ اللہ متولی تھے اس کے نگہبان تھے اس کو بند کرنے اور کھولنے اس کی صفائی اس کی دیکھ بھال یہ سب ان کے زمہ تھے لیکن مالی طور سے وہ بہت زیادہ قوی نہیں تھے اس لئے وہ تجارت کرتے تھے عام طور سے عرب شام اور یمن جاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے سورتہ الفیل اس بات کا ذکر کیا (( رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ)) سورتہ قریش سردی اور گرمی کا سفر اللہ تعالٰی نے ان کے لئے آسان کر دیئے تھے راستے ان کے کئے کھول دیئے تھے ابو طالب تجارت کے لئے شام جاتے تھے ایک دفعہ جانے لگے ایک دفعہ جب جانے لگے اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اس بات کی خواہش کی کہ وہ بھی اس سفر میں ان کے ساتھ رہیں گے تاکہ سفر کا جو لطف ہوتا ہے صحرا کے آب و ہوا میں اس سے لطف اندوز ہو سکیں اور اسی طرح تجارت اہل عرب کا عام پیشہ تھا اس کی تربیت اور ٹرینگ لے سکیں رسول اللہﷺ نے جب اس خواہش کا اظہار کیا انھوں نے اجازت دی ساتھ لے کر جانے کے لئے تیار ہو گئے انھوں نے اجازت دی اور کہا قسم بخدا میں اپنے بھتیجے کو اپنے ساتھ ضرور لے کر جاؤں گا میں کبھی ان سے جدا نہیں ہوں گا اور انھیں کبھی اپنے سے جدا نہیں ہونے دوں گا وہ رسول اللہ ﷺ کو لے کر نکلے شام کی جانے کے لئے اس وقت اللہ کے رسول ﷺ کی عمر 12 سال تھی تفسیر کو جن لوگوں نے روایتوں کے ساتھ بیان کیا ہے وہ لوگ کہتے ہیں کہ قافلہ جب چلتا تھا تو ایک بادل تھا جو رسول اللہ ﷺ سایہ کیئے ہوئے تھا سورج کی شعاؤں اور تپش اور گرمی سے بچانے کے لیے ایک بادل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہتا تھا جہاں آپ رکتے وہ رکتا جہاں آپ چلتے وہ چلتا تھا یہ قافلہ اس حالت میں جاتے ہوئے بصری پہنچ گیا جو شام سے پہلے ایک علاقے کا نام تھا جب بصری پہنچے شام کے علاقے کے پاس تو وہاں ایک راھب رہتا تھا اس کا نام جرجیس تھا رای بحیری تھا یہ ان کا لقب تھا نصرانیت کا انہیں علم تھا تورات اور انجیل کے وہ ماہر تھے انھوں نے دیکھا یہ بادل رسول اللہ ﷺ پر سایہ کیئے ہوئے ہے اور اس نے اس بات کو بھی محسوس کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ جب گزرتے تھے اس وادی میں جو درخت اور پتھر تھے وہ اللہ کے نبی ﷺ کو جھک کر سلام کرتے تھے جب یہ نشانیاں اس نے دیکھ لیں تو وہ پہنچاں گیا کہ یہ تمام چیزیں اسی کو سلام کرتی ہیں جو اللہ کے نبی ہوتے ہیں وہ اس بارے میں سوچنے لگا اور وہ چائتا تھا کہ اس بارے میں مزید واقفیت حاصل کرے کہ آخر وہ نبی آ چکے ہیں لہٰذا وہ راھب اپنے گرجہ سے نکلا عام طور پر وہ گرجہ میں ہی رہتا اور وہاں سے نہیں نکلتا تھا وہ اپنے گرجے سے نکل کر قافلے کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ لوگوں کی میزبانی کرنا چائتا ہوں کھانے کی دعوت دیتا ہوں لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ سب آئیں جو بڑے ہیں وہ بھی آئیں جو چھوٹے ہیں وہ بھی آئیں سب کے سب اس کخ دعوت پر چلے گئے لیکن اللہ کے رسول ﷺ نہیں گئے آپ اس قافلے میں چھوٹے تھے اسی لئے رسول اللہ ﷺ سامان کی نگرانی کرنے کے لیے رک گئے میزبانی کے دوران کھانا کھلانے کے دوران راھب یہ جائزہ لینے لگا کہ آخر وہ شخص کون ہے جس کو درخت اور پتھر سلام کر رہے تھے وہ اس بشر کو دیکھنا چائتا تھا پہچانا چائتا تھا اس نے میزبانی کے دوران وہ جائزہ لینے لگا کہا کہ کوئی اور بھی ہے جو تمھارے سارے نہیں آئے تو اسے جواب دیا گیا کہ ایک بچہ ہے وہ ہمارے ساتھ قافلےمیں ہے لیکن سامان کی نگرانی کے لئے تو اس نے کہا انہیں بھی لے آؤ اللہ کے رسول ﷺ کی جو نشانیاں تورات اور انجیل میں مذکور ہیں ان نشانیوں کے ذریعے اس نے اللہ کے رسول ﷺ کو پہچان لیا اس میں تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں ہیں کہ وہ کون سی نشانیاں ہیں کتاب میں واقعہ مذکور ہے کہ بادل آپ کو سایہ کیئے ہوئے تھا باقی جہاں تک درخت اور پتھروں کے سلام کرنے کے ہیں وہ سیرت کی مختلف کتابوں میں موجود ہے اس کے ساتھ جو اللہ کے رسول ﷺ کی مہر نبوت تھی جو آپﷺ کے کاندھے کے تھوڑا سا نیچے تھی سیپ کی طرح وہ مہر نبوت تھی اور یہ بھی سابقہ کتابوں میں مذکور ہے لہذا ان نشانیوں سے اس نے پہچان لیا کہ یہ ہی نبی منتظر ہیں جس کا انہیں شدت سے انتظار ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا سورتہ الصف6 ((وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ )) " جب عیسی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تمھے خوشخبری دینا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد ہو گا جب یہ رسول آئے واضع نشانیوں کو لے کر تو وہ کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے " تو اس آیت میں عیسی علیہ السلام کا یہ قول ہے (وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ) میں بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد ہو گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا نام احمد بھی ہے تو راھب نے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے تو ابو طالب نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے بحیری کہنے لگا کہ میں تمھے اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان کو یہودی پہچان لیں گے اور مدت سے ان کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ جان لیں گے کہ وہ ان کی قوم میں نہیں ہیں تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور اس طرح اللہ کے رسولﷺ کو نقصان ہو سکتا ہے تو انھوں نے کچھ آدمیوں کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ روانہ کر دیا تو جب آپ مکہ واپس ہوئے تو آپ ﷺ کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے لگے آپ ﷺ سے محبت ابو طالب کو پہلے سے تھی اس واقعہ کے بعد اس میں مذید اضافہ ہو گیا اور آپ ﷺ کی عزت اور احترام اس میں اضافہ ہو گیا لہذا یہ اللہ کے رسول ﷺ کے شام کے سفر کا یہ واقعہ ہے بعض حدیث کی کتابوں میں بھی یہ مذکور ہے
| |
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے سوال 1 : ابو طالب نے کیا کہا جب ان کے بھتیجے نے سفر پر جانے کا کہا؟ جواب : ابو طالب نے کہا بخدا میں انہیں اپنے ساتھ ضرور لے جاؤں گا میں اپنے سے انہیں جدا نہیں کر سکتا اور نہ ہی انہیں اپنے سے جدا ہونے دوں گا ۔ سوال2: رسول اللہ ﷺ کا پہلا سفر کس مقام کی جانب ہوا ؟ جواب: شام کی جانب سوال 3: اس سفر میں کون سے معجزات واقعہ ہوئے تھے؟ جواب: اللہ کے رسول ﷺ جب چلتے تو بادل آپ کے ساتھ چلتا تھا وہ آپ کو سایہ کیئے ہوئے تھا سورج کی شعاؤں سے آپ کو بچائے ہوئے تھا۔ سوال4: بحیری راھب کس مقام پر تھا؟ بحیری راھب کے پاس کس چیز کا علم تھا؟ جواب: (1) بحیری راھب بصری کے مقام پر تھا (2) اس کے پاس نصرانیت کا علم تھا اور وہ بہت بڑا عالم تھا۔ سوال 5: بحیری راھب نے قافلے کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے کیا کیا؟ جواب: قافلے والوں کو دعوت دی ۔ سوال6: محمد ﷺ کہاں تھے جب قریش کا وفد بحیری کے پاس گیا تھا؟ جواب: آپﷺ قافلے کے سامان کی نگہبانی کر رہے تھے۔ سوال7: راھب نے کیسے پیچانا محمد ﷺ ہی نبی مقدم ہیں جس کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ اور راھب نے ابو طالب کو کس بات کی نصیحت کی؟ جواب: راھب نے اللہ کے رسول ﷺ کو آپ کی نبوت کے نشانیوں کے ذریعے پہچانا( 2) راھب نے ابو طالب کو نصیحت کی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو شام نہ لے جائیں کیونکہ وہاں یہودی ہیں اور اندیشہ اس بات کا ہے کہ وہ آپ خو نقصان پہنچائیں گے ۔ سوال 8: ابو طالب کو راھب کی نصیحت کا نتیجہ کیا نکلا؟ جواب: نتیجہ یہ نکلا ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کو بعض لوگوں کے ساتھ مکے کی طرف روانہ کر دیا |
L-8/1 سيرةالنبى صفہ-1
|
حرب الفجار = فجار کی جنگ
اس کا نام یہ کیوں رکھا گیا یہ کتاب میں مذکور ہے کہ اس میں حرم اور حرمت والے مہینے دونوں کی حرمت کو چاک کیا گیا تھا یہ جنگ ذی القعدہ کے مہینے میں ہوئی تھی اس میں حرم کی اور حرمت والے مہینے دونوں کو چاک کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کیا گیا جس کا نام فجار رکھا گیا حرب کے معنی جنگ کے ہیں عرب میں فجار نام کی چار جنگیں بہت مشہور ہیں پہلی جنگ بنی کنانہ اور ھوازن کے درمیان ہوئی تھی ان دو قبیلوں کے درمیان ہوئی تھی جو فجار کے نام سے مشہور ہے فجار نام کی دوسری جنگ جو قریش اور ھوازن کے درمیان ہوئی تھی اس کا نام بھی فجار ہے اور فجار نام کی جو تیسری جنگ ہے وہ بنی کنانہ اور ھوازن کے درمیان ہوئی تھی یہ بھی فجار کے نام سے مشہور ہے اور چوتھی جنگ جو اس سبق میں موجود ہے اور یہی آخری جنگ ہے فجار کے نام سے اور یہ قریش اور بنو کنانہ ایک طرف تھے اور دوسری جانب بنو ھوازن کے قبیلے تھے ان کے درمیان یہ جنگ ہوئی تھی یہ جو چوتھی جنگ ہے اللہ کے رسولﷺ کی بعثت سے پچیس سال پہلے ہوئی تھی یعنی اللہ کے رسول ﷺ کی عمر تقریبا پندرہ سال تھی رسول اللہﷺ کو ان کے چچاؤں نے اس جنگ میں شریک کرایا تھا اپنے چچاؤں کی وجہ سے رسول اللہﷺ اس جنگ میں شریک ہوئے اور اللہ کے رسول ﷺ اپنے چچاؤں کو اس جنگ میں تیر اٹھا کر دیا کرتے تھے تیر تھماتے تھے ان کے ہاتھوں میں یہی آپ کا کام تھا آپ نے جنگ میں لڑائی نہیں کی البتہ اپنے چچاؤں کی مدد ضرور کی ان کے چچا ان کو لے کر گئے تھے ایک طرف قریش اور بنو کنانہ تھے ان کے جو قائد یا لیڈر تھے حرب بن امیة بن شمس یہ ابو سفیان بن حرب کے والد تھے اور ان کے والد ہیں حرب ابن امیة یہ اس جنگ میں قریش کے سردار تھے یہ اپنی عمر اپنے شرف میں اونچے تھے لحاظہ قریش نے اس جنگ میں ان کو کمانڈر بنایا تھا اور اس جنگ کا نام حرب فجار اس لئے رکھا گیا کہ اس میں حرمت والے مہینے اور حرم کی حدود کی حرمت کو چاک کیا گیا تھا |
L-8/2 سيرةالنبى
|
حلف الفضول = معائدے کی قسم
حلف ایک معاہدہ ہوا تھا اور فضول اس لئے رکھا گیا کہا جاتا ہے جنہوں نے اس معائدے میں شرکت کی ان میں سے تین چار افراد ایسے تھے جن کا نام فضل تھا تو اس کو جمع کر کے الفضول یعنی ایسا معاہدہ جس میں تین چار لوگ شریک ہوئے جن کے نام میں فضل آتا تھا اس لیے کا نام رکھا گیا یہ جو حلف الفضول ہے یہ حرب الفجار کے فوری بعد یہ معائدہ ہوا حرب الفجار میں جو نقصان ہوا تھا حرب الفجار کے بعد یہ معاہدہ واقعہ ہوا کہا جاتا ہے کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص مکہ آیا کچھ سامان لے کر اور عاص بن وائل نےطاس کا سامان خریدہ اور اس نے اس کی سامان کی قیمت نہیں دی تقاضہ کرنے کے باوجود بھی اسے اس کی قیمت نہیں ملی تو جو اس کے حریف قبیلے تھے بنو عبد الدار وغیرہ ان کے پاس شکایت کی تو انھوں نے بھی توجہ نہیں دی تو جبل ابی قیس پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مظلومیت کی داستان اشعار کی شکل میں سنائے تو اس کے بعد کچھ کوگ اس موقع پر کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس بات کا فیصلہ کیا جو مظلوم ہیں جن کے حقوق کو ادا نہیں کیا جاتا ضروری ہے ہم ایک ایسا معائدہ کریں کہ مظلوم کو اس کا حق دلایا جائے لہذا یہ معائدہ ہوا اس کے بعد اس کا غق دلایا گیا سب سے پہلے جس نے اس کی طرف دعوت دی وہ زبیر بن عبد المطلب اللہ کے رسول ﷺ چچا تھے انہوں نے سب سے پہلے اس کی آواز اٹھائی اس طرح کے حلف اس طرح کے معائدے کے لئے اور اس معائدے میں جو شریک ہوئے وہ تھے بنو ہاشم اور بنو المطلب اور بنو اسد اور بنو زھرة اور بنو تیم یہ اس میں شریک ہوئے تھے اور یہ جمع ہوئے تھے عبد ابن جزعان کے گھر پر عبد اللہ ابن جدعان یہ اپنی عمر اپنی شرافت کے بہت معروف تھے ان کے گھر پر یہ لوگ جمع ہوئے تھے اس موقع پر انھوں نے جو معائدہ کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ مظلوم کی مدد کریں گے خواہ وہ مکے کا ہو یا مکے کے باہر کا اور اس کو اس کا حق دلائیں گے اور ہر حال میں وہ ظالم کے خلاف رہیں گے اور ظلم کی مخالفت کریں گے یہ ان کا معائدہ تھا مظلوم کی وسعت اور اس کے حق کو ادا کرنے اور ظالم کی مخالفت کرنے یہ ان کے معائدے کا بنیادی نقطہ تھا اللہ کے رسول ﷺ اس معائدے میں شریک ہوئے تھے اور باقاعدہ آپ نبی بنائے جانے کے بعد آپ نے اس کا ذکر بھی کیا
((أَن ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَقَدْ شَهِدْتُ فِي دَارِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا أُحِبُّ أَنَّ لِيَ بِهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، وَلَوْ أُدْعَى بِهِ فِي الإِسْلامِ لأَجَبْتُ ))
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں شریک ہوا تھا عبد اللہ ابن جدعان کے گھر میں ایک معائدے میں مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ہیں سرخ اونٹ جو بڑی قیمتی دولت ہے یہ معائدہ مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے اگر اسلام میں مجھے اس طرح کے کسی معائدے کی طرف دعوت دی جائےگی تو میں اسے ضرور قبول کروں گا " ::اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی تعریف کی یہ بہت اچھا معائدہ تھا اس سے بہت اچھے اسبات مرتب ہوئے :: |
L-8 سيرةالنبى صفہ-2
|
سيرةالنبى L-8/ 1
|
حرب الفجار = فجار کی جنگ 8/1
یہاں ایک نقطہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے (( اللہ کے رسول ﷺ کی حرب الفجار میں شرکت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے )) سوال1 : نبی کریم ﷺ کی کتنی عمر تھی حرب الفجار کے واقعہ کے وقت ؟ جواب: رسول اللہ ﷺ کی عمر پندرہ سال تھی۔ سوال 2: کس نے رسول اللہ ﷺ کو حرب الفجار میں شرکت کرائی تھی؟ جواب: رسول اللہ ﷺ کے چچاؤں نے شرکت کرائی تھی ۔ سوال 3: اس جنگ کا نام حرب الفجار کیوں رکھا گیا؟ جواب: اس میں حرمت والے مہینے اور حرم کی حدود کو چاک کیا گیا تھا ۔ سوال 4: حرب الفجار میں ایک دوسرے کے فریق کون تھے؟ جواب: ایک طرف قریش اور بنی کنانہ اور دوسری طرف بنی ھوازن تھے۔ سوال 5: حرب الفجار میں قریش کے قائد یا لیڈر کون تھے ؟ جواب: حرب بن امیة بن عبد شمس. |
L-8/2 سيرةالنبى
|
حلف الفضول = معائدے کی قسم
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1: قریش کے اصحاب رائے نے حلف الفضول کی طرف کیوں دعوت دی ؟ جواب: حرب الفجار کے نتیجے میں جو تبائی ہوئی تھی اور جو مظلوم لوگوں پر جو ظلم ہوا تھا اس کے خاتمے کے لئے اس کے سد باب کے لئے انھوں نے اس طرح کے معائدے کی دعوت دی تھی۔ سوال 2: کن لوگوں نے حلف الفضول کا معائدہ کیا تھا؟ جواب: بنو ہاشم، بنو المطلب، بنو اسد، بنو زھرة ،بنو تیم یہ پانچ قبائل کے نام ہیں جنھوں نے اس میں شرکت کی تھی۔ سوال 3: وہ اجتماع کہاں ہوا تھا جس میں ان لوگوں نے قسم کھائی تھی یعنی حلف الفضول کا معائدہ کس مقام پر ہوا تھا؟ جواب: عبد اللہ ابن جدعان کے گھر پر ہوا تھا ۔ سوال 4 : جمع ہونے والوں میں کس بات کا معائدہ ہوا تھا؟ جواب: مظلوم کی مدد کرنے کا معائدہ کیا تھا اور اس کو اس کا حق دلانے اور اس کا ساتھ دینے کا انھوں نے معائدے کیا تھا۔ سوال5 : رسول اللہ ﷺ نے اس حلف کے بارے میں کیا کہا تھا؟ جواب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں شریک ہوا تھا عبد اللہ ابن جدعان کے گھر میں ایک معائدے میں مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ہیں سرخ اونٹ جو بڑی قیمتی دولت ہے یہ معائدہ مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے اگر اسلام میں مجھے اس طرح کے کسی معائدے کی طرف دعوت دی جائےگی تو میں اسے ضرور قبول کروں گا " |
L-9 سيرةالنبى صفہ-1
|
رحلة الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثانیة الی الشام
(شام کی جانب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دوسرا سفر) اللہ کے رسول ﷺ کا دوسرا سفر یہ تجارت کی غرض سے تھا اللہ کے رسولﷺ محنتی تھے جفا کش تھے ذریعہ معاش میں آپ نے تجارت کے علاوہ بکریاں بھی چرائی تھیں متواتر روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کی تربیت تھی انبیاء کو گویا لوگوں کی مثال ایک ریورڈ کی ہے آور نبی کی مثال ایک چروائے کی ہے بکریوں کے ریورڈ وہ بکریاں جو بہت کمزور ہوتی ہیں اور بہت زیادہ تنگ کرتی ہیں ادھر ادھر بھاگتی رہتی ہیں انھیں چرانے کے لئے بہت ہمت اور جفا کشی کی ضرورت ہوتی ہے تو گویا انبیاء کی تربیت اللہ تبارک و تعالٰی نے بکریوں کے چرانے کے ذریعے فرمائی ہر نبی نے بکریاں چرائیں نبی کریم ﷺ فبیلہ بنو سعد کی بکریاں چرائی تھیں اور جب آپ چھوٹے تھے تو آپ نے اہل مکہ کی بکریاں بھی چرائی تھیں اس کے بعد جب آپ ﷺ جب بڑے ہو گئے تو مکے کے دوسرے لوگوں کی طرح آپ نے بھی تجارت کو اپنا ذریعے معاش بنایا آپ نے تجارت کا پیشہ اخیتار کیا اللہ کے رسول ﷺ کو اللہ تعالٰی نے اخلاق اور پاکیزہ صفات کا ایک بڑا حصہ عطا کیا تھا اللہ تبارک و تعالٰی نے خود فرمایا ((وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ)) " آپ عظیم اخلاق پر ہیں " اللہ تعالٰی نے آپ کو عظیم اخلاق عطا کیئے تھے رسول اللہ ﷺ کے اندر بہت سی پاکیزہ اور اچھی صفات موجود تھیں مثال کے طور پر امانت ، سچائی، دانش مندی حسن تصرف، صحیح منسوبہ بندی اور تجارتی فنون کی مہارت یہ وہ صفات تھیں جو اللہ کے رسول ﷺ کے اندر پائی جاتی تھیں اور اہل مکہ آپ کو ان صفات کے ذریعے پہچانتے تھے اور اس وقت اہل مکہ کے کچھ لوگ تجارت کے پیشے کو اختیار کیئے ہوئے تھے مکہ تجارت کے سلسلے میں بہت معروف تھا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے سورتہ قریش میں اس بات کا ذکر کیا ہے ((لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ (1) إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ (2) فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ )) " قریش کو مانوس کرنے کے سبب ان کو سردی اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب " سردی اور گرمی میں وہ ان دو موسموں میں تجارت کو جاتے تھے ایک دفعہ یمن ایک دفعہ خاص طور سے شام کو جب کہ عرب کے دوسرے لوگ لوٹ مار قتل و غارت گری کی وجہ سے پریشان رہتے تھے لیکن چونکہ کعبہ اللہ کے متولی تھے اس لئے راستے ان کے لئے امن بنا دیئے گئے تھے لوگ ان پر حملہ نہیں کرتے تھے کعبة اللہ کے متولی اور کعبہ اللہ کے نگران ہونے کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالٰی نے قریش کو کعبة اللہ کی نگرانی اور کعبة اللہ کے تعلق کی وجہ سے جو امن و امان دیا ہے اور تجارتی معاملے میں انہیں آسانیاں دی ہیں اور سہولتیں دی ہیں اس احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ) تو یہ ساری چیزیں انھیں اس گھر کی وجہ سے حاصل ہو رہی ہیں انھیں چائیے کہ اس رب کے گھر کی عبادت کریں جس نے بھوک کے موقع پر انہیں کھانا دیا اور خوف میں امن دیا مختلف علاقوں کے لوگ بھوک سے پریشان رہتے لیکن تجارت کی وجہ سے مکہ میں ہمیشہ عام طور سے غزا موجود ہوتی اور پھر لوگ بد امنی کا شکار تھے اور یہ لوگ امن کی حالت میں ہوتے تھے بہرحال تجارت ان کا خاص پیشہ تھا اور یہ تجارت کے لئے آتے جاتے تھے تو اللہ کے رسول ﷺ نے بھی تجارت کو اختیار کیا آپ ﷺ کی یہ صفات مکے میں بیت مصروف تھی خدیجہ بنت خویلد مکے کی ایک معزز خاتون تھیں، مال دار خاتون تھیں وہ اپنا مال تاجروں کو مضاربت کے اصولوں پر دیتی تھیں یعنی فائدہ کا ایک حصہ مقرر کرتیں ان کا مال ہوتا اور تاجر کی محنت ہوتی اس کے بعد فائدے کا ایک حصہ مقرر ہوتا وہ اس مقرر حصے کے مطابق تجارت کے لئے اپنا مال دیا کرتی تھیں خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مکے کے کچھ لوگوں کو انھوں نے اپنا مال اسی غرض سے دیا تھا اللہ کے رسول ﷺ کی- صفت کا جب انھیں علم ہوا وہ بہت خوش ہوئیں ان کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان کے مال میں تجارت کرنے کے لئے اس قدر امانت دار ہو اس قدر سچا ہو اور اس قدر دانش مند اور پاکیزہ صفات کا حامل ہو تو انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے پاس اپنے ایک آدمی کو بھیجا اور آپﷺ کو یہ پیش کش کی کہ وہ ان کا مال لے کر تجارت کی غرض سے جائیں اس کے بدلے میں جو حصہ دوسرے تاجروں کو دیا کرتی ہیں اس سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کو دیں گی رسول اللہﷺ اس بات پر راضی ہو گئے اتفاق ہو گیا اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ اپنے ایک خاص غلام جن کا نام میسرة تها ان کو آپ ﷺ کے ساتھ بھیجا کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس بات کا ذکر اپنے چچا ابو طالب سے کیا اور جو کچھ بھی تجارتی اتفاق ہوا اس سے انہیں واقف کرایا تو ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کو مبارک باد دی اور جو رسول اللہﷺ کے ساتھ جا رہے تھے اور جو قافلے میں دوسرے افراد تھے ان کو اس بات کی وصیت کی کہ کہیں ایسا نا ہو کہ یہودی بھی غداری کریں اور کسی قسم کا حملہ کریں لہٰذا تمھے رسول اکرمﷺ کے بارے میں ہوشیار رہنا چائیے متنبہ کیا اللہ کے رسولﷺ کا یہ تجارتی قافلہ روانہ ہوا شام کی جانب پورے اطمینان اور آرام کے ساتھ
L-9 سيرةالنبى _ صفہ-1
انھوں نے راستہ طے کیا کہا جاتا ہے تجارتی قافلے نے کوئی مشکل محسوس نہیں کی اس سے زیادہ افضل اور اس سے زیادہ آرام و راحت والا قافلہ انھوں نے نہیں دیکھا تھا جب رسول اللہﷺ شام کے لئے نکلے تھے آپ نے اسی طرح جس گھر میں بحیری راھب عبادت کرتے تھے اس کے قریب ہی اترے تھے تو دوسری دفعہ یہاں نام کی سرائت نہیں ہوتی بہرحال وہ بھی ایک راھب تھے نصاری کے بہت بڑے عالم تھے رسول اللہﷺ کسی درخت کے قریب نکلے ایک راھب ایک گرجہ گھر میں عبادت کرتے تھے اس سے باہر نکلے میسرة سے پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے جو درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں یا پڑاؤ کیا ہے میسرة نے کہا کہ یہ قریش کے ایک آدمی ہیں تو راھب نے کہا اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے کوئی نہیں رکتا اس درخت کے نیچے وہی رکے ہیں جو اللہ تبارک و تعالٰی کے نبی ہوئے تھے لہذا اس نے کتاب میں موجود کچھ نشانیوں سے رسولﷺ کی نبوت کو پہچان لیا قافلہ شام گیا جتنے فائدے کی توقع تھی اس سے زیادہ ہوا اس کے بعد یہ واپس آیا تو میسرة جو خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام تھے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس بڑی تیزی سے پہنچے اور تجارتی قافلے کی کامیابی کی انہیں خوشخبری دی اور جو کچھ بھی انھوں نے راھب سے اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں سنا تھا اس کی انہیں خبر دی اور اللہ کے رسول ﷺ کی پاکیزگی اور بلند اخلاق کا انھوں نے مشاہدہ کیا تھا عملی طور پر رسول اللہﷺ کے بلند اخلاق کا جو انھوں نے تجربہ کیا تھا وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بتا دیئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت خوش ہوئی اس وقت اللہ کے رسولﷺ کی عمر پچیس سال تھی جب آپ ﷺ نے تجارت کے لئے سفر کیا تھا –
|
L-9
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1: اللہ کے رسول ﷺ کن قابل تعریف صفات سے معروف تھے؟ جواب: امانت ، سچائی، دانش مندی، حسن تصرف ، اور فنون تجارت میں مہارت ہے یہ پانچ صفات ہیں جو سبق میں مذکور ہیں ۔ سوال 2:قرآن مجید کی وہ سورتہ ذکر کیجئے جو قریش کے تجارتی قافلوں کے بارے میں بیان کرتی ہے ۔ جواب: سورتہ قریش سوال 3: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کون ہیں اور ان کے مال کی تجارت کون کرتے تھے؟ جواب : سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ مکے کے ایک اونچے حسب و نسب معزز اور شرف اور قدر و منزلت والی خاتون تھیں اور قریش کے کچھ لوگ ان کے مال کی تجارت کیا کرتے تھے اور جو مخصوص فائدہ مقرر ہوتا وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ ان کو دیا کرتی تھیں ۔ سوال 4: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات کیوں محسوس کی کہ اپنی تجارت اللہ کے رسول ﷺ کے حوالے کریں ؟ جواب: اس کا خیال سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں اس لئے پیدا ہوا کہ اللہ کے رسولﷺکی جو پاکیزہ صفات ، امانت ، سچائی اور حسن تصرف وغیرہ جب انہیں یہ صفات معلوم ہوئیں تو انھوں نے اپنی تجارت اللہ کے رسول ﷺ کے حوالے لی۔
سوال 5: سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے خادم کون تھے جو رسول اللہ ﷺ کے رفیق رہے تجارتی قافلے میں ؟
جواب: ان کا نام میسرة ہے۔ سوال6: ابو طالب کا موقف کیا تھا اس اتفاق میں تجارتی قافلے کے بارے میں؟ جواب: ابو طالب نے رسول اللہﷺ کو مبارک باد دی سوال 7: ابو طالب نے میسرة اور قافلے کو کیا وصیت کی؟ جواب : میسرة اور قافلے کے جو دوسرے آدمی تھے ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کا خیال رکھنے کی وصیت کی اور یہودیوں سے چوکنا اور ہشیار رہنے کے بارے میں تاکید کی ۔ سوال 8: راھب نے محمدﷺ کے بارے میں میسرة سے کیا کہا تھا؟ جواب: راھب نے کہااس درخت کے نیچے سوائے نبی کے کوئی نہیں اترے آج تک ۔ سوال 9: میسرة نے کیا کیا جب قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا ؟ جواب: میسرة تیزی کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچے اور انھوں نے تجارت میں کامیابی کی خوشخبری دی اور راھب نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جو کچھ بھی کہا اس کی خبر دی اور رسول اللہﷺ کے اعلی اوصاف اخلاق حمیدہ کے بارے میں بتای |
L-10 سيرةالنبى صفہ-1
|
زواج الرسول صلی اللہ علیہ و سلم من السیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا
) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نکاح سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا سے)
