الفصل الاول
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الفصل الاول
ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنه
خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر فاروق ، عثمان غنی اور علی ابن طالب رضی اللہ تعالی عنہ
تاریخ اسلامی
عمومی طور پر ایک قول بہت معروف ہے " جس کی کوئی تاریخ نہیں اس کا کوئی حافظہ نہیں " اسی لئے تاریخ کو قوم کا حافظہ کہا جاتا ہے جس کے ذریعے قوم اپنے آپ کو پہچانتی ہے سبق حاصل کرتی ہے اور اس کی روشنی میں وہ آگے بڑھتی ہے عمومی طور پر تاریخ کے جو فائدے ہیں اللہ تعالی نے مختصر الفاظ میں اس کو بیان کیا ہے بہت ہی جامع الفاظ ہیں اور وہ عمومی طور پر تاریخ کے فائدے جاننے کے لئے کافی ہیں سورتہ یوسف میں اللہ تعالی نے فرمایا (( ان کے واقعات میں عقلمندوں کے لئے عبرت پائی جاتی ہے )) اللہ تعالی نے قوموں کے حالات اور مختلف واقعات بیان کئے ہیں اور ان کے بارے میں بیان کیا کہ یہ جو تاریخ ہے اس کا اصل مقصد قصوں کا نہیں ہوتا بلکہ عبرت حاصل کرنا ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کفار عرب کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم جس راستے پر چل رہے ہو تم پہلی قوم نہیں ہو جو اس راستے پر چل رہے ہو اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی رسول کی مخالفت اسلام کی دشمنی اور مسلمانوں کو اذیت اور تکلیف پینچانا یہ وہ راستہ ہے جو سب سے پہلے تم نے نہیں اپنایا بلکہ جو پہلی قومیں گزریں ہیں وہ اسی راستے پر چل رہی تھیں ذرا غور کرو ان کا کیا انجام ہوا ہے اب جب عمل ایک ہے کہ جو عمل ان کا تھا وہی تمھارا عمل ہے تو یہ کیسے کہ بدلہ مختلف ہو جائے جو بدلہ ان کا تھا بدلہ تمھارا بھی وہی ہو گا یہ عبرت اور نصیحت ہے جیسے قرآن مجید نے کہا ہے تاریخ کے عمومی فوائد کے ذکر سے بات بہت لمبی ہو جائے گی لہذا ہم مختصر طور پر بیان کریں گے مسلمانوں کی تاریخ انسان کی عمل کی تعبیر ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں دین کے بارے میں جو باتیں فرمائی ہیں ہماری تاریخ میں اس کی عملی تطبیق کی گئی ہے کیسے ان باتوں کو عملی جامعہ پہنایا جائے یہی وجہ ہے کہ تاریخ خلفائے راشدین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی کا تکمیلی حصہ کہتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام تطبیق ہوئی تھی خلفائے راشدین کے دور میں اس کی تکمیل ہوئی مزید یہ کہ اسے آگے بڑھایا گیا لہذا انسانی تاریخ میں سب سے بہترین دور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور اس کے بعد بہترین دور خلفائے راشدین کا دور تھا انسانی تاریخ میں ان ادوار سے بہتر دور نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے لہذا اسلامی تاریخ کے مطالعے کا سب سے پہلا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم اسلام کی عملی تطبیق کا مطالع کرتے ہیں کہ کیسے مسلمان نے اسلام کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کی اور کیسے انھوں نے قوموں کے ساتھ معاملات کیئے کیسے انھوں نے قرآن کی تعمیل اور عملی تعمیل کی اور کیسے انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تطبیق کیا کیسے قوموں کے ساتھ معاملات پیش آئے کیسے لوگوں کے ساتھ معاملات پیش آئے کیسے ممالک کے ساتھ کیسے جنگیں پیش آئیں اور بہت زیادہ مال مسلمانوں کو حاصل ہوا یہ ساری تفصلی آگے آئے گی اور خلفائے راشدین کی تاریخ کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن ترمذی کی ایک حدیث میں تاکید کی (( عليكم بسنتي وسنت الخلفاء الراشدين المهديين ، عضّوا عليها بالنواجذ )) میری سنت کو اور میرے بعد میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو مضبوطی کے ساتھ اسے تھامے رہو " یہاں ہم دیکھ رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ساتھ اپنے خلفائے راشدین کی سنت کا ایک ساتھ حکم دیا اور اپنے ساتھ حکم دیتے ہوئے خلفائے راشدین کی سنت پر بھی عمل کرنے کا حکم دیا اور تاکید بھی کی کی دانتوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ اسے تھام لو اسے لازم پکڑو اہل علم بیان کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ خلفائے راشدین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو کیسے عمل کیا اس کے لئے کیا طریقے اپنائے سنت کو کیسے سمجھا اور کس طرح کی سیرت انھوں نے اختیار کی اس کی اتباع کرنا گویا خلفائے راشدین کی سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تعبیر تھی تو اس حیثیت سے ان کی سنت گویا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کا ایک تکمیل حصہ تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں کوئی کمی رہ گئی تھی عملی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا تھا انھوں نے اس کو تطبیق دیا مکمل کیا عملی تطبیق دیا یہ پہلا مفہوم ہے اور دوسرا مفہوم ہے کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں موجود نہیں ہے لیکن خلفائے راشدین کے ساتھ وہ واقعات پیش آئے ان کو لازم پکڑنا جو فتوی دیئے جو فیصلے کیئے جو جہاد کیئے ان کے بارے میں تاکید کی گئی کہ ہم ان کو لازم پکڑیں لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید کی وجہ سے بھی ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ سیرت کا مطالع کریں اور تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ہماری تاریخ ہے مسلمانوں کی تاریخ ہے ہماری ثقافت ہے ہماری تہذیب و تمدن ہے ہر قوم کا ایک تمدن ہوتا ہے ہر قوم کی ایک تہذیب ہوتی ہے اس کی نفسیات ہوتی ہے ان کے طریقے ہوتے ہیں وہ قوم ان کی سیرتوں پر عمل کرنے کی اور ان کو تطبیق دینے کی کوشش کرتی ہے یہ ہمارا تمدن اور تہذیب ہے اگر ہماری ثقافت سے ہم واقف نہیں ہوں گے تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم کسی اور قوم کے طریقے پر جا سکتے ہیں لیکن اپنے طریقے پر نہیں جا سکتے ہماری تاریخ کا مطالع اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ جو اسلامی تاریخ ہے جس کے ذریعے ہمیں اسلام کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اس کو بدلنے کی اس کو مسخ کرنے کی اور اس میں طرح طرح کی برائیاں پیدا کرنے کی بہت سی قوموں نے بہت سی کوشیش کی جن میں مسلمانوں کے کچھ گمراہ فرقے بھی پائے جاتے ہیں جیسے رافضہ وہ چاہتے ہیں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کیا جائے اور دوسرے قومیں بھی پائی جاتی ہیں جیسے مستشرقین ہیں ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے صحیح طرح سے واقف ہوں تاکہ ہمیں اپنی پہچان حاصل ہو ہم کس کے وارث بنیں اور تاریخ کے مطالعہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی روشنی میں ہمیں ایک ایسا اسواہ ملتا ہے جس پر چل کر ہم اسلام کی سربلندی حاصل کر سکتے ہیں یعنی وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ تعالی کو راضی کر سکیں وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم دنیا میں عروج حاصل کر سکیں وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم قوموں پر غالب آ سکیں اور وہ کون سا طریقہ سے جس سے ہم اللہ تعالی کے دین کی اشاعت کر سکیں ۔
|
صفحہ 2
|
صفحہ 2
یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں تاریخ سے معلوم ہوتی ہیں بہر حال یہ کچھ فوائد ہیں جو ہمیں تاریخ کی طرف توجہ دلاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ خلفہ راشدین کی تاریخ کے ساتھ ساتھ صحابہ کی تاریخ ہے جو انبیاء کے بعد سب سے بہترین انسان تھے دنیا کے سب سے افضل انسان تھے اسی لئے مالک بن انس رحمہ اللہ تعالی عنہ یہ تابعین تھے فرماتے ہیں کہ سلف صالحین اپنے بچوں کو ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کی محبت ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے کہ قرآن سیرتیں سکھاتے تھے اسی طرح ان کی سیرتوں کے بارے میں تعلیم دیتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صحابہ کی تاریخ ہے جنھوں نے اسلام کی عملی تدبیخ کی اور اللہ تبارک و تعالی کے اس دین کو ہم تک پہنچایا یہ ہی وہ تاریخ ہے جس میں قرآن مجید کو جمع کیا گیا حدیث کو جمع کیا گیا فقہ کی اور اصول فقہ متعین کیئے گئے پوری تفسیر ہے ۔
🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃
تمام مورخین کی عادت ہے جب خلفائے راشدین کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے خلافت کے دورے کا ذکر نہیں کرتے بلکہ ان کی زندگی کے بھی کچھ حالات کا ذکر کرتے ہیں اس کے بعد ان کی خلافت کے بعد جو حالات پیش آئے ان کا ذکر کرتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی خلافت کے کچھ حالات ہیں جو یہاں ذکر کیئے گئے آج ہم ان کے نسب ان کی کنیت ان کے لقب کے بارے میں اور اس کے بعد ان کی پیدائش اور صفات کا مطالعہ کریں گے۔
الخلیفہ الاول نسب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
عبد اللہ ابن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرة بن کعب بن لؤي التیمي القرشی ۔
عبد اللہ ان کا نام تھا عثمان ان کے والد کا نام تھا عامر ان کے دادا کا نام تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آٹھویں پشت پر مرة ابن کعب ہیں یہاں ان کا نسب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے اور جاہلیت میں ابو بکر کا نام عبد الکعبہ تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبد اللہ رکھ دیا ۔
کنیته و لقبة
جہاں تک ان کی کنیت ہے ان کی مشہور کنیت ہی سے ہی وہ معروف ہیں ابو بکر کنیت ان کے نام سے زیادہ غالب آ چکی ہے لوگ کنیت سے پہچانتے ہیں کنیت ابو بکر سے معروف ہے بکر یہ بکر سے ہے ب پر کسرہ عرب میں جوان اونٹ کو بکر کہا جاتا تھا کسرہ کے ساتھ اس کے بہت سے اسباب بیان کیئے گئے کنیت کے ایک سبب ہے اسلام میں داخل ہونے والے سب سے پہلے تھے اسلام میں دخول کے لئے ان کی پیش قدمی میں سبقت کرنے کی وجہ سے
|
صفحہ 3
|
صفحہ 3
اب سے پہلے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کا لقب ابو بکر ان کا لقب رکھا گیا اسلام میں پیش قدمئ کی وجہ سے بکر رکھا گیا ان کے القاب البتہ بہت ہیں معروف ہیں صدیق یہ بہت زیادہ معروف ہے اس کے بہت سے اسباب ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جو بھی وحی نازل ہوتی اور جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا انھوں نے آگے بڑھ کر اس کی تصدیق کی اور کہا جاتا ہے صدیق کا لقب سب سے پہلے اس وقت دیا گیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسرا اور معراج سے واپس آئے اسرا اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا تھا اس کے بارے میں کوئی واضح روایت ہمیں نہیں ملتی یہ بات واضح ہے یہ ہجرت سے پہلے پیش آیا تھا لیکن دس نبوی یا گیارہ نبوی میں پیش آیا تھا یا بارہ نبوی میں پیش آیا تھا اس بارے میں بہت سارے اختلاف ہیں اس کتاب میں اس بات کو ذکر کیا گیا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اسرا اور معراج سے واپس آئے اور آپ نے قریش سے اس بارے میں ذکر کیا تو لوگوں نے مخالفت کی اس کتاب میں لکھا ہے کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جو مرتد ہو گئے لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بالکل ضعیف قرار دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں پریشان ہو گئے تھے مشرکین کی مخالفت کو دیکھ کر جو لوگ اس وقت مسلمان ہوئے وہ غلبے کی صورت میں مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ جس مضبوطی کے ساتھ اسلام لائے تھے ان سے یہ امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی اس طرح کے کسی واقع سے متاثر ہو کر کافر ہو سکتے ہیں عقلا یہ بات ممکن نظر نہیں آئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس آئے اسرا کا ذکر کیا کہ آپ بیت المقدس جا کر آئے تو مشرکین کو مخالفت کا موقع ہاتھ آ گیا اور کچھ مشرکین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گیا تھا اور پھر وہ واپس آ گیا رات ہی میں تو کیا آپ اس کی تصدیق کریں گے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ جانے کے لئے ایک مہینہ لگتا ہے آنے کے لئے ایک مہینہ لگتا ہے پھر انھوں نے کہا کہ آپ کے ساتھی محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے صبح کو واپس آ گئے پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اگر وہ کہتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور میں ان پر یقین کرتا ہوں اس لئے کہ اس سے بھی بڑی بات کے سلسلے میں ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کےصبح شام آسمان سے ان پر وحی نازل ہوتی ہے جب ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں تو اس بات کی کیوں نہیں کریں گے پہلی مرتبہ اس موقع پر انہیں صدیق لقب دیا گیا اس کے بعد ہر معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق میں وہ سب سے پیش رہتے تھے تو یہ ان کا لقب تھا صدیق بہت ہی معروف لقب تھا دوسرا لقب ہے ان کا عتیق کہا جاتا ہے ان کے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے ان کو عتیق کہا جاتا تھا اس کا مطلب ہے چمکتا ہوا چہرہ حسن جمال یا خوبصورتی کی وجہ سے ان کا لقب عتیق رکھا گیا یا پھر یہ کہا جاتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جہنم سے آزادی کی بشارت دی تھی اس کے ایک معنی آزاد کے بھی ہیں جہنم سے آزاد کیا ہوا جیسا کہ ام المومینین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ کعبے کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پہنچے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "" جو دیکھنا چاہتا ہو کسی ایسے شخص کو دیکھے جو جہنم سے آزاد کر دیا ہے وہ ابو بکر کو دیکھے" اس وجہ سے ان کا نام عتیق پڑ گیا یا کہا جاتا ہے ان کی والدہ کے ہاں ان سے پہلے جتنے بھی لڑکے ہوئے ان کا انتقال ہوتا رہا کوئی بھی زندہ نہیں رہا جب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے ان کی والدہ ان کو لے کر کعبہ اللہ گئیں اور کہنے لگیں اے اللہ تبارک و تعالی ان کو موت سے آزاد کر دے اور ان کو میرے حوالے کر دے اور ان کو مجھ سے محروم نہ کر مجھے عطا کر دے اس وجہ سے ان کا نام عتیق پڑ گیا اور ایک لقب ان کا اواہ اس کے معنی ہیں نرم دل کے ہیں ان کی رحمت اور شفقت کی وجہ سے ان کا ایک لقب اواہ بھی رکھا گیا اس کے علاوہ اور بھی القاب تھے ایک لقب ان کا تھا صاحب جب اللہ تبارک و تعالی نے کہا (( إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا )) جب وہ دونوں غار میں تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ تم غم نہ کرو اللہ تبارک و تعالی ہمارے ساتھ ہیں" صاحب کے معنی ساتھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کا نام صاحب پڑھ گیا کنیت ابو بکر ہے یہاں چار القاب بیان کیئے گئے "" صدیق، عتیق، اواہ ، صاحب
|
صفحہ 4
|
صفحہ 4
مولدہ وصفاته
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ معروف قول کے مطابق حادثہ اصحاب الفیل کے واقعہ کے دو سال کچھ مہینوں کے بعد کہا جاتا ہے دو سال چار ماہ یا چھے ماہ لیکن دو سال کچھ مہینوں کے بعد وہ پیدا ہوئے عام الفیل عرب میں تاریخ کو کسی مشہور واقع کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اصحاب الفیل کا واقعہ مرکز بن گیا تھا بنیاد بن گیا تھا تاریخ محفوظ کرنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل ہی کو ہوئی تھی جس سال ہاتھی والوں کا واقعہ پیش آیا تھا اسی سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی اس کے پچاس دن کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال کچھ مہینے چھوٹے تھے مکے میں پیدا ہوئے اور میلادی سال عیسوی سال اس وقت 573 تھا ۔
شکل و صورت