خدیجة بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی کافی دانش مند شریف اور خوبصورت خاتون تھیں اور قریش کے سب سے معزز اور سب سے عظیم حسب و نسب اور شرف والی خاتون تھیں اور جاہلیت میں ہی ان کا لقب ظاہرہ پاکیزہ کے نام سے معروف تھیں جب تجارتی قافلہ شام سے واپس آیا اور میسرة نے اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق وغیرہ کے بارے میں سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بتایا اور انہیں اس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ اللہ کے رسولﷺ ہی وہ شخصیت ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا اپنی تجارت میں زندگی کے معاملات میں اور ان کے مال کے اشراف اور ان کی نگرانی کے سلسلے میں تو انھوں نے سوچا سب سے اچھا طریقہ اس سلسلے میں یہ ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ سے نکاح کر لیں باوجود دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا جیسا کہ عام طور پر معروف ہے رسول اکرم ﷺ کی عمر اس وقت پچیس سال تھی اور اللہ کے رسول ﷺ نے اب تک کوئی نکاح نہیں کیا تھا سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عمر اس وقت چالیس سال تھی انھوں نے اس سے پہلے دو مرتبہ نکاح کیا تھا دو مرتبہ ان کے شوہر کا انتقال ہوا اور وہ بیوہ ہو چکی تھیں آور اللہ کے رسولﷺ کا کوئی نکاح نہیں ہوا تھا رسول اکرم ﷺ سے انھیں جب نکاح کا خیال پیدا ہوا تو انھوں نے رسول اکرم ﷺ کے پاس اپنی ایک سہیلی کو بھیجا تھا پیغام کے لئے کہا جاتا ہے ان کی سہیلی کا نام نفیسة بنت منبة ان کی قابل اعتماد سہیلی تھیں ان سے اس بات کا ذکر کیا اور انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے اس بات کو بتایا اللہ کے رسول ﷺ اس سے راضی ہوئے اور آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں سے اس بات کا ذکر کیا اور وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کے چچا تھے عمرو ابن اسد ان کے پاس پہنچے اور سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کے نکاح کا پیغام ان کے پاس بھیجا اور رسول اللہ ﷺ کا نکاح سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا سے ہو گیا شام سے پہنچنے کے دو مہینے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا رسول اللہﷺ جب تجارت کر کے شام سے لوٹے تھے تو دو مہینے کے بعد رسول اکرم ﷺ کا نکاح سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے ہوا تھا سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا یہ رسول اللہ ﷺ کی پہلی بیوی تھیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی میں کسی سے نکاح نہیں کیا تھا رسول اللہ ﷺ کی عمر اس وقت پچیس سال تھی جب رسول اللہ ﷺ کی عمر تقریبا تریپن سال تھی تو سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا انتقال ہوا تھا اس عمر تک رسول اللہ ﷺ نے کوئی نکاح نہیں کیا تھا سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا بہت ہی عظیم خاتون تھیں انھوں نے اپنی دولت کو پوری شخصیت کو اپنی پوری صلاحیتوں کو اللہ کے رسولﷺ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا اللہ کے رسول ﷺ ان سے بہت محبت کرتے تھے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ انھیں بھولے نہیں یہاں تک کہ سیدہ عائشة صدیقة رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا ذکر اس قدر کرتے تھے کہ میرے دل میں ان سے جلن ہوتی تھی جیسا کہ آپس میں رقابت کی وجہ سے ہوا کرتی ہے جب گھر میں کوئی چیز پکتی تو رسول اللہ ﷺ ان کی سہیلیوں کو تلاش کرتے اور ان کے پاس تحفے کے طور پر بھیجتے تھے ( والدین کے بارے میں بھی یہ ہی حکم ہے جب والدین زندہ نہ ہوں ان کا انتقال ہو جائے ان کے ساتھ بر کی ایک شکل یہ ہے کہ ان کے جو دوست احباب ہوں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے) ایک دفعہ جبریل علیہ السلام پہنچے تھے انھیں جنت میں ایک محل کی خوشخبری دی تھی رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کو رسول اللہﷺ کو جو اولاد ان سے ہوئی ان کے نام ہیں قاسم، اسی سے رسول اللہﷺ کی کنیت تھی ابو القاسم اور دوسرے بیٹے عبد اللہ تھے انہی کا لقب طیب اور طاہر بھی تھا لیکن یہ دونوں بچپن ہی میں وفات پا گئے تھے دودھ پینے کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کی چار لڑکیاں ہوئیں زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا ، رقیة رضی اللہ تعالٰی عنھا ، ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنھا ، اور چوتھی فاطمة رضی اللہ تعالٰی عنھا ان چاروں نے اسلام کا دور پایا چاروں مسلمان ہوئیں ان میں مشہور قول کے مطابق زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا بڑی تھیں چاروں بہنوں میں ان کا نکاح ابو العاص ابن الربیع سے ہوا تھا اور دوسری بیٹی رقیة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا تھا ٹھیک جنگ بدر کے دن رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی تیمارداری میں مصروف تھے اس وجہ سے جنگ میں شرکت نہیں کر پائے تھے لیکن اللہ کے رسول ﷺ باقاعدہ انھیں جنگ میں شامل ہونے والا معاملہ کیا اور جو غنیمت تقسیم ہوا تھا اس میں ان کو بھی حصہ دیا تھا کیونکہ اس عذر کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ شریک نہیں ہوئے تھے اس کے بعد رقیة رضی اللہ تعالٰی عنھا کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ کی تیسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رسول اللہﷺ نے کر دیا اور جو سب سے مشہور بیٹی تھیں فاطمة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح علی بن ابی طالب سے ہوا تھا رسول اکرم ﷺ کو ان کی بیٹیوں سے اولاد ہوئی اس میں تین بیٹیوں کا
نکاح اللہ کے رسولﷺکی زندگی میں ہو گیا کم عمری میں فاطمة رضی اللہ تعالٰی عنھا زندہ رہیں اور مشہور قول کے مطابق چھے مہینے کے بعد ان کا انتقال ہوا اور رسول اللہ ﷺ کو انہی سے نسل چلی اور آدمی کی نسل جیسے لڑکے سے معروف ہے اسی طرح لڑکی سے بھی اس کی نسل چلتی ہے رسول اللہ ﷺ کی تمام بیٹیاں مسلمان ہوئی تھیں اور سب نے ہجرت کی تھی سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ قربانیاں دی تھیں اور اسلام کی دعوت کے نشرو اشاعت میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ رہیں اور سخت ترین جو حالات آپ کو پیش آئے تھے قریش کے ساتھ ان میں انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کا پورا ساتھ نبھایا اور جو کچھ دعوت کے نتیجے میں مشقتیں، مشکلات اور مسائل پیش آئے تھے انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ مل کر پوری برداشت کيں ساتھ ان مسائل کو حل کرنے میں آپﷺ کی مدد کی اللہ کے رسولﷺ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور یاد کرتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی ان کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ کو جو اولاد ہوئی وہ معروف ہیں ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ لیکن یہ بھی زندہ نہیں رہے تھے-
|
L-10 سيرةالنبى صفہ-2
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1: سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نسب بیان کیجئے ؟ جواب: خدیجة بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصي ۔ سوال 2: سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اللہ کے رسولﷺ کو اپنے شوہر کے طور پر کیوں منتخب کیا؟ جواب: رسول اللہ ﷺ ہی وہ شخصیت ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا اپنی تجارت میں زندگی کے معاملات میں اور ان کے مال کے اشراف اور ان کی نگرانی کے سلسلے میں اس لئے انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کو منتخب کیا رسول اللہ ﷺ کی خوبیوں اور آپ کی پاکیزہ صفات کی وجہ سے انھوں نے محسوس کیا کہ اللہ کے رسولﷺ ہی وہی شخصیت ہیں جن پر وہ پوری طرح اعتماد کر سکتی ہیں اپنی مال و دولت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں بھئ اور اپنی زندگی کے مختلف امور کو انجام دینے کے سلسلے میں بھی۔ سوال 3: رسول اللہ ﷺ نے کیا سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا سے پہلے کسی سے نکاح کیا تھا ؟ کیا ان کی زندگی میں کوئی اور نکاح کیا تھا؟ جواب : نہیں کیا تھا (2) نہیں رسول اللہ ﷺ نے سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا سے پہلے کسی سے نکاح نہیں کیا تھا اور پھر ان کی زندگی میں بھی کسی اور سے نکاح نہیں کیا تھا ۔ سوال 4: رسول اللہﷺ کی عمر کتنی تھی اور سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عمر کتنی تھی؟ جواب: اس میں اختلاف ہے لیکن مشہور قول کے مطابق تاریخ کی کتاب میں جو لکھا ہوا ہے اس کے حساب سے اللہ کے رسولﷺکی عمر پچیس سال اور سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عمر چالیس سال تھی۔ سوال 5: رسول اللہ ﷺکی چاروں بیٹوں نے کن سے نکاح کیا؟ جواب: زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ابو العاص ابن الربيع سے نکاح کیا رقیة رضی اللہ تعالٰی عنھا اور ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنھا یکے بعد دیگرے عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنھا کے نکاح میں آئیں اور فاطمة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح علی بن أبي طالب رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔ سوال 6: اسلامی دعوت کے سلسلے میں سیدہ خدیجة رضی اللہ تعالٰی عنھا کا کیا رول رہا ؟ جواب: ان کا رول کافی عظیم رہا مکمل طور پر جدوجہد اور کوشش انہوں نے کی اسلامی دعوت کے اشاعت کے لئے اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے اللہ کے رسولﷺ کا سخت ترین حالات میں انھوں رسول اللہ ﷺ کا انھوں نے ساتھ نبھایا اور اس وقت جبکہ مشکل اور مصائب پیش آ رہے تھے انھوں نے پورے تحمل کے ساتھ انھیں برداشت کیا اور ہمیشہ اللہ کے رسول ﷺ کا ساتھ دیا آپ کی ہمت کو بندھائے رکھا اور ہمیشہ اس کام میں ثابت قدم رہنے میں آپ کی مدد کی - |
L-11 سيرةالنبى صفہ-1
|
-11 تحکیم الرسول علیه والصلاة والسلام في وضع الحجر الأسود ودلالته
حجر اسود کو رکھنے میں رسولﷺ کو جج بنانا کعبہ اللہ کا گھر ہے جس کو مسجدالحرام کہتے ہیں اور یہ مربع شکل میں مسجدالحرام کے تقریبا درمیان میں واقع ہے اور اس کا دروازہ تقریبا ایک انسان کے قد کے برابر اونچا ہے
کعبہ اللہ کو ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تاکہ وہ زمین پر اللہ کی عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر بنیں جیسا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا سورتہ العمران 96-97((إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِين فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا َ)) "پہلا گھر جو زمین پر بنایا گیا وہی ہے جو مکے میں ہے مبارک ہے اور سارے عالم والوں کے لئے ہدایت ہے اس میں بہت سی واضح نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن میں رہے گا " اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے زمیں پر تعمیر کیا جانے والا سب سے پہلا گھر کعبہ اللہ معروف بات یہ ہے کہ کعبہ اللہ کو سب اے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا لیکن اس سلسلے میں کوئی صحیح سند کے ساتھ روایت ہمیں نہیں ملتی اس کے بعد آدم علیہ السلام نے اس کو تعمیر کیا قیاس بھی یہ ہی کہتا ہے لیکن اس سلسلے میں بھی کوئی صحیح روایت سند کے ساتھ ہمیں نہیں ملتی البتہ ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر قرآن مجید کی صراحت کی شکل میں کافی تفصیل کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے اور کافی احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے لہذا ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر اس مقام پر ہوئی جہاں پہلے کعبہ تعمیر تھا اگرچہ اس کی دیواروں گر چکی تھیں لیکن اس کی بنیاد باقی تھی اللہ تبارک و تعالٰی نے انہی بنیادوں پر کعبہ اللہ تعمیر کرنے کا حکم دیا کعبہ اللہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام دونوں باپ بیٹے نے اپنے ہاتھوں سے کی اور اس تعمیر کے بعد اسماعیل علیہ السلام چونکہ اپنی والدہ ہاجرہ علیہ السلام کے ساتھ یہیں بس گئے تھے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد جو ابراہیم علیہ السلام کے پوتے وغیرہ ہوں مکے میں اپنی والد اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کے شعائر دین کو ادا کرتے تھے ایک وقت کے بعد بہت سی تبدیلیاں آ گئی تھیں دین حنیف میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو گئی تھیں پوجا بھی لوگوں نے کرنی شروع کر دی تھی لیکن اس کے باوجود بھی کعبہ اللہ ایک مقدم اور مقدس مقام مانا جاتا تھا ان کے دلوں میں کعبہ اللہ کی بہت زیادہ تکریم اور تعظیم پائی جاتی تھی اور اس کا بہت پاس اور لحاظ کرتے تھے کعبہ اللہ کو جیسے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا وہ اپنی اسی شکل میں باقی رہا یہاں تک کہ ایک زمانہ گزر گیا اللہ کے رسولﷺ کی پیدائش بھی ہو گئی رسولﷺ جب 35 سال کے ہوئے اس کے بعد قریش نے ادے دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ کعبة اللہ میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے اس کی دیواروں متاثر ہو گئیں اور کوئی سیلاب بھی آیا جس کا رخ کعبہ اللہ کی طرف تھا اس کی وجہ سے بھی کعبة اللہ کی دیواروں بہت کمزور ہو گئیں جو کسی بھی وقت گر سکتی تھیں لہٰذا قریش نے فیصلہ کیا اس کو ڈھا کر گرا کر اسے نئے سرے سے بنانا چاہیے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کی طرح انھوں نے فیصلہ کیا کہ کعبة اللہ کی تعمیر میں کوئی بھی حرام پیسہ نہیں لگایا جائے گا چاہے وہ کسی بھی حرام ذریعے سے کمایا گیا ہو وہ کعبة اللہ کی تعمیر میں نہیں لگائیں گے لہٰذا انھوں نے حلال کمائی جمع کی ہر قبیلے کے لئے کعبہ اللہ کا ایک حصہ مخصوص کر دیا کہ وہ حصہ انہیں تعمیر کرنا ہو گا کہا جاتا ہے جب انہیں کعبة اللہ کو تعمیر کرنے کے لئے اسے ڈھانا چاہا تو کسی کو اس کی ہمت نہیں ہوتی
تھی کیونکہ ابھی تقریبا انھوں نے 35 سال پہلے دیکھا تھا ابرھة اور اس کا لشکر کعبة اللہ کو ڈھانا چاہتا تھا تو ان کا کیا حشر ہوا تھا ان میں سے کئی لوگ زندہ بھی تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر بھی دیکھا تھا لہذا انہیں اس کی ہمت نہیں ہوتی تھی آخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے یہ کہا ہمارا ارادہ اچھا ہے لہٰذا ہمیں نقصان نہیں ہونا چاہیے اس نے کعبہ اللہ کی دیوار کا ایک پتھر گرایا اور لوگوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور دیکھا کہ ولید کو کوئی نقصان نہیں ہوا اس کے بعد سب نے مل کر اسے ڈھا دیا جیسے کہ طے تھا کہ ہر قبیلے کے لئے مخصوص حصہ تعمیر کرنا چاہیے تو انھوں نے پوری محنت اور جدوجہد کے ساتھ اسے تعمیر کیا یہاں تک کہ اسے اتنا اونچا کر دیا کہ اب حجر اسود کو رکھنا باقی تھا تو اس وقت قریش میں اختلاف پیدا ہوا کہ حجر اسود کو اس کے مقام پر کون رکھے گا کیونکہ ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا یہ شرف اسے حاصل ہو اس بارے میں انہوں نے بحث کی اور بات آگے بڑھتی گئی اور قریب تھا کہ جنگ و جدال شروع ہو اور تلواریں نیام سے نکال لیتے اور آپس میں لڑتے تو ابو امیة بن المغیرة مخزومی جو اس وقت قریش کا سب سے عمر رسیدہ شخص تھا اس نے یہ مشورہ دیا کیوں نہ ہم اس بات کے فیصلے لئے کسی شخص کو مقرر کر لیں اس نے یہ مشورہ دیا کہ ہم اس شخص کو اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کریں گے جو کل کعبہ اللہ میں سب سے پہلے داخل ہو گا لوگوں نے اس بار پر اتفاق کر لیا ہر ایک قبیلے کے لوگ یہ چائتے تھے کہ سب سے پہلے وہ داخل ہوں لیکن اللہ تبارک و تعالٰی یہ چاہتا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ داخل ہوں لہٰذا سب اے پہلے اللہ کے رسولﷺ داخل ہوئے آپﷺ باب بنی شیبة سے داخل ہوئے جب لوگوں نے دیکھا سب اے پہلے اللہ کے رسولﷺ داخل ہوئے تو وہ لوگ چیخ پڑے یہ تو امین ہیں ان کی امانت کی ہم گواہی دیتے ہیں اور ان کو حکم جج بنانے کے سلسلے میں راضی بھی ہوتے ہیں ‘
|
L-11 سيرةالنبى صفہ-2
|
ان لوگوں نے رسولﷺ کو ساری بات کی خبر دی اور کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا جو سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ ہی فیصلہ کریں گے اللہ کے رسولﷺ نے جب ان کی ساری باتیں سنیں تو آپ ﷺ نے اپنی چادر زمین پر پھیلا دی اس کے بعد حجر اسود اس پر رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو بلا کر کہا اس کا ایک ایک کونہ پکڑ کر حجر اسود کے رکھنے کے مقام پر لے چلو اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا اس طرح ایک جنگ جو ہو سکتی تھی اللہ کے رسولﷺ نے اپنی حکمت سے اور مناسب فیصلے سے اس کو ختم کر دیا یہ اختلاف ختم ہو گیا جس پر مکے کے لوگوں نے کافی خوشی کا اظہار کیا۔
}}کعبة اللہ کے سلسلے میں کچھ باتیں اگر ہمارے علم میں آ جائیں تو بہت اچھا ہے قرآن مجید کی سرائت کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی تھی اس سے پہلے مشہور ہے کہ پہلے فرشتوں نے پھر آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تھا اگرچہ کوئی صحیح سند کے ساتھ روایت ہمیں نہیں ملتی کیوں کہ ہر نبی نے کعبہ اللہ کا حج کیا اس لئے قیاس بھی یہ کہتا ہے سب سے پہلے فرشتوں یا پھر آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا ہو گا ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے بعد جو تعمیر ہوئی وہ یہ ہی تھی قریش کی تعمیر لیکن اس تعمیر میں جو بات پیش آئی تھی کہ انھوں نے جب یہ فیصلہ کیا حلال کمائی مصروف کریں گے ذرا برابر حرام نہیں لگائیں گے جب انہوں نے کعبہ کی تعمیر کا آغاز کرنا چاہا تو شمال سے چھے ہاتھ انھوں نے اسے چھوڑ دیا حلال کمائی ختم ہو گئی اب حلال پیسے اکٹھے کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا لہذا انھوں نے شمال کی جانب سے چھے ہاتھ کا حصہ تعمیر کیئے بغیر چھوڑ دیا جسے حجر یا حطیم کہتے ہیں وہی حصہ جو آج کھلا ہوا ہے وہ کعبہ اللہ کا حصہ ہے اگرچہ وہ چائتے تھے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کی طرح تعمیر کریں اللہ کے رسولﷺ نے نبی بنائے جانے کے بعد ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے ایک بار کہا تھا اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں اور میرے پاس اتنا مال ہوتا کہ میں کعبة اللہ کو دوبارہ اسی حالت میں بنا سکتا تو میں ضرور بناتا اس کے دو دروازے بناتا ایک مشرق میں ایک مغرب میں اللہ کے رسولﷺ نے یہاں دو باتوں کا اظہار کیا تھا ایک تو لوگ ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کعبة اللہ کو ڈھانے سے لوگ سمجھیں گے کہ رسولﷺ ہر چیز کو تبدیل کر رہیے ہیں لہٰذا لوگوں کے دل پر اس کے برے اثرات پڑ سکتے ہیں ایک فساد کا اندیشہ تھا اور دوسرا یہ کہ آپ کے پاس اتنی گنجائش بھی نہیں تھی یہ رسولﷺ کی حدیث عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بخوبی معلوم تھی وہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بہن کے لڑکے تھے یزید ابن معاویہ کے دور میں کعبہ اللہ متاثر ہو گیا تھا منجنیخ کے حملوں سے کعبة اللہ کی دیواریں میں آگ لگ گئی تھی اس کی دیواریں متاثر ہو گئی تھی اس وقت عبد ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہاں خلیفہ تھے انہوں نے شجا کے علاقوں میں 9 سال حکومت کی کافی عظیم صحابی ہیں تو انھوں نے جو حدیث سنی تھی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے تو مشورہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کعبة اللہ کو ڈھا کر اس کی تعمیر کی جائے تو انھوں نے حتیم کو کعبة اللہ میں شامل کر دیا اس طرح کعبة اللہ ابراہیم علیہ السلام کے قواعد اور ان کی بنائی ہوئی تعمیر کے مطابق تعمیر یو گیا اور رسولﷺ کی خواہش بھی مکمل ہو گی اس کے عبد ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید کر دیئے گئے عبد الملک بن مروان خلیفہ بنے تو حجاج بن یوسف نے انہیں ان باتوں کی خبر دی تو عبد الملک بن مروان نے کہا مجھے ان باتوں سے کچھ تعلق نہیں کہ عبد بن زبیر نے کیا کیا ہے لہذا کعبة اللہ کو ڈھا کر اسی حالت میں تعمیر کیا جیسا اللہ کے رسولﷺ کے دور میں تھا اور حطیم کے حصے کو چھوڑ دیا گیا بعد میں عبد الملک ابن مروان کو اللہ کے رسولﷺ کی حدیث پہنچی تو اسے بہت افسوس ہوا اور کہا جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی پہلے معلوم ہوتی میں ہر گز یہ کام نہیں کرتا کہا جاتا ہے عبد الملک ابن مروان یا خلیفہ ھارون رشید نے فیصلہ کیا کہ کعبة اللہ کو ڈھا کر پھر سے اللہ کے رسولﷺ کی خواہش کے مطابق اسے تعمیر کریں اور حطیم کو اس میں شامل کریں اس بات کا ارادہ انھوں امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے کیا امام مالک نے انہیں بہت اچھا مشورہ دیا اور ساری امت کی طرف سے اللہ انہیں جزائے خیر دے انہوں نے کہا اے امیر المومنین آپ ایسا نہ کیجئے ورنہ کعبة اللہ کی ہیبت اس کا مقام و مرتبہ تمام لوگوں کے دلوں سے گر جائے گا ہر بادشاہ آئے گا اور کہے گا ہم اسے رسولﷺ کے دور میں جیسا تھا ویسا تعمیر کریں گے اور حطیم کو کھلا چھوڑ دیں گے بعد میں بادشاہ آئے گا اور کہے گا اللہ کے رسولﷺ کی جو خواہش تھی اور جو ابراہیم علیہ السلام نے جیسا تعمیر کیا ویسا تعمیر کریں گے اور حطیم کو بھی شامل کرے گا اس طرح کعبہ اللہ بادشاہوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائے گا اور لوگوں کے دلوں سے اس کا اکرام اور ہیبت ختم ہو جائے گا تو کعبہ اللہ کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ حتیم کھلا ہوا ہے اور حطیم میں نماز پڑھنا یہ کعبہ اللہ میں طواف کرنے کے برابر ہے نفل نماز کعبہ اللہ کے اندر پڑھی جا سکتی ہے اور کعبہ اللہ میں پڑھنا آسان نہیں یہ لوگوں کے لئے ممکن ہو گیا یہ ہو سکتا ہے یہ اللہ تبارک و تعالٰی کی مصلحت ہی ہو لیکن کعبہ اللہ کا طواف کرنے والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم رہنی چائیے حطیم کعبہ اللہ کا حصہ ہے اگر حطیم کے اندر سے کوئی طواف کرے تو اس کا طواف نہیں ہو گا{{ |
L-11 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
1: کعبة اللہ کو کس نے تعمیر کیا؟
جواب : ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ اللہ کو تعمیر کیا۔ 2: کعبة اللہ کہاں پایا جاتا ہے؟ اور کعبة اللہ کا نام کیا ہے؟ جواب: کعبة اللہ مسجدالحرام کے وسط میں پایا جاتا ہے ،کعبة اللہ کا نام بیت اللہ الحرام ۔ 3: کعبة اللہ میں شگاف کیوں پڑھ گئے تھے؟ جواب: کعبة اللہ میں آگ لگی تھی اور پھر سیلاب بھی آیا تھا جس کی وجہ سے دیواروں پر شگاف پڑھ گئے تھے۔ 4: کعبة اللہ کی تعمیر کے وقت اللہ کے رسولﷺ کی عمر کتنی تھی؟ جواب: 35 سال ۔ 5: کس نے کعبة اللہ کو تعمیر کیا اس کےگرنے کے بعد یا شگاف پڑنے کے بعد؟ جواب: قریش نے - 6: : قریش کے سرداروں کے درمیان کس بات کا اختلاف پیدا ہوا؟ جواب: ان کے اندر حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کے سلسلے میں ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت اسے حاصل ہو ۔ 7: ابو امیہ نے کیا مشورہ دیا؟ جواب: ابو امیہ نے یہ تجویز رکھی کہ کل صبح جو سب سے لہلے کعبة اللہ میں داخل ہوں گے ان کو اس کا جج بنائیں گے اور ان کے فیصلے کو قبول کریں گے ۔ 8:سب سے پہلے مسجدالحرام میں کون داخل ہوئے؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ داخل ہوئے ۔ 9: اختلاف کو دور کرنےکے لیے اللہ کے رسولﷺ نے کیا کیا؟ جواب: رسولﷺ نے اپنی چادر پھیلا دی اور قریش کے سرداروں کو کہا کہ اس میں تم حجر اسود کو رکھ دو اور چادر کے کناروں کو ایک ایک سردار کو پکڑا دیا اور اس کو حجر اسود کے لگانے کی جگہ پر لے گئے اور اللہ کے رسولﷺ نے حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھا۔ |
L-12 سيرةالنبى صفہ-1
|
تعبد الرسولﷺ قبل نزول الوحی علیه
اللہ کے رسولﷺ پر وحی کے نازل ہونے سے پہلے آپ کی عبادت کا طریقہ ۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اللہ کے رسولﷺ کو شروع ہی سے اپنی حفاظت میں رکھا تھا اور آپﷺ کی پروش میں اخلاق فاضلہ ، اوصاف حمیدہ یعنی قابل تعریف جو صفات ہیں اس کے مطابق ہوئی تھی یعنی بچپن ہی سے آپ ﷺ اچھے اخلاق اور اچھے اوصاف کے مالک تھے سچائی ، امانت ، عفت و پاکدامنی ، وفا و پاسداری ہے یہ وہ اوصاف ہیں جو آپ ﷺ کے اندر بچپن ہی سے موجود تھے یہاں تک کہ آپﷺ کی قوم آپ ﷺ کو امین کہ کر پکارتی آپ لقب امین پڑھ گیا تھا۔رسولﷺ جاہلیت میں ہی آپﷺ بتوں سے نفرت کرتے تھے آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا تھا آپ ﷺ نے کبھی بھی شراب نہیں پی تھی قریش کے اکثر لوگ جو کچھ بھی کرتے آپﷺ اس سے ہمیشہ دور رہتے تھے اور آپﷺ کے ابتدائی ایام تو بکریاں چرانے میں گزرے تھے اس کے بعد آپﷺ نے اپنی چچا ابو طالب کے ساتھ تجارت کی اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے مال میں تجارت کی اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے آپ کی شادی ہوئی تو یقینا سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بہت مال راد خاتون تھیں جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو زندگی میں بہت زیادہ سکون اور آرام حاصل ہوا لیکن آپﷺ نے کبھی بھی دنیا کو پسند نہیں کیا اور آپ ﷺ نے دنیا کی زندگی کو ہمیشہ سادگی کو پسند کیا اور عیش و آرام سے
آپﷺ ہمیشہ دور رہے دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو دور رکھا آپ سیدھا سادھا رہنا پسند کرتے تھے تنہائی یہ وہ چیز تھی جو آپﷺ کو اچھی لگتی تھی تنہائی آپﷺ کے لئے محبوب بنائی گئی تھی۔ آپ ﷺ زندگی رغبتوں کے باوجود بھی آپﷺ ان سے دور رہتے تھے جب دیکھتے تھے کہ اکثر لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں شراب پیتے ہیں اور مختلف برے کاموں میں مصروف ہیں تو آپ ﷺ دوسرے لوگوں سے الگ ہونے اور تن تنہا رہنے کو ترجیح دیتے تھے رسولﷺ نے جب دیکھا لوگ دین حنیف سے منحرف ہیں دنیا سے محبت کرتے ہیں لھو لب میں مشغول ہو چکے ہیں تو آپ ﷺ تنہائی کی طرف مائل ہو گئے اور لوگوں سے دور رہنے لگے اور آپﷺ نے اپنے لئے جس چیز کو پسند کیا وہ یہ کہ غور و فکر کیا جائے تعمل اور تکفیر غور و فکر کرنا اللہ کی مخلوقات میں اور اللہ تبارک و تعالٰی کے وسیع فضا کے بارے میں یہ آپ ﷺ کی عبادت کا طریقہ تھا جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں سورتہ الضحی ((وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ))" اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ کو راہ گم کردہ پایا لیکن اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ کو ہدایت دی" یہاں (ضَالًّا) کے معنی گمراہ کے نہیں ہیں عربی زبان میں ضالا کے لغوی معنی راہ کو نہ پانا راہ گم کر دینا تو اللہ کے رسولﷺ کی پوری زندگی میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی بت کو سجدہ کیا ہو یا پھر آپ ﷺ نے شراب کو ہاتھ لگایا ہو قریش کے لوگ جن برائیوں میں ملوث تھے آپﷺ بھی کبھی ان کے ساتھ شامل ہوئے ہوں کبھی نہیں شامل ہوئے تو لہٰذا آپﷺ کے لئے ضالا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے آپ ﷺ ان تمام چیزوں سے دور رہے لیکن عبادت کا طریقہ کیا ہونا چائیے تھا یہ آپ ﷺ کو معلوم نہیں تھا یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ کی عبادت کیسے کرنی چاہیے یہ اور بات ہے کہ آپﷺ ساری برائیوں اور ساری گندگیوں اور سارے برے کاموں سے آپ ﷺ نے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا اور اس کے لئے آپ ﷺ غور و فکر کرتے تھے شاید اللہ تبارک و تعالٰی کی مصلحت ہو آگے جو نبوت آپﷺ کو ملنے والی تھی اس کے لئے آپ ﷺ کو صاف و شفاف کر دیا جائے آپ ﷺ اس کے اہل بن جائیں ایسے حالات میں جب اللہ کے رسولﷺ نے لوگوں سے الگ رہ کر تنہائی کو پسند کیا تھا تو غار حرا کو آپ ﷺ نے منتخب کیا تھا جو جبل نور کی چوٹی پر واقع ہے اور عرفہ کی دائیں جانب پڑتا ہے اور مکے سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔
اللہ کے رسولﷺکی غار میں کئی کئی دن بیٹھتے اس میں آپﷺ مسلسل غور کرتے رہتے اور سوچتے لوگ کتنے غلط راستے پر ہیں ان کو صحیح راستے پر چلنا چاہیے یہاں تک کہ جب آپ کا غلہ ختم ہو جاتا کھانا پینا ختم ہو جاتا تو پھر سے آتے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا آپ ﷺ کو پھر سے آپ ﷺ کے زاد راہ کا انتظام کر دیتیں آپﷺ پھر سے وہیں چلے جاتے اسی طرح آپ ﷺ کے حالات تھے آپ ﷺ غار حرا میں صرف غور و فکر کرتے اللہ تبارک و تعالٰی کے بارے میں آسمان و زمین کا خالق ہے یہ بھی اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف سے الہام ہی تھا تاکہ آپ کا نفس صاف ہو جائے اور آپﷺ رسالت کی جو ذمہ داری ہے جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالٰی آپ ﷺ کو منتخب کرنے والا ہے اس لئے پوری طرح تیار ہو جائیں تاکہ آپ ﷺ غور و فکر کریں سوچیں آخر اللہ کی بات کا
طریقہ کیا ہے آپﷺ کا دل اس بات کی طرف پوری طرح تیار ہو جائے اس بات کو اچھی طرح قبول کر لے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے صحیح بات کے لئے آپ ﷺ کے دل میں شوق پیدا ہو جائے تو اس کے بعد اللہ تبارک و تعالٰی آپﷺ کو رسالت عطا فرمائے ۔
|
L-12 سيرةالنبى صفہ-2
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے: سوال 1: رسولﷺ کیسے پروان چڑھے؟ جواب: رسولﷺ پروان چڑھے اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کے ساتھ مثلا سچائی ،امانت ، عفت و پاکدامنی، وفا و پاسداری یہاں تک کہ قوم والے آپ کو امین کے لقب سے یاد کرتے تھے شروع ہی سے آپ ﷺ کے اخلاق بہت بلند تھے اور اوصاف قابل تعریف تھے۔ 2: اللہ کے رسولﷺ اپنی جوانی میں کون سے کام انجام دیتے تھے؟ جواب: آپ ﷺ نے بکریاں چرائیں اور تجارت کی۔ 3: اس زندگی کی نوعیت کیا تھی جو اللہ کے رسولﷺ بعثت سے پہلے جیتے تھے؟ جواب: آپ ﷺ کی زندگی دنیا کے یہ تین اوصاف بیان کیئے گئے دینا کی لذتوں سے بے رغبتی، سادگی کو اختار کرنا، تنہائی کو پسند کرنا۔ 4: اللہ کے رسولﷺ کو جب تنہائی کی رغبت ہوتی تھی تو آپﷺ کہاں جاتے تھے؟ جواب: غار حرا جاتے تھے۔ 5: اللہ کے رسولﷺ اپنی تنہائی میں کیا کرتے؟ جواب: خالق کے بارے میں غور کرتے اور اس بات پر غور کرتے کہ لوگوں کو صحیح راستے کی ہدایت کیسے ملے گی اللہ کی نشانیوں اور اس کی عظمت پر غور کرتے ۔ 6:کیا اللہ کے رسولﷺ قریش کی طرح عبادت کرتے تھے؟ جواب: نہیں آپ ﷺ قریش کی طرح عبادت نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ غور و فکر کرتے تھے یہ آپ ﷺ کی عبادت کا طریقہ تھا وحی سے پہلے ۔ |
L-13 سيرةالنبى صفہ-1
|
-13بدء نزول الوحی علی رسولﷺ
رسول اللہ ﷺ پر وحی کے نزول کا آغاز گزشتہ دو سبق میں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نبوت سے کچھ مہینے پیشتر غور و فکر اور تعمل بہت زیادہ کرنے لگے تھے ایک طرح کی عبادت تھی آپﷺ انجام دے رہے تھے اور اس میں اللہ کے رسولﷺ تنہائی پسند ہو گئے تھے آپ ﷺ جو دنیا کے لوگ طرح طرح کی برائیوں میں شرک و بت پرستی میں اور برے کاموں میں مصروف رہے ان سے دور الگ تھلگ رہنا تنہائی میں رہنا آپﷺ کو محبوب ہو گیا تھا آپ ﷺ غار حرہ میں جا کر بیٹھ جاتے اور غور و فکر کرتے اور آپ ﷺ کا یہ جو کچھ بھی معاملہ تھا ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق تھا آپ ﷺ ابراہیم علیہ السلام کے دین سے کبھی ہٹے نہیں تھے یہ اور بات ہے اللہ تبارک و تعالٰی کی عبادت کا صحیح طریقہ کیا ہے یہ ابھی واضح نہیں ہوا تھا اللہ کے رسولﷺ غار حرہ پہنچ کر غور و فکر کرنے کی جو عبادت ہے اس پر باقی رہے اس پر قائم رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی وحی کے نزول کا جو آغاز ہوا-
وہ سچے خوابوں کے ذریعے ہوا سچے خواب یہ وحی کے نزول کا سب سے پہلا حصہ تھا گویا یہ وحی کا مقدمہ تھا گویا رسول اللہ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ بلکل روشن واضع اور صاف ہوتا جیسا کہ صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں {{أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ}} سب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ کو وحی میں جس چیز سے آغاز کیا گیا وہ سچے خواب تھے آپ ﷺ کوئی خواب نہیں دیکھتے مگر یہ کہ وہ صبح کی سفیدی کی طرح بلکل روشن اور واضح ہوتا تھا " نور اور روشنی سے پہلے جیسی اس کی شعائیں ہوتی ہیں اسی طرح نبوت کے نور سے پہلے یہ سچے خوابوں کی شعاعیں تھیں جو اللہ کے رسولﷺ کو دکھائی دے رہی تھیں یہ معاملہ خواب کا تھا اور دوسری طرف ظاہر بھی کچھ چیزیں ہونے لگیں جیسا کہ مکہ میں ایک پتھر تھا جو آپ ﷺ کو سلام کرتا تھا اور اسی طرح کچھ درخت بھی آپ ﷺ کو سلام کرتے تھے گویا یہ تمہید تھی یہ مقدمہ تھا آپ ﷺ کو اللہ تبارک و تعالٰی کی جانب سے نبی بنائے جانے سے قبل اللہ کے رسولﷺ کو نبی بنائے جانے سے قبل چھے مہینے قبل سچے خواب پڑنے شروع ہو گئے تھے اس طرح اللہ کے رسولﷺ کی عمر جب چالیس سال ہوئی تو آپ ﷺ پر وحی کا آغاز ہوا (یہاں میں یہ بات واضع کر دوں کہ سچے خوابوں کے تعلق سے جو باتیں ہمارے پاس آئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اس لئے یہ چھیالیسواں حصہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی نبوت کی مدت تئیس سال تھی اگر تئیس سال کو چھے مہینوں کی مدت میں تقسیم کیا جائے تو وہ چھیالیس ہو جائے گا گویا چھے مہینے اللہ کے رسولﷺ کے سچے خوابوں کی مدت تھی اسی لئے کہتے ہیں سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ) اللہ کے رسولﷺ کی عمر جب چالیس سال ہو گئی اور وہ مہینہ جب اللہ کے رسولﷺ کو اللہ تعالٰی نے نبوت سے سرفراز کرنے کا فیصلہ کیا وہ رمضان کا مہینہ تھا جب وہ مہینہ آ گیا اللہ کے رسولﷺ معمول کے مطابق غار حرہ گئے عبات کرنے کی غرض سے جیسا کہ آپ کی عادت تھی تنہائی میں بیٹھنا اور اللہ تبارک و تعالٰی کی نشانیوں اور اس کی قدرت اور عظمت وغیرہ پر غور کرنا اور وہ رات آ گئی جس میں اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز کرنا چاہا قرآن مجید کی پہلی نازل ہونے والی آیات کے ساتھ جبریل علیہ السلام اللہ کے رسولﷺ کے پاس پہنچے اور اللہ کے رسولﷺ سے کہا جیسا کہ حدیث میں اس بات کا ذکر آتا ہے کہ جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور کہا{{ اقْرَأْ}} پڑھو آپ ﷺ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا تو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کو پکڑا اور اپنے سینے سے لگا کر آپ ﷺ کو زور سے دبوچا یہاں تک کہ آپ ﷺ کو سخت تکلیف ہوئی پھر انہیں چھوڑ دیا پھر کہا پڑھو آپ ﷺ نے پھر دوبار یہ ہی کہا میں پڑھنا نہیں جانتا تو دوبارہ انھوں نے ایسا ہی کیا تیسری مرتبہ بھی کہا پڑھو آپ ﷺ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا تو انھوں نے تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی کیا چوتھی مرتبہ کیا پڑھو تو آپ ﷺ نے کہا میں کیا پڑھوں تو جبریل علیہ السلام نے کہا {{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ○ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ○ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ○ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ}} " پڑھو تمھارے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا○ انسان کو جمے ہوئے خون سے ○پڑھو تمھارا رب بڑا کریم○ ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے سکھایا اور انسان کو وہ چیزیں سکھائی جو وہ نہیں جانتا تھا" یہ پہلی وحی ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کا تعلق علم سے ہے اور اس سے علم کی اہمیت کی اہل علم نے دلیل لی ہے یقینا یہ سب سے بڑی دلیل ہے یہ پانچ آیات ہیں ان کے پڑھنے کا بھی ذکر ہے اور قلم کا بھی ذکر ہے اور اللہ تبارک و تعالٰی نے یہاں اپنے صفت کریمہ کا بھی ذکر فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالٰی بہت بڑا کریم ہے جس نے انسان کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا ان آیات کے نزول کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے ان کو پڑھ لیا اس کے بعد جبریل علیہ السلام چلے گئے رسول اکرم ﷺ کہتے ہیں گویا یہ آیتیں میرے دل میں لکھ دی گئی آپ ﷺ کہتے ہیں پھر میں نکلا یہاں تک کہ پہاڑ کے درمیان میں پہنچا میں نے آسمان سے ایک آواز سنی اس آواز میں یہ بات تھی کہ رہے تھے :"یا محمد ، انت رسول اللہ وأنا جبريل۔۔۔۔۔۔۔" اے محمد تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبریل ہوں۔ اللہ کے رسولﷺ بہت کھبرا گئے آپ ﷺ پر خوف طاری ہوا کپکپی طاری ہو گئی اور آپ ﷺ پسینے میں شرابور ہو گئے تیزی کے ساتھ آپ ﷺ گھر پہنچے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کہا مجھے چادر اوڑھا دو ،
|
L-13 سيرةالنبى صفہ-2
|
چادر اوڑھا دو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے آپ کو چادر اوڑھا دیا اس کے بعد رسول اکرم ﷺ کا خوف کچھ کم ہو گیا اور آپ ﷺ کی طبیعت کسی قدر بہال ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ساری باتیں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے بیان کی جو کچھ بھی انہی پیش آیا تھا آپﷺ نے یہ بھی کہا مجھے اپنی جان کا خدشہ ہو گیا ہے یعنی مجھے ڈر ہے کہ کوئی میری جان لے لیں گے یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے کہا ہر گز نہیں قسم بخدا اللہ تعالٰی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا آپ صلاح رحمی کرتے ہیں، اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور جو محروم ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ان کی مدد کرتے ہیں، اور مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، اور زمانے کے مشکل اور مصائب ہیں اس میں آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں یہ الفاظ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے کہے ہم رسول اللہﷺ کے اخلاق پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں کہ کتنے عظیم اخلاق تھے اس وقت جب کے اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا تھا اس وقت بھی آپﷺ کے اخلاق اتنے عظیم تھے اور اتنے فاضلانا اخلاق تھے اور اہل علم نے اس بات کی توجہ دلائی ہے کہ یہ ہی وہ اخلاق ہیں جو ایک داعی میں ایک مسلمان کے اندر موجود ہونے چائیے کیونکہ یہ وہ اخلاق ہیں جن کے ذریعے آدمی دعوت کا کام با آسانی سر انجام دے سکتا ہے مسلمان ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ کی یہ باتیں سب کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے جب یہ کچھ کہا اور آپ ﷺ کو اطمینان دلایا اور کہا کہ میں آپﷺ کو اپنے چچرے بھائی کے پاس آپ ﷺ کو لے کر جاؤں گی-
اس میں دو طرح کی روایت آتی ہیں اس کتاب میں جو ذکر ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا خود اپنے چچرے بھائی کے پاس ابن نوفل ابن اسد کے پاس گئیں یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے چچرے بھائی تھے اور یہ نصرانی ہو گئے تھے اور نصرانیوں کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے اور سابقہ کتابوں کے عالم تھے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کے پاس گئیں اور جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے جو کچھ بھی سنا تھا اللہ کے رسولﷺ کو پیش آیا تھا اس کا زکر کر دیا یہ سن کر ورقہ نے کہا یہ وہی ناموس ہیں وہی فرشتے ہیں جو اس سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئے ہیں اور محمدﷺ اس امت کے نبی ہوں گے اور یہ پیغام بھیجا کہ ان سے کہو وہ ثابت قدم رہیں اور کسی بھی طرح خوف نہ کھائیں اور کسی بھی طرح کی گھبراہٹ نہ محسوس کریں ایک یہ روایت آئی ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا خود گئی تھیں دوسری بعض روایت میں آتا ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی آپ ﷺ کو لے کر گئی تھی اور یہ ہی باتیں پیش آئی تھیں جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کتاب کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پہلے اکیلی گئی تھیں ورقہ بن نوفل سے ساری باتیں بیان کیں ورقہ ابن نوفل نے جو پیغام دیا وہ پیغام لے کر رسول اللہﷺ کے پاس پہنچیں اس کے بعد ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ طواف کر رہے تھے تو ورقہ ابن نوفل کی رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہو گئی ورقہ نے اللہ کے رسولﷺ سے کہا آپ کو جو کچھ بھی پیش آیا تھا مجھے خود آپ اپنی زبانی ازسر نو بیان کر دیجئے رسول اللہﷺ نے ساری باتیں ان سے بیان کیں تو ورقہ نے آپ ﷺ کو اطمینان دلایا اور وہی باتیں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کہی تھیں ان کو دہرایا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب تمھاری قوم تمھے نکال دے گی تو میں بہت اچھی طرح مضبوطی سے آپ کی مدد کروں گا اللہ کے رسول ﷺ نے تعجب سے کہا کیا وہ مجھے نکال دیں گے انھوں نے کہا کہ ہاں {{ لم یات رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي }} " کوئی بھی شخص آپ جس طرح کی دعوت لے کر نہیں آیا مگر یہ کہ اس کے ساتھ دشمنی کی گئی یعنی ہر نبی کے ساتھ ان کی قوم والوں نے دشمنی کی ہے لہٰذا آپ کے ساتھ بھی یہ لوگ دشمنی کریں گے ظاہر ہے یہ نصرانیت کے عالم تھے سابقہ کتابوں کو اچھی طرح جانتے تھے تو اس میں یہ باتیں یقینا موجود تھیں کہ اللہ کے رسولﷺ کو یقینا مکے والے نکال دیں گے اسی بنیاد پر انھوں نے یہ باتیں پیش کیں ورقہ کا انتقال ہو گیا رسولﷺ کی ہجرت تک وہ زندہ نہیں رہے اللہ کے رسولﷺ پر جو سب سے پہلی سورتہ نازل ہوئی وہ یہ ہی سورتہ العلق ہے سورتہ العلق کی ابتدائی پانچ آیتیں اور یہ جس رات نازل ہوئی یہ رات لیلة القدر تھی اس سلسلے میں بہت اختلاف ہیں ((میں یہاں پر رحیق المختوم کی بات پیش کر رہا ہوں پہلی وحی جب نازل ہوئی اس وقت اکیس رمضان پیر کا دن تھا پیر کا دن تو حدیث سے ثابت ہے صحیح مسلم کی حدیث میں اللہ کے رسولﷺ سے جمعرات اور پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے پیر کے بارے میں فرمایا یہ وہ روزہ ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں میری بعثت ہوئی پیر کے دن سے تو یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ پر جو وحی نازل ہوئی وہ پیر کا دن تھا جہاں تک تاریخ کا مسلہ ہے اس میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے لیکن صفی الرحمن مبارک پوری علی الرحمان نے اپنی تحقیق کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے حساب لگاتے ہوئے انھوں نے اس بات کا حساب لگایا کہ قرآن مجید سے یہ بات نازل ہوتی ہے کہ رمضان میں قرآن نازل ہوا اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ شب قدر میں نازل ہوا اور اس سال جو رمضان ہوا تھا اس سال جو پیر کے دن آئے تھے وہ 7 ، 14، 21 ،28 تاریخ کو پیر آیا تھا جب یہ تاریخیں تھیں اور اگر وہ شب قدر کو نازل ہوا تو وہ 21 تاریخ تھی اس بنیاد پر پہنچے ہیں کہ وہ اکیسویں شب تھی جب رسولﷺ پر وحی نازل ہوئی تھی یہ بات بھی ہمارے علم میں اضافے کا باعث رہے گی کہ جب اللہ کے رسولﷺ پر وحی نازل ہوئی تو اللہ کے رسولﷺ کی عمر قمری مہینوں کے حساب سے چالیس سال چھے مہینے بارہ دن تھی اور شمسی اعتبار سے انتالیس سال تین مہینے بائیس دن تھی یہ اس وقت کی بات ہے جب اللہ کے رسولﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی یہ باتیں اللہ کے رسولﷺ کے وحی کے آغاز کے سلسلے میں –
|
L-13 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے
سوال1: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وحی کے آغاز کے سلسلے میں جو کہا اس کا ذکر کیجئے؟ جواب: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے کہا سب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں کے ذریعے ہوی تھی- سوال 2: کس مقام پر اللہ کے رسولﷺ پر وحی نازل ہوئی؟ جواب: رسولﷺ پر غار حرہ میں وحی نازل ہوئی ۔ سوال 3:کون نازل ہوئے تھے اللہ کے رسولﷺ پر وحی لے کر ؟ جواب: جبریل علیہ السلام - سوال 4: جو فرشتے وحی لے کر نازل ہوئے تھے ان کے درمیان کیا واقعہ پیش آیا تھا؟ جواب: جبریل علیہ السلام نے کہا پڑھو آپ ﷺ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا تو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کو اپنے سینے سے لگا کر دبوچا پھر چھوڑ دیا پھر کہا پڑھو آپﷺ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا تو دوبارہ انھوں نے ایسا ہی کیا تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی کیا چوتھی مرتبہ کہا پڑھو آپ ﷺ نے کہا کیا پڑھوں پھر جبریل علیہ السلام نے سورتہ العلق کی پانچ آیتیں پڑھیں تو اللہ کے رسولﷺ نے قن آیتوں کو دہرایا۔ سوال 5 : اللہ کے رسولﷺ نے وحی کے نازل ہونے کے بعد کیا محسوس کیا؟ جواب: آپ ﷺ نے سخت خوف محسوس کیا اور آپ ﷺ پسینے میں شرابور ہو گئے- سوال 6: اللہ کے رسولﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے کیا کہا؟ جواب: آپ ﷺ جب گھر پہنچے تو آپ ﷺ نے کہا مجھے چادر اوڑھا دو چادر اوڑھا دو اور یہ بھی کہا مجھے اپنی جان کا خوف ہونے لگا ہے ۔ سوال 7: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے رسول اللہﷺ کو کیا جواب دیا؟ جواب: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے کہا ہر گز نہیں اللہ تبارک و تعالٰی آپ ﷺ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا بے شک آپ صلاح رحمی کرتے ہیں، اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور جو محروم ہیں آپﷺ ان کی مدد کرتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ سوال 8: کس کے پاس سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پہنچیں اور کس بات کی خبر دی ؟ جواب: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ورقہ ابن نوفل کے پاس پہنچیں اور انہیں اللہ کے رسولﷺ پر وحی نازل ہونے کے بارے میں جو باتیں آپ ﷺ نے بتائی تھیں ان کی خبر دی ۔ سوال 9: قرآن کریم کی وہ کون سی سورتہ ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی؟ جواب: سورتہ العلق کی ابتدائی پہلی پانچ آیات۔ سوال 10: جس رات قرآن کے نزول کا آغاز ہوا اس رات کو کیا نام دیا گیا؟ جواب: اس رات کا نام لیلة القدر ہے ( یا تو اس وجہ سے کہ اس رات قرآن کا نزول کا آغاز ہوا یا اس وجہ سے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھا نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے پورا قرآن پہلے لوح محفوظ سے لے کر آسمان دنیا پر شب قدر میں اتارا پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کے تیئس سال کے عرصے میں رسولﷺ پر اتارا گیا ) ۔ |
L-14 سيرةالنبى صفہ-1
|
-14 الدعوة الی الإسلام
جب اللہ کے رسولﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپ کو بتایا گیا کہ وہ کون سی ذمہ داری ہے جو آپﷺ پر عائد کی گئی ہے جہاں آپﷺ پر وحی نازل ہوئی یعنی غار حرہ وہاں آپ ﷺ بار بار آنے لگے یہاں یہ بات ہے کہ اللہ کے رسولﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تھی تو کچھ مدت کے لئے وحی رک گئی تھی علماء اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالٰی آپ ﷺ کے اندر شوق پیدا کرے آپ ﷺ کے اندر انتظار کا شوق پیدا ہو تاکہ آپ ﷺ اس کو قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں گویا آپ ﷺ کو تیار کرنے کے لئے کچھ وقت کے لئے وحی کا سلسلہ رکا جس کا وقفہ ہو سکتا ہے ایک مہینہ ہو یا اس سے کم ہو کچھ وقت کے لئے وحی رکی تھی لیکن یہاں یہ بات واضح نہیں کی گئی تھی کہ آپ ﷺ پر کیا ذمہ داری عائد کی گئی ہے پہلی وحی میں سورتہ العلق کی پانچ ابتدائی آیات تھیں اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کو کیا کرنا ہے لیکن اس کے بعد وحی رکی اور جب دوبارہ نازل ہوئی تو وہ سورتہ المدثر کی پانچ آیتیں نازل ہوئی جس میں اللہ تبارک و تعالٰی نے صاف طور پر آپ ﷺ پر زمہ داری عائد کی (( يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ○ قُمْ فَأَنذِرْ ○ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ○ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ○ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)) " اے چادر اوڑھنے والے اٹھئیے اور لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے رب کی تکبیر بیان کیجئے اپنے کپڑوں کو صاف کیجئے" یہ وہ الفاظ ہیں جس میں صاف طور سے بتایا کہ آپﷺ کا کیا مقصد ہے اور آپﷺ کو کیا کام کرنا ہے اللہ کی تکبیر بیان کرنے میں کوئی عظیم حکم پوشیدہ ہے پوری دنیا میں اللہ کی تکبیر بلند کرنا ہے پوری دنیا میں جہاں اللہ تبارک و تعالٰی کی بڑائی ہو) وحی کے نازل ہونے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ آپ ﷺ رسول بنائے گئے علماء کہتے ہیں آپ ﷺ نبی بنائے گئے سورتہ العلق کے ذریعے اور سورتہ المدثر کے ذریعے آپﷺ رسول بنائے گئے یہاں آپ کو بتایا گیا کہ لوگوں پر آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اللہ کے رسولﷺ پر جو ذمہ داری دی گئی ظاہر ہے کہ وہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں تھی نہ ہی کوئی آسان کام تھا اس لئے کہ مکہ اس وقت کفر و شرک کا قلعہ تھا مرکز تھا عرب کے دین کا اور بتوں کی عبادت کا بلکہ اس کے امام تھے اس کے پیشوا تھے سارے عرب میں انھیں امامت اور پیشوائی کا منصب حاصل تھا یہ ہی ان کے پوجا پاٹ کے مراسم کو بجا لاتے تھے یہ بات بلکل واضح تھی ان باتوں کے خلاف جو بھی شخصیت سامنے آئے گی قوم اس کو کبھی برداشت نہیں کرے گی یقینا تکلیف پہنچائے گی لوگ اپنے آباؤ اجداد کے دین کے عادی ہو چکے ہیں ان کی رسم پر زمانے سے چلتے آ رہے ہیں یہ سب چیزیں یقینا مشکل تھیں آپﷺ کے لئے بہت ہی بہادری ہمت استقلال کی ضرورت تھی کہ آپﷺ ان تمام چیزوں کا مقابلہ کریں اور اللہ تبارک و تعالٰی کی رسالت و تبلیغ کا حق ادا کر سکیں رسول اکرم ﷺ کی دعوت جو آپ ﷺ کی تیئیس سالہ زندگی کی دعوت ہے علماء نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک مکی دور ایک مدنی دور مکی دور سے مراد وہ زمانہ ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے مکے میں گزار اسلام کے نشرو اشاعت میں لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل کو آپ ﷺ نے استعمال کیا اور ہر طرح کی تکلیف کو آپ ﷺ نے برداشت کیا تیرہ سال پر مشتمل مکی دور اس میں آپ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالٰی کی جانب سے اپنی رسالت کو ادا کرتے ہوئے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے ہر ممکن تدابیر اختیار کی ہر طرح کے مسائل و مشکلات کو آپ ﷺ نے برداشت کیا آپ ﷺ کا دوسرا دور مدنی دور ہے وہ دور آپ ﷺ نے مدینے میں گزارا اس میں مسلمانوں کو قوت ملی شان و شوکت ملی جب اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ ﷺ کو اللہ کے راستے میں جہاد کی اجازت دی تو وہاں آپ ﷺ نے قوت اور طاقت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالٰی کے بندوں تک اسلام کو پہنچایا رسول اللہ ﷺ کی جو مکی دعوت ہے اس کو علماء نے دو مرحلوں میں تقسیم کیا .