اور عام طور پر مورخین کی عادت ہے جب کسی کی سیرت کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی ظاہری شکل و صورت بھی بیان کرتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رنگ گورا چہرہ روشن جسم پتلا چہرے پر گوشت کم تھا گالوں پر بال بھی بہت کم تھے آنکھیں بہت گہری تھیں پیشانی بہت چوڑی تھی اپنے بالوں کو وہ خضاب لگاتے تھے یہ ان کا نقشہ بیان کیا گیا ہے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نشو نما بہت ہی اچھی عادتوں کے ساتھ ہوئی فطری طور پر وہ طبیعت کے بہت ہی اچھے تھے برائیوں سے دور رہتے تھے قریش کے سرداروں میں سے تھے مشہور تاجر تھے اور مختلف معاملات میں لوگ مشورے کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے صاحب الرائے تھے قریش کے لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے ان سے بہت قریب اور مانوس تھے قریش کے لوگوں میں نسب کے بہت زیادہ واقف تھے جاہلیت میں جب کہ ہر طرف بتوں کی پوجا ہوتی تھی تو یہ اس سے دور رہتے تھے جاہلیت کے زمانے میں بھی بتوں کی پوجا کی طرف انھوں نے کبھی توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی انھوں نے شراب پی فطری طور پر وہ ان چیزوں سے دور تھے عقلی طور پر بہت پختہ تھے ان کی طبیعت میں تواضع تھا سادگی تھی فخر و غرور نہیں تھا اور دنیا میں مشغول نہیں رہتے تھے اگرچہ کہ بہت بڑے تاجر تھے لیکن دنیا دار نہیں تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے یہاں تک کہ کوئی شخص جب ان کی تعریف کرتا ظاہر ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ان کی بہت خصوصیات پائی جاتی ہیں ان میں سے کچھ ان شاء اللہ آگے آئیں گی کسی اور کی نہیں ہیں انبیاء کے بعد جب کوئی تعریف کرتا تو کہتے (( اللَّهُمَّ أَنْتَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي، وَأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ، اللَّهمّ اجْعَلْنِي خَيْرًا مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لا يَعْلَمُونَ، وَلا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ )) " اے اللہ تبارک و تعالی میرے نفس کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے اور اپنے بارے میں میں لوگوں سے زیادہ واقف ہوں اے اللہ تبارک و تعالی مجھے اس سے بہتر کر دے جس کا وہ گمان کرتے ہیں اور جسے وہ میرے بارے میں نہیں جانتے اس سے مجھے بخش دے ، اور وہ جو کہ رہے ہیں اس کی بنیاد پر میرا مواخذہ نہ ہو "
|
صفحہ 5
|
صفحہ 5
اسلامه
مورخین میں اس بات کا اختلاف ہے کہ مطلق طور پر پہلے کون مسلمان ہوئے خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا پہلے مطلق طور پر مسلمان ہوئیں یا پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مطلق طور پر مسلمان ہوئے قیاس تو یہ کہتا ہے کہ سیدہ خدیجہ ہوں گی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تھے اپنے گھر جو وحی کے واقعات بیان کیئے تھے لیکن مؤرخین ان کے درمیان فرق کرتے ہیں کہ عورتوں میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا مسلمان ہوئی تھیں مردوں میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اور بچوں میں سب سے پہلے علی رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے تھے اور غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے تھے۔
یہ فرق کرتے ہیں اور اس بات میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ کس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں سب سے آگے تھے ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی بات نکلتی بھی نہیں تھی مکمل ادھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر اس کی تصدیق کرتے تھے اسراء کے موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق کی ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا " اللہ تبارک و تعالی نے مجھے تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا تو تم نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو ابو بکر نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں اور انھوں نے میری مدد کی اپنے نفس کے ساتھ اور اپنے مال کے ساتھ کیا تم میرے ساتھی کو چھوڑ دو گے " کسی موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں کہیں تھیں جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں سب سے آگے تھے ۔
|
صفحہ 6
|
صفحہ 6
فضائل ابی بکر
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل
اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل ہیں علی الاطلاق اس میں اہل سنت والجماعت میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ مقام و مرتبہ جو حاصل ہوا بنیادی طور پر اللہ کا فضل ہے اس کے بعد وہ خدمات ہیں یا ان کے بہترین کام ہیں جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کئے اور پھر اللہ کے دین کے لئے پیش کیا اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ وہ اس امت کے سب سے بہتر اور سب سے افضل شخصیت کہلائے لہذا ان کے بہت سے فضائل ہیں ہم انہیں ایک ساتھ جمع کرنا چاہیں تو ہمیں طویل وقت چاہیے اور کوئی کتاب لکھی جائے تو کافی ضخیم کتاب بن سکتی ہے ۔
اولا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت پر مداومت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی خوبی ہے تمام صحابہ میں آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ ساتھ رہنے والے تھے حضر میں سفر میں اور ہر مقام پر یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کے لئے نکلے تھے تو غار میں بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے جیسا کہ سوتہ التوبہ 40 (( ) إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا )) " اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالی نے آپ کی مدد کی ہے اور مدد کرے گا اس میں اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے اللہ تعالی نے کہا اگر تم نبی کے ساتھ شریک نہیں ہو گے تو اللہ تبارک و تعالی تمھاری مدد کا محتاج نہیں ہے جہاں تک نبی کا سوال ہے اللہ تعالی نے اپنے نبی کی مدد پہلے بھی کی ہے اب بھی کرے گا تب بھی کی تھی جب کافروں نے انہیں نکال دیا تھا جب آپ مکے سے نکل گئے تھے دو میں دوسرے تھے اور اس میں ذکر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے کہ "جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے " اس میں اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب مشرکین آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے دھانے پر پہنچ گئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان میں سے کوئی شخص اپنے پیروں کی طرف دیکھ لے گا تو ہم اسے نظر آ جائیں گے تو اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : يَا أَبَا بَكْرٍ,مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا ان دو کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جس کا تیسرا اللہ تبارک ہے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا آپ کی صحبت میں ملازمت اختیار کرنا دوام اختیار کرنا یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی سب سے پہلی علامت اور فضیلت کا سب سے پہلا سبب ہے اور ایک حدیث میں بھی ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تمام لوگوں میں جو سب سے زیادہ آپ کے ساتھ رہے اور سب سے زیادہ آپ کے لئے اپنا مال خرچ کیا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں "۔
ثانیا: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ کے راستے میں کثیر مال خرچ کرنا یہ ان کی فضیلت کا دوسرا سبب ہے جیسا کہ ھشام بن عروہ اپنے والد سے زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تھے تو ان کے پاس چالیس ہزار درھم تھے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ جب ان کا انتقال ہوا نہ ان کے پاس درھم تھا نہ دینار تھا یہ اس وقت کی بات ہے ان کے پاس جتنے پیسے اسلام لانے کے وقت موجود تھے اس کا ہم اندازہ لگا رہے ہیں لیکن درمیان میں انہیں کتنا مال حاصل ہوا انھوں نے اللہ کے راستے میں خرچ کیا
|
صفحہ 7
|
صفحہ 7
جب ان کے پاس چالیس ہزار درھم تھے تب انھوں نے اللہ کے راستے میں کثرت کے ساتھ خرچ کیا کہ جب وفات پا رہے تھے تو کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں تھی انھوں نے اپنے نفس کو اپنے مال کو اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیا تھا اس دین کے لئے ان کے مال کے انفاق کی چند صورتیں یہ ہیں کہ انھوں نے کس طرح اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے مال کو خرچ کیا اس کی چند صورتیں انھوں نے یہاں بیان کی ہیں یعنی انکی فضیلت کا دوسرا سبب یہاں بیان کیا کہ انھوں نے کثرت کے ساتھ اللہ کے راستے میں مال خرچ کیا ان کے مال کے خرچ کی صورتیں کیا تھیں وہ یہ ہیں ۔
ا : جو غلام مسلمان ہو چکے تھے اور اسلام لانے کی وجہ سے ان کے مالک یا آقا انہیں سخت سزا یا عذاب دے رہے تھے اور سخت عذاب میں انہیں رکھے ہوئے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے خرید کر انہیں آذاد کر دیا جیسا کہ بلال بن رباح ، عامر بن فھیرة اور بنو مؤمل کی ایک لونڈی بھی تھیں اسی طرح زنیرہ بھی تھیں اور ان کی والدہ بھی تھیں ایسے بہت سے لونڈی اور غلام تھے جن کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پیسوں سے آزاد کیا یہ پہلی صورت تھی اللہ تعالی کے راستے میں اللہ تعالی کے دین کی خاطر مال خرچ کرنے کی سورتہ الیل 17-21 (( * وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ○الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ○ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ○إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ ○وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ* )) اہل علم کا تقریبا اجماع ہے کہ یہ آیتیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی نزول کے مطابق یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں لیکن ہر وہ شخص معنی کے لحاظ سے اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرے گا اللہ تبارک و تعالی اسے بھی یہ مقام عطا کرے گا اس آیت سے پہلے اللہ نے نار تلظی کا ذکر کیا تھا کہ وہ بھڑکتی ہوئی آگ جس کے شعلے ہوں گے داخل ہو گا """اس سے دور رکھا جائے گا جو متقی ہو گا جو اپنا مال خرچ کرتا ہے تاکہ پاکی حاصل کرے طہارت نفس کی خاطر تزکیہ نفس کی خاطر کسی کا اس کے اوپر کوئی احسان نہیں جس کا وہ بدلہ دیا جا سکتا ہو یعنی اس پر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا جو وہ کر رہے ہیں بلکہ وہ بغیر کسی احسان کے اپنے مال کو خرچ کر رہے ہیں سوائے اپنے رب کی رضامندی کی خواہش اور اس کی طلب کے لئے اور ان کا رب ان سے عنقریب راضی ہو جائے گا" ۔
ب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن ھجرت کے لئے نکل رہے تھے تو اپنا سارے مال کو آپ کے حوالے کر دیا تھا آپ جیسے چاہیں خرچ کریں اپنے مال سے انھوں نے اونٹنیاں تیار کیں اپنے مال سے ایک آدمی کو اجرت پر لیا راستہ بتانے کے لئے اور کئی انتظامات ہیں جو انھوں نے کیئے تھے گویا کہ سارا مال انھوں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں دے دیا تھا ھجرت کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تھی کہ آپ ھجرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مالی نفاق کی دوسری صورت ہے۔
ج: مسلمانوں میں جو غریب محتاج اور فقرا تھے ان پر وہ اپنا مال خرچ کرتے تھے انھیں خرچ دیتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے جیسا کہ مسطح ابن اثاثه رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے رشتے دار بھی تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر مہینہ ان کی مدد کرتے تھے اپنے مال کے ذریعے یہاں تک کہ حادثہ افك میں جو منافقین نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا پر تہمت لگائی تو کچھ سیدھے سادھے مسلمان بھی اس کا شکار ہو گئے تھے جس میں مسطح رضی اللہ عنہ بھی تھے جو تہمت لگانے والوں کے ساتھ شامل تھے جب اللہ تبارک و تعالی نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کی طہارت و پاکیزگی کی برات کے تعلق سے آیتیں نازل فرمائیں جو سورتہ النور کی دس آیتیں ہیں تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ میں اس کے بعد مسطح کی کوئی مدد نہیں کروں گا ظاہر ہے ان کی بیٹئ پر تہمت لگانے کے سلسلے میں جو رول تھا طبعی طور پر فطری طور پر انہیں کافی تکلیف پہنچی تھی لہذا انھوں نے قسم کھائی کہ وہ اس کے بعد مسطح کی مدد نہیں کریں گے لیکن فطری طور پر یہ کرنا ان کا بھلے ہی غلط نہ ہو صدیقیت کا مقام سے اترتے تھے صدیقیت کا مقام اس سے بہت بلند ہے لہذا اللہ تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل کر دی سورتہ النور 22 (( وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )) "" اور قسم نہیں کھانا چائیے تم میں بزرگی اور کشادگی والوں کو قرابت داروں کو اور مساکین کو اور مہاجرین کو اور اللہ کے راستے میں ھجرت کرنے والوں کو نہ دینے کے بارے میں اس کے بعد اللہ تعالی نے اس بات کی رہنمائی کی کہ انہیں چائیے درگزر کر دیں معاف کر دیں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالی تمھے معاف کرے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھے معاف کر دے اللہ تعالی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے" اللہ رب العالمین کا انداز کتنا پیارا ہے جس کی طرف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو توجہ دلائی کہ تم بھی تو انسان ہو تم سے کچھ نہ کچھ قصور سرزد ہو ہی جاتے ہیں اگر تم چاہتے ہو اللہ تمھے درگزر کرے معاف کر دے اسی طرح تمھے بھی چائہے کہ لوگوں کو درگزر کر دو معاف کر دو ان آیتوں کے نزول کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا مسطح رضی اللہ عنہ کی امداد جاری کر دی اور ساری عمر ان کی مدد کرتے رہے ۔
|
صفحہ 8 |
صفحہ 8
ان آیتوں کے نزول کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ نے کہا ہاں کیوں نہیں قسم بخدا میں چاہتا ہوں کے اللہ تعالی مجھے معاف کر دے اس کے بعد انھوں نے کہا میں کبھی بھی ان کی مدد نہیں روکوں گا ۔
ثالثا: اللہ کے دین کے لئے جہاد کرنا معنوی لحاظ سے بھی اور ظاہری لحاظ سے بھی ہر صلاحیت کے ساتھ جہاد کرنا جو اللہ تعالی نے انہیں دی ہے ہر وہ چیز جو اللہ نے انہیں دی ہے ہر اس چیز کے ساتھ جہاد کرنا یہ ان کی فضیلت کا تیسرا سبب ہے اس کو ہم حسب ذیل نقاط میں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح اللہ کے راستے میں جہاد کیا ۔
ا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے سب سے پہلا غزوا بدر تھا اور آخری غزوا تبوک تھا اور جو درمیان میں غزوات تھا ان کے بارے میں مورخین کہتے ہیں وہ اٹھائیس یا انتیس غزوات تھے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی تھی ابو بکر صدیق رضی اللہ بھی شریک تھے اس کے علاوہ جو سرائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجے تھے ان میں بھی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا ان میں بھی یہ برابر شریک رہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے یہ پہلی صورت ہے جہاد فی سبیل اللہ کی ۔