1: ایک سری ( پوشیدہ ) دعوت 2: جھری (کھلے عام) دعوت
سری دعوت میں دانش مندی اور حکمت کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ ﷺ مکے جیسے مقام پر جو بتوں کا اڈا ہے اور کفر و شرک کا قلعہ ہے براہ راست بلند آواز سے لوگوں کو ان کے خلاف توحید کی دعوت دینے کے بجائے خاموشی سے چھپ کے آہستہ آہستہ کچھ لوگوں کو جو عقل مند ہوں جو اس بات کو تسلیم کر سکتے ہوں ان لوگوں کو پہلے دعوت دی جائے تاکہ پہلے وہ تیار ہو جائیں پھر اس دعوت کو عام کیا جائے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ جوش سے کام نہیں لینا چائیے بلکہ حالات کا اچھی طرح مطالع کرنا چاہیے اور حالات کے مطابق جو طریقہ مناسب ہے وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے ہمیشہ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اسلام میں قوت ہے کیوں ہم کمزور ہیں یہ حکمت کے خلاف ہے اللہ تبارک و تعالٰی کے لئے ممکن تھا کہ آپ ﷺ کو فرشتوں کے ذریعے مدد فراہم کرتا اور ہر طرح سے آپ ﷺ کی ہر طرح سے حفاظت فراہم کرتا آپﷺ کھلم کھلا لوگوں کو دعوت دیتے لیکن اللہ تبارک و تعالٰی نے رسول اکرم ﷺ کی دعوت کے لئے وہی طریقے برقرار رکھے جو قیامت تک اللہ تبارک و تعالٰی کے دین کی دعوت دینے کے لئے لوگوں کو اختیار کرنا چائیے آپ ﷺ کے لئے اللہ تبارک و تعالٰی نے کوئی خصوصی طریقہ اپنی طرف سے فراہم نہیں کیا وہی عام طریقہ جو کسی بھی آدمی کا ہو سکتے ہیں وہی اختیار کیا
تاکہ آپ ﷺ أسوہ بنیں نمونہ بنیں آپﷺ کی امت کے سلسلے میں آپﷺ کے طریقے پرچلیں.
|
L-14 سيرةالنبى صفہ-2
|
سریة الدعوة و المسلمون الاوائل
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اللہ کے رسولﷺ کو اسلام کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تو ظاہر ہے آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں سے شروع کیا اپنے دوستوں کے سامنے یہ بات رکھی جس کے دل کو اللہ تبارک و تعالٰی نے اسلام کے لئے کھول دیا انھوں نے اسلام قبول کیا اور کچھ لوگوں نے اس کا انکار کیا تو سب سے پہلے جو اسلام لائیں وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا تھیں اللہ تبارک و تعالٰی نے رسولﷺ کو نبی بنائے جانے کے بعد سب سے پہلے جن کو اعزاز بخشا وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کو بخشا گویا وہ ایک خاتون تھیں جو اسلام میں داخل ہوئیں اور یقینا یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو رسولﷺ کے ساتھ وحی کے سلسلے میں جو معاملات پیش آ رہے تھے وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے سامنے ہی پیش آ رہے تھے تو سب سے پہلے وہ مسلمان ہوئیں پھر علی ابن طالب رضی اللہ عنه رسولﷺ کے چچھیرے بھائی مسلمان ہوئے اور اس وقت وہ بچے تھے دس سال ان کی عمر تھی علماء نے اس کو الگ الگ تقسیم کیا ہے کہتے ہیں عورتوں میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا مردوں میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنھما اور بچوں میں علی ابن طالب رضی اللہ تعالٰی عنه اور آزاد کردہ غلاموں میں زید ابن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ عام طور پر یہ ہی چیز معروف ہے یہاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے سلسلے میں کچھ تفسیر مختصر طور پر بیان کی گئی ہیں۔
اسلام السیدہ خدیجة بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنھا:
رسولﷺ کو جب حکم دیا گیا تو آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں کو دعوت دی اپنی بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بتایا اور انہیں اسلام کی دعوت دی ایمان لانے کی دعوت دی تو انھوں نے فورا اسے قبول کر لیا اور رسولﷺ کی تصدیق کی سب سے پہلے وہ اسلام لائیں اور انھوں نے اسلام لانے کے بعد اللہ کے رسولﷺ کو جو مشکلات اور تکالیف پیش آ رہی تھیں ان کو برداشت کرنے میں اللہ کے رسولﷺ کا سہارا بنیں اور
آپ ﷺ کی ڈھارس بندھائی اور آپ ﷺ کا ساتھ دیا اور آپﷺ کی ہمیشہ ہمت بندھائی اور ہر طرح سے آپ ﷺ کی تکالیف کو دور کرنے کی کوششیں کرتی رہیں اور جو رسولﷺ کی ساری بیٹیاں جو اس وقت موجود تھیں وہ بھی اسلام میں داخل ہوئیں
اسلام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه : علی رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ ﷺ کے چچھیرے بھائی تھے اور آپﷺ کی کفالت میں آپ ﷺ کے ساتھ ہی رہتے تھے وحی کے نازل ہونے سے پہلے اس لئے کہ قریش قحط سالی کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے تو مالی حالات ان کے بہت ہی خراب تھے خاص طور پر ابو طالب کی اولاد بہت زیادہ تھی آمدنی کے ذرائع بہت کم تھے تو قحط کی وجہ سے وہ پریشان ہو گئے تھے تو اللہ کے رسولﷺ نے ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا اور عباس ابن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی کفالت میں لیا تھا ابو طالب کے دو بیٹے تھے جن کی کفالت رسولﷺ نے اور عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی رسول اکرم ﷺ نبوت کے موقع پر علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر دس سال تھی اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ رسولﷺ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان سے سوال کیا کہ یہ کیا چیز ہے جو آپ ادا کر رہے ہیں اللہ کے رسولﷺ نے ساری بات کی خبر دی اور اپنے نبوت کا ذکر کیا تو علی رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمان ہو گئے اسی طرح بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے علی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ |
L-13 سيرةالنبى صفہ-3
|
الجھر بالدعوة الاسلامیة
جھری اسلامی دعوت رسولﷺ کی دعوت کی زندگی دو ادوار میں مشتمل تھی ایک مکی دور دوسرا مدنی دور مکی دور تیرہ سال رہا اور مدنی دس سال رہا مکی دور کو سیرت نگاروں نے اور مورخین نے عام طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک مرحلہ سری دعوت کا جو تین سال رہا اس کے بعد جھری دعوت کا حکم ہوا تو وہ دس سال تک جاری رہا اللہ کے رسولﷺ جب نبی بنائے گئے تو آپ پوشیدہ طور پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور یہ ہی حکمت کا تقاضہ تھا اس سے ہمیں اہم سبق معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں اور یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے دین کی دعوت دینے میں بھی ہمیں حکمت کا پورا خیال رکھنا چاہیے اللہ کے رسولﷺ شروع ہی میں دعوت کا آغاز کھلم کھلا کرتے علی اعلان کرتے تو ظاہر ہے جو مخالفت بعد میں ہوئی اسی وقت شروع ہو جاتی اور رسولﷺ کو یہ موقع نہیں ملتا کہ آپ ﷺ مسلمانوں کی ایک جماعت تیار کر سکتے رسولﷺ کی سری دعوت اسلام دعوت کا آغاز کرنا اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا جو مکے کے بہت ہی عقل مند دانش مند وہ اسلام کی طرف سبقت کیئے اور اس طرح مسلمانوں کو ایک ایسی جماعت مل گئی جو بہت ہی مخلص تھی اور انھوں نے اسلام کو دل سے قبول کیا تین سال کے عرصے میں اللہ کے رسولﷺ کو اس بات کا موقع ملا کہ آپﷺ ایک ایسی جماعت قائم کریں جو اسلامی دعوت اور حق کے لئے قربانی دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اللہ کے رسولﷺ تین سال تک چهپے طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے کہا جاتا ہے کہ اس عرصے میں 40 لوگوں نے اسلام قبول کیا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالٰی کا حکم آیا آپ ﷺ کھلم کھلا اسلام کی دعوت دیں اور لوگوں کو صاف طور پر اسلام کی طرف بلائیں جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا(( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ)) سورتہ الحجر 94" آپ صاف طور پر اس کا حکم دیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے اعراض کیجئے " اسی طرح سورتہ الشعراء 214 - 215((وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ( وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ * فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ)) "آپ اپنے قرابت داروں کو قریبی رشتے داروں کو ڈرائیے جو مومن میں سے آپ کی اتباع کریں ان کے ساتھ نرمی کیجئے ان کا استقبال کیجئے اور جو نہ مانیں آپ ان سے کہیں میں تم سے بری اور بے زار ہوں اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین نازل ہوئے تو اللہ کے رسولﷺ اس نے فوری بعد جھری دعوت دینا شروع کر دیا کئی روایتیں ہیں اس بارے میں لیکن اس کتاب میں جو روایت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ الصفا پہاڑی پر پہنچے اور وہاں سے آواز دی اے قریش کے لوگو قریش نے جب یہ آواز سنی تو کہنے لگے یہ محمدﷺ کی آواز ہے اور عرب میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی شخص پہاڑ میں چڑھ کر اگر کوئی شخص دعوت دیتا یا پکارتا تو وہ سب اسی دعوت پر لبیک کہتے تھے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹتا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے اس طرح پہاڑ پر چڑھ کر آواز دینے کا مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی اہم بات ہے جو ہم تک پہچانا چاہ رہے ہیں سب لوگ یہ جانتے تھے یہ بہت ہی عظیم اور قابل احترام شخصیت ہیں اللہ کے رسولﷺ نے جب دعوت دی تو وہ سب جمع ہوئے اور کہنے لگے کیا بات ہے تو اللہ کے رسولﷺ نے کہا اگر میں تمهے اس بات کی خبر دوں اور کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے دشمنوں کی ایک فوج ہے جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم اس بات کی تصدیق کرو گے تو انھوں نے کہا ہاں آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی آپ پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی گئی کبھی آپ ﷺ پر جهوٹ کا تجربہ نہیں کیا لہٰذا ہم تصدیق کریں گے تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمھے ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں آپ ﷺ نے خطاب کیا کہ اے بنو عبد المطلب، اے بنو عبد المناف ، اے بنو زھرہ قریش کے جو مختلف قبائل تھے ایک ایک قبیلے کا نام لیا اور صاف صاف بتایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں میں تمھارے لئے کسی دنیاوی نفع کا مالک نہیں ہوں تمهارے بارے میں اور نہ ہی آخرت کا مالک ہوں یعنی میں تمھاری اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا الا یہ کہ تم لا اله الا الله کہو صاف طور پر اعلان تھا کہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کو چھوڑ کر اپنے بتوں کی محبت کو چھوڑ کر اللہ تبارک و تعالٰی سے محبت کریں اور اللہ تبارک و تعالٰی کی عبادت کریں یہ صاف طور پر اعلان تھا کہ جب مکے کا معاشرہ ان چیزوں کو پوجتا آ رہا تھا وہ سراسر باطل ہے لا الہ الا اللہ کا مفہوم مکے کے کافر اس سے بهی اچھی طرح سمجھتے تھے جس کو آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہیں سمجهتا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ لا الہ الا اللہ کی توحین کرتا ہے ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں لیکن وہ قبروں کو سجدہ کرتا ہے نظر و نیاز کرتا ہے ان پر چادریں چڑھاتا ہے ان سے دعائیں کرتا ہے لیکن مشرکین جانتے تھے کہ لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو عبادت کے مراسم اپنے بتوں کے لئے بجا لاتے ہیں ان سب کو چھوڑنا ہو گا صرف اللہ کی عبادت کرنی ہو گی ایک |
L-14 سيرةالنبى صفہ-4
|
اللہ کو معبود ماننا ہو گا ابو لہب نے کہا تم ہلاک ہو جاؤ کیا تم نے ہمیں یہ کہنے کے لئے جمع کیا تھا اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ سورتہ المسد نازل فرمائی ((تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ○ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ○ سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ○ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ○ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ)) " ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ تباہ ہو گیا* اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آیا جو کچه کمایا کچه کام نہیں آیا * عنقریب وہ شعلے مارتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا* اور اس کی بیوی لکڑیاں ڈھونے والی* اس کی گردن میں کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہو گی " اس سورتہ میں اللہ تبارک و تعالٰی نے ابو لہب کا جواب دیا اور کہا کہ ہلاکت اور تباہی محمد ﷺ کی نہیں وہ تو اللہ کے رسول ہیں اللہ ان کا محافظ ہے لیکن یہ آئے گی ابو لہب کے حصے میں اور وہ مال جس پر وہ گھمنڈ کر رہا ہے اور وہ آل و اولاد جس پر اسے فخر ہے اس کے کچھ کام نہیں آئیں گے یہ ہی اس کا حشر ہو گا ابو لہب کا یہ ہی حشر ہوا اور ابولہب اس کی کنیت تھی نام اس کا عبد العزی تها کہتے ہیں اس کے چہرے میں جو چمک تھی شعلے کی طرح اس سے اس کا نام ابو لہب پڑ گیا اتفاق کی بات ہے اس کی کنیت ہے جس سے وہ مشہور تھا ((ذات لھب)) اس آگ کے بلکل مشابہ ہو گیا جو آگ شعلے مارتا ہوا چہرہ، شعلے مارتی ہوئی آگ میں داخل کیا گیا اہل علم کہتے ہیں سورتہ لھب اللہ کے رسولﷺ کی رسالت کی صداقت کی عظیم دلیلوں میں سے ہے یہ سورتہ نازل ہوئی سن 4 نبوی میں یعنی تین سال آپ نے سری دعوت دی پھر جہری دعوت دی آپ کو جھری دعوت کا حکم ہوا چار نبوی میں یہ سورتہ نازل ہوئی تو سن 2 ہجری میں غزوہ بدر ہوئی تو ابو لھب تقریبا بارہ سال زندہ رہا قرآن مجید میں یہ کہا گیا کہ وہ عنقریب شعلے مارتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا بارہ سال اس سورتہ کے نازل ہونے کے بعد بھی یہ توفیق نہیں ہوئی اسے کہ وہ اسلام قبول کرتا یا ایک دن بھی وہ جھوٹ موٹ کے لئے اعلان کر دیتا کہ میں مسلمان ہوا اب میں کیسے آگ میں داخل کیا جاؤں گا محمد ﷺ نے جو باتیں پیش کی ہیں وہ جهوٹی ہیں لہٰذا اللہ کے رسولﷺ نے بارہ سال پہلے جو ابو لھب کے بارے میں کہا تھا غزوہ بدر کے آٹھ دن کے بعد یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی اور وہ بے یار و مددگار مارا گیا ابو لھب کے اس رویے کے جواب میں اللہ نے سورتہ لھب نازل فرمائی اور ظاہر ہے اس سورتہ کے نازل ہونے کے بعد ابو لھب اور اس کی بیوی جو ام جمیل تھی بہت بے باک ہو گئے وہ پہلے ہی اللہ کے رسولﷺ کے دشمن تھے تو اس کے بعد ان کی دشمنی بہت سخت ہو گئی اور وہ اللہ کے رسولﷺ کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے اللہ کے رسولﷺ اس واقعہ کے بعد جو صفا پر پیش آیا تھا کھلم کھلا دعوت دینے میں مصروف ہو گئے آپﷺ مکے کے سرداروں کو بھی دعوت دیتے غلاموں کو بھی دعوت دیتے قرابت داروں کو بھی دعوت دیتے او جو اجنبی ہیں جن سے پہچان نہ ہوتی ان کو بھی بلاتے اہل مکہ کو بھی آپ ﷺ دعوت دیتے حج کے موسم میں جو باہر سے لوگ آتے ان سے بھی آپ ﷺ ان مقامات میں جاتے اور ان سے بھی ملتے ان کو بھی بتاتے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے آپﷺ کو نبی بنایا ہے اسلام کی دعوت دیتے یہ مرحلہ تقریبا دس سال رہا یہاں تک کہ مسلمان مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کر گئے اس مرحلے میں مسلمانوں کو کافی تکلیف اور مصائب سے گزرنا پڑا نفسیاتی طور پر انہیں اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں جسمانی طور پر بھی مختلف اذیتیں پہنچائی گئیں اپنے قول کے زریعے بهی تکلیفات پہنچاتے اس تمام مرحلے میں جو انھیں نفسیاتی ایذائیں دی گئیں اور دهمکیا بهی دی جاتیں اور جسمانی تکلیفیں پہنچائی گئی وہ اس پر صبر کرتے اور انہیں مارا گیا اور مشقت پہنچائی گئی وہ اپنے ایمان پر اپنے عقیدے پر وہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اس کی کچھ صورت اور کچھ حالات اس کتاب میں پیش کیئے گئے ہیں-
|
L-14 سيرةالنبى صفہ-5
|
ایذاء قریش للمسلمين
قریش کا ایذا پہنچانا مسلمانوں کو اللہ کے رسولﷺ کا جہاں تک یہ معاملہ تھا اللہ تعالٰی نے رسولﷺ کی حفاظت کی ایک تو ابو طالب رسولﷺ کے چچا تھے انھوں نے شروع ہی میں کہا تھا تم جو چاہے کرو میں تمھارا جہاں تک ہو سکے ساتھ نبھاؤں گا ابو طالب جب کہ مکے کے سرداروں میں سے تھے اور ان کا بہت بڑا مقام تھا اور بہت عظیم رتبے کی شخصیت تھی اس کے علاوہ اللہ کے رسولﷺ کی پشت پناہی کرتے تھے اس کے علاوہ اللہ کے رسولﷺ کا جو خاندان تھا اس میں سے اکثر
افراد آپ کے ساتھ تھے بھلے ہی وہ ایمان نہیں لائے یہ جو خاندانی حمیت اقلیت تھی یہ آپﷺ کے لئے قوت کا کام کرتی تھی کوئی بھی کچھ نہیں کہ سکتا تھا کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اتنا مضبوط اور عظیم خاندان تھا آپﷺ کا اور اس کے علاوہ آپﷺ کی شخصیت تھی جو بہت ہی قابل اعتبار شخصیت تھی اور آپ ﷺ بیت ہی عظیم اوصاف کے مالک تھے یہ کچھ باتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ اللہ کے رسولﷺ کو جسمانی طور پر عذاب پہنچانا ان کے لئے کوئی آسان بات نہیں تهی لہٰذا وہ اللہ کے رسولﷺ کے معاملے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے لیکن دوسرے مسلمانوں کو ایذاء پہنچانے کے لئے پوری حدوں کو پار کر دیا مثال کے طور پر جو عذاب اور تکلیفیں جن لوگوں کو دیں ان میں عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان کی والدہ سمیة اور ان کے گھر والے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی کے راستے میں ان کو عذاب دیا گیا رسولﷺ جب انھیں دیکھتے کس طرح سے ان کو مارا جاتا ہے پیٹا جاتا ہے ان کو ستایا جا رہا ہے ان کو عذاب سے دوچار کیا جا رہا ہے تو اللہ کے رسولﷺ فرماتے " صبر کرو آل یاسر یقینا تمھارا مقام جنت ہے" جس دین کو وہ قبول کر چکے تھے وہ ان کے دلوں میں مضبوطی جہاں گزین تھا اس کے باوجود وہ قائم رہے ایک مرتبہ سمیة رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کو اور ان کے شوہر کو مارا جا رہا تھا یعنی ماں باپ اور بیٹے کو مارا جا رہا تھا ابوجہل گزرا اس کو نہ تو سمیة رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بڑھاپے پر ترس آیا اور نہ ہی ان کی حالت پر رحم آیا ان کو نیزے سے ایسا مارا کہ وہ شہید ہو گئیں لہٰذا اسلام میں سب سے پہلے شہید ہونے کا اعزاز سمیة رضی اللہ تعالٰی عنھا کو حاصل ہوا جو اللہ تبارک و تعالٰی کے راستے میں شہید ہوئیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب کسی غلام کو دیکھتے کہ ان کو عذاب دیا جا رہا ہے تو اسے خرید کر آزاد کر دیتے اس طرح تقریبا آٹھ یا دس غلام ہیں جن کے ناموں کو اہل علم نے جمع کیا ہے جن کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کیا ان میں بلال بن رباح رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان کو بھی سخت عذاب دیا جاتا یہاں تک کہ ان کو گرم ریت میں لٹایا جاتا گرم پتھر ان کے سینے پر رکھا جاتا لیکن وہ پھر بھی یہ کہتے "احد ، احد" اللہ ایک ہے اس کے علاوہ اور بھی
مسلمانوں نے ان کے علاوہ مشرکین کی بہت سی ایذاؤں کو اور تکلیفوں کو جھیلا اور اللہ تعالٰی نے ان کے دل کو ثابت قدم رکھا اور ان کے ایمان کو قائم رکھا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالٰی کی مدد آئی اور کامیاب ہوئے اللہ تعالٰی نے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کی ۔
|
L-14 سيرةالنبى صفہ-6
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
:1 سری دعوت کتنے سال تک چلتی رہی ؟ -كم 1 استمر الدعوة إلى الإسلام ؟
جواب. سری دعوت تین سال تک چلتی رہی. 2: ابو لہب نے اللہ کے رسولﷺ سے صفا کے پاس کیا کہا؟ جواب : ابو لہب نے رسولﷺ سے کہا تم ہلاک ہو جاؤ تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا.
:3 قرآنی آیت ذکر کیجئے جو جھری دعوت پر دلالت کرتی ہے؟
جواب: (( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ)) سورتہ الحجر 94 " آپ کھلم کھلا بلائیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اور مشرکین سے آپ اعراض کیجئے" 4: دعوت اسلام میں اللہ کے رسولﷺ کی مدد کون کرتے تھے؟ جواب: مسلمان مدد کرتے تھے دعوت کے نشرو اشاعت کے لئے۔ 5: اللہ کے رسولﷺ کو سخت ایذاء پینچانے میں کون کون تھے؟ جواب: یہاں چار نام ذکر ہیں ابو جہل، ابو لہب ، ولید بن مغیرہ، نصر بن حارث ۔ 6:رسولﷺ کا موقف کیا تھا قریش کے ایذاء کے سلسلے میں؟ جواب: ان ایذاء کے باوجود آپ ﷺ نے ہمت نہیں ہاری بلکہ آپ ﷺ نے اپنی دعوت کو جاری رکھا جتنے بھی وسائل تھے اس کے باوجود آپ ﷺ ان کو قائل اور قانع کرنے کی کوشش کرتے رہے دلائل کے ذریعے اپنی دعوت کو ثابت کرتے ۔ 7 : اسلام میں سب سے پہلی شہید ہونے والی خاتون کون ہیں؟ جواب : سمیة رضی اللہ تعالٰی عنھا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ ۔ ;8 مشرکین غلاموں کو عذاب دینے کی طرف کیوں متوجہ ہوئے ؟ جواب: اس لئے کہ ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا ان کا کوئی حامی و مدد گار نہیں ہوتا جب مشرکین نے دیکھا اسلام کی دعوت بڑھتی جا رہی ہے تو وہ غلاموں کو عذاب دیتے کیوں کہ ان کو بچانے والا کوئی نہیں آئے گا ۔ 9: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلاموں کے بارے میں موقف کیا تھا جن کو عذاب دیا جاتا تھا؟ جواب: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی غلام کے پاس سے گزرتے جس کو عذاب دیا جا رہا ہوتا تو آپ اس کو خریدتے اور آزاد کر دیتے ۔ 10: جب عذاب کی شدت ہوتی تو بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کیا کہتے؟ جواب: وہ کہتے(احد احد( |
L-15 سيرةالنبى صفہ-1
|
اسلام حمزة بن عبد المطلب وعمر بن الخطاب
اسلام حمزة بن عبد المطلب وعمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنھما رسولﷺ نے جب مکے میں اسلامی دعوت کا اعلان کیا اور مشرکین نے مخالفت شروع کر دی اس کے باوجود بھی اسلامی دعوت آہستہ آہستہ پھیلتی رہی دن بدن قوی ہوتی رہی اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک اہم بات یہ پیش آئی کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے مکے کے دو معزز ترین افراد حمزة بن عبدالمطلب اور عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنھما کے ذریعے رسولﷺ کے بازوؤں کو مضبوط کیا ان کے اسلام لانے کے واقعہ کے بارے میں کچھ تفصیلات یہاں موجود ہیں ۔ اولا: حمزة بن عبد المطلب: حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ رسولﷺ کے چچا تھے اہل علم کہتے ہیں کہ رسولﷺ کے چار چچاؤں نے اسلام کا دور پایا دو نے اسلام قبول کیا اور دو اسلام میں داخل نہیں ہوئے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کے نام بھی اتفاق سے اسلامی نام تھے حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اور جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان کے نام بھی غیر اسلامی تھے وہ عبد العزی یعنی ابو لہب ، ابو طالب ہیں حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسولﷺ کے چچا تھے اور اپنی قوم میں کافی مشہور تھے ان کی شخصیت کافی قوی تھی ان کو ( اعز الناس ) سب سے معزز شخص کے نام سے لوگ انہیں جانتے اور پکارتے تھے اللہ کے رسولﷺ سے بہت محبت کرتے تھے اور بہت طاقتور تھے اپنے دشمنوں پر بڑے شدید بھی تھے نوجوان تھے شکار کو اور نشانے بازی کو بہت پسند کرتے تھے ایک مرتبہ وہ شکار سے واپس آ رہے تھے کمان ان کے ہاتھ میں تھی کہ عبد اللہ ابن جدعان کی ایک لونڈی نے انہیں بتایا کہ ابو جہل نے اللہ کے رسولﷺ کو صفا پہاڑی کے پاس بہت تکلیف پہنچائی ہے اللہ کے رسولﷺ جب مسجد الحرام میں تھے تو ابوجہل آپ ﷺ کے پاس پہنچا آپ ﷺ کو گالیاں دیں آپﷺ خاموش رہے اس کے بعد آپ ﷺ کے سر پر اتنی سختی سے چوٹ ماری کہ آپﷺ کا سر زخمی ہو گیا عبد اللہ ابن جدعان کی جو باندی تھیں وہ صفا پہاڑ سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں اور یہی بات انھوں نے حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بتائی اوع اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے رسولﷺ نے کوئی جواب بھی نہیں دیا اور خاموش رہے ابوجہل کے اس ظلم کو آپﷺ نے خاموشی سے سہ لیا یہ سن کر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سخت غضب ناک ہو گئے اور وہاں ابوجہل کے پاس پہنچے جو وہاں مسجدالحرام میں اپنی قوم کے ساتھ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے غصے سے خطاب کیا کہ تم نے میرے بھتیجے کو کیسے گالی دی جبکہ میں بھی انہی کے ساتھ انہی کے دین میں ہوں اس کے بعد آگے بڑھے اور اپنی کمان سے اس کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ سخت چوٹ آئی ابو جہل کے جو قبیلے کے لوگ تھے بنو مخزوم کے لوگ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ادھر بنو ہاشم بھی آ گئے لہذا دونوں قبیلے آمنے سامنے ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے لیکن ابوجہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑ دو میں نے ان خے بھتیجے کو سخت ترین گالی دی تھی اس طرح قریش کو یہ علم ہو گیا کہ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اسلام میں داخل یو گئے ہیں لہٰذا اس کی وجہ سے رسولﷺ کی مخالفت جو وہ کرتے تھے اس میں کمی آ گئی حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ سن 6 نبوی کا ہے اللہ کے رسولﷺ کی نبوت کے چھٹے سال یہ واقعہ پیش آیا تھا اللہ کے رسولﷺ نے انہیں اسد اللہ کے خطاب سے نوازا تھا اس کے معنی ہیں اللہ کا شیر۔ |
L-15 سيرةالنبى صفہ-2
|
اسلام عمر بن الخطاب
ثانیا: عمر بن الخطاب کے اسلام لانے واقعہ: عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام عمر بن الخطاب بن نفیل ہے ، بنو عدی سے تعلق رکھتے ہیں کافی طاقتور انسان تھے اور کشتی اور گھوڑ سواری کو پسند کرتے تھے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بلکل آغاز میں سے اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچائی اور انہیں تکلیف دی انہیں پریشان کیا یہاں تک کہ ایک دفعہ انھوں نے ارادہ کیا کہ محمدﷺ کا قتل کرتے ہوئے اس قصے ہی کو ختم کر دیں گے لہٰذا غصے کے ساتھ اپنی تلوار لے کر نکلے صفا پہاڑی کی طرف متوجہ ہوئے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ محمد ﷺ انہیں وہیں موجود ہوں گے راستے میں نعیم بن عبد اللہ سے ملاقات ہوئی کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے انھوں نے اپنا اسلام ظاہر نہیں کیا تھا نعیم بن عبد اللہ نے جب دیکھا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور تلوار ہاتھ میں ہے جانتے تھے کہ یہ بہت غضب ناک حالت میں ہیں تو پوچھا کہ آخر کہاں جا رہے ہو تو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میں محمد ﷺ کے پاس جا رہا ہوں جنھوں نے قریش میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ان کے دین پر عیب لگایا ہے ان کے معبودوں کو گالی دی ہے میں چائتا ہوں کہ انہیں قتل کر دوں نعیم نے کہا تمھاری بہن فاطمہ اور ان کے شوہر سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنھما دونوں مسلمان ہو چکے ہیں یعنی نعیم یہ چائتے تھے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس نہ جائیں ایسا نہ ہو کہ گویا ناپسندیدہ واقعہ ہو جائے لہذا انھوں نے ان کا راستہ بدلنے کے لئے اس بات کی خبر دی ان کی بہن بہنوں مسلمان ہو چکے ہیں ان کا غصہ اور بڑھ گیا لہٰذا وہ صفا کی طرف جانے کے بجائے اپنی بہن کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے بہن کے گھر جانے کے بعد انہیں اور ان کے شوہر کو بہت مارا ان کی بہن کو بہت چوٹ آئی یہاں تک کہ وہ زخمی ہو گئیں خون بہنے لگا اس کے بعد ان کی بہن نے کہا تم جو چاہو کر لو ہم اس دین کو چھوڑنے والے نہیں ہیں جب یہ باتیں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنیں اور ان کے زخموں کو دیکھا اور اپنی بہن کے بہتے ہوئے خون کو دیکھا اس کے بعد ان کے دل میں نرمی آ گئی ان کے دل میں رقت طاری ہو گئی ان کو شرمندگی ہوئی اور وہ کچھ دیر خاموشی کے ساتھ سوچنے لگے اس کے بعد کہا وہ اوراق جو تم پڑھ رہی تھیں وہ مجھے بتاؤ وہ کیا تھے اس کے بعد وہ اوراق انہیں دیئے گئے اس میں سورتہ طہ کی ابتدائی آیتیں تھیں وہ آیتیں انھوں نے پڑھی تو کہنے لگے کتنا اچھا کلام ہے اور کتنا معزز کلام ہے اس کے بعد وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس گئے یہاں ان کے دل کی دنیا بدل چکی تھی نکلے تو اللہ کے رسولﷺ کو قتل کے ارادے سے تھے لیکن قرآن نے ان کو فتح کر لیا تھا لہذا کچھ دیر پہلے تو وہ اللہ کے رسولﷺ کو قتل کرنے جا رہے تھے اب وہ اس لئے جا رہے تھے کہ وہ آپﷺ کے دین میں داخل ہونا چائتے تھے رسولﷺ اس وقت دار الأرقم بن أبي الأرقم میں قیام پذیر تھے وہاں پہنچے دروازے کھٹکھٹایا اللہ کے رسولﷺ کو پتہ چلا عمر آئے ہوئے ہیں تو آپ نے دروازہ کھولا آپ خود آگے بڑھے اور پوچھا عمر کس ارادے سے آئے ہو انھوں نے کہا اللہ کے رسولﷺ میں اپنے اسلام کا اعلان کرنے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کے لئے آیا ہوں اللہ کے رسولﷺ بہت خوش ہوئے اور آپﷺ نے تکبیر بلند کی اور جتنے بھی صحابہ موجود تھے انھوں نے بھی اللہ اکبر کہا مسلمانوں کو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے سے بہت خوشی ہوئی بہت قوی آدمی تھے مکے میں بہت معزز تھے اللہ تبارک و تعالٰی نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ذریعے اسلام کو معزز کیا اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اسلام لانا یہ مسلمانوں کی طاقت اور قوت کا ذریعہ ثابت ہوا کہا جاتا ہے کہ رسولﷺ نے یہ دعا کی تھی سنن ترمذی کی یہ حدیث ہے اور اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اللہ کے رسولﷺ نے دعا کی تھی عمر ابن خطاب اور ابوجہل ابن ہشام میں سے جو |
L-15 سيرةالنبى صفہ-3
|
تجھے زیادہ محبوب ہے انہیں اسلام کی توفیق دے اور ان کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا اللہ تبارک و تعالٰی کے پاس عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ زیادہ محبوب تھے لہٰذا اللہ تبارک و تعالٰی نے انہیں اس کی توفیق دی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اسلام لانا یہ دراصل فتح تھی اور ان کا ہجرت کرنا یہ مدد تھی ان کی امارت تھی جو امیر المومنین بنے وہ رحمت تھی ہم کعبے کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام قبول کیا جب وہ مسلمان ہوئے انھوں نے قریش سے باقاعدہ لڑائی حتی کہ انھوں نے کعبہ کے پاس نماز پڑھا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی لہٰذا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلمان ایک ساتھ باہر نکلے کہا جاتا ہے ایک طرف حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے دوسری طرف عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے کعبہ اللہ پہنچے اور انہوں نے نماز ادا کی رسولﷺ نے انہیں فارق کے لقب اے نوازہ حق و باطل میں فرق کرنے والا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی ان 6 نبوی کا ہے اور حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے تین دن کے بعد ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کس طرح مسلمانوں کو رفتہ رفتہ قوت پہنچائی اور کس طرح اسلام دعوت آئستہ آئستہ آگے بڑھی ان واقعات سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ بعض افراد ہمارے مدد گار بن جاتے ہیں اسلام کو مدد کرنے لگتے ہیں شروع میں ان کی مدد خالص اللہ کے لئے نہیں ہوتی بلکہ کبھی اپنی وطنیت کی طرف سے ہوتی ہے یا خاندان اور قبیلے کی وجہ سے ہوتی ہے دنیا میں بہت سارے اسباب ہوتے ہیں ایک دوسرے کی قربت کے کسی سبب سے ہوتے ہیں بعد میں اللہ تعالٰی آئستہ آئستہ اسلام پر مضبوطی طور پر جما دیتا ہے جیسا کہ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب شروع میں اسلام لائے وہ اللہ کے رسولﷺ کی حمیت میں تھا کہ وہ آپ کے قبیلے کے ہیں اور آپ کے بھتیجے ہیں لیکن اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کے دل میں مضبوطی کے ساتھ اسلام کو جما دیا یہاں تک کہ وہ اسد اللہ بن گئے اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی اسلام کا کتنا بھی بڑا دشمن کیوں نہ ہو لیکن انسان کو بہرحال اس بات کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ وہ اسلام کی دعوت دے اسلام کی دعوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اللہ تعالٰی نے کس کے لئے کون سی قبولیت کی گھڑی رکھی ہے اور کون سا وقت رکھا ہے بہت ممکن ہے وہ اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہوں لیکن اللہ تبارک و تعالٰی انہیں اسلام کے قلع میں تبدیل کرے جیسا کہ تاتاری بھی ایسے تھے اسلام کو نقصان پہنچایا اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا لیکن وہ اس کے بعد خود اسلام لے آئے ۔
|
L-16 سيرةالنبى صفہ-4
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
1: حمزہ بن عبد المطلب کون ہیں؟ جواب: حمزہ بن عبد المطلب رسولﷺ کے چچا ہیں۔ 2: حمزہ بن عبد المطلب کے اسلام لانے کا واقعہ کب پیش آیا ؟ اور وہ اسلام سے پہلے کس لقب سے مشہور تھے؟ جواب: حمزہ بن عبد المطلب کے اسلام لانے کا واقعہ چھے نبوی میں پیش آیا ۔ اسلام سے پہلے حمزہ بن عبد المطلب کا لقب تھا اعز الناس۔ 3:صفا پہاڑی پر کس نے رسولﷺ کو تکلیف دی تھی؟ جواب: ابو جہل نے ۔ 4: شکار سے جب حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ واپس آئے تو انھوں نے کیا کیا؟ جواب: وہ مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور ابوجہل جو اپنی قوم کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھا تھا اور اس پر غصہ ہوئے اور کہا تم میرے بھتیجے خو کیسے گالی دیتے ہو جبکہ میں اس کے دین پر ہوں ۔ 5: حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام کیسے لائے ؟ جواب چوتھا اور پانچواں جواب ایک ہی ہے ۔ 6: عمر بن الخطاب کون ہیں؟ جواب: عمر بن الخطاب بن نفیل بنو عدی کے قبیلے کے ہیں۔ 7: عمر بن الخطاب اللہ کے رسولﷺ کے تلاش میں کیوں نکلے تھے؟ جواب: اس لئے کہ وہ رسولﷺ کو قتل کرنا چائتے تھے ۔ 8: راستے میں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کس نے ملاقات کی اور ان سے کیا کہا ؟ جواب: نعیم بن عبد اللہ نے ملاقات کی اور انہیں خبر دی ان کے بہن اور بہنوں مسلمان ہو چکے ہیں ۔ 9: عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن کون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے شوہر کون ہیں ؟ جواب: ان کی بہن فاطمہ بن خطاب اور ان کے شوہر سعید بن ذید رضی اللہ عنہما ۔ 10: عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اپنے بہن کے گھر قرآن کی آیات پڑھی تو کیا ہوا؟ جواب: عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب قرآن کی آیات پڑھی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے یہ کلام کتنا اچھا اورکتنا معزز ہے ۔ 11: عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رسولﷺ کے پاس گئے تھے تو اس وقت اللہ کے رسولﷺ کہاں تھے؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ اس وقت دار الارقم بن ابی الارقم میں تھے۔ 12: مسلمان عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے سے پہلے کہاں نماز پڑھتے تھے اور بعد میں کہاں پڑھتے تھے؟ جواب: مسلمان عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے سے پہلے چھپ کر نماز پڑھتے تھے وادیوں اور مختلف میدانوں میں اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد وہ کعبہ اللہ میں نماز پڑھنے لگے۔ |
L-16 سيرةالنبى صفہ-1
|
الھجرة الاولی الی الحبشة
حبشہ کی طرف پہلی ھجرت۔ حبشہ ایک ملک کا نام ہے آجکل اسے ایتھوپیا کہتے ہیں یہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا جیسا کے مصر کے بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا اعراق روم اس کے بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا فارس کے بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا مصر کے بادشاہ کو مقوقس کہا جاتا تھا اسی طرح حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا اللہ کے رسولﷺ کے دور میں حبشہ کے بادشاہ کا نام اصحمہ تھا حبشے کے جانب جب پہلی ھجرت پیش آئی وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اسلام لانے کے بعد جو مشکلات پیش آئیں تھیں اگرچہ کہ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو قوت پہنچی تھی اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی تکلیفوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی کیونکہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے تھے اور ان میں ایسے افراد بھی تھے جن کے پیچھے کوئی مضبوط قبائلی بیک گراؤنڈ نہیں تھا ان میں کچھ غلام بھی تھے کمزور بھی تھے تو کافروں کی شرارتیں بہرحال جاری تھیں اور آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھیں اگرچہ وہ مسلمانوں کے کچھ معزز لوگوں کو نقصان نہیں پہنچا رہے تھے لیکن مسلمانوں کی اکثریت کافی تکلیف میں تھی تو اللہ کے رسولﷺ نے جب دیکھا مشرکین کی طرف مسلمانوں کی تکلیف میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے تو آپ ﷺ نے چاہا کہ مسلمانوں ایسے وقت میں کسی ایسی جگہ جائیں جہاں وہ اپنے دین کی حفاظت کر سکیں کہا جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان دنوں میں سورتہ الکہف بھی نازل فرمائی تو وہ کسی اور مقام پر چلے جائیں جہاں وہ اپنے دین کی حفاظت کر سکی جیسا کہ اصحاب کہف نے کیا تھا لہٰذا اللہ کے رسولﷺ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ حبشہ کے طرف جائیں اللہ کے رسولﷺ نے مسلمانوں کی حجرت کے لئے حبشہ کو منتخب کیا دوسرے بہت سے ملکوں کو چھوڑ کر اس لئے کہ وہاں مسیحیت دین تھا عیسائیت پر وہ لوگ تھے اور اس میں جو بادشاہ تھا اصحمہ اور وہ عدل و انصاف اور رواداری میں بہت معروف تھے اس لئے کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے اس لئے اللہ کے رسولﷺ نے حبشہ کو منتخب کیا وہاں مشرک نہیں رہتے بلکہ مسیحی رہتے ہیں تو اللہ کے رسولﷺ کے صحابہ اپنے دین کو بچانے کے لیے اور فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے حبشہ روانہ ہوئے اور اس کو حبشہ کی پہلی ھجرت حبشہ کی طرف مسلمانوں نے دو دفعہ ھجرت کی تھی پہلی ھجرت میں بارہ آدمی تھے اور چار عورتیں تھیں گویا مکمل طور پر سولہ افراد تھے انہی میں عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کی بیوی رقیہ بنت رسولﷺ بھی تھیں اور ان کے ساتھ زبیر بن العوام ، عبدالرحمن بن عوف، عبد اللہ بن مسعود، ابو سلمہ اور ان کی بیوی ام سلمہ بھی تھیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ یہ چھپ چھپا کر آہستہ کے ساتھ رات کے وقت پر نکلے تھے یہاں تک کہ بحر احمر کے کنارے پہنچے تھے تو وہاں انہیں کشتی ملی اور اس کشتی پر سوار ہو کر وہ حبشہ چلے گئے جب یہ لوگ مکے سے نکل گئے اور قریش کو پتہ چلا تو قریش بھی ان کے پیچھے نکل پڑے تاکہ انہیں پکڑ لیں اور مکہ واپس لائیں کیوں کہ وہ چائتے تھے وہ کسی بھی طرح ظلم و ستم کر کے دین اسلام سے کفر کی طرف لانے پر مجبور کریں لیکن جب یہ لوگ بحر احمر کے پاس پہنچے تو مسلمان جا چکے تھے وہاں کوئی موجود نہیں تھا مسلمانوں کی ھجرت کا یہ واقعہ رجب سن پانچ نبوی میں پیش آیا تھا یہاں تک کہ ایک افواہ ان کے پاس پہنچی کہ قریش اور مسلمانوں میں صلاح ہو گئی ہے قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کو جو حبشہ میں تھے جب یہ اطلاع ملی تو یہ بہت خوش ہوئے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک دفعہ مسجدالحرام میں سورتہ النجم کی تلاوت کی اور اس میں جب سجدے کی آیت پر پہنچے آخری آیت پر تو آپﷺ نے سجدہ کیا تو قریش بھی بے اختار سجدے میں گر پڑے یعنی قرآن کی عظمت کے اعتراف کے طور پر بلکہ قرآن نے انہیں اس قدر متاثر کر دیا تھا ان کا اپنے آپ پر قابو نہیں رہا رسولﷺ نے سجدہ کیا تو وہ لوگ بھی سجدے میں گر پڑے اور بعد میں بہت شرمندہ ہوئے اور پھر سے مسلمانوں کو ستانا شروع کر دیا لیکن حبشہ میں یہ واقعہ اس طرح پہنچا تھا کہ قریش مسلمان ہو چکے ہیں انھوں نے صلاح کر لی ہے لہٰذا وہ خوش ہوئے اور انھون نے مکہ واپسی کا ارادہ کیا جب قریب پہنچے تو پتہ چلا قریش مسلمان نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ ابھی بھی اپنے کفر و نافرمانی پر قائم ہیں اس کے بعد وہ گھبرا گئے کہ اب کیا کریں اب پھر سے مکے میں داخل ہونا ان کے لئے اور بھی مشکل تھا کیونکہ مکے والے جب انہیں پکڑیں گے تو پہلے سے زیادہ تنگ کریں گے یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک نے قریش کے ایک آدمی کی پناہ لی اور ان کی پناہ میں وہ مکے میں داخل ہوئے وہ حبشہ میں کچھ مہینے یا ایک سال رہے لیکن تاریخ میں اس کو بہت ہی اہم واقعہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت تھی اور یہ اس بات لی علامت تھی کہ مسلمان اسلام کے بارے میں بہت مخلص ہیں اور اس سلسلے میں ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں اپنے عقیدے کی حفاظت کے لیے وہ چاہے اپنے ملک کو چھوڑنا پڑے وہ چھوڑ دیں گے تکلیفیں اور مشکلات سہنا پڑے تو وہ برداشت کریں گے یہ علامت تھی کہ مسلمان ہر حال میں ثابت قدم رہیں گے اور اس بہت ہی مخلص ہیں یہ چیز اچھی طرح مشرکین کو اب معلوم ہو چکی تھی ۔ |
L-16 سيرةالنبى صفہ-2
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
1:اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب کو حبشہ کی طرف ھجرت کا کیون حکم دیا؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ نے جب دیکھا مشرکین بہت تکلیفیں پہنچا رہے ہیں تو آپ ﷺ مشرکین کی تکلیفوں سے، ایذاؤں سے عذاب سے بچانے کے لیے انہیں حبشہ کی طرف ھجرت کی اجازت دی ۔ 2: رسولﷺ نے مسلمانوں کی ھجرت کے لئے حبشہ کو منتخب کیوں کیا تھا؟ جواب: اس لئے کہ وہاں کے لوگ مسیحیت پر تھے اور وہاں جو بادشاہ تھے اصحمہ انصاف پسند اور روادار تھے اور کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے ۔ 3: مسلمانوں نے جب حبشہ کی طرف ھجرت کی تو اس وقت وہاں کون حکومت پر تھے؟ جواب: وہاں اس وقت نجاشی بادشاہ اصحمہ تھے۔ 4: حبشہ کی طرف پہلی ھجرت کرے والوں کی تعداد کتنی تھی؟ اور مسلمانوں نے کس طرح حبشہ کی طرف ھجرت کی؟ جواب: مسلمانوں کی ھجرت اولا جو ہوئی تھی اس میں ان کی تعداد کل سولہ افراد تھے بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں ۔ مسلمانوں چپکے سے چھپتے چھپاتے نکلے اور بحر احمر کے پاس پہنچے تو وہاں انہیں کشتی ملی اور کشتی کے ذریعے حبشہ پہنچ گئے ۔ 5: مسلمان حبشہ سے کیوں واپس ہوئے؟ حبشہ سے آنے والے مکہ میں کیسے داخل ہوئے؟ جواب : مسلمان حبشہ سے اسی لئے واپس آئے کہ انہیں یہ خبر پہنچی تھی کہ قریش مسلمان ہو گئے ہیں یا انھوں نے رسولﷺ کے پاس صلاح کر لی ہے ۔ ان میں سے ہر آدمی نے مکے کے کسی شخص سے پناہ لی اور ان کی حفاظت میں وہ مکہ میں داخل ہوئے۔ 6: حبشہ کی پہلی ھجرت کب ہوئی تھی؟ ھجرت کرنے والوں میں بعض لوگ کون تھے؟ جواب: رجب سن پانچ نبوی میں ہوئی تھی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی بیوی اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا ، زبیر ابن عوام، عبدالرحمن بن عوف، عبد اللہ بن مسعود، ابو سلمہ اور ان کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین |
L-17 سيرةالنبى صفہ-1
|
الهجرة الثانية إلى الحبشة