ب: ابو بکر صدیق رضی اللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے کوئی کفار قریش میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرتا تھا مکے میں خاص طور پر اور جو تکلیفیں اور مصیبتیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا چاہتے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے ہمیشہ آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا وہ شروع سے مسلمان ہوئے اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے جب بھی مشرکین تکیلف دیتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ابو بکر صدیق رضی اللہ آگے آ جاتے ان کا مقابلہ کرتے تھے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عروة بن الزبیر نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے بیان کرتے ہیں عروة بن زبیر نے ان سے پوچھا کہ مشرکین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تکلیفیں دیں ان میں سب سے تکلیف دہ موقع یا سب سے برا سلوک کیا تھا جو انھوں نے کیا تھا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا ایک مرتبہ اللہ کے رسول کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے قوم کا ایک بد بخت شخص عقبة بن ابی آپ کے پاس آیا آپ کے مونڈھوں کو پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اتنی زور سے کھینچا کہ آپ کو سخت تکلیف ہوئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا تو آپ فورا دوڑتے ہوئے آئے اس کو اس کے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسے ہٹا دیا اور کہنے لگے کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس اپنے رب کی جانب سے واضح دلائل بھی لے کر آیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور عقبة بن ابی اور اس کے ساتھی ابو بکر صدیق رضی اللہ پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہا جاتا ہے ان کا سر چار حصوں میں تقسیم تھا چوٹیوں کے حساب سے مشرکین نے ان کو اتنا مارا کہ ان کی کسی بھی چوٹی کو ہاتھ لگاتے تو بال خود بخود ٹوٹ جاتے تھے یہ حال تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی گواہی علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی دی ہے کوفہ میں انھوں نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم بتا سکتے ہو سب سے بہادر اور شجاع کون ہے تو لوگوں نے کہا آپ ہیں تو علی ابن طالب نے جواب دیا کہ ہاں جس نے بھی مجھے تکلیف پہنچائی اللہ کے دین کے معاملے میں جو میرے مقابل میں آیا میں نے اس سے اپنا بدلہ لیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن امت میں سب سے بہادر ابو بکر صدیق رضی اللہ تھے بدر کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان بنایا گیا تھا تاکہ مشرکین میں سے کوئی آپ کے پاس نہ آ سکے ابو بکر صدیق رضی اللہ ہی تھے جو اس موقع پر آگے بڑھ کر کھڑے ہو گئے تھے کسی کو بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے نہیں دیتے تھے آگے آ کر کھڑے ہو جاتے اور اس سے مقابلہ کرتے تھے اس کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ ساری چیزیں بتائیں جو مکے میں انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے کی تھیں آپ کے ساتھ رہتے مشرکین میں سے کوئی آپ کو بولتا تنگ کرتا کوئی مارتا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ اس کا مقابلہ کرتے کبھی اس کو روکتے کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے اس کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ ابو بکر صدیق رضی اللہ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو گئی اس کے بعد کہنے لگے میں تمھے اللہ تعالی کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آل فرعون کا جو مومن تھا جس نے لوگوں کو نصیحت کی تھی وہ افضل ہے یا اس امت کے ابو بکر صدیق رضی اللہ وہ افضل ہیں کیونکہ وہ اس وقت تنہا مومن تھا اکیلا تھا اپنے لوگوں کو سمجھا رہا تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ بھی لوگوں کو سمجھا رہے تھے آور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کر رہے تھے کون افضل ہے لوگ خاموش ہوئے تو انھوں نے جواب دیا اللہ کی قسم ابو بکر صدیق رضی اللہ ایک ساعت کا عمل آل فرعون کی زمین بھر کی نیکیوں سے افضل ہے اس لئے کہ وہ تو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ مومن ہے وہ دفاع ضرور کر رہا تھا ساتھ بھی دے رہا تھا اور ایمان کی دعوت بھی دے رہا تھا لیکن وہ ایمان کو چھپائے ہوئےتھے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ اپنے ایمان کو ظاہر کیئے ہوئے تھے یہ بات واضح ہونا چائیے کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس فضائل کا اعتراف کیا یہاں تک کہ وہ کہتے تھے کوفہ کے ممبر پر کہا تھا کہ اگر مجھے پتہ چلے کوئی شخص مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما پر فضیلت دیتا ہے تو میں اسے بہتان کی سزا دوں گا بہتان کی سزا اسی کوڑے ہیں۔
|
صفحہ 9
|
صفحہ 9
ج: ابو بکر صدیق رضی اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں بھی تھے ھجرت کے سفر میں بھی تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قریش نے اللہ کے رسول کو زندہ یا پھر مردہ کسی بھی حال میں گرفتار کرنے پر بہت بڑے انعام کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی جانتے تھے کفار آپ کو ڈھونڈنے کے لئے ہر طرح کی کوشش کریں گے انہیں جانے نہیں دیں گے سارے خطرات کو جانتے تھے تمام خطرات کو جانتے ہوئے بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پر خوشی کا اظہار کیا تھا ھجرت کے سفر میں ۔
د: ابو بکر صدیق رضی اللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سائبان میں جو بدر کےموقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان بنایا گیا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ اپنے رب سے دعائیں مانگ رہے تھے اور الہا اور عاجزی کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشغول تھے یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر گر پڑی تھی آپ نے ہاتھ اٹھائے دعائیں کی دعائیں سیرت میں ہم بدر کے سبق میں ہم نے پڑھ چکے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی اور تاثر کی وجہ سے آپ کی چادر گر پڑی ابو بکر صدیق رضی اللہ نے چادر اٹھا کر آپ کے کاندھوں پر رکھا اور پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہنے لگے بس کیجئے اللہ کے نبی اللہ تعالی آپ سے اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا ۔
ھ: حنین کے موقع پر جب وادی میں جب مسلمانوں کی فوجیں گزر رہی تھیں تو مشرکین نے اچانک حملہ کر دیا کچھ دیر کے لئے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تھے کچھ دیر کے لئے اکثر پیچھے ہٹ گئے تھے گنتی کے مسلمان تھے جو اس موقع پر ثابت قدم تھے اس موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ بھی تھے حنین کے موقع پر ثابت قدم رہنے والوں اور فوج کے آگے رہنے والوں میں یہ بھی تھے جب مسلمان اپنی کثرت کی وجہ سے بہت خوش تھے سمجھ رہے تھے آج ان کی کثرت کی بنیاد پر ان کی فتح ہو گی اس کی وجہ سے وہ مشکل سے دو چار ہوئے جو چند لوگ ثابت قدم رہ گئے تھے ان میں ابوبکر صدیق رضی اللہ بھی شامل تھے۔
و: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے باہر مکہ مدینہ کے باہر مختلف علاقوں میں جب ارتداد کا فتنہ پھیل گیا یعنی مسلمان اس میں کئی مشکلات سے دو چار ہوئے اس موقع پر یہاں بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ کی شجاعت ظاہر ہوئی ایسے وقت پر جب مرتدین کی وجہ سے مختلف لوگ جو اسلام سے نکل گئے تھے ان میں کچھ لوگوں نے نبوت کا دعوہ کیا تھا کچھ لوگوں نے زکوة کا انکار کر دیا تھا طرح طرح کے فتنے پیدا ہو گئے تھے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ لوگ حملہ آور ہوں گے اس کے باوجود بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ نے عقل و شجاعت سے کام لیتے ہوئے اسامہ رضیاللہ تعالی عنہ کی فوج جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ سے جنگ کے لئے تیار کی تھی اس کو بھیجا باوجود یہ کہ بہت سے صحابہ نے یہاں تک کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی مشورہ دیا کہ مدینہ اس وقت خطرات میں گھرا ہوا ہے تو ایسے موقع پر مصلحت کا تقاضہ ہے کہ اسامہ رضیاللہ تعالی عنہ کو بھیجا نہ جائے تاکہ مدینہ کا دفاع کیا جاسکے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ نے کہا ابو قحافہ کی یہ جرات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فوج کو تیار کیا ہو اس کو روک دے میں اس کو روک نہیں سکتا جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھیجنے کا حکم دیا تھا اور آپ یہ حکم دے چکے تھے یہ سخت ترین حالات تھے اور بعد میں پتہ چلا ان کا بھیجنا یہ مسلمانوں کی قوت کا سبب بنا۔
ز: کیونکہ وہاں پر مسلمان کامیاب ہو کر آئے اور یہاں آس پاس کے مختلف قبائل ارتدا کا شکار ہو گئے تھے ایسے وقت میں انھوں نے سوچا کہ جب مسلمان عرب کے باہر فوج بھیج رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس بہت بڑی قوت ہو گی ان کے دلوں میں رعب پیدا ہو گیا وہ لوگ مدینہ میں حملہ کرنے سے رک گئے تھوڑا بہت حملہ کیا اس کا مسلمانوں نے دفاع کیا یہ ان کی شجاعت کا بہت ہی اہم سبب ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بہادری کا کام تھے جو انھوں نے کیا تھا یہاں تک کے ارتداد کے فتنے کا خاتمہ ہو گیا ابو بکر صدیق رضی اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نرم دل تھے وہ مسلمانوں کے لئے نرم دل تھے لیکن ایسے موقع پر جب ہر طرف سے مطالبہ ہو رہا تھا کہ نرمی کی جائے نرمی کی جائے یہ بہت ہی سخت موقف تھا بظاہر لیکن وہ کہنے لگے میں ان کے ساتھ جہاد کروں گا ابو بکر صدیق رضی اللہ کی بہادری اس موقع پر ظاہر ہوئی جب ہر طرف سے سب دیکھ رہے ہیں کہ ہر طرف سے کمزوری کی علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں انھوں پوری بہادری دکھائی مرتدین کے ساتھ انھوں نے جہاد کیا یہاں تک کہ ارتداد کے فتنے کا خاتمہ ہو گیا
|
صفحہ 10
|
صفحہ 10
رابعا: ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت کا یہاں جو چوتھا سبب بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کے دین کو پہنچانے میں ان کی کوششیں ۔ابو بکر صدیق رضی اللہ کی پوری زندگی دین کی دعوت میں ہی گزری اور وہ اللہ تعالی کے دین کو پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہم دیکھ چکے ہیں ان کے جہاد کی مختلف صورتیں اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کیا لیکن اس کے ساتھ دین کی دعوت میں بھی وہ سب سے آگے تھے جیسے ہی مسلمان ہوئے ویسے ہی دوسروں کو بھی دین کی دعوت دینے لگے انہی کی کوششوں سے عثمان ابن عفان ، الزبیر بن العوام ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبید اللہ وغیرہ رضی اللہ تعالی عنھم مسلمان ہوئے یہ پانچ صحابہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے تھے اللہ تعالی کے دین کی تبلیغ کی جو کوششیں تھیں ایک تو انھوں نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی بہت سے لوگ ان کی کوششوں سے مسلمان ہوئے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے قرآن کو جمع کیا قرآن جو لکھا ہوا تھا لیکن ایک جگہ جمع نہیں کیا گیا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیونکہ وحی مسلسل نازل ہو رہی تھی اس کو ایک جمع نہیں کیا جا سکتا تھا اگرچہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لکھا دیا تھا قرآن مجید اس امت کی شریعت کا مصدر ہے جب کہ یہ ہی اس امت کی ہدایت کی بنیاد ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اس کو ایک جگہ جمع کرنے کے کام کو انجام دیا اس کا مشورہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا تھا جب مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی تھی اور بہت سارے قراء صحابہ شہید ہو گئےتھے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا مشورہ دیا تھا پھر انھوں نے اس کام کو انجام دیا قرآن کو جمع کر دیا۔
اس میں جو تیسری صورت بیان کی گئی ہے کہ سن 9 ھجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا 8 ھجری میں مکہ فتح ہو گیا 9 ھجری میں جب حج فرض ہوا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ کو امیر بنا کر مشرکین سے جو برات کا اعلان کیا گیا تھا اس کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا تاکہ مشرکین سے برات کا اعلان کر دیں یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ کی اللہ کے دین کی دعوت کی مختلف صورتیں ہیں انہیں بہت کم موقع ملا دو سال اور کچھ مہینے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ زندہ رہے پھر بھی ان سے جو حدیث مروی ہیں ان کی تعداد 142 ہے جو ان سے مروی ہیں امت میں علم کے اعتبار میں سے بھی سب سے آگے تھے افضل تھے جیسے جیسے دن گزرتے گئے وقفہ طویل ہوتا گیا صحابہ کرام احادیث زیادہ بیان کرتے گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ سے کم احادیث کا ثابت ہونا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ علم میں کم تھے ایسی بات نہیں بلکہ وہ علم میں سب سے آگے تھے یقینا وہ تمام صحابہ میں سب سے آگے تھے لیکن ان کو جو وقفہ ملا وہ بہت کم ملا۔
خامسا: ان کی فضیلت کا جو پانچوں سبب ہے وہ احادیث ہیں جو بہت زیادہ ہیں جو ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت کی دلیل ہے ان میں وہ حدیث ہیں ۔
ا: جن کو امام مسلم نے روایت کیا عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ذات السلاسل میں جب انہیں بھیجا جب واپس آئے تھے تو اس وقت انھوں نے پوچھا تھا کہ " تمام لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے تو آپ نے فرمایا تھا عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا انھوں نے کہا آدمیوں میں کون ہے اس وقت کہا تھا ان کے والد اس کے بعد پوچھا اس کے بعد تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مردوں میں محبوب ہیں وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ ہیں"
ب: اسی طرح ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت پوری ہونے کے بعد ان کو واپس جانے کو کہا تو وہ جب جانے لگی تو کہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب میں دوبارہ آؤں اور آپ کو نہ پاؤں یعنی آپ کی وفات ہو جائے تو میں کیا کروں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر صدیق رضی اللہ کے پاس جانا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ گویا آپ کے بعد مسلمانوں کے جو خلیفہ ہوں گے وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ ہی ہوں گے۔
ج: " اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا کہ اگر امت میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ کو دوست بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں چونکہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو اپنا خلیل بنایا ہے " خلت محبت کا سب سے بڑا مرتبہ ہے اللہ تبارک و تعالی تمام اہل ایمان سے محبت رکھتا ہے ہر مومن اللہ تعالی کا حبیب ہے لیکن جو خلت ہے وہ محبت کا سب سے بڑا مرتبہ ہے اس کی صراحت اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اللہ تعالی نے آپ کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے اگرچہ دوسرے انبیاء کو بھی حاصل ہو گی لیکن جن کی صراحت کی گئی وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسے ابراہیم خلیل اللہ ہیں ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلیل اللہ ہیں عام طور پر کہتے ہیں ابراہیم خلیل اللہ اور محمد حبیب اللہ جبکہ محبت خلت سے کم درجہ ہے تو ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خلیل اللہ کہنا چائیے دونوں حبیب اللہ بھی ہیں اور خلیل اللہ بھی ہیں جب ہم درجے کی بات کرتے ہیں تو دونوں خلیل اللہ ہیں۔
د: اسی طرح ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ پر تھے آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر و عثمان رضی اللہ تعالی عنھم تھے پہاڑ ہلنے لگا آپ نے کہا احد خاموش ہو جاؤ پر سکون ہو جاؤ کہا جاتا ہے آپ نے اپنے پیر سے گویا احد کو مارا بھی تھا اور کہا تھا تمھارے اوپر ایک نبی ہیں ایک صدیق ہیں اور دو شہید ہیں نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں صدیق ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور دو شہید تو عمر و عثمان رضی اللہ تعالی عنھما ہیں ۔
ھ: اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم ابو بکر صدیق رضی اللہ سے افضل کسی کو نہیں سمجھتے تھے کسی کو ان کے برابر درجہ نہیں دیتے تھے اس کے بعد پھر عمر بن خطاب کو اس کے بعد عثمان بن عفان کو یہ ہی ترتیب خلافت کی بنی یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام سوچا کرتے تھے " ان کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے صحابہ کا اس بات پر اجماع تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر پھر عمر بن خطاب اس کے بعد عثمان ابن عفان ہیں پھر علی رضی اللہ رضی اللہ عنھم ہیں جو خلافت کی ترتیب ہے وہی فضیلت کی ترتیب ہے یہ ہی راجح قول ہے۔
|
صفحہ 11 |
صفحہ 11
بیعته بالخلافة