حبشہ کی جانب دوسری ہجرت پہلی ہجرت کے موقع پر اس بات کا ذکر آتا تھا کہ مہاجرین جنھوں نے حبشہ کی جانب پہلی ہجرت کی تھی ان کے پاس یہ افواہ پہنچی کہ قریش مسلمان ہو چکے ہیں یا انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے صلح کر لی ہے تو یہ واپس آ گئے تھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ خبر غلط تھی اور اس کے بعد وہ قریش کے کچھ لوگوں کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے جب مکہ پہنچے تو قریش کا ظلم و پہلے سے بڑھ گیا اور وہ بہت زیادہ انہیں ستانے لگے اور انہیں بہت تکلیفیں دینے لگے تو اللہ کے رسولﷺ نے انہیں دوسری مرتبہ بھی حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کی اجازت دی دوسری مرتبہ جو ہجرت کی یہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک تھی قریش چوکنا ہو چکے تھے لیکن پھر بھی اللہ تبارک و تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد کی مسلمان اپنے دین کے معاملے میں بہت ہی سنجیدہ ثابت ہوئے اور حبشہ کی جانب دوسری ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے دوسری ہجرت جن لوگوں نے کی ان کے ناموں کی تفصیل بہت زیادہ ہے اتنا کافی ہے اس میں 83 مرد شامل تھے 19 عورتیں تھیں جس میں 12 قریش کی تھیں باقی دوسرے قبائل کی عورتیں تھیں انھوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور وہاں کے بادشاہ کی وجہ سے سکون سے وہاں رہنے لگے لیکن مکے کے کافروں کو یہ بات پسند نہیں آئی انہیں اس بات پر بہت غصہ تھا کہ یہ لوگ ہمارے ظلم و ستم سے بچ کر کیسے حبشہ کی جانب چلے گئے لہذا انہیں چین نہیں آ رہا تھا تو انھوں نے نجاشی کے پاس دو آدمیوں کو بھیجا سفیر کے طور پر اس لئے کہ وہاں پہنچ کر وہاں کے بادشاہ سے ان کے بارے میں بات کریں یہ دونوں نمائندے تھے عمرو بن العاص ، اور عبداللہ بن ابي ربیعة پہنچ کر سب سے پہلے بطارقوں کے پاس پہنچے اور انہیں ھدیئے پیش کئے وہ ان کی تائید کرنے کے لئے تیار ہو گئے پھر وہ بادشاہ کے پاس پہنچے اور بادشاہ سے کہنے لگے آپ کے پاس ہمارے ملک مکے سے کچھ ناسمجھ نوجوان آ چکے ہیں جنھوں نے اپنے قوم کے دین کو چھوڑا ہے اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک نیا دین لے کر آئے ہیں ہماری قوم کے جو اشراف ہیں باپ دادا اور قبیلے والوں نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں ہمارے ساتھ واپس کر دیں وہ ان کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں وہ ان کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں جب انھوں نے یہ باتیں کہیں تو بطارقة جو پہلے ہی سے اس بات پر اتفاق کر چکے تھے کہ بادشاہ کے پاس وہ ان کی تائید کریں گے وہ لوگ کہنے لگے کہ ہاں مکے والوں کے پاس ان کو واپس کر دینا چائیے لیکن نجاشی انصاف پسند تھا اس نے کہا جب تک میں ان سے بات نہیں کر لوں گا جو میرے پاس آئے ہوئے ہیں اس وقت تک میں فیصلہ نہیں کروں گا لہٰذا ایک آدمی کو بھیج کر انہیں بلایا وہ جب پہنچے اور داخل ہوئے تو بادشاہ نے پوچھا یہ کون سا دین ہے جس کی وجہ سے تم اپنی قوم سے الگ ہو چکے ہو نہ تو تم میرے دین میں داخل ہوئے اور نہ ہی جو دین پائے جاتے ہیں ان میں کسی اور دین کو بھی قبول نہیں کیا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسلمانوں کی کامیابی نمائندگی کی یہ مسلمانوں کے سفیر تھے انھوں نے سب سے بہترین ترجمانی کی اور اپنی بات کو رکھا وہ کہنے لگے " اے بادشاہ ہم ایک جاھل قوم تھے بتوں کی پوجا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے، رشتوں کو توڑتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے، ہم میں سے جو طاقتور ہوتا وہ ضعیف کو ستاتا تھا اسے تنگ کرتا تھا اس کے حق کو ہضم کرتا تھا ہم اس ضمن میں تھے کہ اللہ تعالٰی نے ہم میں سے ایک ادمی کو بھیجا ان کی صداقت کا ہمیں اعتراف تھا ان کی امانت کے سلسلے میں ہم پوری طرح پر امید تھے اور ان کی پاکیزگی اور عفت ہمیں اچھی طرح معلوم تھی انہوں نے ہمیں اس بات کی دعوت دی کہ ہم اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ایک اللہ کی عبادت کریں اور تمام بت جن کو ہمارے آباد و اجداد پوجتے آئے ہیں ان پتھروں اور بتوں کو ہم چھوڑ دیں اور انھوں نے ہمیں حکم دیا اچ بولنے کا امانتوں کو ادا کرنے کا رشتوں کو جوڑنے کا پڑسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا اور برے کاموں سے بعض آنے کا فواحش سے بے حیائی سے ہمیں روکا جھوٹ بولنے سے منع کیا یتیم کے مال کھانے سے منع کیا اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے ہمیں منع کیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ‘ |
L-17 سيرةالنبى صفہ-2
|
اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام کی صفات کو اسلام کے امور کو اسلام کی تعریف کو اسلام کے اوصاف کو اچھی طرح گنوایا اس کے بعد کہنے لگے ہم نے ان کی تصدیق کی جو ہمارے پاس بھیجے گئے نبی بنا کر ان کی پیروی کی ایک اللہ کی عبادت کی اس کے ساتھ ہم نے کسی کو شریک نہیں کیا ہماری قوم والوں نے جب ہم پر ظلم کیا ہمیں ستایا اور ہمیں تنگ کیا ہمارے اور ہمارے اس دین کے درمیان حائل ہو گئے ہم آپ کے ملک میں آ گئے اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو منتخب کیا دوسرے ملکوں کو چھوڑ کر آپ کے ملک کو منتخب کیا اور آپ کے پڑوس میں آپ کے سائے میں آپ کے ملک میں پناہ لی اس امید سے کہ ہم پر کوئی ظلم نہیں ہو گا نجاشی نے جب یہ باتیں سنی تو اس نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ تمھارے پاس نبی جو کچھ لے کر آئے ہیں اس میں کوئی چیز ہے جس کو تم پڑھ کر سنا سکو تو جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا ہاں تو اس کے بعد سورتہ مریم: 19کی ابتدائی آیتیں انھوں نے پڑھیں جب ((فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا (29) قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (30) وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31))) ترجمة:-مریم علیہ السلام جب عیسی علیہ السلام کو لائیں لوگوں نے سوال کیا تو مریم علیہ السلام نے بچے کی طرف اشارہ کیا تو انھوں نے کہا ہم بچے سے کیسے بات کریں تو عیسی علیہ السلام نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں اللہ تعالٰی نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا اور مجھے مبارک بنایا برکت والا بنایا اور مجھے نماز روزے اور زکوة کی وصیت کی جب تک میں زندہ رہوں زندگی بھر " یہ معجزہ تھا اللہ تبارک و تعالٰی کا کہ اس بچے نے گفتگو کی آگے جو اس بچے کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کیا ہے جب اس آیت پر پہنچے تو نجاشی نے جب یہ باتیں سنی نجاشی کے بطارقہ نے بھی یہ باتیں سنی یہ کلام انجیل کی تصدیق کرتا ہے بہت متاثر ہوئے بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کی اس قدر متاثر ہوئے کہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئی یہاں تک کہ نجاشی بھی رویا اس کے بعد نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور وہ کلام جو کہ موسی علیہ السلام لے کر آئے تھے ایک ہی شمع دان سے نکلا ہوا کلام ہے یہ بھی نبی ہیں جیسا کہ موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام نبی تھے پھر نجاشی نے عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ سے کہا تم دونوں واپس چلے جاؤ اللہ کی قسم میں کبھی بھی ان لوگوں کو تمھارے حوالے نہیں کروں گا اس کے بعد نجاشی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ تم جاؤ اور امن و امان کے ساتھ رہو ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور وہ سن سات ہجری تک حبشہ میں امن و امان کے ساتھ رہے جب اللہ کے رسولﷺ مدینہ پہنچے تب بھی یہ وہیں پر تھے سن سات ہجری میں وہ اللہ کے رسولﷺ مدینہ پہنچے اللہ کے رسولﷺ نے جب مکے والوں کے ساتھ صلح کر لی جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں تو رسولﷺ نے اطمینان کے ساتھ بادشاہوں کے نام خطوط بھیجے اسی موقع پر نجاشی کو بھی خط لکھا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہیں اس بات کا بھی کہا کہ ام حبیبہ ابی سفیان ابو سفیان کی بیٹی رضی اللہ تعالٰی عنھا جو کہ حبشہ میں رہتی تھیں اور وہ اپنے شوہر عبید اللہ ابن جحش کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ پہنچیں تھیں لیکن عبید اللہ نصرانی بن گئے اسی پر ان کا انتقال بھی ہو گیا تو یہ بیوہ ہو گئی تھیں یہ مکے کے سردار ابو سفیان کی بیٹی تھیں رسولﷺ نے جو خط نجاشی کو لکھا اس میں اس بات کا بھی ذکر تھا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا نکاح رسولﷺ سے کرا دیں اور تیسری بات یہ تھی کہ جتنے بھی مسلمان ہیں ان کو مدینہ روانہ کر دیں نجاشی نے اللہ کے رسولﷺ کا خط پڑھا تو اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگے میرے پاس قوت ہوتی یہ ممکن ہوتا تو میں اللہ کے رسولﷺ کے پاس ضرور پہنچتا پھر اللہ کے رسولﷺ کا نکاح ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے ساتھ کرایا اسی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نکاح میں وکیل بنانا جائز ہے ولی نہ ہو تو ولی اپنی طرف سے وکیل بنا سکتا ہے اور رسولﷺ کی طرف سے ان کو مہر بھی ادا کیا 400 دینار دیئے اس کے بعد رسولﷺ کے صحابہ کو دو کشتیوں میں سوار کر کے مدینہ بھیج دیا نجاشی کی وفات پر رسولﷺ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اپنے صحابہ کے ساتھ یہ ہی غائبانہ نماز جنازہ ہے جو رسولﷺ کے دور میں نجاشی کی پڑھی گئی۔
|
L-17 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
سوال1: حبشہ کی جانب دوسری ہجرت کرنے والے مردوں کی تعداد کتنی تھی اور عورتوں کی تعداد کتنی تھی؟ جواب: مردوں کی تعداد 83 تھی اور عورتوں کی تعداد 19 تھی جس میں 12 قریش کی تھیں اور باقی سات دوسرے قبیلے کی تھیں ۔ سوال2: قریش کا وفد جو نجاشی کے پاس پہنچا تھا ان میں کون تھے؟ اور اس وفد کی کیا زمہ داری تھی؟ جواب: عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ سے بات کر کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ واپس لے جائیں ۔ سوال 3: قریش کے وفد نے نجاشی کے بطارقة کو کیا پیش کیا اور کس لئے ؟ جواب: انھوں نے بطارقة کو قیمتی ھدیہ پیش کیئے تاکہ بطارقة بادشاہ کے پاس ان کی تائید کریں اور بادشاہ کو راضی کریں ۔ سوال 4: قریش کے وفد نے نجاشی سے کیا کہا؟ اور ان سے کس بات کا مطالبہ کیا؟ کیا نجاشی نے ان کے اس مطالبے کو قبول کر لیا؟ اور کس لئے؟ جواب: (1)قریش نے کہا ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان آپ کے ملک میں آ چکے ہیں انھوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا ہے اور آپ کے دین میں بھی شامل نہیں ہوئے بلکہ ایک نیا دین لائے ہیں ہمارے قریش کے لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں واپس کر دیں (2) انھوں نے مطالبہ کیا جو مسلمان حبشہ آئے ہیں انہیں مکہ لوٹا دیں ۔ (3) نجاشی نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا ۔ (4)اس لئے کہ اس نے کہا کہ میں تحقیق کروں گا مسلمانوں سے بات کرنے کے بعد فیصلہ کروں گا ۔ سوال 5: نجاشی نے مسلمانوں سے کس چیز کے بارے میں سوال کیا؟ اور جعفر ابن ابی طالب نے کیا جواب دیا؟ نجاشی نے پوچھا یہ کون سا دین ہے جس میں تم داخل ہوئے ہو تم نے اپنے باپ دادا کے دین کو بھی چھوڑ دیا اور ہمارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے یہ کون سا دین ہے - جعفر رضی اللہ عنہ نے کافی تفصیل سے جواب دیا جواب🏻 اوپر ہے۔ سوال6: قرآن کی وہ آیتیں ذکر کیجئے جو جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے سامنے پڑھی تھی؟ جواب: سورتہ مریم کی ابتدائی آیتیں 29 - 31 تک ۔ سوال 7: نجاشی نے اور بطارقة نے قرآن مجید سننے کے بعد کیا کہا؟ جواب: وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے یہ کلام اور وہ کلام جو موسی علیہ السلام لے کر آئے تھے ایک ہی شمع دان سے نکلا ہوا ہے ۔ سوال 8: 1قریش کے وفد سے نجاشی نے کیا کہا؟ جواب: نجاشی نے کہا تم لوگ واپس چلے جاؤ میں اللہ کی قسم ان لوگوں کو تمھارے پاس نہیں بھیجوں گا۔ سوال 8: 2نجاشی نے مہاجرین سے کیا کہا؟ جواب: نجاشی نے مہاجرین سے کہا تم لوگ اطمینان اور آزادی سے رہو ۔
سوال 8: 3 کب تک قیام کیا مہاجرین نے حبشہ میں؟
جواب: سن 7 ہجری تک قیام کیا۔ سوال 9 : اللہ کے رسولﷺ نے نجاشی سے کیا طلب کیا؟ جواب: رسولﷺ نے تین چیزیں طلب کی ایک تو یہ کہ وہ اسلام قبول کریں دوسرا یہ کہ ام حبیبہ ابی سفیان رضی اللہ کا نکاح رسولﷺ سے کر دیں اور تیسرا یہ کہ مسلمانوں کو مدینہ بھیج دیں ۔ سوال 9: 2 نجاشی نے اللہ کے رسولﷺ کے مطالبے کے جواب میں کیا کیا؟ جواب: نجاشی نے اسلام قبول کیا اور دوسرا ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا نکاح رسولﷺ سے کر دیا اور 400 دینار رسولﷺ کی طرف مہر بھی ادا کیا تیسرا یہ کہ مسلمانوں کو دو کشتوں میں سوار کر کے مدینہ بھیج دیا ۔ سوال 9 : 3 نجاشی کی موت کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے کیا کیا ؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ نجاشی کی موت کے بعد صحابہ کو لے کر نکلے اور ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی |
L-18 سيرةالنبى صفہ-1
|
مقاطعة قريش لبنى هاشم و خبر الصحيفة و نقضها::
قریش کی جانب سے بنو ہاشم کا بائیکاٹ اور صحیفے کی خبر ، اور اس کو توڑنا۔ جیسے جیسے اللہ کے رسولﷺ کی دعوت میں ترقی ہو رہی تھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اسی طرح قریش کی دشمنی میں اضافہ ہو رہا تھا وہ غم اور غصے سے پاگل ہوتے جا رہے تھے اس کے بعد چند ایسے واقعات پیش آئے جس سے وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئے حمزہ اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما مسلمان ہوئے کئی بار انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ سمجھوتا کرنے کی کوشش کی کچھ باتیں آپ ہماری ماں لیں کچھ باتیں ہم آپ کی ماں لیں گے جو چائیے ہم آپ کو دے دیں گے آپنی دعوت سے رک جائیں وغیرہ وغیرہ کئی باتیں انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے سامنے پیش کی لیکن اللہ کے رسولﷺ نے کسی بات کو تسلیم نہیں کیا انھوں نے بنو ہاشم اور بنو مطلب سے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ خاص طور پر ابو طالب سے جو اللہ کے رسولﷺ کو باقاعدہ طور پر آپ کی آپ اور سپورٹ فرائم کر رہے تھے ان سے مطالبہ یہ تھا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں وہ جو چاہے کریں ابو طالب تیار نہیں ہوئے اور انھوں نے مکمل طور پر اللہ کے رسولﷺ کی حمایت کی یعنی قریش اور بنو مطلب اور بنو ہاشم کے لوگوں نے سوائے ابولہب کے اس بدبخت کے علاوہ وہ بنو ہاشم کا تھا پھر بھی ان کے خلاف تھا بنو ہاشم اور بنو مطلب کے لوگوں نے خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ہوں مکمل طور پر رسولﷺ کا ساتھ دیا ان کی وجہ سے قریش بہت زیادہ غصے میں آ گئے تو انھوں نے اس کے بعد جب دیکھا حبشہ کے مسلمان بھی آرام سے ہیں وہاں کے بادشاہ نے بھی انکار کر دیا تو انھوں نے سوچا کوئی ایسا کام کرنا چائیے جس سے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو نقصان پہنچایا جائے لہذا یہ سارے قبائل آپس میں جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ لوگ ایک صحیفے میں اس بات کا معائدہ لکھیں گے کہ وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا بائیکاٹ کر دین گے اس کے بعد اس معاہدے کو کعبہ اللہ پر لٹکائیں گے تاکہ اس کا سب احترام کریں تو لہٰذا انھوں نے معائدہ لکھا اس میں یہ بات شامل تھی بنو مطلب اور بنو ہاشم کو نہ کوئی اپنی لڑکی دے گا نہ ان کی لڑکیوں سے نکاح کرے گا خرید و فروخت نہیں کریں گے ان سے میل جول نہیں رکھیں گے اور ان سے کسی بھی حال میں کوئی معاملہ نہیں کریں گے اور ان پر کسی بھی طرح سے رحم نہیں کریں گے یہاں تک کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کو ان کے حوالے نہ کر دیں قتل کرنے کے لیے اس بات پر وہ لوگ متفق ہوئے اس پر انھوں نے باقاعدہ معائدہ کیا اس کے بعد انھوں نے ان باتوں کو صحیفے میں لکھا اور اس صحیفے کو کعبہ اللہ میں لٹکا دیا یہ واقعہ محرم کے مہینے میں پیش آیا تھا سن 7 نبوی میں ۔ بنو ہاشم اور بنو مطلب پر مصیبتیں ٹوٹ پڑی کیونکہ کھانے پینے کی کوئی چیز انہیں فروخت نہیں کرتے تھے اور ان سے کوئی میل جول نہیں رکھتے تھے مشرکین نے مکمل طور پر ان کا بائیکاٹ کیا کوئی چیز انہیں بیچتے نہیں تھے کوئی چیز خریدتے نہیں تھے یہاں تک کہ باہر سے جو لوگ آتے قریش کی چیزوں کو خرید لیتے بہت زیادہ قیمتیں دے کر یہ انہیں خرید نہیں سکتے تھے جو کچھ تھوڑی بہت ان کے پاس غذا تھی وہ دنوں میں ختم ہو گئی اس کے بعد یہ لوگ بہت پریشان ہوئے شعب ابي طالب یعنی ابو طالب کی گھاٹی میں یہ عملا محصور ہو گئے تن تنہا جو کچھ بھی غلہ تھا سب ختم ہو گیا یہاں تک کہ وہ لوگ چمڑے اور درخت کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے بچے عورتیں روتی تھیں لیکن کوئی ان کے اوپر رحم نہیں کرتا تھا کچھ لوگ ایسے تھے جو چھپے طور پر تھوڑا بہت غلہ انہیں پہنچا دیتے تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھوک کی وجہ سے یہ سب کے سب مر جاتے لیکن اللہ کا فضل تھا کچھ لوگ ایسے تھے چھپ کر غلہ پہنچاتے تھے یہاں تک کہ تین سال گزر گئے اللہ کے رسولﷺ کے پاس جو کچھ بھی تھا سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس جو کچھ بھی تھا سب کے خرچ ہو گیا ابو طالب نے بھی سب کچھ خرچ کر دیا یہاں تک کہ نوبت فاقے تک پہچ گئی تھوڑا بہت غلہ جو چوری سے پہنچتا تھا وہ بہت کم تھا۔ اس دوران اللہ تبارک و تعالٰی نے قریش کے کچھ عقل مند نوجوان کو اس بات کی توفیق دی کہ قریش کے خلاف کھڑے ہوں کچھ نوجوان نے فیصلہ کیا کہ یہ ظلم بنی ہاشم اور بنو مطلب پر ہو رہا ہے وہ ختم ہونا چاہیے ان میں سب سے اہم کارنامہ جنھوں نے انجام دیا ھشام بن عمرو نے جو چھپے طور پر شعب ابی طالب میں غلہ پہنچایا کرتے تھے |
L-18 سيرةالنبى صفہ-2
|
بنو ہاشم اور بنو مطلب کو انھوں نے سب سے اہم رول ادا کیا وہ زھیر بن امیة مخزومي کے پاس پہنچے ان کی والدہ عاتکہ بنت عبد المطلب تھیں ابو طالب ان کے ماموں تھے ھشام زھیر کے پاس پہنچے کہنے لگے یہ بات تمھے اچھی لگتی ہے کہ ہم آرام سے کھائیں پیئیں اور تمھارے ماموں اور ان کے رشتے دار بری حالت میں رہیں تو زھیر نے کہا میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں اگر میرے ساتھ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو میں اس معائدے کو پھاڑنے کی کوشش کرتا اس صحیفے کو چاک کرنے کی کوشش کرتا تو ھشام نے کہا میں تمھارے ساتھ ہوں تو زھیر نے کہا کہ کوئی دوسرا آدمی بھی ہے تو انھوں نے تلاش کیا تو کہا ہاں ابو البختري بن ھشام بھی ہمارے ساتھ ہیں تو انھوں نے کہا کہ کوئی چوتھا آدمی بھی ہمارے ساتھ ہے تو انھوں نے کہا زمعة بن الاسود ہے تو انھوں نے کہا کہ کوئی پانچواں بھی ہمارے ساتھ ہے تو انھوں نے کہا ہاں المطعم بن عدي ہیں یہ لوگ کعبہ اللہ میں جمع ہو گئے تو انھوں نے اس صحیفے کو چاک کرنے کا فیصلہ کیا یہ پانچ افراد ہیں زھیر نے کہا کہ سب سے پہلے میں اس بارے میں بات کروں گا اس کے بعد صبح کعبہ اللہ میں پہنچے کعبہ اللہ کے مختلف علاقے میں قریش کے مختلف لوگ بیٹھے ہوئے تھے زھیر نے سب سے پہلے کعبہ اللہ کا طواف کیا اور قریش کو خطاب کیا کہ یہ بات ہوئی کہ ہم آرام سے کھاتے ہیں پیتے ہیں پہنتے ہیں اور بنو ہاشم ہلاکت کے قریب پہنچ چکے ہیں اللہ کی قسم میں خاموش نہیں رہوں گا اس وقت تک جب تک اس ظالم صحیفے کو چاک نہ کر دوں ابو جہل وہیں بیٹھا تھا اور کہنے لگا تم جھوٹ کہتے ہو تم اس صحیفے کو چاک نہیں کر سکتے زھیر وغیرہ پہلے سے ہی آپس میں طے کر چکے تھے زمعة نے ابو جہل سے کہا اللہ کی قسم تم جھوٹ کہتے ہو جب یہ صحیفہ لکھا جا رہا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہیں تھے اتنے میں ابو البختري جو ان کا ساتھی تھا اس نے کہا ہاں زمعة سچ کہتے ہیں جب یہ لکھا جا رہا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہیں تھے ہم نے اس کا اقرار نہیں کیا تھا المطعم بن عدی نے کہا جو ان کا ساتھی تھا کہ ہاں تم دونوں سچ کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ جھوٹا ہے جو کچھ بھی اس میں لکھا ہے ہم اس سے برات کا اظہار کرتے ہیں ھشام بن عمرو نے بھی ایسی ہی بات کہی پانچوں نے ایک دوسرے کی تائید کی ابو جہل سمجھ گیا اس نے کہا ہاں یہ تو وہ چیز لگتی ہے جس کے بارے میں تم لوگوں نے آپس میں معاہدہ کر رکھا ہے اور یہاں آ کر اس طرح کی باتیں کر رہے ہو ۔
اتنے میں اللہ کے رسولﷺ کو اللہ تعالٰی نے ایک اہم بات کی خبر دی اللہ کے رسولﷺ اپنے چچا ابو طالب کے پاس پہنچے ادھر ہی جہاں یہ واقعہ ہو رہا تھا ادھر ہی یہ بات ہوئی کہ اللہ کے رسولﷺ اپنے چچا کے پاس پہنچے وہ بھی کعبہ اللہ میں کہیں تھے رسولﷺ نے ابو طالب کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے اس صحیفے پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور دیمک صحیفے کی ساری باتوں کو چاٹ گئی ہے اس میں سوائے اللہ تبارک و تعالٰی کے نام کے کوئی چیز باقی نہیں ہے جو کچھ ظلم کی باتیں اور بہتان تھا بائیکاٹ کی باتیں تھیں اسے دیمک کھا گئی ہے ابو طالب نے رسولﷺ سے پوچھا آپ نے رب نے اس بات کی خبر دی ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ ہاں ابو طالب تیزی کے ساتھ قریش کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ اس صحیفے کو دیمک نے ختم کر دیا ہے تم اس بات کی تحقیق کرو اگر یہ سچ ہے جو میرے بھتیجے نے کہا ہے تو اس کے بعد بائیکاٹ کو ختم کر دو اگر وہ جھوٹے ہیں تو ہم ان کے اور تمھارے درمیان میں حائل نہیں ہوں گے تم جو چاہے کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہاں یہ انصاف کی بات ہے جب انھوں نے کعبہ اللہ کو کھولا اور اندر پہنچے تو دیکھا کہ واقعی اس صحیفے کو دیمک ختم کر چکی تھی اس میں سوائے اللہ تبارک و تعالٰی کے نام کے اور بسم اللہ اللہم اور جہاں جہاں اللہ کا نام تھا وہی باقی تھا باقی سب چیزیں ختم ہو چکی تھیں اتنے میں یہ نوجوان آگے بڑھے انھوں نے اس صحیفے کو لیا اور چاک کر دیا اس طرح بنو ہاشم اور بنو مطلب اس گھاٹی میں ظلم و ستم کے ساتھ قید تھے باہر نکلے ان کا بائیکاٹ ختم ہو گیا اور پھر سے ان کی کوششیں اور نقل و حرکت شروع ہو گئی سن 10 نبوی میں یہ لوگ یہاں سے نکلے تھے گویا تین سال کا عرصہ رہا اس کے چھے مہینے کے بعد ایک افسوس ناک واقعہ یہ ہوا کہ ابو طالب کا انتقال ہو گیا افسوس ناک اس حیثیت سے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کا بہت زیادہ سپورٹ کر رہے تھے بلکہ قلعہ بنے ہوئے تھے- |
L-18 سيرةالنبى صفہ-3
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے: سوال 1: قریش بنو ہاشم کے بائیکاٹ پر کس لئے متفق ہوئے؟اور کب بنو ہاشم کا بائیکاٹ ہوا تھا؟ جواب: قریش بائیکاٹ پر اس لئے متفق ہوئے انھوں نے دیکھا لوگ مسلمان ہوتے جا رہے ہیں اور کچھ لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی وہ لوگ سکوں کے ساتھ ہیں اور رسولﷺ قریش کی کسی پیشکش کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بنو ہاشم اور بنو مطلب رسولﷺ کا مکمل سپورٹ کر رہے ہیں اور اللہ کے رسولﷺ کو ان کے حوالے نہیں کر رہے ہیں اس لئے انھوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کا بائیکاٹ سن سات نبوی محرم کے مہینے میں ہوا تھا ۔ سوال 2 : بنو ہاشم کا بائیکاٹ کتنے سال جاری رہا؟ جواب: تین سال جاری رہا۔ سوال 3: جن کا محاصرہ ہوا تھا انھوں نے کہاں پناہ لی تھی؟ اور ان کا حال کیسا تھا؟ جواب: جن کا محاصرہ ہوا انھوں نے شعب ابي طالب میں پناہ لی تھی (ابو طالب کی گھاٹی) وہاں ان کا حال سخت بھوک اور فرق و فاقہ تک پہنچ چکا تھا ۔ سوال 4: بائیکاٹ کے فترے میں کن لوگوں نے اپنا مال خرچ کیا ؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور ابو طالب نے اپنا سارا مال خرچ کیا۔ سوال 5: محصور کھانا کیسے حاصل کرتے تھے؟ جواب: قریش کے کچھ لوگ چوری چھپے ان تک پہنچا دیتے تھے۔ سوال 6: بائیکاٹ کا صحیفہ کہاں رکھا گیا تھا اور کون اس صحیفے کو چاک کرنے پر متفق ہوئے تھے؟ جواب: بائیکاٹ کا صحیفہ کعبہ اللہ کے اندر رکھا گیا تھا اور اس صحیفے کو چاک کرنے پر پانچ آدمی متفق ہوئے تھے ھشام بن عمرو، زھیر بن امیہ بن المخزومي، ابو البختري بن ھشام ، زمعة بن الاسود، اور المطعم بن عدی ۔ سوال 7: وہ جماعت جس نے صحیفہ ختم کرنے کو کہا تھا انھوں نے کیا کہا؟ جواب: انھوں نے کہا یہ ظلم و ستم کی بات ہے ہم لوگ کھائیں پیئیں سکوں سے کپڑے پہنیں بنو ہاشم ظلم و ستم کے ساتھ رہیں ۔ سوال 8: ابو جہل نے صحیفے کو رد کرنے کے بارے میں کیا کہا؟ جواب: اس نے کہا یہ صحیفہ چاک نہیں کیا جائے گا ۔ سوال 9: رسولﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کو کس بات کی خبر دی؟ جواب: رسولﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کو اس بات کی خبر دی کہ دیمک اس صحیفے کو کھا گئی ہے ۔ سوال 10: کیا دیمک سارے صحیفے کو کھا گئی تھی؟ قریش کی اس جماعت نے صحیفے کے ساتھ کیا کیا؟ جواب: دیمک سارے صحیفے کو کھا گئی تھی سوائے اس مقامات کے جہاں اللہ تبارک و تعالٰی کا نام لکھا ہوا تھا ۔ قریش کی اس جماعت نے صحیفے کو چاک کر دیا۔ سوال 11: جو محصور تھے وہ اپنے حصار سے کب نکلے؟ جواب: سن دس نبوی میں نکلے تھے ۔ |
L-19 سيرةالنبى صفہ-1
|
وفات أبي طالب ‘ و وفاة السيدة خديجة رضىى الله عنها::