خلافت کی بیعت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خلافت کی جو بیعت ہوئی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہو گئی اور مدینے میں یہ خبر پھیل گئی تو لوگوں کا حال بڑا عجیب ہو گیا کوئی اس کی تصدیق کر رہا تھا کوئی اس کو جھٹلا رہا تھا عام طور پر لوگ اس خبر کے لئے تیار نہیں تھے اس خبر کو ماننا ان کے لئے کافی مشکل ہو رہا تھا کوئی اپنے گھر سے باہر نہیں نکل رہے تھے کسی پر سکتہ طاری ہو گیا تھا اور پریشانی کا عجیب عالم تھا گویا اکثر لوگ ہوش و حواس کھو چکے تھے گویا اپنے ہوش و حواس میں باقی نہیں تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت مقام السنخ میں تھے مدینے کے باہر ایک مقام پر تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی جب خبر ان کو ملی تو اپنی سواری پر سوار ہو کر آئے اور لوگوں کے پاس جہاں لوگ جمع تھے وہاں نہیں گئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے حجرے میں داخل ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا انھوں نے آپ کے چہرے مبارک سے چادر کو ہٹایا اور کہا: " میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور مرنے کے بعد بھی پاکیزہ ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جاں ہے اللہ تعالی آپ کو دو موتوں میں جمع نہیں کرے گا جو موت آپ کو آنی تھی وہ آ چکی " گویا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایسے موقع پر بھی جو غم اور صدمے کے لحاظ سے سب سے بڑا تھا وہ اپنے ہوش و حواس میں باقی تھے اور انھوں نے اس بات کو صاف طور سے محسوس کر لیا کہ اب آپ کی وفات ہو چکی ہے اس کے بعد وہ لوگوں کے پاس گئے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا حال بڑا عجیب تھا وہ اس بات کا سختی سے انکار کر رہے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں خاموش بٹھانا چاہا لیکن وہ اپنے ہوش میں کہاں تھے کہ وہ بات مان لیتے یہ دیکھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ممبر پر چڑھ گئے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد کہا "" من كان يعبد محمدًا ، فإنّ محمدًا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حيّ لا يموت " جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چائیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں جو اللہ کی عبادت کرتا تھا اللہ تعالی ذندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی اس کے بعد انھوں نے قرآن مجید کی آیت ذکر کی سورتہ الزمر (( * إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ* )) آپ وفات پائیں گے اور وہ بھی وفات پائیں گے " اور اللہ کا یہ فرمان بھی پڑھا جو سورتہ ال عمران میں ہے (( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ )) " محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول وفات پا چکے ہیں پھر کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو تم ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے اور جو ایڑیوں کے بل لوٹ جائے گا وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر سکے گا اللہ تعالی شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دے گا " ان آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں گے واضح طور پر یہ دو آیتیں انھوں نے تلاوت کی تو لوگوں کو ہوش آنا شروع ہوا لوگ کچھ پر سکون ہو گئے اس خبر پر انہیں یقین آ گیا اکثر صحابہ قرآن مجید کے حافظ تھے لیکن ایسے موقع پر وہ ان چیزوں کو بھول چکے تھے عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیتیں تلاوت کیں مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میرے پیروں میں کوئی جان ہی نہیں ہے کھڑے رہنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوا وہ وہیں بیٹھ گئے اور صحابہ نے یہ محسوس کیا گویا انھوں نے اس سے پہلے یہ آیتیں سنی ہی نہیں تھیں اس کے بعد ہر ایک کی زبان پر یہ آیتیں چڑھ گئیں یہ ایسا موقع تھا جس میں صحابہ بہت زیادہ غم زدہ تھے علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر میں روپوش ہو گئے تھے باہر نہیں نکل پا رہے تھے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر گویا سکتہ طاری ہو گیا تھا اور اکثر مسلمان یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اس مقام پر ہمیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا صاف طور پر احساس ہوتا ہے ایک ایسے وقت پر جو آزمائش کی سخت ترین گھڑی تھی جہاں صحابہ تقریبا اپنا ہوش و حواس کھو چکے تھے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پوری بہادی اور شجاعت کے ساتھ اپنے ہوش و حواس میں نہ صرف باقی رہے بلکہ تمام صحابہ کو اس بات کی طرف دعوت دی کہ وہ اس خبر پر یقین کر لیں بلکہ ان سب کے ہوش و حواس کو باہر لائے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایسا کارنامہ ہے جو یقینا بہت بڑا کہلاتا ہے گویا صحابہ رضوان اللہ علیھم کو اب اس خبر پر یقین ہو گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اب جو بنو ہاشم کے لوگ تھے وہ آپ کو غسل دینے اور آپ کو کفن دینے میں مصروف ہو گئے انصار کے کچھ آدمی سقیفة بنی ساعدہ کے پاس باہر ایک چبوترا تھا جہاں لوگ مشاورت کے لئے جمع ہوتے تھے وہاں وہ جمع ہو گئے اور وہ لوگ یہ سوچنے لگے اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نہ کوئی تو مسلمانوں کا امیر ہونا چائیے تو انھوں نے سوچا کہ مدینے کا کوئی باشندہ ہو یہ ان کا شہر ہے اور مہاجرین تو مکے سے آئے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے آئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں رہے تو ممکن ہے وہ واپس چلے جائیں پھر انھوں نے یہ بھی سوچا کہ مہاجرین کی تعداد بھی کم ہے لہذا وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ انصار میں سے کسی کو بنا دیا جائے ان کی عام رائے یہ تھی سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا جائے سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ انصار کے سب سے بڑے قبیلے خزرج کے سردار تھے اور کافی عظیم صحابی تھے ادھر بھی مہاجرین کی ایک چھوٹی سی جماعت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمع ہوئی تھی اس بارے میں غور کرنے کے لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس کو امیر بنایا جائے اور اسی بارے میں غور کر رہےتھے کہ کس کو امیر بنائیں کس طرح اس مسلے کو حل کریں گے تو انہیں پتہ چلا کہ بنی ساعدہ کے سقیفے پر انصار جمع ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی اسی بارے میں بات کر رہے ہیں تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جو دوسرے صحابہ تھے خاص طور پر عمر بن خطاب اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنھم انھوں نے اس بات کو زیادہ مناسب سمجھا کہ وہیں جائیں جہاں انصار جمع ہیں اور اس مسلے کو ان کے ساتھ مل کر حل کریں جب وہاں جانے کے ارادے سے نکلے تو راستے میں دو انصاری آدمیوں سے ملاقات ہوئی عویمر بن ساعدة اور معن بن عدی انھوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو تو انھوں نے کہا ہم انصار کے پاس جا رہے ہیں خلافت کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے تو وہ کہنے لگے آپ ان کے پاس کیوں جا رہے ہیں آپ لوگ اپنے طور پر معاملے میں مشورہ کر لیجئے اور اپنے طور پر کسی کو خلیفہ بنا لیجئے ۔
|
صفحہ 12
|
صفحہ 12
گویا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جانتے تھے کہ خلافت قریش ہی میں ہونی چائیے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ بنایا جانا چائیے اس بات کو وہ محسوس کرتے تھے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ صحابہ جمع تھے انھوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ نہیں وہاں جائیں گے اور وہیں بات کریں گے سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے وہاں لوگوں کے درمیان جو بات چیت ہو رہی تھی اس کو انھوں نے سنا اور انصار جو مختلف باتیں جو پیش کر رہےتھے اس کو بھی پوری توجہ سے سنا انصار میں سے حباب بن منذر اور بشیر ابن سعد رضی اللہ تعالی عنھما نے بات کی اس کے بعد مختلف باتیں ہوئیں بعض صحابہ نے کہا دو امیر بنائے جائیں ایک مہاجرین میں سے ایک انصار میں سے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے خطاب کیا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں اس موقع پر لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے میں نے اپنے طور پر یعنی اپنے ذہن میں ایک خطبہ تیار کیا تھا پیش کرنے کے لئے اچھے انداز سے تاکہ لوگوں کو سمجھا سکوں لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے روک دیا اس کے بعد انھوں نے گفتگو کی اللہ کی قسم ان کی گفتگو میں میری سوچی ہوئی بات سے زیادہ اچھی تھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے سب سے پہلے انصار کی تعریف کی ان کے فضائل کا ذکر کیا ان کا اعتراف کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی الآئمة من القریش امام جو ہو گا یا امیر جو ہو گا یا خلیفہ جو ہو گا وہ قریش میں سے ہو گا لا یزال ھذا الامر في قریش ما بقي منھم اثنان "جب تک قریش میں دو آدمی بھی باقی رہیں گے تو خلافت کا معاملہ قریش ہی میں ہو گا " اور ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا تھا (( سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " إِنَّ هَذَا الأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لاَ يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلاَّ كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ )) صحیح بخاری 3500 " خلافت کا معاملہ وہ قریش ہی میں ہو گا جو اس کی مخالفت کرے گا اللہ تبارک و تعالی اسے آگ میں ڈال دے گا جب تک وہ اللہ کے دین کو قائم کرے" یہ حدیث مختلف صحابہ سے مروی ہے اور صحیح حدیث ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ قریش کے باہر خلیفہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ قریش میں اگر کوئی قابل ہے تو خلافت کا پہلا حق اسی کا ہے اور یہ قیامت تک رہے گا لیکن اگر کوئی اور شخص مسلمانوں کا خلیفہ بن گیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اس کی بیعت کی جا سکتی ہے اور اس کی اطاعت بھی واجب ہو گی یہاں جو بات کہی گئی ہے کہ اسی کو ترجیح دینا چائیے قریش باقی ہے اور اس کے اندر وہ صلاحیت ہے دینی اور دنیاوی دونوں صلاحیتیں موجود ہیں تو اسی کو خلیفہ بنانا چائیے لیکن کہیں کوئی آدمی غالب آ جاتا ہے اور مسلمانوں میں وہ خلافت پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو اس کی بیعت کی جا سکتی ہے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تمام باتیں پیش کرنے کے بعد ظاہر ہے ان کی باتوں سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ خلیفہ مہاجرین ہی میں ہونا چائیے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی ان کے سامنے آ گئے تو ان لوگوں نے اس بات کو قبول کر لیا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تمھارے پاس عمر بن خطاب اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنھما ہیں ان میں سے کسی کی بیعت کر لو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے ہم آپ کے ہاتھ بیعت کرتے ہیں "فانت سیدنا وخیرنا واحبنا الی رسول صلی اللہ علیہ وسلم" " آپ ہمارے سردار ہیں ہم میں سب سے بہتر ہیں اور ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ سب سے بڑھ کر محبوب ہیں " یہ کہ کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کر لی اس کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں جتنے بھی لوگ موجود تھے انھوں نے بیعت کی اسے البیعة الخاصة کہتے ہیں لوگوں کو جمع کر کے بیعت کی اور اچانک ہونے والا حادثہ تھا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا خلافت کے لئے کوئی منصوبہ ہو اس دن جو حادثات پیش آئے ان میں سے ایک حادثہ یہ بھی تھا اس کے بعد دوسرے دن مسجد میں عام بیعت ہوئی تمام صحابہ تھے جن میں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے انھوں نے بھی بیعت کی بلکہ صحیح روایت میں ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یاد کیا اور وہ آئے انھوں نے بیعت کی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی یاد کیا وہ بھی آئے انھوں نے بیعت کی زبیر ابن عوام رضی اللہ عنہ بھی آئے انھوں نے بھی بیعت کی اور ہر کے سامنے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ ہی فکرہ پیش کرتے رہے کہ اگر آپ میں سے اگر کوئی چاہتا ہے تو یہ ذمہ داری سنبھال لے اس کے بعد بھی جب دوسرے دن بیعت ہوئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ ہی بات پیش کی کہ تم اپنے اس معاملے میں کسی اور کو ذمہ دار بنا دو میں اس معاملے میں سب سے بہتر نہیں ہوں لیکن علی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے نہ ہم آپ کو معزول کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کی معزولی کا مطالبہ کر سکتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دینی معاملات میں آپ کو آگے بڑھایا تھا تو دنیاوی معاملات میں ہم آپ کو آگے کیوں نہ بڑھائیں دینی معاملات میں ان کی مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے موقع پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جانب سے نمازوں کی امامت کا حکم کرنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت میں تھے تو اپ نے اپنی جگہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا لہذا یہ عمومی بیعت ہوئی یہ طرفین کی طرف سے ہے طرف اول اس میں خلیفہ ہوتے ہیں اور طرف ثانی لوگ ہوتے ہیں دونوں کی بیعت اس بات پر ہوتی ہے جو خلیفہ ہوتے ہیں وہ اللہ تبارک و تعالی کے احکام کے مطابق لوگوں کے معاملات کو چلائیں گے اور لوگ اس میں بیعت کرتے ہیں اللہ تعالی کے احکام کے مطابق خلیفہ کی اطاعت کریں گے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دو بیعت ثابت ہیں ایک تو اس وقت لوگوں کے ساتھ دوسری فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر چھے ماہ بعد دوسری بیعت بھی کی گویا تاکید کے طور پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر گویا تمام صحابہ جمع ہو گئے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں سب سے افضل ہیں اور صحابہ ان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اشارات تھے جس میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آپ کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ بنائے جائیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر گویا تمام صحابہ کا اجماع تھا ۔
|
صفحہ 13
|
صفحہ 13
سیاسته
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیاست
سیاست لوگوں کے امور کو چلانے کی زمہ داری کو کہتے ہیں کے آج جو معنی ہیں کہ لوگوں کا خون چوستے لوگوں کو غلام بنانے اور ان پر حکومت کرنے اور اپنی حکومت کو بڑھانا سمجھا جاتا ہے عام طور پر جمہوری ملکوں کے جو ذمہ دار بنے ہیں ان کے طرز عمل سے لیکن سیاست کے اصل معنی ہیں ملک کو چلانے اور لوگوں کے امور کو سرانجام دینے کا طریقے کار حاکم لوگوں کے امور کا ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ ان کے امور کی ترتیب کرتا ہے اور اس کی نگرانی کرتا ہے جب بیعت مکمل ہو گئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور یہ بہت ہی عظیم خطبہ ہے اور خلفاء میں سے نہ کوئی اور ایسا عظیم خطبہ ہو سکتا ہے نہ ہوا ہے یہ بہت اہم ہے اس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جو سیاست ہے وہ واضح ہوتی ہے انھوں نے کہا میں تمارا والی بنایا گیا ہوں اور تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں (یہ ان کی طرف سے تواضع کا اظہار ہے اور یہ بڑی خوبی ہے) اگر میں اچھے کام کروں تو میری مدد کرو اگر میں کجروی اختیار کروں تو مجھے درست کر دو نیکی میں تعاون کرو اور اگر کوئی برا کام سر زد ہو جائے تو میری سرزنش کرو میری تنقید کرو اور مجھے درست کر دو سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے ،تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نذیک قوی طاقت وار ہے یہاں تک کہ میں دوسروں کے پاس سے اس کو اس کا حق نہ دلوا دو اگر اللہ چاہے ، اور تم میں جو طاقت ور ہے وہ کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ لے لوں اگر اللہ نے چاہا، جب کوئی قوم اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالی اسے ذلیل و خوار کر دیتا ہے ، بدکاری جب کسی قوم میں عام ہو جاتی ہے تو اللہ اسے عمومی مصیبت سے دو چار کر دیتا ہے ، میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں اور اگر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری تم پر کوئی اطاعت نہیں ہے، نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم پر رحم کرے ""۔
یہ مختصر خطبہ ہے اس میں انھوں نے اپنے جو حکومت کے طریقے کار ہیں اس کو بالکل واضح کر دیا اس خبطے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکومت کو چلانے کا طریقہ اور اس کی بنیادیں اور اصول و ضوابط ہیں اس کا انھوں نے اعلان کیا کتاب میں ترتیب کے ساتھ کچھ باتیں لکھی ہیں جو ان کے خطبے سے واضح ہوتی ہیں :
1) : خلافت تکلیف ہے تشریف نہیں ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ خلافت ایک ذمہ داری ہے آدمی کی عزت افزائی نہیں ہے کہ اونچے منصب پر بٹھا دیا یا اس کی شرف میں اضافہ کر دیا گیا یہ بات نہیں بلکہ خلافت ذمہ داری ہے شرف کی بات نہیں
2): انھوں نے اس بات کی تاکید کی کہ مسلمانوں کے اندر سچائی کا پیدا ہونا ضروری ہے سچائی پر ثابت قدم رہنا چائیے سچائی پر چلنا چائیے خواہ وہ اپنے خالق کے ساتھ ہو یا اپنے خلیفہ کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہو یا پھر آپسی معاملات میں ہو۔
3): مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف کرنا ضروری ہے ۔
4): نیکی اور تقوے کے معاملے میں تعاون کرنا چائیے ۔
5):اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بہت اہم کام ہے اور یہ اسلامی حکومت کے مقومات (بنیادوں) میں سے ہے۔
6): مسلمانوں کا معاشرہ اخلاقی کمزوریوں سے پاک اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا چائیے ۔
7):معروف میں امام کی اطاعت واجب ہے تاکہ مسلمان کی حکومت کی مضبوطی کی حفاظت کی جا سکے یا مسلمان کی حکومت کو قائم رکھا جا سکے ۔
اعماله
مختصر طور پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کاموں کا جائزہ لیں۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت بہت مختصر رہا دو سال کچھ مہینے لیکن کافی عظیم کارنامے انھوں نے انجام دیئے اور ان کارناموں کے بہت ہی بڑے اثرات ہوئے اسلامی ریاست بہت ہی مضبوط قائم ہو گئی ان کے دور میں اور ان کے ثمرات ہیں اس کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئے جو کئی زمانوں تک باقی رہے مختصر دور میں انھوں نے اتنے عظیم کارنامے دیئے کہ اس کے بہت اچھے اثرات ہوئے ویسے تو بہت سے کارنامے ہیں لیکن یہاں انھوں نے چار کارناموں کو جمع کیا ہے اور اس کے بعد ان کی تفصیل ہے۔
1): جیش اسامة کو روانہ کرنا۔
2): ارتداد کا خاتمہ۔
3): جمع القرآن
4): عراق اور شام کی فتوحات ۔
ذرا غور کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ مکہ کے باہر بعض علاقے ارتداد کا شکار ہو گئے تھے مختلف طرح سے اسلام سے نکل رہے تھے لیکن نہ صرف سارا پھر سے اسلام میں واپس آ گیا بلکہ مسلمان فوجیں عراق اور شام میں بھی داخل ہو گئیں یہ ان کے کارناموں کی کچھ تفصیلات ہیں ہم نے خلافت کی بیعت کے بارے میں جو سنا ہے وہ بہت اہم حصہ ہے روافض رافضی کی جمع ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خلافت کے حقدار علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ تھے لیکن ان سے قبل خلفہ راشدین ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنھم نے ان پر ظلم کیا اور خلافت کا حق ان سے چھین لیا اس سلسلے میں جو مختلف روایات آئی ہیں ان کو اہل سنت والجماعت کے اماموں نے بھی نقل کیا ہے مثال کے کے طور پر امام طبری رحمہ اللہ نے بھی کچھ واقعات لکھے ہیں ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی البدایہ وانہایہ میں بھی ایسے واقعات جمع کئے ہیں ان سے استدلال کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ایسا معاملہ تھا جن میں صحابہ کے درمیان بہت سخت اختلاف ہوا تھا حکومت کے لئے ان تمام باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا یہ تاریخی روایت ہے اور تاریخ کو جمع کرنے میں اہل سنت والجماعت کے آئمہ نے بھی احتیاط نہیں کیا کیونکہ ان کے لئے بھی احتیاط کرنا ممکن نہیں تھا جیسے سنا ویسے بیان کر دیا جیسے حدیث کا معاملہ حدیث میں پھر انھوں نے باقاعدہ تحقیق کی کہ کون سی چیز ضعیف ہے کون سی صحیح ہے لیکن اس طرح کی احتیاط اس میں نہیں ہوئی لہذا البدایہ النہایہ جو ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھی ہے یا تاریخ طبری جو طبری رحمہ اللہ نے لکھی ہے یہ بڑے امام ہیں لیکن ان کی کتابوں میں کچھ ایسی روایتیں ملتی ہیں جن میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابی اکرام کی آپس میں خلافت کے معاملے میں تو تو میں میں یا اختلاف یا ایک دوسرے کی مذمت وہ کرنے لگے تو ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عدالت صحابہ ایک بہت عظیم عقیدہ کا معاملہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کی تربیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس طرح وہ لوگ دولت کے لئے یا حکومت کے لئے آپس میں لڑنے لگے یہ ممکن ہی نہیں ہے یہ ایسی باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں سب سے پہلی چیز ہے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا بیعت کرنا یہ ثابت شدہ حقیقت ہے اور کبھی بھی انھوں نے اس بات کا دعوی نہیں کیا کہ وہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے افضل ہیں بلکہ اپنی خلافت کے دور میں تو وہ باقاعدہ خطبے کے دوران کہتے تھے کہ جو کوئی بھی مجھے ابو و بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما پر ترجیح دے گا میں اسے بہتان کی سزا دوں گا گویا وہ بہتان لگا ہے شیعہ نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیا اور علی رضی اللہ تعالی عنہ پر بہتان لگایا کہ انھوں نے بیعت کرنے میں خیانت کی یہ حقیقت کے خلاف ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کا اجماع ہے بغیر کسی شک و شبہ کے جن میں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں اور دوسری بات ہے کہ سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ جو انصار کے سب سے بڑے قبیلہ خزرج کے سردار تھے ان کی سیرت کو بھی داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انھوں نے کہا کہ خلافت میں انصار میں سے بھی خلیفہ ہونا چائیے اسی لئے انھوں نے صحابہ سے بیعت نہیں کی یہ ساری باتیں غلط ہیں یہ نہیں کہ تاریخ میں ایسی روایتیں موجود نہیں ہیں لیکن ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا صحابہ کے مقام سے کمتر ہے ان کو قبول نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان روایت کو ہم صحیح مانیں گے جن میں اس بات کا ذکر آتا ہے سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ بیعت کی سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جو بیعت عقبہ میں موجود تھے اور جب رات میں واپس ہو رہے تھے مکے سے مدینہ چھپ کر تو مشرکین نے انہیں گرفتار کیا تھا ان کو باندھ کر لائے تھے یہاں تک کہ کسی نے مداخلت کی تھی غالبا مطعم بن عدی اور حارث بن حرب ان کو چھڑایا تھا یہ مدینے کے آغاز میں مسلمان ہونے والوں میں سے تھے نقباء میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ نقیب بنائے تھے ان میں یہ بھی تھے ان کے سردار تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ ساتھ رہے اور کئی بار ان کی تعریف کی اور ان کے بارے میں اچھی باتیں کہیں یہ کیسے ممکن ہے وہ بیعت کی مخالفت کریں اور اپنا دعوی کریں ان تمام روایتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اصول اپنے سامنے رکھنا چائیے صحابہ کے سلسلے میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو ان کی شان کے خلاف ہیں اس سے قبول نہیں کیا جا سکتا اگر حدیث میں کوئی چیز ثابت ہوتی ہے یا مذکور ہے کہ یہ چیز صحابہ کے ساتھ پیش ہوئ ہے تو اس سلسلے میں ہم اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے اہل سنت والجماعت کے آئمہ کی طرف رجوع کریں گے کہ اس کے بارے میں انھوں نے اس بارے میں کیا کہا کیونکہ اس کا کچھ پس منظر ہو گا کوئی تاویل ہو گی اس کا کوئی مطلوب ہو گا جو ہم نہیں سمجھ پائے صحابہ کا معاملہ بہت ہی اہم ہے کیونکہ دین ہمیں انہی کے ذریعے پہنچا ہے اور رافضہ نے صحابہ کو بدنام کرنے کے لئے پوری ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ دین کی بنیادوں کو ختم کیا جائے اور وہ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ ارتداد کا شکار ہو گئے تھے سوائے چند صحابہ کے کبھی تین کا ذکر کرتے ہیں کبھی دس کا ذکر کرتے ہیں یا بارہ تک پہنچاتے ہیں جبکہ یہ مکمل جھوٹ ہے اگر یہ صحابہ کی سیرتوں کو داغ دار بناتے ہیں اگر داغ دار بنا دیا جائے تو گویا دین کی بنیاد ہی ختم ہو جائیں گی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا معاملہ بہت اہم ہے جیسا کہ کتاب میں واضح ہے کہ یہ مسلمانوں کے اتفاق سے ہوا یہاں تک کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی اختلاف نہیں تھا شروع میں انصار نے یہ سوچا تھا کہ مدینے کے باشندے میں سے خلیفہ ہونا چائیے لیکن جیسے ہی انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان کے پاس پہنچیں گویا انھوں نے سر تسلیم خم کر دیا جن میں سعد ابن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جنھوں نے باقاعدہ بیعت کی وہ کافی عظیم صحابہ تھے ایسی تمام روایتیں اس طرح کے حادثات کے موقع پر نقل کی جاتی ہیں کہ فلاں نے ایسی اور ایسی باتیں کی یا ایسا کام کیا ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔
|
صفحہ 14
|
صفحہ 14
اولا : انفاذ جیش اسامه
لشکر اسامة کی روانگی
اسامہ یہ زید ابن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے ہیں اور ان کی والدہ ام ایمن ہیں ان کا نام برکت تھا اور ام ایمن کنیت تھی یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ تھیں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا پوسا تھا ان کی والدہ کی وفات کے بعد یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ کی باندی تھیں ان کی وفات کے بعد ان کی والدہ کے ساتھ رہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دایہ رہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوان ہو گئے آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور زید ابن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا نکاح کر دیا اور انہیں سے اسامة رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے جنھیں حب رسول اللہ وابن حب کہتے ہیں یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کے بیٹے جیسا کہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں نے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کمانڈری ان کی امارت پر اعتراض کیا کہ انہیں اس لشکر کا ذمہ دار بنایا گیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم ان کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو اس سے پہلے تم ان کے والد کی امارت پر بھی اعترض کر چکے ہو لیکن اللہ کی قسم ان کے والد امارت کے قابل تھے اور اسامہ بھی امارت کے قابل ہیں اور یہ مجھے بہت محبوب ہیں جیسے کہ ان کے والد مجھے محبوب تھے اس کی وجہ سے انہیں حب رسول اللہ وابن جب کہا جاتا ہے یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابی اور آپ کو جو صحابی محبوب تھے زید ابن حارثہ ان کے بیٹے اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں ہوں عمر ابن حطاب رضی اللہ عنہ پر کہ معاملات کرنے میں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی اس قدر خیال اہتمام کرتے تھے جیسا کہ بڑی بڑی باتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لہذا اپنی خلافت کے دور میں اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جو وظیفہ تھا عبد الله بن عمر اپنے بیٹے سے بھی زیادہ مقرر کیا عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے والد سے اس بات کا ذکر کیا کہ آپ نے میرا وظیفہ ان سے کم کیوں مقرر کیا ہے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ اسامہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے والد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمھارے والد سے زیادہ محبوب تھے بہر حال اسامہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر اسامہ جو روانہ کیا تھا اس کا سبب یہ تھا کہ شام کے جنوب میں موتہ کے قریب قبیلہ قضاعہ جنھوں نے غزوہ موتہ میں رومیوں کی تائید کی تھی تو ان کو سبق سکھانا یعنی قبیلہ قضاعہ کو سبق سکھانا جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف رومیوں کی مدد کی تھی یہ اہم مقصد تھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رومیوں سے مسلمانوں کی جو پہلی جنگ ہوئی تھی وہ موتہ تھی اور دوسری جنگ یرموک تھی یہ تیسرا لشکر تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف بھیجا تھا غزوہ موتہ جو جمادی الاولی سن آٹھ ہجری میں پیش آیا تھا اور اسی غزوے میں اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد زید بن حارثہ شہید کر دیئے گئے تھے ہم اس سے پہلے سیرت النبی میں پڑھ چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کمانڈ بنائے تھے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ،جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ، عبد اللہ بن رواحه رضی اللہ تعالی عنہ یہ تینوں یکے بعد دیگر اس غزوے میں شہید ہو گئے اس کے بعد خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے فوج کی کمان سنبھالی اور اس لشکر کو بچا کر مدینہ لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع سے واپسی کے بعص سن دس ہجری میں اس لشکر کی تیاری شروع کر دی تھی بلکہ بعض روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے چند دن پہلے بلکہ بعض میں صراحت کی گئی دو دن پہلے ہی تیار کیا تھا بہر حال یہ حج الواع کا واقعہ ہے اس لشکر کے تیار ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا امیر بنایا اس وقت ان کی عمر بیس برس سے زیادہ نہیں تھی اس لشکر میں ان کی قیادت میں مسلمانوں کے انصار اور مہاجرین کے بڑے بڑے صحابہ تھے کہا جاتا ہے سات سو افراد تھے اس لشکر میں اور مسلمانوں میں مہاجرین اور انصار کے بڑے بڑے لوگ تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ دونوں بھی لشکر میں شامل تھے جیسا کہ ذکر گزرا ہے کہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت کے سلسلے میں اعتراض ہوا خاص طور پر اس لئے کہ بڑے بڑے صحابہ اس لشکر میں موجود ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اعتراض کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی اس لشکر کے امیر رہیں گے اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم اس لشکر کے ساتھ اس مقام میں جاؤ جہاں تمھارے والد شہید کر دیئے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت کے سلسلے میں جس تاکید کے ساتھ بھیجا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی ولایت یا تولیت جائز ہے امارت جائز ہے فاضل وہ جو فضیلت والا ہے مفضول وہ جس پر فضیلت رکھی گئی ہے یعنی وہ فاضل سے کم ہے اگرچہ کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما فاضل تھے لیکن اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ جو مفضول تھے امیر مقرر کیا فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کو امیر بھی بنایا جا سکتا ہے اور امام بھی بنایا جا سکتا ہے خاص طور پر اس میں کوئی مصلحت پائی جاتی ہو اس لشکر کی تیاری کے بعد جب یہ لشکر مدینے سے باہر نکلا مقام جزف میں پہنچا یہ مدینے کے شمال میں شام کے راستے میں ہے اس لشکر کو پتہ چلا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بہت بڑھ گئی لہذا وہ مقام جزف میں ٹہر گیا اس لشکر نے وہاں پڑاؤ ڈالا اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اس لشکر کے افراد مدینہ چلے آئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین دن کے بعد اس بات کا اعلان کرنے کا حکم دیا کہ لشکر اسامہ کی روانگی کی تیاری کی جائے اور جو جو لوگ اس لشکر میں شامل تھے وہ لوگ مقام جزف میں پہنچ جائیں اور یہ وہ حالات تھے جبکہ مدینے کی صورت الحال بہت بدل چکی تھی کیونکہ بہت سے لوگ مرتد ہو چکے تھے شبہ جزیرہ عرب کے آس پاس کے لوگ مکہ مدینہ اور طائف کے باہر خاص طور پر مرتد ہو چکے تھے اور ارتداد کی کئی مختلف شکلیں تھیں ان میں کچھ لوگ وہ تھے جو پھر سے کافر ہو چکے تھے کچھ لوگ وہ تھے جنھوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا اور کچھ لوگ وہ تھے جو زکوة دینے سے انکار کر رہے تھے ارتداد کی مختلف شکلیں تھیں جو پیدا ہو چکی تھیں اسی صورت الحال میں لشکر اسامہ کو شام کے لئے روانہ کرنا بظاہر حکمت کے خلاف تھا لہذا کچھ صحابہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ اب جبکہ ہہمیں اس لشکر کی ضرورت ہے مدینے مکے اور طائف کی حفاظت کے لئے اسلامی خلافت کے مرکز کے لئے اس لشکر کی ضرورت ہے لہذا آپ لشکر اسامہ کو نہ بھیجیں
|
صفحہ 15
|
صفحہ 15