وفات أبي طالب -::ابو طالب جو رسولﷺ کے چچا تھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ رسولﷺ کا دفاع کرنے والے تھے آپ ﷺ کے مدد گار اور آپ ﷺ کے حامی تھے جیسا کہ اس بات کا ذکر آیا بنو ہاشم اور بنو مطلب جب شعب ابی طالب سے باہر نکلے تو اس کے چھے مہینے بعد ابو طالب کا انتقال ہو گیا ابو طالب کی وفات کے بعد قریش نے اللہ کے رسولﷺ کو بہت زیادہ تنگ کرنا شروع کیا ظاہر ہے کہ ابو طالب جیسے اپنے بھتیجے کی حمایت کر رہے تھے جب وہ حمایت ختم ہو گئی اس کے بعد وہ لوگ اللہ کے رسولﷺ کو ستانے لگے اللہ کے رسولﷺ اپنے چچا سے محبت کرتے تھے اس لئے اللہ کے رسولﷺ کو امید تھی کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے وہ ایک والد کی طرح تھے انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی حفاظت کی تھی آپ ﷺ کی پرورش کی تھی لیکن ابو طالب اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے ان کا نفس اس طرف راغب نہیں ہوا کہ وہ اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑیں اور اسلام قبول کر لیں بعثت کے دسویں سال ابو طالب کا انتقال ہوا ہجرت سے تین سال پہلے جیسا کہ مشہور ہے اللہ کے رسولﷺ ابو طالب کی وفات کے وقت پہنچے تھے ابو طالب کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے لیکن اتفاق سے ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ یہ دونوں وہاں موجود تھے اللہ کے رسولﷺ نے ابو طالب سے کہا کہ اسلام قبول کر لو تو یہ دونوں ابو طالب کو عار دلاتے رہے کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دو گے مرتے وقت اللہ کے رسولﷺ نے کہا چچا جان ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ کہ دیجئے جسے میں اللہ کے پاس حجت کے طور پر پیش کروں لیکن ابو طالب کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ میں عبد المطلب کے دین پر مرتا ہوں رسولﷺ کو بہت افسوس ہوا اللہ کے رسولﷺ نے ان کے لئے دعا کی اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں یہ آیت نازل کی کہ مشرکین کی دعا مغفرت کرنا درست نہیں اس کے بعد اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ((إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)) بے شک آپ کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے -
وفاة السيدة خديجة رضىى الله عنها:: " کہا جاتا ہے کہ ابو طالب کی وفات کے تین دن کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا بھی انتقال ہو گیا" سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا رسولﷺ کے ساتھ سب سے مخلص ثابت ہوئیں اور انھوں نے ہر طرح سے اپنے نفس سے اپنے مال سے اللہ کے رسولﷺ کا دفاع کیا وہ آپ ﷺ کا بازو بنی رہیں ہر طرح سے آپ ﷺ کا ساتھ دیا آپ ﷺ کی مدد کی رسولﷺ کو ان دونوں کی وفات پر بہت غم ہوا اور آپ ﷺ اس موقع پر بہت پریشان ہوئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا رسولﷺ کے ساتھ 25 سال رہیں جب ان کا انتقال ہوا تو اللہ کے رسولﷺکی عمر 50 سال تھی اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عمر 65 سال تھی 25 سال تک انھوں نے رسولﷺ کا بہت ساتھ دیا اللہ کے رسولﷺ خود کہا کرتے تھے کہ لوگوں نے جب میرے ساتھ کفر کیا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انھوں نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تو انھوں نے مجھ پر خرچ کیا" صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام پہنچے اور کہنے لگے خدیجہ آپ کے پاس آ رہی ہیں ان کے پاس کوئی سالن یا کوئی مشروب ہے آ جائیں تو انہیں خبر دینا کہ ان کے رب نے انہیں سلام کہا ہے ان کے رب نے انہیں جنت میں موتی کے محل کی خوشخبری دی ہے جس میں نہ کوئی تھکان ہو گئی نہ کوئی شور ہو گا" سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ایک عظیم مثال تھیں رسولﷺ کے لئے جو کچھ بھی انھوں نے قربان کیا اللہ تبارک و تعالٰی کے اس دین کے لئے یقینا ایک مثال ہے اللہ کے رسولﷺ جب ان دو صدموں سے دو چار ہوئے تو یقینا آپ ﷺ کی مشکلات میں بہت اضافہ ہو گیا سب سے زیادہ یہ ہی لوگ آپﷺ کی مدد کرنے والے تھے یہ ہی دفاع کرنے والے تھے گھر کے باہر ابو طالب تھے اور گھر کے اندر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا تھیں رسولﷺ کو ان دونوں سے کافی ڈھارس بندھتی تھی کافی مدد ملتی تھی اس کے بعد رسولﷺ کافی پریشان ہوئے تو عام طور پر سیرت نگار کہتے ہیں اس سال کو عام الأحزان یا عام الحزن یعنی غم کا سال رکھا گیا ۔
|
L-19 سيرةالنبى صفہ-2
|
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے ۔
سوال 1:ابو طالب کا موقف کیا تھا اسلامی دعوت کے بارے میں؟ جواب: ان کا موقف یہ تھا انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کا دفاع کیا اور ہر طرح آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ سوال 2: اسلام میں داخل ہونے سے ابو طالب کیوں باز رہے؟ جواب: اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑنے پر ان کی طبیعت راضی نہیں تھی۔ سوال 3: ابو طالب کی وفات کب ہوئی ؟ جواب: سن دس نبوی میں ۔ سوال 4: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا موقف کیا تھا رسولﷺ کے بارے میں ؟ جواب: اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا موقف یہ تھا انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے لئے اپنے نفس کو اپنے مال کو اپنی ہر چیز کو انھوں نے قربان کیا اور ہمیشہ رسولﷺ کی غم خواری کی اور آپ کا ساتھ دیا ۔ سوال 5: جس سال ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی وفات ہوئی اس سال کو کیا کہا جاتا ہے اور کیوں؟ جواب: اس سال کو عال الأحزان کہا جاتا ہے اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ کو بہت غم ہوا تھا۔ سوال 6: قریش کا جو موقف تھا ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی وفات کے بعد اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں اس کا ذکر کیجئے؟ جواب قریش کا موقف یہ تھا کہ رسولﷺ کو ایذاء پہنچانے میں وہ ہی زیادہ شدید ہو گئے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ کے سر پر مٹی بھی ڈالی ۔ سوال 7 : رسولﷺ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو کن الفاظ سے یاد کرتے تھے؟ جواب: ہمیشہ خیر بھلائی کے ساتھ ان کا ذکر کرتے اور تعریف کرتے ۔ |
L-20 سيرةالنبى صفہ-2
|
رحلة الرسول صلى الله عليه وسلم الی الطائف -20
رسول صلی الله عليه وسلم کا سفر طائف
ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی وفات کے بعد اللہ کے رسولﷺ کے حالات مشکل کا شکار ہو چکے تھے مکے کے لوگوں کی ہمتیں بہت بلند ہو گئی تھیں مسلمانوں کے ساتھ ان کے ظلم و زیادتی میں اضافہ ہو گیا تھا اللہ کے رسولﷺ کے مخالفت بھی بہت تیز ہو چکی تھی اس موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے اس بات کو محسوس کیا کہ اسلام کی دعوت مکے بکے باہر بھی پھیلانے کی ضرورت ہے لہٰذا اللہ کے رسولﷺ نے مکے کے علاوہ دوسری جگہ جانے کا فیصلہ کیا آپ ﷺ طائف گئے جہاں قبیلہ ثقیف رہتا تھا آپ ﷺ مکے سے طائف اس امید سے گئے کہ وہ لوگ آپ کی مدد کریں گے اور آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے آپﷺ کا دفاع کریں گے تاکہ آپﷺ اللہ تعالٰی کے بندوں تک اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچا سکیں اللہ کے رسولﷺ طائف گئے اور آپ ﷺ کے ساتھ زید ابن حارثة رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے طائف پہنچنے کے بعد آپﷺ ثقیف کے سردار کے پاس ان کے اجتماع میں گئے ایک جگہ قبیلہ ثقیف کے سردار جمع تھے آپ ﷺ وہاں پہنچے وہاں ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کو خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے آپ ﷺ انہیں اسلام کی دعوت دینے آئے ہیں اور وہ لوگ آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے اور آپ ﷺکا دفاع کریں گے اور اللہ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے آپ ﷺ کی مدد کریں گے لیکن ان کے سرداروں میں سے تین کے نام تھے عبد یا لیل ، مسعود، حبیب ان تینوں نے اللہ کے رسولﷺ کو بیچ ہی میں ٹوک دیا آپ کی بات مکمل ہونے نہیں دی آپ ﷺ کو جھٹلایا مجلس میں جو لوگ تھے ان کو آپﷺ کے خلاف بھڑکانے لگے اور ان کی قوم میں جو اوباش تھے غنڈے اور بدماش تھے ان لوگوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ جب ان تین سرداروں سے ملے تھے انھوں نے آپﷺ کی دعوت کا انکار کر دیا تھا تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ کم سے کم تم اتنی مدد کرو تم اپنی اس مخالفت کو اپنی حد تک رکھو دوسروں پر اس بار کو ظاہر مت کرو اس کے بعد آپ ﷺ دس دن طائف میں رہے وہاں کے ہر سردار سے ملے وہاں ہر ایک کے سامنے آپﷺ نے اپنی بات پیش کی لیکن ہر ایک نے یہ جواب دیا کہ آپ ﷺ ہمارے شہر سے نکل جائیے ہم آپﷺ کا پیغام قبول نہیں کریں گے یہاں تک کہ انہوں نے شہر کے اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا لہٰذا وہ آپ ﷺ کے پیچھے پڑ گئے آپ ﷺ سے بدکلامی کرنے لگے گالیاں دینے لگے اور آپﷺ پر پتھر برسانے لگے یہ دیکھ دیکھ کر آپﷺ طائف سے بھاگنے لگے آپ ﷺ اور زید ابن حارثة رضی اللہ تعالٰی عنہ آگے آگے تھے اور یہ اوباش پتھر برساتے ہوئے پیچھے پیچھے آ رہے تھے زید بن حارثة رضی اللہ تعالٰی عنہ رسولﷺ کو بچاتے رہے دفاع کرتے رہے آپﷺ کے درمیان میں آتے رہے یہاں تک کہ ان کے سر پر جگہ جگہ چوٹ آ گئی زخمی ہوگئے اللہ کے رسولﷺ بھی اس قدر زخمی ہو گئے کہ آپ کی ایڑیوں میں خون بہنے لگا خون جمع ہو گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ وہاں سے نکلے وہاں سے تین میل دور ایک باغ تھا انگوروں کا وہاں آپ نے پناہ لی انگوروں کا وہ باغ عتبة اور شیبة کا تھا جو ربیعة کے بیٹے تھے یہ مکے کے سرداروں میں تھے اور یہاں ان کا باغ تھا اللہ کے رسولﷺ کو اس حال میں دیکھا تو قومی حمیت غالب آ گئی انھوں نے اپنے غلاموں کے ذریعے جو لوگ پیچھے آئے ہوئے تھے ان کو بھگا دیا اللہ کے رسولﷺ کی حالت پر ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہوئی اور انھوں نے آپنے باغ کے کچھ انگور کا گچھا اللہ کے رسولﷺ کے پاس بھیجا اپنے غلام عداس کے ذریعے اللہ کے رسولﷺ تھکے ہارے وہاں بیٹھ گئے جب انگوار کا گچھا ان کے نصرانی غلام عداس لے کر آئے اور آپ کو پیش کیا تو آپﷺ نے بسم اللہ کہا اور ایک انگور اپنے منہ کی طرف بڑھایا عداس کہنے لگے کہ یہ تو وہ بات ہے جو یہاں کوئی آدمی نہیں کہتا میں نے کسی سے یہ بات نہیں سنی تھی رسولﷺ نے پوچھا تم کون ہو تمھارا دین کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا میرا نام عداس ہے اور میں نینوا کا رہنے والا عیسائی ہوں رسولﷺ نے فرمایا اچھا تم نینوا کے ہو اللہ تعالٰی کے نیک بندے یونس ابن متی کے شہر کے ہو تو وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا آپ ﷺ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ یونس ابن متی علیہ السلام کا شہر ہے رسولﷺ نے فرمایا میں اللہ کا نبی ہوں اور وہ بھی میرے بھائی اللہ کے نبی تھے یہ سن کر وہ آپﷺ کے ہاتھوں اور پیروں کو چومنے لگا دور سے جب عتبہ اور شعبہ نے یہ منظر دیکھا کہ ضرور وہ آپﷺ کی دعوت سے متاثر ہو گیا ہو گا جب وہ ان کے پاس پہنچا تو ساری بات سننے کے بعد انھوں نے کہا دیکھو ہشیار رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمھارا مذہب بدل دے اللہ کے رسولﷺ اس باغ سے نکلے مکہ جانے کے لئے آپ ﷺ مکے سے طائف ایک امید سے آئے تھے کہ شاید یہاں کے لوگ آپﷺ کا ساتھ دیں گے لیکن قبیلہ ثقیف نے آپ ﷺ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ آپﷺ سخت ایذاء پہنچائی آپﷺ پر پتھر برسائے آپ ﷺ خوب آلود ہو گئے اس حالت میں اللہ کے رسولﷺ آگے بڑھے جب رسولﷺ قرن المنازل پہنچے تو وہاں آپ بیٹھ گئے اور وہاں آپ نے یہ مشہور دعا پڑھی جو دعا المستضعفين کمزوروں کی دعا کے نام سے معروف ہے (( اللهم إليك أشكو ضعف قوتي وقلة حيلتي وهواني على الناس يا أرحم الراحمين أنت ربُّ المستضعفين وانت ربّي إلى من تكلني، إلى بعيد يتجهَّمني أم إلى عدو ملكته أمري إن لم يكن بك علىِّ غضبُُ فلا أبالي، ولكنَّ عافَيَتَك أوسعُ لي أعوذ بنور وجهك الذي أشرقت له الظلمات، وصلح عليه أمر الدنيا والآخر ه من أن تُنزل بي غضبك أو يَحِلَّ علىَّ سخطُك لك العتبى حتى ترضى ولا حول ولا قوة إلا بك)) اے اللہ تعالٰی میں اپنی کمزوری کا تجھ ہی سے شکوہ کرتا ہوں اور اپنی بے بسی کا اور لوگوں کے نذدیک اپنی بے قدری کا تجھ ہی سے شکوہ کرتا ہوں اے ارحم الراحمين تو کمزوروں کا رب ہے اور میرا بھی رب ہے مجھے تو کس کے حوالے کر رہا ہے کسی بے گانے کے حوالے جو میرے ساتھ درشتی اور سختی کا معاملہ کرے یا کسی دشمن کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہ ہو تو پھر مجھے کسی چیز کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میں میرے لئے کشادگی ہے میں تیرے چہرے کے نور کی پناہ چائتا ہوں جسے تاریکیاں روشن ہو گئیں اور اس کے ذریعے دنیا اور آخرت کے معاملات اس کے زریعے سے درست ہو گئے اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا مجھ پر تیرا عتاب وارد ہو تیری ہی رضا مندی مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور کوئی قوت اور کوئی زور نہیں مگر تجھ ہی سے یا تیرے ذریعے " رسولﷺ نے یہ دعا کی سیرت کی کتابوں میں تھوڑا اختلاف ہے کہ اللہ کے رسولﷺ یہ دعا اس جگہ کی یا قرن المنازل پہنچ کر کی یا باغ میں کی اس کتاب میں لکھا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دعا باغ میں کی دعا کرنے کے بعد آپ نے انگور کھائے اور تھوڑا سا آرام کیا اس کے بعد آگے بڑے رسولﷺ قرن المنازل پہنچنے کے بعد وادی نخلہ پہنچے تو وہاں بھی آپ نے تین دن قیام کیا یہ ہی وہ مقام ہے جہاں آپ ﷺ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جنوں کی جماعت کا وہاں سے گزر ہوا انھوں نے غور سے تلاوت کو سنا اور بعد میں مکہ پہنچ کر رسولﷺ پر ایمان لائے بظاہر یوں لگتا ہے جنوں نے قرآن سنا اور متاثر ہو گئے لیکن وہاں انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات نہیں کی بلکہ وہ پہنچے اس کے بعد آپ ﷺ کے پاس پہنچ کر اسلام لائے اللہ تعالٰی نے سورتہ الأحقاف اور سورتہ جن میں اس بات کا تفصیل سے ذکر کیا اس کے بعد رسولﷺ مکہ جانے کے بارے میں سوچنے لگے اور آپ اچھی طرح اس بات کو جانتے تھے اب مکہ جانا کتنا زیادہ خطرناک ہے کیونکہ مکے والوں کو اب علم ہو چکا کہ طائف والوں نے آپﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو ظاہر ہے ان کی ہمتیں اور بلند ہو جائیں گی اور ان کا معاملہ آپ ﷺ کے ساتھ زیادہ برا ہو جائے گا لہٰذا رسولﷺ نے سب سے پہلے زید ابن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا تاکہ وہ قریش کے کچھ لوگوں سے پناہ طلب کریں جیسے کہ وہاں قبائلی نظام تھا اور قبائلی نظام میں اگر کوئی شخص کسی کو پناہ دیتا تو تمام شخص اس کو پناہ دینے کے پابند ہوتے تھے اللہ کے رسولﷺ نے اسی نظام کے مطابق قبیلے کے مختلف سرداروں سے اس بات کا مطالبہ کیا وہ اللہ کے رسولﷺ کو پناہ دیں تاکہ آپ مکے میں داخل ہو سکیں بہت سے لوگوں نے انکار کیا یہاں تک کہ مطعم ابن عدي نے رسولﷺ کو پناہ دی مطعم بن عدی اپنے اہل کے ساتھ مسلح ہو کر نکلے رسولﷺ کو اپنے ساتھ لیا آپﷺ کو اپنے گھیرے میں لیا اور مکے میں داخل ہوئے رسولﷺ ان کے ساتھ کعبہ پہنچے انھوں نے آپ ﷺ کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا یہاں تک کہ آپﷺ نے کعبہ کے سات چکر لگائے طواف کیا اس کے بعد آپ ﷺ اپنے گھر کو چلے گئے)) یہ اللہ کے رسولﷺ کا طائف کا سفر ہے مختصر طور پر بنیادی طور پر اللہ کے رسولﷺ کا یہ سفر بہت خطرناک سفر تھا اس سفر میں اللہ کے رسولﷺ مکے سے 60 میل دور گئے تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ آپ ﷺ مکے کے باہر نکلے تھے اللہ تبارک و تعالٰی کے دین کی دعوت دینے کے لیے آپ ﷺ نے یہ سفر پیدل کیا تھا اور پیدل ہی واپس آئے رسولﷺ کے اس سفر میں ہمارے لئے بہت سے سبق ہیں اور جب بہت سی سیرت کی کتابوں میں ذکر ہے کہ جب آپ طائف سے نکلے آپ نے اوپر دیکھا ایک بادل ہے وہ جبریل علیہ السلام تھے انھوں نے کہا میرے ساتھ یہ پہاڑوں کے فرشتے ہیں آپﷺ چاہے تو یہ ان لوگوں کو یعنی مکے والوں کو کیوں کہ ان تکلیفوں کا اصل سبب مکے والے تھے اگر آپﷺ اجازت دیں تو انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دیں اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے بھی یہ بات کی لیکن اللہ کے رسولﷺ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے وہ لوگ نکلیں گے جو اللہ تبارک و تعالٰی کی وحدانیت کی گواہی دیں گے یقینا اللہ کے رسولﷺ کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی
))
اجب عن الاسئلة الاتیة
سوال 1 : مشرکین جو رسولﷺ کی ایذائیں دیتے تھے ان میں کب شدت پیدا ہوئی؟
جواب: ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے انتقال کے بعد مشرکین کی ایذاء میں شدت پیدا ہوئی
سوال 2: اللہ کے رسولﷺ نے طائف میں کن کا قصد کیا کس کے پاس گئے اور انہیں کس چیز کی دعوت دی؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ جو طائف میں سردار تھے ثقیف کے ان کا رخ پہلے کیا اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور آپﷺ کا ساتھ دینے کی دعوت دی۔
سوال 3: رسولﷺ کی دعوت کا وہاں حاضر رہنے والوں نے کس طرح جواب دیا؟
جواب: انھوں نے آپ ﷺ کی تکذیب کی آپ ﷺ کو جھٹلایا اور آپ ﷺ کی بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لوگوں کو آپ ﷺ کے خلاف بھڑکایا اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ۔
سوال 4: رسولﷺ کے ساتھ اس سفر میں کون رفیق تھے؟
جواب: زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
سوال 5: آپﷺ کی واپسی کے وقت پر اوباشوں نے آپ کے ساتھ کیا کیا ؟
جواب: انھون نے آپﷺ کو گالیاں دیں آپ ﷺ پر پتھر برسائے ۔
سوال 6 : رسولﷺ نے کہاں آرام کیا ؟ اور وہ دعا بتائیں جو رسولﷺ نے کی تھی ؟
جواب: رسولﷺ نے عتبہ اور شعبہ کے باغ میں آرام کیا اور دعا اوپر
سبق میں ہے۔
سوال 7 : رسولﷺ نے مکے میں داخل ہونے سے پہلے کیا چیز طلب کی ؟
جواب: رسولﷺ نے پناہ طلب کی کہ مکے کا کوئی سردار آپﷺ کو پناہ دے تاکہ آپ ﷺ مکے میں داخل ہو سکیں ۔
سوال 8: کس نے آپﷺ کی اس طلب کو قبول کیا؟ اور اس نے کیا کیا ؟
جواب: رسولﷺ کی اس طلب کو مطعم بن عدی نے قبول کیا اور وہ مسلح ہو کر اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آپﷺ کے پاس پہنچا آپ ﷺ کو اپنے گھیرے میں لے کر مکے میں داخل ہوا ۔
|
L-21 سيرةالنبى صفہ-2
|
الإسراء والمعراج -21
رات میں چلنا اور اوپر چڑھنا
(الإسراء کہتے ہیں مسجد الحرام سے بیت المقدس کو جانا اور معراج کہتے ہیں بیت المقدس سے آسمانوں پر جانا یہ دونوں ایک ہی ساتھ ہوئے تھے اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا تھا اس میں اختلاف پایا جاتا ہے )
اللہ تعالٰی نے چاہا کہ آپ کو اپنی قدرت کا مشاہدہ کرایا جائے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور آپﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات کا جو غم ہے وہ ہلکا ہو جائے جب آپ طائف سے واپس آئے وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بہت برا معاملہ کیا اور مکے والوں کی ایذائیں بڑھ گئیں ایسے سخت حالات میں اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا اللہ کے رسولﷺ کے دل کو مضبوط کرنے کے لئے اور آپ کی ہمت کو بلند کرنے کے لئے اور آپﷺ کو ثابت قدم رکھنے کے لیے اور ایک لمبے عرصے سے صبر کے ساتھ آپ یہ کام کر رہے ہیں اس میں آپ کی تکریم کرنے کے لیے یہ اسباب تھے جس کے لئے اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ ﷺ کو اپنے پاس بلایا اللہ کے رسولﷺ رات کے وقت مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی پہنچے جسے بیت المقدس کہتے ہیں جو شام میں ہے براق پر آپﷺ سوار ہو کر گئے براق آپﷺ کے لئے لایا گیا تھا یہ سواری لائی گئی تھی اس سفر میں جبریل علیہ السلام آپﷺ کے ہمراہ تھے آپ ﷺ سب سے پہلے بیت المقدس میں رکے وہاں آپﷺ اترے وہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کرائی نماز پڑھائی پھر آپ ﷺ کو وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا اللہ تعالٰی نے وہاں آپ ﷺ سے بات کی اور اس موقع پر اللہ تبارک و تعالٰی نے آپﷺ کی امت پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی جو پہلے پچاس تھیں پھر پانچ ہو گئیں یہ ساری تفصیلات یہاں نہیں ہیں اللہ تعالٰی نے اسراء کا ذکر کیا ہے جبکہ دوسری آیت میں معراج کا بھی ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا سورتہ الإسراء 1(( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)) پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو مسجد الحرام سے بیت المقدس لے گیا جس کے اطراف میں ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہماری آیتوں کا مشاہدہ کرائیں بے شک وہ بڑا سننے والا اور بڑا دیکھنے والا ہے " رات میں یہ واقعہ پیش آیا رسولﷺ رات ہی واپس آ گئے صبح ہوئی تو آپﷺ نے لوگوں کے سامنے ذکر کیا قریش نے انکار کیا ان کو ایک بہانہ مل گیا اللہ کے رسولﷺ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا کیوں کہ مکے سے بیت المقدس جانے کے لئے ایک مہینہ لگتا ہے اور آنے کے لئے بھی ایک مہینہ لگتا ہے آپﷺ کا یہ دعوی تھا کہ یہ دو مہینے کا سفر آپ ﷺ نے صرف ایک رات میں کر لیا ظاہر ہے انسانی عقل تو یہ قبول نہیں کرتی اور وہ لوگ اسی پیمانے کو ناپتے تھے وہی جانتے تھے لہٰذا ان لوگوں نے کہا کے آپ نے ایک ایسی بات کا دعوی کیا ہے جو ممکن نہیں اور کوئی بھی آدمی ہوش و حواس میں اس طرح کا دعوی نہیں کر سکتا کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے رسولﷺ کے دوست ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ان کے پاس گئے اور کہا اگر کوئی اس طرح کی بات کرے کہ وہ رات کو مکہ سے شام گیا اور واپس آ گیا تو آپ اس کی تصدیق کریں گے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں یہ نہیں ہوسکتا لوگوں نے کہا پھر تو آپ کے جو ساتھی ہیں وہ یہ دعوی کر رہے ہیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں وہ سچے ہیں اس لئے کہ وہ اس سے بڑی بات کا دعوی کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ان کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے ہم اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ہر بات کی تصدیق کریں گے تو کہتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسی موقع پر صدیق لقب پڑ گیا انھوں نے رسولﷺ کی پوری طرح تصدیق کی تھی اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے کہا میں حقیقت میں گیا تھا وہ لوگ جانتے تھے اللہ کے رسول سچ کہ رہے ہیں کیونکہ مکہ میں پیدا ہوئے انہی کے درمیان آپﷺ پلے بڑے آپﷺ کہاں گئے کہاں نہیں گئے وہ اچھی طرح جانتے تھے لیکن قریش میں کچھ ایسے لوگ تھے جو اس سے پہلے بیت المقدس جا چکے تھے تو انھوں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ بیت المقدس گئے تھے ہم آپﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں کچھ سوالات کریں گے آپ ﷺ ان کے جوابات دیجئے تاکہ ہم جانچ لیں کے آپﷺ واقعی گئے تھے یا نہیں گئے تھے اللہ کے رسولﷺ رات کے وقت گئے تھے آپﷺ نے وہاں صرف امامت کرائی تھی وہاں کوئی دیکھی نہیں تھی لیکن اللہ تبارک و تعالٰی آپ ﷺ کی آنکھوں کے سامنے بیت المقدس کو کر دیا وہ جو بھی سوال کرتے رسولﷺ بیت المقدس کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر بتا دیتے کہ فلاں چیز فلاں جگہ پر ہے یہاں تک کے آپ ﷺ نے گزرتے وقت ایک قافلہ دیکھا تھا تو یہ بھی بتایا کہ میں جب فلاں جگہ گزرا تھا تو مجھے وہ قافلہ ملا تھا اس کے بعد جب وہ قافلہ واپس آیا تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم فلاں رات کو فلاں مقام پر تھے تو انھوں نے کہا ہاں ہم فلاں مقام پر تھے تو اللہ کے رسولﷺ کی صداقت ثابت ہو گئی لیکن اس کے باوجود بھی کفار کی سرکشی اور کفر کے علاوہ کسی اور چیز میں اضافہ نہیں ہوا۔
اجب عن الاسئلة الاتیة:
سوال 1: الإسراء والمعراج کا واقعہ کب پیش آیا تھا؟ اور اللہ کے رسولﷺ کیسے رات میں تشریف لے گئے؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ کے طائف سے واپس آنے کے بعد الإسراء والمعراج کا واقعہ پیش آیا تھا اور رسولﷺ براق کے ذریعے تشریف لے گئے ۔
سوال 2: رسولﷺ کو الاسرار کے لئے کہاں لے جایا گیا؟ اور معراج کہاں پیش آیا؟
جواب: الإسراء میں مسجد الحرام سے بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا اور معراج میں آسمانوں پر لے جایا گیا ۔
سوال 3: اسراء اور معراج کے سفر میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کون تھے؟ رسولﷺ نے الاسراء کے سفر میں کن کو نماز پڑھائی؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ جبریل علیہ السلام تھے اور رسولﷺ نے سارے انبیاء کو نماز پڑھائی۔
سوال 4: اللہ کے رسولﷺ پر کیا چیز فرض کی گئی تھی معراج پر؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئی تھیں ۔
سوال 5: وہ آیت بیان کیجئے جو الاسراء پر دلالت کرتی ہے؟ اور وہ کون سی سورتہ ہے؟
جواب: سورتہ الاسراء آیت نمبر 1 اوپر سبق میں 👆🏻👆🏻 ہے ۔
سوال 6: کیا قریش نے اسراء کی تصدیق کی تھی؟ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا کہا؟
جواب: قریش نے اسراء کی تکزیب کی تھی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس لئے کہ وہ اس سے بھی بڑی بات بتاتے ہیں کہ آسمان سے ان کے پاس وحی آتی ہے تو ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں تو اس کے بعد ہم ہر چیز کی تصدیق کریں گے ۔
|
L-22 سيرةالنبى صفہ-2
|
-الدعوة الجماعیة وعرض الرسول علیه الصلاة والسلام نفسه علی قبائل۔22