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جس جھنڈے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھ دیا ہو اس کو میں کھول نہیں سکتا جس لشکر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا مجھ میں یہ ہمت نہیں کہ میں اسے روک سکوں بلکہ بعض روایت میں آتا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ اس لشکر کی روانگی کے بعد مدینے میں میں اکیلا رہ جاؤں گا درندے اور پرندے مجھے نوچ کر کھا لیں گے تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا اس کے بعد کچھ انصار نے مشورہ دیا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیں کہ کمانڈر کو تبدیل کر دیں لہذا عمر رضی اللہ تعالی عنہ پہنچے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا بعض انصار یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ان کے کمانڈر کو تبدیل کر دیں تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کھڑے ہو گئے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگے عمر تمھے کیا ہو گیا ہے اسامہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کمانڈر مقرر کیا ہے اور میں انہیں امارت سے کیسے ہٹا سکتا ہوں لہذا نہ تو انھوں نے اس بات کو قبول کیا کہ اس لشکر کو روانہ نہ کیا جائے اور نہ ہی انھوں نے اس بات کو قبول کیا کہ اس کا کمانڈر تبدیل کیا جائے دونوں باتوں میں وہ ثابت قدم رہے اور اس لشکر کو روانہ کیا البتہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات کی اجازت طلب کی کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینے میں ان کے ساتھ رہ جائیں انھوں نے اجازت دے دی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس لشکر کے ساتھ چل پڑے اسے وداع کرنے کے لئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پیدل چل رہے تھے اور اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سواری پر سوار تھے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ اے خلیفہ رسول یا تو آپ بھی سواری پر سوار ہو جائیے یا پھر میں اتر جاتا ہوں سواری سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم نہ تو تم اترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا اللہ تبارک و تعالی کے راستے میں اگر میرے پیر غبار آلود ہوتے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے پھر وہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر کے ساتھ چلتے رہے اور ان کو اور ان کے لشکر کو چند باتوں کی وصیت کی انہیں اس بات کی وصیت کی کہ ہر گز وہ خیانت نہ کریں اور دھوکہ دہی نہ کریں، اور کسی کو دھوکے سے قتل نہ کریں، اور کسی کا مثلہ نہ کریں(قتل کرنے کے بعد اس کے اعضاء کو کاٹ دینا ہے) ، کسی بچے کو قتل نہ کریں، کسی گھوڑے کو قتل نہ کریں، کسی درخت کو نہ کاٹیں ، اور نہ ہی کسی درخت کو جلائیں ، صرف اسی شخص سے جنگ کریں جو ان سے جنگ کرے اور اپنی دشمنی کو ان کے سامنے ظاہر کرے کہا جاتا ہے کہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر جب روانہ ہوا تو چالیس دن بعد یا ستر دن کے بعد وہ مدینہ واپس ہوا جس مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا اس لشکر کو کامیابی بھی حاصل ہوئی اس لشکر کو بھیجے جانے کے بہت سے اثرات مرتب ہوئے مسلمانوں کے لئے بھی کافروں کے لئے بھی اس لشکر کو بھیجنے سے مسلمانوں کی قوت اور ان کی طاقت کا اظہار ہوا کیونکہ کافروں نے سوچا کہ ایسے حالات میں جب مسلمان مدینے کے باہر کوئی لشکر بھیج رہے ہیں اور وہ بھی شام جیسے دور دراز مقام کے لئے اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک بہت بڑی قوت پائی جاتی ہے لہذا مسلمانوں کی طرف سے قوت کا اظہار ہوا اس کی وجہ سے مختلف قبائل جو مدینے پر حملہ کرنا چاہتے تھے ان کے دلوں میں رعب پیدا ہوا اور وہ سوچنے لگے کہ مسلمانوں کے پاس بہت بڑی فوج ہو گی اور اگر ہم ان پر حملہ کریں گے تو کافی نقصان میں رہیں گے لہذا وہ باز آ گئے ایک چھوٹا موٹا حملہ انھوں نے کیا جس کا ذکر آئے گا بہر حال انھوں نے کوئی بڑا حملہ کرنے کی جرات نہیں کی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جانب سے پورے اصرار کے ساتھ لشکر اسامہ کی روانگی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے طریقے کی سختی سے پابندی کی لہذا یہاں سنت کے التزام کی ہمیں اہمیت معلوم ہوتی ہے اور یہ بات معلوم ہوتی ہے کسی قسم کی کاہلی اور سودا بازی نہیں کرنی چائیے اگر کوئی بھی شخص یا ہم ظاہری اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس لشکر کو نہیں بھیجا جانا چائیے لیکن جب سنت کی پابندی کی بات آتی ہے جس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمل کیا کہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں اسے اختیار کرنا چائیے اسی میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اسی طرح ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے ہمیں قرآن پر نصوص پر سختی کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کار بند رہنا چائیے اگرچہ کہ حالات بظاہر کہ اس کے خلاف نظر آتے ہوں اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ اس کے حق میں ثابت ہو گا چاہے حالات اس کے برعکس نظر آتے ہوں یہ پہلا کام تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لشکر اسامہ کو روانہ کرنا۔
|
صفحہ 16
|
صفحہ 16
ثانیا : القضاء علی فتنة الردة
فتنہ ارتداد کا خاتمہ
ارتداد کہتے ہیں اسلام لانے کے بعد اپنے قول یا عمل کے ذریعے کفر کو ظاہر کرنا یہ ارتداد کہلاتا ہے مرتد ہو جانا اسلام سے نکل جانا یا پھر سے کافر ہو جانا فتنہ ارتداد کا آغاز اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں اس کا آغاز ہو چکا تھا بلکہ سن 9 ہجری میں جس کو عام الوفود کہا جاتا ہے بڑے بڑے وفود آئے تھے اور انھوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہیں ارتداد کے بھی کچھ اشارے مل چکے تھے اگرچہ کہ۔اس کا پوری طور پر اظہار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں ہوا کہ کچھ لوگ مرتد ہونے لگے ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ پہلے اطلاع ملی تھی کہ یمن میں الاسود العنسی نے اور یمامة میں مسیلمة کذاب نے اور اسی طرح طلیحة بن خویلد الاسدی نے نبوت کے دعوے کیئے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل چکی تھی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی پھر وہ بھلا دی گئی اور میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں دو گنگن ہیں مجھے یہ بات ناگوار گزری پھر میں نے پھونکا وہ دونوں اڑ گئے میں نے اس کی تعبیر یمن کے جھوٹے اور یمامہ کے جھوٹے سے کی یعنی کنگن کے طرح یہ مضبوطی کی طرح چمٹ جائیں گے اور یقینا یہ مسلمانوں کے لئے یہ کافی مشکلات کا سبب بنیں گے لیکن بہر حال ان کا خاتمہ ہو جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں ارتداد کے آثار ظاہر ہو چکے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس میں بہت زیادہ وسعت ہو گئی اور شبة جزیرہ کے بہت سے علاقوں میں ارتداد کا فتنہ بہت تیزی سے پھیل گیا بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے مدینہ مکہ اور طائف کے علاوہ تقریبا سارے علاقوں میں یہ فتنہ پھیل چکا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے لوگ کافر ہو چکے تھے مسلمان بھی تھے لیکن ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے جو مرتد ہو چکے تھے اگرچہ کہ بعض علاقوں میں مسلمان بھی موجود تھے یہاں فتنہ ارتداد کے کچھ اسباب بیان کیئے گئے ہیں ۔
اسباب فتنة الردة:
1) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ہونا یہ ارتداد کا پہلا سبب بنا بلکہ بعض قبائل یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ اگر وہ اللہ کے نبی ہوتے تو ان کی وفات نہیں ہوتی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مضبوط قلعہ تھے جو اس فتنے کو روکے ہوئے تھے جب آپ کی وفات ہوئی یہ فتنہ ظاہر ہو گیا۔
2) بہت سے لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے تھے اسلام میں داخل ہونے کے بعد انہیں زیادہ مدت نہیں گزری تھی اگر ان کے دلوں میں ایمان مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاتا تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد نہیں ہوتے چونکہ وہ قریب میں مسلمان ہوئے تھے لہذا اسلام پوری طرح سے ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا یہ ان کے ارتداد کا دوسرا سبب تھا۔
3) ریاست اور امارت کی طلب وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ نبوت ریاست اور امارت کا بہت اچھا ذریعہ بن سکتا ہے اس لئے انھوں نے سوچا ہم اس طرح کے دعوی کریں ہمیں بھی ریاست اور امارت حاصل ہو جائے ۔
4) قبائلی عصبیت : اللہ تعالی نے قریش میں رسول کو بھیجتے ہوئے بہت بڑا مقام اور منصب عطا کیا تھا جس کی وجہ سے ان قبائل میں جو ابھی قریب میں مسلمان ہوئے تھے ان کے دلوں میں قریش کے خلاف ایک حسد طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالی نے جو شرف قریش کو دیا ہے وہ شرف ہمیں بھی ملنا چاہیے بلکہ وہ کہتے تھے ہمارے قبیلے کا جھوٹا دوسرے قبیلے کے سچے سے زیادہ افضل ہے جیسا کہ کاذب ربیعة خیر من صادق مضر ربیعہ کا جھوٹا یہ مضر کے سچے سے زیادہ اچھا ہے ۔
5) زکاة کو بوجھ سمجھنا وہ سمجھتے تھے زکاة ایک ٹیکس ہے جو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کرتے تھے اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ ختم ہو جانا چائیے ہم کسی اور کو یہ ٹیکس نہیں دیں گے۔
یہ پانچ اسباب تھے فتنہ ارتداد کے ان اسباب کے تحت یہ فتنہ پیدا ہوا اس کے اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن یہ اہم سبب ہیں ۔
فتنہ ارتداد کا جو پہلا ٹکراؤ ہوا وہ قبیلہ فزارہ اور قبیلہ اسد کے ساتھ ہوا لشکر اسامہ جب مدینہ سے روانہ ہوا تو فزازہ اور اسد کے قبیلے والوں نے سمجھا یہ اچھا موقع ہے لہذا انھوں نے مدینے میں حملہ کرنا چاہا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو آپ نے مدینے پر نگرانی کے لئے مقرر کر دیا اس کے بعد ایک لشکر لے کر ذي قصه نامی مقام پر پہنچ کر انھوں نے قبیلہ عبس اور ذبیان ان قبیلوں نے جو حملہ کیا تھا ان کے حملے کو روک دیا اور وہاں سے وہ لوگ بھاگ گئے یہ پہلا مقابلہ تھا جو مرتدین سے ہوا تھا جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود کیا تھا یہ ذي قصه نامی مقام پر ۔
اس کے بعد جب اسامہ بن زید کا لشکر واپس آ گیا تو انھوں نے اسلامی لشکر کو گیارہ دستوں میں تقسیم کیا اور ہر دستے کا ایک امیر مقرر کیا اور انہیں مختلف مقامات کی طرف بھیجا۔
|
صفحہ 17
|
صفحہ 17
ان گیارہ دستوں کا یہاں تفصیلی ذکر ہے ۔
الاولیة التي اعدھا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ للقضاء علی الردة ووجھة کل منھا
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ارتداد کے لئے جو حکمت عملی اپنائی کہ کسی ایک طرف پوری توجہ نہیں دی بلکہ انھوں نے گیارہ دستے مقرر کیئے ہر دستے کا ایک امیر مقرر کیا اور ہر امیر کو یہ حکم دیا کہ وہ جب بھی کسی مقام پر پہنچیں تو وہاں کے مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ لے لیں۔
پہلا دستہ : خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا گیا اور انہیں حکم دیا طلیحة بن خولید اسدی جو قبیلہ بنی اسد کا ہے اس کی طرف جائیں اسے ختم کرنے کے بعد مالک بن نویرة کی طرف جائیں جو قبیلہ بنی تمیم کے ہیں۔
دوسرا دستہ: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ یمامة میں مسلمة کی طرف جائیں اور اس کے بعد وہ عمان کی طرف جائیں۔
تیسرا دستہ : ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تیسرا دستہ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمامة کی طرف بھیجا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد کے لئے ۔
چوتھا دستہ: مہاجر ابن امیة کی قیادت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چوتھا دستہ بنایا اور انہیں حکم دیا وہ یمن جائیں پھر حضر موت جائیں قبیلہ کندہ کے ارتداد کو ختم کرنے کے لئے۔
پانچواں دستہ : عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ قبیلہ قضاعة کی طرف جائیں اور غسان کی طرف جائیں جو جزیرہ عرب کے شمال میں رہتے ہیں۔
چھٹا دستہ: حذیفة بن محصن رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں مکمل کیا اور انہیں عمان کی طرف بھیجا۔
ساتواں دستہ: عرفجة بن ھرثمة رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا اور انہیں مھرة کی طرف بھیجا جو عمان میں ہے ۔
آٹھواں دستہ: طریفة بن حاجر رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا اور انہیں قبیلہ بنی سلیم کی طرف بھیجا اور ان کے ساتھ ھوازن قبیلے کے لوگ ہیں ان کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔
نواں دستہ : سوید بن مقرن رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا اور انہیں تھامة کی طرف بھیجا جو یمن میں ہے ۔
دسواں دستہ : العلاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں بنایا اور انہیں بحرین کی طرف روانہ کیا۔
گیارھواں دستہ: خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں میں مقرر کیا اور انہیں شام کے آس پاس کے علاقوں کی طرف بھیجا ۔
اور ان فوجی دستوں کو روانہ کرنے سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان مرتدین کے پاس خطوط بھی بھیجے اور انہیں اس بات کی دعوت دی کہ وہ توبہ کر لیں پھر سے اسلام میں داخل ہو جائیں اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دستوں کے کمانڈروں کو بھی اس بات کی تاکید کی کہ انہیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دیں کہ وہ توبہ کر لیں پھر سے اسلام میں داخل ہو جائیں اگر وہ نہیں مانتے پھر ان سے جنگ کریں یہ حکمت عملی تھی جو انھوں نے اپنائی تھی چونکہ ارتداد کا فتنہ پھیلا ہوا تھا انھوں نے ساری توجہ ایک طرف کرنے کے بجائے سارے علاقوں کے ساتھ ایک ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ارتداد کا خاتمہ کیا جا سکے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلم فوجوں کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا تھا اور یہ سب سے اچھی حکمت عملی تھی اس لئے کہ ارتداد کا جو فتنہ پیدا ہوا تھا وہ مختلف علاقوں میں پھیلا ہوا تھا یہ کسی بڑی قیادت کے تحت جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ مختلف قبائل کی صورت میں پھیلے ہوئے تھے اور ان کے مقام پر جا کر ان کی خبر لینا یہ زیادہ بہتر تھا وہ قبائل اس خیال میں تھے وہ چند عرصے میں مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے لہذا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ضروری سمجھا کہ اس معاملے میں تاخیر نہ کی جائے تو انھوں نے مناسب وقت میں مناسب طرح سے مسلمانوں کی فوجوں کی ترتیب کی اور انہیں گیارہ حصوں میں تقسیم کر کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا فتنہ ارتداد کے سلسلے میں جو باتیں پیش آئیں تھیں فوجی دستوں کے جانے کے بعد ان کا یہاں ذکر ہے ۔
القضاء علی ردة طليحة بن خويلد الاسدي
طلیحہ بن خویلد الاسدی کے ارتداد کا خاتمہ ۔
یہ کاھن شخص تھا کاھن وہ شخص ہوتا ہے جو غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرتا ہے شیاطین آسمانوں میں جاتے ہیں ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں اور وہ بات اپنے دوست کاھن کو بتاتے ہیں وہ اس میں بہت سی چیزیں شامل کرتا ہے اور پیشنگوئی کرتا ہے ایک آدھ پیشنگوئی جب سچی ہو جاتی ہے اس کی بنیاد پر لوگوں کے اندر یہ مشہور ہو جاتا ہے یہ غیب کی خبریں جانتا ہے اور کاھن کے پاس جا کر اس کی باتیں سننا یہ حرام ہے اور اس کی تصدیق کرنا یہ کفر ہے اہل علم کا خیال ہے کہ کفر اصغر ہے الا یہ کہ کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کاھن غیب کی خبریں بھی جانتا ہے اس صورت میں وہ کفر اکبر میں بھی داخل ہو جائے گا بہر حال طلیحہ ایک کاھن شخص تھا شعبدہ باز تھا لوگوں سے اس طرح کی باتیں کرتا لوگ اس کے فتنے میں مبتلا ہو چکے تھے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دفعہ سفر میں تھا اور لوگوں کو پانی کی ضرورت پیش آئی اس نے کہا تم میری فلاں سواری پر سوار ہو جاؤ اور اتنی دور پر جاؤ تمھے وہاں پانی ملے گا اتفاق سے انہیں پانی مل گیا وہاں کے جو بدو تھے وہ فتنے کا شکار ہو گئے تھے اس کے معاملے میں اپنی شبدبازی سے لوگوں کو متاثر کرتا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں اس نے نبوت کا دعوی کر لیا تھا اور عراق کے قریب نجد کے شمال میں سمیرا نامی جگہ میں اس نے قیام کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فتنے کو ختم کرنے کے لئے ضرار بن الازور الاسدی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا اس سے جنگ کرنے اور اس کے فتنے کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو اس کے بعد وہ مدینہ واپس ہو گئے طلیحہ کا فتنہ ادھر بڑھتا گیا قبیلہ طيء کے کچھ آدمی بھی اس کے ساتھ ہو گئے اور قبیلہ عبس اور ذبیان بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا جو فوجی دستے انھوں نے ترتیب دیئے تھے اس میں خالدبن ولید کو طلیحہ کے فتنے کے خاتمے کے لئے روانہ کیا تھا خالد رضی کی فوج میں عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں تاکید کی تھی کہ اپنے قبیلے کو بچانے کی کوشش کیجئے لہذا یہ پہلے ہی پہنچ گئے تھے خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ پہنچے تو عدی ابن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا مجھے کچھ دن دیجئے تاکہ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو سمجھا سکوں اور انہیں اسلام کی طرف واپس لا سکوں خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں موقع دیا اور انھوں نے کوشش کی یہاں تک کہ قبیلہ طيء کے سینکڑوں لوگ پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے اس کی وجہ سے طلیحہ کی قوت اس کی فوج کمزور ہو گئی پھر جب مسلمانوں اور طلیحہ کی فوج میں جب جنگ ہو گئی اور طلیحہ کو جب یقین ہو گیا کہ وہ ہلاک ہو جائے گا تو وہاں سے وہ شام بھاگ گیا اس کے ساتھ ہی اس کی فوج تتر بتر ہو گئی کچھ جنگ میں قتل کر دیئے گئے کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے کچھ لوگ پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے طلیحہ نے پھر اسلام قبول کر لیا پھر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں آیا اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا اسلام قبول کیا اس کے بعد وہ عراق کی جنگوں میں شامل ہوا اس کا اسلام اچھا ہوا کوئی بات ایسی اس سے سرزد نہیں ہوئی جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اس نے دھوکہ دینے کے لئے اسلام قبول کیا اس کے بارے میں آتا ہے اس کا اسلام اچھا رہا تو یہاں طلیحہ بن خویلد الاسدی کے فتنے کا خاتمہ ہوا۔
|
صفحہ 18
|
صفحہ 18
اس میں ہمیں یہ سبق ملتے ہیں۔
1: دنیا میں جن لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے ہیں عام طور پر کہانت اور اس سے متعلق بہت سی چیزوں کے بارے میں جانکاری رکھتے تھے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نبوت اس طرح کی کوئی چیز ہے نبی کے پاس جو سچی خبریں آتی ہیں اس طرح جھوٹی خبروں کے ذریعے وہ لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں لہذا کسی کی شعبدہ بازی سے ان کے حیرت انگیز کرتب کی وجہ سے ان کے بارے میں کسی دھوکے کا شکار نہیں ہونا چائیے ان کی اچھائی ان کی برائی ان کے جھوٹے ہونے کا معیار اللہ تعالی کی شریعت ہے ۔
2: جب فتنہ پیدا ہو جائے تو اسی وقت اس فتنے کے خاتمے کی کوششیں کرنی چائیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی فتنے کی اطلاع ملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرار بن الازور الاسدی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس خاتمے کے لئے بھیجا تھا لہذا علمی طور پر یا فوجی طور پر جو وسائل ہمارے پاس ہوں ان فتنوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چائیے فتنوں پر خاموش رہنا یہ درست نہیں ہے بلکہ ان کو ختم کرنا چائیے چاہے علمی طور پر ہو یا فوجی طور پر جو وسائل دستیاب ہوں ان کے ذریعے۔
3: قبیلے کے جو لوگ پھر سے مرتد ہو جائیں ان کو اسلام کی طرف لانے کے لئے جو کوششیں ممکن ہیں وہ کوششیں اختیار کرنی چائیے جیسا کہ عدی ابن حاتم نے اس طرح کی کوششیں کیں۔
4: کسی قبیلے کسی خاندان کے با اثر لوگ ہیں ان کے قبیلے کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے راہ راست پر لانے کے لئے ان با اثر لوگوں کی طرف رجوع کرنا چائیے تاکہ وہ اپنے خاندان یا اپنے قبیلے کے لوگوں کو سمجھا سکیں ۔
5: اگر کوئی کنتی بھی غلطیاں کیوں نہ کرے اگر اس سے کتنے بھی گناہ سرزد کیوں نہ ہو جائیں لیکن اگر وہ اپنی توبہ کا اعلان کرتا ہے خاص طور پر مرتد مسلمانوں کے اس پر قابو پانے سے پہلے وہ توبہ اور اسلام کا اعلان کرتا ہے اس کا اسلام قبول کیا جائے گا ۔
القضاء علی ردة مالك ابن نويرة
مالک ابن نویرہ کے ارتداد کا خاتمہ
مالک ابن نویرة یہ بنو تمیم کا تھا اور یہ بنو تمیم کے امراء میں سے تھا بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسے سیادت اور منصب کا بہت زیادہ شوق تھا اور اس کی طلب میں تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی جب اسے خبر ملی تو اس نے اپنی قوم کی طرف سے زکوة دینے سے انکار کر دیا اور قوم کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے اور وہ کہنے لگے یہ وہ ٹیکس ہے جو ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے اس کے بعد ہم کسی کو نہیں دیں گے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا تھا طلیحہ کے خاتمے کے بعد آپ مالک بن نویرة کے پاس جائیں طلیحہ کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ مالک بن نویرة کے پاس گئے اس نے جب دیکھا خالد رضی اللہ تعالی عنہ کی فوج سے مقابلہ کرنا نا ممکن ہے تو اس نے اپنے قبیلے والوں کو متفرق ہونے کا حکم دیا لہذا مسلمان بغیر کسی جنگ کے بنو تمیم کے شہر میں داخل ہوئے چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں مالک ابن نویرة گرفتار کیا گیا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے گفتگو کی اسے سمجھایا کہنے لگے کیا تم نہیں جانتے کہ نماز اور زکوة میں کوئی فرق نہیں تو مالک نے کہا تمھارے صاحب کا بھی یہ ہی گمان تھا خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ وہ ہمارے صاحب ہیں تمھارے صاحب نہیں ہیں خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے ارتداد کو محسوس کیا کہ وہ اپنے ارتداد پر اثرار ہے لہذا ایک آدمی کو حکم دیا اور اس نے اسے قتل کر دیا مالک ابن نویرة اپنے ارتداد پر اور زکوة نہ دینے کی بات پر اصرار کر رہا تھا لہذا خالد رضی اللہ تعالی عنہ کا اس کو قتل کرنا صحیح تھا لیکن ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اسے کچھ وقت دیا جاتا تو شاید وہ پھر سے مسلمان ہو جاتا انھوں نے اعتراض کیا اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اس بات کا ذکر کیا تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات کا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ انہیں معزول کر دیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا خالد اللہ کی تلوار ہیں جس تلوار کو اللہ تبارک و تعالی نے نکالا ہو میں اسے نیام میں نہیں ڈال سکتا اس کے بعد بیان کیا جاتا ہے مالک ابن نویرة کے قتل کے بعد اس کی بیوی لیلی سے خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کر لیا اس کی عدت کے بعد ظاہر ہے کہ وہ قتل کر دیا گیا اس قبیلے کے لوگ جنگ میں تھے وہ قتل کر دیئے گئے لونڈی اور غلام کی حیثیت سے وہ تقسیم ہوئے اور ان کی عدت اگر وہ حاملہ ہوں حمل کے پیدا ہونے تک ان کی عدت ہے اگر وہ حاملہ نہ ہوں تو ایک حیض ان کی عدت ہے خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک حیض کے بعد ان سے تعلق قائم کیا لیکن بعض مورخین نے اسے مرچ مصالحہ لگا کر اسے ایک بہت بڑا اور عجیب و غریب واقعہ بنا دیا اس طرح خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت کو پیش کرنے لگے کہ لیلی سے انہیں محبت ہو گئی تھی اس لئے انھوں نے مالک ابن نویرة کو قتل کر دیا حالانکہ یہ وہ پاکیزہ نفوس تھے جو اس طرح کی باتوں سے بہت بلند تھے اپنے ملک کو اپنے بستروں کو چھوڑ کر وہ اس طرح کی چیزوں کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے نکلے تھے انھوں نے جو کچھ بھی کیا واقعہ کے مطابق کیا اور اسی طرح کیا جیسا کہ اس مقام پر انہیں کرنا چائیے تھا یہاں ہمیں دروس ملتے ہیں کہ 1: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز میں اور زکوة میں کوئی فرق نہیں کیا لہذا جیسے نماز فرض ہے زکوة بھی فرض ہے اگر کوئی انکار کرنے والا ہے تو اسلامی حاکم اسے سزا دے گا جیسے جیل میں ڈالے لیکن اگر باقاعدہ کوئی انکار کرنے والا گروہ ہے تو مسلمان حکمران باقاعدہ اس سے جنگ کرے گا۔
2: جو اسباب ہوتے ہیں فتنے کے ان اسباب کے خاتمے کے لئے انہیں بات کرنی چائیے تاکہ پھر سے اللہ تبارک و تعالی کے دین کی طرف اسے واپس لائے جیسے خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے مالک ابن نویرة کو سمجھانا چاہا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا لہذا وہ قتل کر دیا گیا ۔
3: بعض لوگوں نے اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے بعض واقعات میں مرچ مصالحہ لگا کر اس سے بہت غلط طریقے سے پیش کیا ہے اور ہمیں ہر مقام پر صحابہ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لینا چائیے اور اس بات کی کوشش کرنی چائیے کہ عدالت صحابہ پیش نظر رکھیں کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور صحابہ کے سلسلے میں بدگمانی خلاف حقیقت ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کے بارے میں گواہی دی ہے ان کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں اس کے برخلاف ہے ہمیں چائیے کہ صحابہ کے بارے میں جو بنیادی عقیدہ ہے اس کی ترویج کریں اور اس سلسلے میں جو باتیں محقیقین نے لکھی ہیں ان کی طرف رجوع کریں
|
صفحہ 19
|
صفحہ 19
القضاء علی مسیلمة الکذاب
مسیلمہ کذاب کا خاتمہ
یہ اپنے آپ کو یمامہ کا رحمان کہلاتا تھا مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں مدینہ پہنچا تھا اور اس نے باقاعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی گفتگو کی تھی اور بتایا تھا کی آپ نبوت میں مجھے شریک کر لیں بلکہ اس نے شرط رکھی تھی کی اگر آپ اپنی نبوت میں مجھے شریک کریں گے تو میں آپ پر ایمان لاؤں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر اسے جواب دیا کہ اگر تم اللہ کے دین سے اعراض کرو گے تو اللہ تعالی اللہ تعالی تمھے تباہ و برباد کر دے گا اس کے بعد جب مسیلمہ اپنی قوم کے پاس پہنچا سن دس ہجری میں تو اس نے نبوت کا دعوی کیا اس کی قوم نے عصبیت اور جہالت کی وجہ سے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں عصبیت اور جاہلت کی بنیاد پر اس کا ساتھ دیا یہاں تک کہ کہتے تھے کاذب ربیعة خیر من صادق مضر ربیعہ کا جھوٹا یہ مضر کے صادق سے بہتر ہے مضر یہ قریش کی بڑی شاخوں میں سے ہے اسی کی شاخ قریش ہے انھوں نے جہالت اور عصبیت کی بنیاد پر مسیلمہ کا ساتھ دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو گیارہ دستے بھیجے تھے اس میں عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کو مسیلمہ کے پاس بھیجا تھا اور عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے ہی شرحبیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی روانہ کیا تھا تاکہ وہ عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد کریں لیکن عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جلد بازی سے کام لیا اور شرحبیل رضی اللہ تعالی عنہ کے پہنچنے سے پہلے ہی مسیلمہ پر حملہ کر دیا اور انہیں شکست ہو گئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا وہ وہاں سے عمان چلے جائیں اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ مسیلمہ کے پاس جائیں کیونکہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ طلیحہ بن خولید الاسدی اور مالک ابن نویرة کے فتنے کا خاتمہ کر چکے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ زمہ داری دی کہ وہ مسلیمہ کے پاس جائیں اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پہنچے تو شرحبیل رضی اللہ تعالی عنہ بھی وہاں پہنچ گئے تھے دونوں فوجیں ایک ساتھ مل گئیں مسلمانوں کی قوت میں مضبوطی آ گئی مسیلمہ نے چالیس ہزار فوج اکٹھی کر لی تھی خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو جنگ ہوئی یہ بہت ہی خطرناک جنگ تھی بہت ہی سخت تھی جنگ کے آغاز میں یمامہ کے لوگوں نے جس طرح سے حملہ کیا تھا اس کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ ان کی تعداد بھی بہت تھی اور وہ بہت سخت جنگ جو بھی تھے اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا مسلمانوں کی فوجیں پیچھے ہٹ رہی ہیں انھوں نے مسلمانوں کے پیچھے جو قائدین ہیں یا جو قبیلوں کے سردار ہیں ان میں ایک ایک کا نام لے کر آواز دی اور ان کو اللہ تبارک و تعالی کے دین کی خاطر جنگ کرنے پر ابھارا اس سلسلے میں پیش قدمی کی انہیں دعوت دی اس کے ساتھ جب مسلمانوں نے پوری مضبوطی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا تھا یہ لوگ ایک باغ میں چھپ گئے وہاں پناہ لی اور دروازہ بند کر دیا اس باغ کو مسیلمہ حدیقة الرحمن کہتا تھا یہ ایک قلعے کے اندر تھا یہ وہاں قلعہ بند ہو گئے البراء ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہ جو انصار کے بہت بڑے بہادروں میں سے تھے وہ اس قلعے پر چڑھے اور انھوں نے دروازہ کھول دیا اس کے بعد مسلمان اس میں داخل ہو گئے اور مسیلمہ کے فوجیوں کے لئے اس کے متبعین کے لئے زمین گویا تنگ ہو گی اس کے بعد مسیلمہ قتل کر دیا گیا وحشی اور ابو دجانة انصاری رضی اللہ تعالی عنہما کے ہاتھوں وحشی جس نے حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کیا تھا وحشی نے زمانہ جاہلیت میں ایک بہترین شخص کو قتل کیا اسلام لانے کے بعد اس نے ایک بدترین شخص کو بھی قتل کیا ۔
آخر میں مسلمانوں اور حنفیة کے درمیان معاہدہ ہوا اور جنگ اس طرح ختم ہو گئی خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا اس میں یہ بات طلے کی کہ بنو حنیفة کے لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور اپنے قلعوں کو مسلمانوں کے حوالے کریں گے اپنے آدھے مال اور اپنے کھیت بھی مسلمانوں کو دیں گے لہذا اس بات پر صلح ہو گئی اور یہ جنگ ختم ہو گئی اس جنگ کے نتائج :
1: اس نتائج میں ایک بڑا نتیجہ یہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کے حفاظ قرآن مجید کے حافظ بڑی تعداد میں شہید ہو گئے اس جنگ میں کوئی سات سو کہتے ہیں کوئی ستر کہتے ہیں بہر حال ایک بڑی تعداد تھی حفاظ کی جو اس جنگ میں شریک تھے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے کا مشورہ دیا کہ قرآن جمع کیا جائے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کچھ تردد ہوا پھر اس کے بعد انہیں یہ بات مناسب لگی کہ قرآن جمع کر دیا جائے اس کے بعد قرآن جمع کر دیا گیا ہم دیکھ رہے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین چار مہینے کے اندر ہی قرآن جمع کر دیا گیا تھا قرآن سینوں میں تو محفوظ تھا بہت سے لوگ قرآن کے حافظ تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صحابہ کو قرآن لکھوایا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب بھی قرآن کی آیات نازل ہوتیں کاتبان وحی کی ایک ٹیم تھی آپ ان کو بلاتے تھے اور بتاتے کہ یہ آیتیں فلاں مقام پر فلاں سورہ میں فلاں آیتوں کے آگے یا ان کے پیچھے اس کو لکھ دو بہت سے صحابہ اس وقت یاد کر لیتے لکھی ہوئی صورت میں جو موجود تھا اس کو ایک جگہ جمع کیا جائے یہ ایک یقینا ضرورت تھی اس ضرورت کا احساس تب ہوا جب مسیلمہ کی جنگ میں بہت سے حافظ شہید ہو گئے اس کے بعد جو لکھا ہوا قرآن تھا اس کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا یہ ایک بہت بڑا معرکہ تھا جس کی وجہ سے قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کی کتاب جیسے سینوں میں محفوظ ہے اسی طرح کتابت کی صورت میں بھی محفوظ رہے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے دور میں جب لوگوں کے پڑھنے کے طریقوں میں اختلاف ہو گیا انھوں نے سب کو ایک طریقے پر جمع کرنے کے لئے جمع کیا قرآن دونوں کے دور میں جمع کرنے کا مقصد الگ ہے یہاں یہ مقصد تھا کہ قرآن مجید محفوظ رہے تاکہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے اور کوئی مقصد نہیں تھا لیکن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جو جمع کیا اس کا مقصد کچھ اور تھا ۔
|
صفحہ 20
|
صفحہ 20
القضاء علی الردة البحرین
بحرین میں ارتداد کا خاتمہ۔
قبیلہ ربیعہ میں بہت سے لوگ رہتے تھے جس میں عبد قیس بھی تھے بنی بکر بھی تھے یہ قبائل کی شاخیں تھیں اور یہ لوگ بحرین میں رہتے تھے اور بحرین کے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تھے اور اسلام بھی قبول کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے المنذر بن ساوی کو ان کا امیر بنایا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد المنذر رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی وفات ہو گئی مختصر مدت کے بعد اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جگہ جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں کے اتداد کی خبریں آنے لگیں تو بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے سوائے عبد قیس کے لوگ مرتد نہیں ہوئے کیونکہ ان کے جو سردار تھے الجارود رضی اللہ تعالی عنہ وہ ان کو اسلام پر قائم رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور بحرین میں جو فتنہ ارتداد کی قیادت کر رہے تھے وہ تھے حطم ابن ضبعہ اور انھوں نے الجارود اور ان کے ساتھ جو ثابت قدم تھے قبیلہ بنو قیس کے ان کا محاصرہ کر لیا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو گیارہ دستے بنائے تھے ان میں العلاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ بحرین کی طرف جائیں لہذا وہ بحرین پہنچے اور جارود رضی اللہ تعالی عنہ جو اپنے قبیلے والوں کے ساتھ تھے ان کے ساتھ مل گئے اس کے بعد انھوں نے حطم ابن ضبعه اور ان کی پیروی کرنے والوں کے ساتھ جنگ کی آغاز میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہی ہوتی رہیں یہاں تک کہ ایک مہینے کے بعد مسلمان کو کسی مناسبت سے اطلاع ملی کہ حطم کے اکثر فوجی نشے میں دھت پڑے ہوئے ہیں مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کے فتنے کا خاتمہ کر دیا حطم قتل کر دیا گیا اس کے پیرو کار یا تو مسلمان ہو گئے یا ادھر ادھر بھاگ کر تتر بتر ہو گئے پھیل گئے اس کے بعد بحرین پھر سے اسلام میں داخل ہو گیا قطر اور بحرین ایک ہی علاقے تھے ۔