جماعتوں کی اجتماعی دعوت رسولﷺ کا اپنے آپ کو قبائل پر پیش کرنا۔
اس سبق میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ابتداء میں اپنے آپ کو چھپا کر رکھا تھا کیونکہ آپ ﷺ تین سال تک خفیہ دعوت کرتے رہے پھر آپﷺ نے سن چار نبوی میں اپنی دعوت کا اعلان کیا جیسے ہی چوتھے سال میں داخل ہوئے اللہ نے حکم دیا آپﷺ نے ویسے ہی اعلان کر دیا اس کے بعد آپ ﷺ دس سال تک لوگوں کو کھلم کھلا دعوت دیتے رہے گویا کہ یہ تیرہ سال کا عرصہ ہے مکی دور کا آپﷺ کی عادت تھی جب حجاج حج کے لئے آتے ظائر ہے کہ عرب کے کونے کونے سے لوگ آتے تھے حج کے موقع پر مختلف قبائل کے ہوتے اور منی میں الگ الگ پڑاؤ ڈالتے تو آپﷺ منی میں ہر قبیلے کے پڑاؤ میں جاتے تھے آپ ﷺ قبیلے قبیلے کے پاس سے گزرتے اور معلوم کرتے تلاش کرتے ان کا پڑاؤ کہاں ہے کہ فلاں قبیلہ کہاں رکا ہوا ہے اور ان کے پاس پہنچتے اور بازاروں میں بھی آپ ﷺ جاتے اور مختلف موقع پر بھی لوگ جمع ہوتے تو آپﷺ اس موقع پر بھی جاتے جیسے کہ سوق عکاظ ہے ذي المجاز ہے ان بازاروں میں بھی آپﷺ گئے ہر قبیلے کے پاس آپﷺ جاتے ان کو اللہ کی دعوت دیتے قرآن سناتے اور ان کے گھروں کو پہنچتے اور کہتے اے لوگو اللہ تعالٰی نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو یہ آپ ﷺ کا معاملہ تھا لیکن عام طور پر قبیلے والے بہت بری طرح آپﷺ کو جواب دیتے وہ کہتے آپ کے خاندان اور قبیلے والے آپﷺ کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں جب انھوں نے پیروی نہیں کی تو ہم کیوں پیروی کریں گے اللہ کے رسولﷺ ہر قبیلے پر اپنے آپ کو پیش کرتے رہے اور آپ کہتے تھے ((میں کسی کو کسی بات پر مجبور نہیں کرتا جس چیز کی طرف میں دعوت دیتا ہوں کوئی راضی ہو جائے تو اچھی بات ہے اور جو ناپسند کرے میں اسے مجبور نہیں کرتا میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے قتل سے محفوظ رکھے یعنی میری حفاظت کرے یہاں تک کہ میں اپنے رب کے پیغام کو پہنچا سکوں " )) یعنی آپﷺ لوگوں کو دعوت دیتے کہ وہ آپ ﷺکی دعوت کو قبول کریں اور آپ کو اپنی حفاظت کریں تاکہ آپ ﷺ اللہ کے پیغام کو پہنچا دیں اس طرح سے اللہ کے رسولﷺ محنت کرتے تکلیفیں اٹھاتے تھے اللہ تبارک و تعالٰی کے اس دین کی دعوت کے لئے یہ دعوت سبب بن گئی مدینے کے کچھ لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے وہ اس چیز میں تبدیل ہو گیا کہ مکہ مسلمانوں کے لئے مرکز بن گیا ۔
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
سوال1 : اسلام کی سری دعوت کتنے سال رہی؟ اللہ کے رسولﷺ نے اسلامی دعوت کو کب کھلے طور پھیلایا؟
جواب: سری دعوت تین سال رہی اور رسولﷺ نے جہری دعوت چار نبوی میں کھلم کھلا دعوت دی ۔
سوال2: مکے میں دعوت کتنے سال رہی؟
جواب: مکے میں دعوت تیرہ سال رہی ۔
سوال 3: اللہ کے رسول حجاج سے کہاں ملاقات کرتے تھے؟
جواب: آپ ﷺ منی میں حجاج سے ان کے پڑاؤ میں ان کے خیموں میں ملاقات کرتے تھے ۔
سوال 4: کتنے سال مکے میں جحری دعوت رہی ؟ رسولﷺ قبیلے کے حاجیوں سے کیا کہتے ؟
جواب: دس سال جھری دعوت رہی آپﷺ کہتے ( اے لوگو تمھارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو )
سوال 5: قبیلے والے آپ ﷺکو کیا جواب دیتے ؟
جواب: وہ آپﷺ کو سختی سے جواب دیتے وہ کہتے کہ جب آپﷺ کے قبیلے والے اور آپﷺ کے خاندان والے آپﷺ کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں جب انھوں نے پیروی نہیں کی تو ہم بھی آپ کی دعوت قبول نہیں کریں گے ۔
|
L-23 سيرةالنبى صفہ-2
|
-بیعة العقبة الاولی و ایفاد مصعب بن عمیر الی المدینة المنورة للدعوة والتعليم ۔23
پہلی بیت العقبہ اور مصعب بن عمیر کو بھیجنا مدینہ منورہ کی طرف اسلام کی دعوت دینے اور تعلیم دینے کے لئے۔
اللہ کے رسولﷺ کا یہ معمول تھا یہ عادت اور طریقہ تھا کہ آپ ﷺ مکہ سے باہر کے قبیلے آتے آپﷺ ان کو بھی اسلام کی دعوت دیتے تھے خاص طور پر حج کے موسم میں جب عرب کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے تو آپﷺ ان کے پاس پہنچتے لہٰذا اللہ تبارک و تعالٰی نے دعوت کے نئے امکانات پیدا کر دیئے جب اللہ تعالی نے اپنے دین کو غالب کرنا اور اپنے معزز نبی کو معزز بنانے کا فیصلہ کیا اور جو وعدہ اللہ تبارک و تعالٰی نے آپﷺ نے آپ سے کیا تھا آپ ﷺکی دعوت کو کامیاب کرنے کا اس کو پورا کرنے کا جب وقت آ گیا تو یہ معاملات پیش آئے کہ اللہ کے رسولﷺ سن گیارہ ہجری میں عرب کے مختلف قبیلوں کے پاس حجاج کے وفود کے پاس پہنچے اسلام کی دعوت دینے کے غرض سے جیسا کہ آپﷺ ہمیشہ کرتے تھے تو آپ ﷺ جب عقبہ کے پاس پہنچے جو منی میں گھاٹی ہے عقبہ اصل میں تنگ پہاڑی راستے کو کہتے ہیں وہیں یہ گھاٹی ہے آپﷺ کی ملاقات یثرب کے چھے آدمیوں سے ہوئی جو حج کی غرض سے آئے تھے جو آپس میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے اللہ کے رسولﷺ ان کے پاس پہنچے اور ان کے بارے میں دریافت کیا پتہ چلا کہ وہ یثرب کے ہیں تو آپﷺ ان کے پاس بیٹھے ان پر اسلام پیش کیا کچھ آیتیں تلاوت فرمائی پثرب چونکہ مدینے کے باشندے تھے اور مدینہ میں دو بڑے قبیلے رہتے تھے اوس اور خزرج یہ چھے آدمی خزرج سے تعلق رکھتے تھے یہ مشرکین تھے اور مدینے کے مشرکین کی جب یہودیوں سے جنگ ہوتی تھی تو ہمیشہ یہودی مشرکین سے اوس اور خزرج جو کہ بت پرستی کرتے تھے اوس اور خزرج کا دین بت پرستی تھا اور یہودی اہل کتاب تھے تو ان میں جنگیں ہوا کرتی جنگوں میں ہمیشہ یہودی کہا کرتے تھے کہ ایک نبی عنقریب آنے والے ہیں جب وہ آ جائیں گے تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر عاد اور ارم کی طرح تمھے قتل کر دیں گے یعنی جب وہ نبی آ جائیں گے اور ہم ان کے ساتھ ہوں گے تو اس موقع پر ہم تمھے بری طرح قتل کریں گے یہ وہ دھمکی جو یہودی مدینے کے باشندوں کو اکثر دیا کرتے تھے جب اللہ کے رسولﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالٰی نے آپﷺ کو نبی بنانا ہے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو فورا ان کو یہودیوں کی باتیں یاد آ گئیں اور وہ آپس میں کہنے لگے کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ وہی نبی ہیں جس کے ذریعے یہودی ہم کو دھمکی دیا کرتے ہیں لہٰذا تم اس سے سبقت کرو ایسا نہ ہو وہ آگے بڑھ جائیں جنھوں نے دعوت دی ہے اس کو قبول کر لو ان کی تصدیق کر لو لہٰذا ان لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ کی اس دعوت کو قبول کیا اور آپﷺ سے وعدہ کیا کہ وہ آپنی قوم کے پاس واپس ہوں گے تو انہیں بھی اسلام کے بارے میں بتائیں گے اور انہیں بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے جب یہ چھے آدمی یثرب پہنچے تو انھوں نے اپنی قوم سے اللہ کے رسولﷺ کا ذکر کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو مدینے کے بہت سے باشندوں نے اسلام قبول کر لیا اور اللہ تبارک و تعالٰی کے دین میں داخل ہو گئے یہ گیارہ نبوی کی بات ہے حج کے ایام کی بات ہے اس کے بعد جب دوسرا سال آیا حج کا بارہ نبوی میں مدینہ کے بارہ باشندے آئے ان میں اکثریت خزرج کی تھی کچھ آدمی اوس سے تعلق رکھتے تھے ان بارہ آدمیوں نے عقبہ کے پاس اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کی اور آپﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا بیعت کی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور اللہ تعالٰی نے انہیں جو حکم دیا ہے اس کی پابندی کریں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان چیزوں سے رک جائیں گے بیعت کے الفاظ تفصیل سے آئیں گے لیکن یہ کتاب چونکہ مختصر ہے اس لئے یہاں یہ ہی دیگر باتیں بیان کی گئی ہیں سن گیارہ نبوی میں چھے آدمیوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کو جا کر بتایا تو بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور بارہ نبوی میں حج کے موسم میں یہ بارہ آدمی آئے سن بارہ نبوی میں اور انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے ہاتھ میں بیعت کی اس کو بیعت عقبہ الاولی جب یہ پہلی بیعت مکمل ہو گئی تو انھوں نے یثرب کے باشندوں نے اللہ کے رسولﷺ سے یہ درخواست کی کہ ان کے ساتھ کسی شخص کو بھیجا جائے جو انہیں اسلام کے بارے میں بتائیں اللہ تبارک و تعالٰی کے دین کی تعلیم دیں اور انہیں قرآن پڑھائیں تو اللہ کے رسولﷺ نے جلیل القدر صحابی مصعب بن عمير رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور اسلام کی باتیں بتائیں اور دین کی سمجھ ان کو بتائیں نماز میں امامت کریں ان کو مقری ، معلم کے معنى میں سکھانے والا کہا جاتا ہے چونکہ یہ قرآن پڑھتے اور سکھاتے تھے اس لئے ان کا نام مقری مشہور ہو گیا وہ مدینہ جانے کے بعد اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مہمان ہوئے اور ان کے گھر پر انھوں نے قیام کیا مدینہ میں مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی موجودگی کے بہت اچھے اثرات پڑے اور بہت تیزی کے ساتھ اسلام پھیل گیا ان کی وجہ سے مدینہ کے بہت سے باشندوں نے یہاں تک کہ مدینے کے قبیلوں کے سردار تھے وہ بھی اسلام میں داخل ہوئے اسيد بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اسلام میں داخل ہوئے جن کے والد بعاث جو جنگ ہوئی تھی مدینہ میں ایک مشہور جنگ ہوئی تھی اس کا نام بعاث تھا اوس اور خزرج کے درمیان اس جنگ میں اوس کے سردار انہی کے والد تھے اس جنگ میں اوس کو خزرج پر کامیابی ملی تھی تو اسيد بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ سرداروں میں سے تھے وہ اسلام میں داخل ہوئے اسی طرح سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اسلام قبول کر لیا وہ بنو عبد الاشھل کے سردار تھے اور یہ بھی اوس قبیلے سے ہی تعلق رکھتے تھے کہا جاتا ہے کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے وہ اپنی قوم کے پاس پہنچے ان کی مجلس میں گئے اور کہا اے عبد الاشھل کے لوگوں میری بارے میں تمھارا کیا خیال ہے یعنی میرے بارے میں تمھارا کیا معاملہ ہے تو انھوں نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں ہمارے سب سے افضل آدمی ہیں اور سب سے بہتر رائے رکھنے والے ہیں انھوں نے کہا تو پھر سن لو تمھارے مردوں اور تمھاری عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے یہاں تک کہ تم لوگ اسلام قبول کر لو جب تک تم اسلام میں داخل نہیں ہو گے میں تمھارے مردوں اور عورتوں سے کوئی بات نہیں کروں گا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام ہونے سے پہلے پہلے ان کے قبیلے کے سارے لوگ مسلمان ہو گئے یہ بہت بڑی بابرکت شخصیت ثابت ہوئے صرف ایک آدمی جس کا نام ایم تھا وہ مسلمان نہیں ہوئے وہ بھی احد کے موقع پر مسلمان ہوئے جب احد کی جنگ جاری تھی وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کیا اور جنگ میں حصہ لیا اور شہید ہوگئے انہی کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا انھوں نے تھوڑا سا عمل کیا ایک سجدہ بھی نہیں کیا تھا لیکن اجر انہیں بہت عطا کیا گیا اس طرح مصعب بن عمير رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہت کوششیں کی محنت و مشقت کی اور قابل تعریف کارنامہ انجام دیا یثرب کے لوگ بہت بڑے پیمانے پر داخل ہوئے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ مدینے کے باشندوں میں کسی کا گھر ایسا نہیں تھا جس میں کچھ مردوں اور کچھ عورتوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو ایک سال میں بہت ہی عظیم الشان کامیابی حاصل ہو چکی تھی۔
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
سوال 1: اللہ کے رسولﷺ حج کے موسم میں کیا کیا کرتے تھے؟
جواب: حج کے موسم میں اللہ کے رسولﷺ قبائل سے ملتے جو مکے کے باہر سے جو قبیلے آتے تھے اور ان پر اسلام کو پیش کرتے تھے ۔
سوال 2: عرب حجاج پر اللہ کے رسولﷺ کیا پیش کرتے تھے ؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ ان پر اسلام پیش کرتے تھے۔
سوال 3: اوس اور خزرج یہود سے کیا سنا کرتے تھے؟ اور رسولﷺ نے یثرب کے وفد سے کب ملاقات کی؟
جواب: اوس اور خزرج یہودیوں سے ایک آخری نبی کی بعثت کے بارے میں سنا کرتے تھے اور رسولﷺ نے یثرب کے وفد سے حج کے موسم میں ملاقات کی۔
سوال 4: ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے جنھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کی؟ اور پہلی عقبہ کی بیعت کب مکمل ہوئی ؟
جواب : اللہ کے رسولﷺ نے جن لوگوں سے ملاقات کی ان کی تعداد چھے ہے اور عقبہ الاولی کی بیعت بارہ نبوی میں ہوئی تھی۔
سوال 5: اوس اور خزرخ کی تعداد کتنی تھی( عقبہ الاولی کی بیعت میں )؟ اور یہ بیعت جو مکمل ہوئی کس نام سے جانی جاتی ہے؟
جواب: اس بیعت میں اوس اور خزرج کے بارہ افراد شریک ہوئے تھے اور اس کا نام بیعت عقبہ الاولی ہے۔
سوال 6: اہل یثرب نے اللہ کے رسولﷺ سے کیا درخواست کی ؟
جواب: انھوں نے طلب کیا کہ آپﷺ اسلام سکھانے کے لئے دین کی تعلیم دینے کے لیے کسی کو ان کے ساتھ روانہ کریں ۔
سوال 7: اللہ کے رسولﷺ نے کن کو ان کے ساتھ بھیجا ؟ اللہ کے رسولﷺ نے جن صحابی کو بھیجا تھا انھوں نے کیا کیا تھا؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ نے مصعب بن عمير رضی اللہ تعالٰی عنہ اور انھوں نے مدینہ کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کیا ان کے ذریعے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔
سوال 8: کسی ایک شخص کا نام بتائیں جنھوں نے ان کے ہاتھوں اسلام قبول کیا؟
جواب: یہاں دو سرداروں کا نام ذکر ہے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنھما (کسی ایک کا نام یاد کریں )۔
|
L-24 سيرةالنبى صفہ-2
|
24بیعة العقبة الثانیة
دوسری بیعت عقبہ
جب اس کے بعد کا سال آیا بارہ نبوی کے بعد کا سال یعنی تیرہ نبوی میں حج کا موسم آیا تو مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینے سے آئے اور ان کے ساتھ پچھتر(75) افراد تھے تہتر (73) اور دو عورتیں تھیں ہم دیکھ رہے ہیں گیارہ نبوی میں چھے آدمیوں نے اسلام قبول کیا بارہ نبوی میں جو پہلی بیعت عقبہ الاولی ہے اس میں بارہ افراد شریک ہوئے لیکن ایک سال میں اتنا عظیم انقلاب برپا ہو چکا تھا اب جو افراد اللہ کے رسولﷺ کے ہاتھوں بیعت کرنے آئے تھے ان کی تعداد پچھتر ہو چکی تھی مدینہ تقریبا مسلمان ہو چکا تھا اس کے علاوہ جو لوگ بیعت کے لئے پہنچے تھے مکہ ان کی تعداد پچھتر تھی اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی کامیابی مل چکی تھی اور مدینہ کس طرح اسلام کا مرکز بننے کے لئے تیار ہو چکا تھا تو حج کے موسم میں اوس اور خزرج کے یہ افراد پہنچے جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے ان حجاج کے ساتھ یہ لوگ آئے تھے جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو اللہ کے رسولﷺ سے اس بات کا اتفاق کیا کہ ایام تشریق کے درمیانی دن وہ ملاقات کریں گے یعنی بارہ ذلحجہ کو انھوں نے رسولﷺ سے وعدہ کیا کہ بارہ ذلحجہ کو وہ اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کریں گے عقبہ کے پاس اس کے بعد جب یہ لوگ حج سے فارغ ہوئے تو ملاقات کا وقت آ گیا تو چھپتے چھپتے یہ لوگ آدھی رات اپنے خیموں سے نکلے تہائی رات کے بعد تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کیوں یہ بہت ہی سری طور پر چھپے انداز میں یہ بیعت ہو رہی تھی مکے کے باشندوں کو اگر اس بات کا پتہ چل جاتا تو ظاہر ہے کہ مصیبت بن جاتی اور کسی طرح وہ اس بات سے راضی نہیں ہوتے کہ وہ لوگ اسلام قبول کر لیں یا رسولﷺ کا ساتھ دیں یہ چھپتے ہوئے عقبہ کے پاس پہنچے اور سب جمع ہو گئے اور چپکے سے بیٹھے رہے رسولﷺ کے انتظار میں یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺ ان کے پاس پہنچے اور آپ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھ آپ ﷺکے چچا عباس ابن مطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ جنھوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا بعد میں اسلام قبول کیا ابھی اپنی قوم کے دین پر تھے چونکہ اپنے بھتیجے کا معاملہ تھا اللہ کے رسولﷺ سے محبت تھی اب یہ ہی سرپرست تھے ابو طالب کے بعد یہ رسولﷺ کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ عقبہ میں جو بیعت ہے اس کو اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھیں اور اللہ کے رسولﷺ کی حفاظت کے تعلق سے مدینے کے لوگوں سے اچھی طرح وعدہ لے لیں جب اللہ کے رسولﷺ یہاں پہنچے تو سب سے پہلے عباس ابن عبد المطلب نے ہی گفتگو کی کہنے لگے اے اوس اور خزرج کے لوگو اللہ کے رسولﷺ کی جو حیثیت ہے ہم میں مقام ہے تم اسے اچھی طرح جانتے ہو ہم نے ہماری قوم کو جو ہمارے دین سے تعلق رکھتے ہیں یعنی مشرک ہیں ہماری قوم کو ہم نے روک رکھا ہے یعنی قوم والے رسولﷺ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اس کا ہم نے انتظام کیا ہے اپنی قوم میں وہ عذت اور طاقت کے ساتھ ہیں اور اپنے شہر میں وہ حفاظت کے ساتھ ہیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمھارے ساتھ آئیں انھوں نے تمھے منتخب کیا ہے اور تمھاری طرف وہ مائل ہوئے ہیں اور تمھارے ساتھ وہ ملنا چاہتے ہیں یعنی تمھارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اگر تم یہ سمجھتے ہو جو وعدہ تم نے ان کے ساتھ کیا ہے اس کو تم پورا کر سکتے ہو اور جو ان کی مخالفت کر رہے ہیں ان سے تم ان کی حفاظت کر سکتے ہو اگر تم یہ سب کر سکتے ہو تو تم ان کو لے جا سکتے ہو اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ان کا ساتھ نہیں دے سکو گے ان کا ساتھ نہیں نبھا سکو گے ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دو گے انہیں دشمنوں کے حوالے کر دو گے ان کے جانے کے بعد تو بہتر ہے ابھی سے تم ان کو چھوڑ دو اس لئے کہ وہ جیسے بھی ہیں اپنی قوم میں عزت اور قوت اور حفاظت کے ساتھ ہیں اور اپنے شہر میں ہیں یہ باتیں عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی تھی جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے صاف طور سے اوس اور خزرج کے سامنے پیش کی تھیں انھوں نے کہا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اب ہم اللہ کے رسولﷺ سے سننا چایتے ہیں اللہ کے رسولﷺ آپ گفتگو کیجئے اور اپنے اور اپنے رب کے لئے جو وعدہ ہم سے لینا چاہتے ہیں لے لیجئے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل یثرب کس طرح اللہ کے رسولﷺ اور اللہ کے دین کے بارے میں سنجیدہ تھے ۔
اللہ کے رسولﷺ نے گفتگو کی قرآن کی تلاوت کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور اس کے بعد کہا میں تم سے بیعت اس بات پر لیتا ہوں کہ تم اپنے بچے اور عورتوں کی جن چیزوں سے حفاظت کرتے ہو ان چیزوں سے تم میری بھی حفاظت کرو گے یہ بیعت آپ ﷺ نے لی تھی تو البراء بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا یہ اس وفد میں شامل تھے جو بیعت کے لئے حاضر ہوا تھا اور اس کے بعد کہا کہ ہاں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے ہم آپ کی ویسے ہی حفاظت کریں گے جیسا کہ اپنی عورتوں کی کرتے ہیں یعنی ان تمام چیزوں سے آپ کی حفاظت کرتے ہیں جن سے ہم اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں ہم جنگ اور ہتھیار والے لوگ ہیں اور ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے یہ چیز وراثت میں پائی ہے اس کی ہنر مندی کی ہمیں عادت ہے لہذا ہم ان چیزوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں کہ عرب والے کیا کریں کیا نہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں رسولﷺ سے انھوں نے بیعت کی درمیان میں ابو الھیثم بن التھیان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گفتگو کی کہ اللہ کے رسولﷺ ہمارے اور یہودیوں کے درمیان ایک مضبوط رسی ہے یعنی معاہدہ ہے اب ہم اس کو توڑ دیں گے کیونکہ جب آپ کے دین میں داخل ہو گئے تو یہودیوں کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہو جائے گا معاہدہ ختم ہو جائے گا کہیں ایسا نہ ہو اگر ہم ان کے اس معاہدے کو توڑ دیں اس کے بعد اللہ تبارک و تعالٰی آپﷺ کے دین کو غالب کرے دے تو آپﷺ واپس اپنی قوم کی طرف لوٹ جائیں اور ہمیں تنہا چھوڑ دیں اللہ کے رسولﷺ یہ سن کر مسکرائے اور کہا" ایسی بات نہیں بلکہ تمھارا خون میرا خون ہے اور تمھاری بربادی میری بربادی ہے میں تم سے ہوں اور تم مجھے سے ہو جن سے تم جنگ کرو گے میں جنگ کروں گا اور جن سے تم صلح کرو گے میں صلح کروں" گا اس کے بعد انھوں نے اللہ کے رسولﷺ سے بیعت کی اور اس طرح بیعت عقبہ ثانیہ مکمل ہوئی رسولﷺ نے ان میں سے بارہ نقیب منتخب کیئے جو نگران ہوں گے اپنی قوم کے لئے نو نقیب خزرج کے تھے اور تین اوس کے تھے جب یہ بیعت مکمل ہوئی تو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کو یثرب کی جانب ہجرت کرنے کی دعوت دی جو راستہ اللہ کے رسولﷺ متعین کرے گے اسی پر وہ چلیں گے اور اپنی ہر چیز قربان کریں گے اللہ کے دین کی مدد کے لئے ہر چھوٹی بڑی عظیم اور معمولی چیز وہ قربان کریں گے اللہ کے رسولﷺ نے اس بیعت کے بعد مسلمانوں کو یثرب کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں مرحلہ وار آہستہ آہستہ مشرکین سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے مدینے کی طرف ہجرت کی مسلمان جماعتوں کی شکل میں یا تنہا مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺ ،ابو بکر صدیق اور علی رضی اللہ تعالٰی عنھما کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہ رہا ۔
((غور کیجئے کہ یہ اجتماع اسلامی تاریخ میں کس قدر انقلاب کا ذریعہ ثابت ہوا کہ اس اجتماع میں وہ بات طے ہوئی کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے اللہ تبارک و تعالٰی کے دین کو اللہ نے غالب کر دیا))
آنے والے سوالوں کے جواب دیجئے:
سوال1: رسولﷺ کی اہل یثرب کے مسلمانوں سے ملاقات کہاں ہوئی تھی؟
جواب: عقبہ کے مقام پر ہوئی ۔
سوال 2: اہل یثرب اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کو کیسے پہنچے؟
جواب: وہ چپکے سے چھپتے چھپتے پہنچے تھے۔
سوال 3: اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کرنے والوں کی تعداد کتنی تھی؟
جواب: کل پچھتر (75) مسلمان تھے جن میں تھتر (73) مرد اور 2 عورتیں تھیں ۔
سوال 4: اللہ کے رسولﷺ کے وہ چچا کون تھے جو ملاقات میں شریک ہوئے تھے یا حاضر ہوئے تھے ؟
جواب: عباس ابن مطلب ۔
سوال 5: رسولﷺ کے چچا نے اہل یثرب سے کیا کہا؟
جواب: انھوں نے کہا رسولﷺ کا جو ہم میں مقام ہے تم اسے اچھی طرح جانتے ہو اگرچہ ہم ہماری قوم کے دین پر ہی ہیں لیکن اللہ کے رسولﷺ اپنی قوم میں عذت اور غلبے کے ساتھ ہیں اور اپنے شہر میں حفاظت کے ساتھ ہیں لیکن اللہ کے رسولﷺ تمھاری طرف مائل ہو چکے ہیں اور تمھارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اگر تم سمجھتے ہو جو وعدہ تم نے ان سے کیا ہے اسے پورا کر سکتے ہو مخالفین سے آپﷺ کی حفاظت کر سکتے ہو تو تم اللہ کے رسولﷺ کو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو لیکن اگر تم سمجھتے ہو آپﷺ کا ساتھ نہیں دے سکتے اور اللہ کے رسولﷺ کو تنہا چھوڑدو گے اور دشمنوں کے حوالےکر دو گے تو بہتر ہے کہ تم ابھی انہیں چھوڑ دو اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ جیسے بھی ہیں اپنی قوم میں حفاظت کے ساتھ ہیں اور اپنے شہر میں ہیں۔
سوال 6:اللہ کے رسولﷺ نے یثرب کے دفد سے کیا کہا تھا؟
جواب: اللہ کے رسولﷺ نے یثرب کے وفد کے سامنے قرآن کی تلاوت کی اور اسلام کی ترغیب دی اس کے بعد کہا تم میری حفاظت ایسے ہینان چیزوں سے کرو گے جن چیزوں سے تم اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔
سوال 7: البراء بن معرور رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا فرمایا ؟ اور ابو الھیثم بن التیھان نے درمیان میں کیا گفتگو فرمائی؟
جواب: البراء بن معرور رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺکو حق دے کر بھیجا ہے ہم جن چیزوں سے اپنے عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں ان چیزوں سے آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے اے اللہ کے رسولﷺ ہم نے آپ سے بیعت کی ہم جنگ والے اور ہتھیار والے ہیں ہم نے ان چیزوں کو اپنے آباء اجداد سے وراثت میں پایا ہے اور ابو الھیثم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا ہمارے اور یہودیوں کے درمیان ایک معائدہ ہے اب ہم انھیں توڑ دیں گے کہیں ایسا نہ ہو اللہ آپ کے دین کو غالب کر دے تو آپ اپنی قوم سے مل جائیں اور ہمیں تنہا چھوڑ دیں ۔
سوال8: اللہ کے رسولﷺ نے ابو الھیثم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کیا جواب دیا؟
جواب: رسولﷺ مسکرائے اور آپ نے فرمایا تمھارا خون میرا خون ہے تمھاری بربادی میری بربادی ہے میں تم سے ہوں تم مجھ سے ہو جن سے تم جنگ کرو گے ان سے میں جنگ کروں گا اور جس سے تم صلح کرو گے ان سے میں صلح کروں گا ۔
سوال 9: خزرج کے نقیبوں کی کتنی تعداد ہے ؟ اور اوس کے نقیبوں کی تعداد کتنی تھی؟ اور بیعت عقبہ ثانیہ کب ہوئی تھی؟
جواب: کل بارہ نقبہ تھے جس میں نو خزرج کے تھے اور اوس کے نقبہ تین تھی اور بیعت عقبہ ثانیہ تیرہ نبوی میں حج کے ایام میں ہوئی تھی۔
|
Comments
Post a Comment