ہم دیکھ رہے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی مسلمانوں کےلئے کس قدر مفید ثابت ہوئی انھوں نے یہ حکم نہیں دیا کہ یکے بعد دیگر ایک ایک قبیلے کی طرف جائیں بلکہ ہر قبیلے کی طرف مختلف قبیلے روانہ کیئے تھے اور یہ بہترین حکمت عملی تھی ان لوگوں کو آپس میں جمع ہونے کا موقع نہیں ملا بلکہ جو قبیلہ جہاں تھا اسی مقام پر مسلمان پہنچے ان کی چھوٹی موٹی قوت کے ساتھ ہی مسلمان ٹکرائے اور ان فتنوں کا خاتمہ کر دیا۔
|
صفحہ 21
|
صفحہ 21
القضاء الردة في عمان ومھرة وحضر موت
عمان میں مھرة میں اور حضر موت میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب عمان والے مسلمان ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیفر اور عبد یہ دونوں بھائی تھے اور جلندي کے بیٹے تھے ان کو عمان کا والی بنایا تھا اور انہیں اسلام کی باتیں سکھانے کے لئے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تھا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو لقیط بن مالک جو ذی التاج کے نام سے معروف تھا اور عمان کا بادشاہ تھا اس نے نبوت کا دعوی کیا اور نبوت کا دعوی کرتے ہوئے مرتد ہو گیا اور وہاں کے بہت سے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا لقیط ابن مالک نے جب نبوت کا دعوی کیا اور اس کے نتیجے میں عمان والے فتنہ ارتداد میں مبتلا ہو گئے تو جلندي کے دنوں بیٹوں نے جیفر اور عبد نے محسوس کیا کہ ان سے مقابلہ کرنا اب ان کے بس میں نہیں ہے لہزا وہ پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اور جیفر نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور سارے حالات سے ان کو اگاہ کیا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حذیفہ بن محصن اور عرفجة بن ھرثمة رضی اللہ تعالی عنھما کو عمان کی طرف بھیجا حذیفہ بن محصن کو عمان کی طرف اور عرفجة بن ھرثمة کو مھرة کی طرف بھیجا اور انہیں وہاں کا امیر بنایا اور ان کے پیچھے ہی عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا جو یمامہ میں مسیلمہ کی فوج کے ساتھ انھوں نے حملہ کیا تھا اور وہاں انہیں شکست ہوئی تھی اور وہاں سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں آگے بڑھنے کا حکم دیا تھا اور خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پہنچ گئے تھے تو عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہاں سے عمان جانے کا حکم دیا اور انہیں قائم بنایا اس کے بعد ان کی قیادت میں عمان میں جو لوگ مسلمان تھے انھوں نے لقیط ابن مالک الازدي سے جنگ کی اور اس کے نتیجے میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ ہو گیا اور پھر سے اہل عمان اسلام میں داخل ہو گئے اس کے بعد حذیفہ بن محصن رضی اللہ تعالی عنہ عمان میں ٹہر گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرفجة بن ھرثمة رضی اللہ تعالی عنہ کو مھرة بھیجا تھا تو عمان میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ کرنے کے بعد عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ ان کی مدد کرنے کے لئے وہاں پہنچے اور وہاں بھی انھوں نے فتنہ ارتداد کا خاتمہ کیا اور وہاں کے لوگ بھی پھر سے مسلمان ہو گئے وہاں سے عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضر موت گئے مھاجر رضی اللہ تعالی عنہ کے تعاون کے لئے کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مھاجر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضر موت بھیجا تھا فتنہ ارتداد کا خاتمہ کےلئے عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ بڑی تیزی کے ساتھ پہلے عمان آئے پھر مھرة گئے اس کے بعد حضر موت پہنچے اور وہاں انھوں نے قبیلہ کندہ الاشعث ابن قیس کی سرکردگی میں جو فتنہ ارتداد پھیلایا ہوا تھا اس کا انھوں نے خاتمہ کیا اس کے بعد الاشعث ابن قیس کو قابو پانے میں اور گرفتار کر کے ان کو مدینہ بھیجنے میں وہ کامیاب ہو گئے اس کے بعد الاشعث ابن قیس بھی اسلام میں داخل ہو گئے مختصر طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ عمان مھرة اور حضر موت ان تینوں جگہوں میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ عکرمہ بن ابو جہل رضی عنہ کی قیادت میں ہوا ۔
القضاء علی الردة في الیمن
یمن میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں اہل یمن مسلمان ہو چکے تھے اور اس میں سب سے بہتر بات یہ تھی کہ یمن کے جو حکمران تھے باذان الفارسي اسلام میں داخل ہوئے تھے اور باذان الفارسي اس وقت فارس کی طرف سے یمن کے حکمران بنائے گئے تھے یمن میں فارس کی حکمرانی تھی آج جو ایران کہلاتا ہے وہ فارس کہلاتا تھا تو ان کی حکمرانی تھی انھوں نے باذان الفارسي کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا وہ جب مسلمان ہو گئے جو فارس کی طرف سے یمن کے گورنر تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو یمن کا حاکم مقرر رکھا لیکن یمن بہت بڑا ملک تھا جو بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا تو باذان الفارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا دائرہ اقتدار تھا وہ صنعاء اور اس کے آس پاس تھا یمن کا باقی حصہ مقامی امراء قبائل کے سرداروں کے پاس تھا جو قبیلوں کے مختلف سردار تھے اور جو مقامی طور پر جو امیر تھے انہی کی وہاں حکمرانی تھی البتہ باذان الفارسی رضی اللہ تعالی عنہ صنعاء اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر حکمران تھے باذان الفارسی رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صنعاء پر ان کے بیٹے شھر بن باذان اور معارب پر ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے حکمران بنایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی گورنری کو دو حصوں میں تقسیم کیا صنعاء پر شھر ابن باذان رضی اللہ تعالی عنہ پر اور مارب پر ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو اور یمن کے جو باقی علاقے تھے وہاں جو قبائل کے سردار ہو گئے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سرداروں کی سرداری کو باقی رکھا
|
صفحہ 22
|
صفحہ 22
اس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی ترتیب کی تھی سن دس ہجری میں الاسود العنسي نے یمن میں نبوت کا دعوی کیا اور وہ بہت بڑا کاہن تھا شعبدہ باز تھا بہت سے لوگ اس کے فتنے میں گرفتار ہو گئے یہاں تک کہ اس نے نجران پر پھر صنعاء پر کنٹرول کر لیا صنعاء پر شھر ابن باذان رضی اللہ تعالی عنہ حکمران تھے الاسود العنسي نے انہیں قتل کر دیا اور ان کی بیوی سے نکاح کر لیا اس کے بعد ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے جب محسوس کیا کہ الاسود العنسي کا فتنہ بہت قوی ہو چکا ہے اور اس سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں تو وہ معارب سے نکل گئے اور معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ بھی وہاں سے نکل گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کو اہل یمن کا معلم بنا کر بھیجا تھا دین کی باتیں سکھانے کے لئے وہاں سے وہ بھی نکل گئے اور ابو موسی الاشعری اور معاذ ابن جبل رضی اللہ عنھما حضر موت پہنچے جب الاسود العنسی کا معاملہ بہت پھیل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ ابن جبل اور ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنھما اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ الاسود العنسی سے مقابلہ کریں اور اس کے قتل کی تدبیر کریں اس کے بعد انہوں نے ایک تدبیر اختیار کی اس تدبیر میں خود اس کی بیوی جن سے اس نے زبردستی نکاح کر لیا تھا اور فیروز رضی اللہ تعالی عنہ کی چچھری بہن تھیں وہ یعنی باذان کی بیوی تھیں اور فیروز کی چچھری بہن تھیں انھوں نے ان لوگوں کی مدد کی اسود کے قتل میں یہاں تک انھوں نے اس بات کا موقع فرائم کیا کہ گھر میں آ کر کمرے میں آ کر الاسود العنسی کو قتل کر دیں اور اس کے بعد جیسے ہی الاسود العنسی کا قتل ہو گیا اس کی فوج تتر بتر ہو گی اور مختلف علاقوں میں پھیل گئی اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت باقی نہیں رہی جس رات الاسود العنسی کا انتقال ہوا اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الاسود العنسی قتل کر دیا گیا صنعاء کے ایک بابرکت گھرانے کے ایک بابرکت شخص نے اسے قتل کیا ہے لوگوں نے پوچھا کس نے قتل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا فیروز نے قتل کیا اس طرح یمن کے لوگ پھر سے مسلمان ہو گئے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں یمن میں جو فتنہ پیدا ہوا تھا نبوت کے دعوی کرنے کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس فتنے کا خاتمہ ہو چکا تھا لیکن اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو پھر اس فتنے نے سر اٹھایا قیس ابن عبد یغوث جو الاسود العنسی کی فوج میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتقال کی انہیں خبر ملی تو پھر سے انھوں نے فتنہ برپا کیا پھر سے انھوں نے صنعاء پر کنٹرول کر لیا ادھر قیس ابن عبد یغوث تھا عمرو بن معد یکرب بھی نجران میں مرتد ہو گئے اور یہ دونوں آپس میں مل گئے اس طرح یمن میں دوبارہ فتنہ ارتداد بہت بری طرح پھیل گیا یہاں تک کہ عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ حضر موت سے یہاں پہنچے اور مھاجر ابن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ دونوں نے مل کر ان سے مقابلہ کیا اور یمن کو مرتدین سے پاک کر دیا اور اس وقت فتنہ ارتداد کو جو لوگ پھیلا رہے تھے عمرو ابن یکرب اور قیس بن عبد یغوث ان دونوں کو گرفتار کر کے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا وہاں انھوں نے پھر سے توبہ کر لی اور اسلام میں داخل ہو گئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف کر دیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یمن میں دو مرتبہ فتنہ ارتداد پیدا ہوا تھا ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں الاسود العنسی نے جب نبوت کا دعوی کیا تھا اس کا خاتمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہو گیا اور دوسری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دو بڑے سرداروں نے پھر سے فتنہ ارتداد کو پھیلایا یہاں تک کہ عکرمہ بن ابی جہل اور مھاجر بن امیہ رضی اللہ تعالی عنھما نے مرتدین سے جنگ کی یہاں فتنہ ارتداد کا خاتمہ ہو گیا۔
ابرز نتائج حروب الردة
فتنہ ارتداد کے جنگوں کے اہم نتائج ۔
مرتدین سے ایک سال جنگ جاری رہی مکمل ایک سال نہیں بلکہ سن گیارہ ھجری ہی میں اس کا خاتمہ ہو گیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بارہ ربیع الاول سن گیارہ ھجری میں ہوئی اور گیارہ ھجری کے ختم ہونے سے پہلے پہلے فتنہ ارتداد کا خاتمہ ہو گیا ذرا غور کیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مکہ مدینے اور طائف کے لوگوں نے یا پھر اکثر لوگوں نے بغاوت کر دی ہے اور جگہ جگہ فتنہ ارتداد کی خبریں آنے لگیں لیکن سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے نوہ ماہ سے کم عرصے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنے کا اللہ کی توفیق سے خاتمہ کر دیا اور اس کے نتائج اس طرح ہیں۔
1) : ان جنگوں کے نتیجے میں خاص طور سے مسیلمہ کذاب سے جو جنگ ہوئی تھی اس کے نتیجے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کرنے کا فیصلہ کیا ان جنگوں کا ایک یہ فائدہ ہوا کہ مسلمانوں نے قرآن کو جمع کرنے کی طرف توجہ دی جب انھوں نے محسوس کیا کہ اس طرح قرآن کے حافظ شہید ہوتے جائیں گے تو پھر قرآن کی حفاظت ایک بڑا مسلہ بن جائے گی لہذا اس کا جو نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں نے قرآن کو جمع کرنے کی طرف توجہ دی ۔
2): اسلام کے جھنڈے کے نیچے پھر سے اسلامی حکومت جمع ہو گئی متحد ہو گئی اس فتنے کے نتیجے میں جو عالم اسلام تھا وہ سخت انتشار کا شکار ہو گیا تھا جگہ جگہ لوگ مرتد ہونے لگے تھے لیکن ان جنگوں کے نتیجے میں سارا عالم اسلام ایک جھنڈے کے نیچے آ گیا تو امت اسلامیہ کی وحدت ایک جھنڈے کے نیچے آ گئی۔
3): ان جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت سے تجربات حاصل ہوئے اور ان تجربات کا فائدہ بعد میں جو جنگیں ہوئیں ان فتوحات کے نتیجے کے طور پر حاصل ہوا ۔
4): ان جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو عرب کے جو حالات ہیں اور محل وقوع کے اعتبار سے اور جغرافیہ اعتبار سے جو عرب کے مقامات ہیں اور اس کے آس پاس کے مقامات کے بارے میں بہت زیادہ علم ہوا اس خطے کی تفصیلات اور حالات ہیں وہ ان پر واضح ہوئے جس کا فائدہ انہیں بعد میں جو عراق اور ایران کی جو جنگیں ہوئیں ان جنگوں میں بہت فائدہ ہوا جنگوں اور فوجوں کی ترتیب اور تشکیل میں فائدہ ہوا۔
5): فتنہ ارتداد کے جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کا ٹکراؤ فارس اور روم کی جو تائید کرنے والے جو لوگ تھے ان لوگوں سے بھی مسلمانوں کا ٹکراؤ ہوا شبه جزیرہ عرب کے شمال میں جس کی وجہ سے مسلمانوں کی معنوی قوت میں اضافہ ہوا جو دو بڑی سلطنیں تھیں جن کا پھیلاؤ عرب کے مختلف جگہوں میں تھیں ان کا پھيلاؤ مختلف علاقوں میں تھا وہاں کے علاقے کے لوگوں سے مسلمانوں کی جنگیں ہوئیں اور فارس اور روم اس وقت کی دو بڑی طاقتیں تھیں معنوی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا اس کے بعد جب مسلمانوں کی ان کے ساتھ جو جنگیں ہوئیں فارس اور روم کے ساتھ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔
|
صفحہ 23
|
صفحہ 23
ثالثا: جمع القرآن
اس کتاب میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جو مختلف کارنامے ہیں ان کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔
اولا: انفاذ جیش اسامة۔
ثانیا: القضاء علی فتنة الردة ۔
قرآن مجید کو جمع کرنا:
یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے فضائل میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کی کتاب کے حفاظت کے اسباب میں سے ہے اللہ تعالی نے اس بات کا ذکر کیا تھا (( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ))" ہم نے قرآن کو نازل کیا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں " اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذکر کیا ہے اپنی کتاب میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ عمل کلام الہی کی حفاظت کے اسباب میں سے ہے لہذا یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے فضائل میں شمار کیا گیا ہے یہ فضیلت انہیں حاصل ہوئی ان کے حسنات میں شمار کیا گیا قیامت تک لوگ قرآن کو پڑھیں گے اس پر عمل کریں گے اس کا ثواب بھی اس کا اجر بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی میزان میں جمع ہو گا کیونکہ انھوں نے ہی آغاز کیا تھا قرآن مجید کو ایک صحیفے میں جمع کرنا یہ عمل انھوں نے شروع کیا تھا تو اس کے نتیجے میں قیامت تک جو لوگ مسلسل قرآن مجید کو پڑھیں گے اس کا ثواب جیسے انہیں حاصل ہو گا ویسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پہنچے گا یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے جمع قرآن مجید کی تفصیلات یہ ہیں کہ زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ صحیح میں بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا بھیجا یمامہ کی جنگ کے بعد مسلیمہ کذاب کے ساتھ جو جنگ ہوئی تھی مسلمانوں کے ساتھ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پاس بلا بھیجا وہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھی موجود تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ میرے پاس آئے اور وہ کہنے لگے یمامہ میں بہت زبردست قتل اور خونریزی ہوئی ہے اور قرآن مجید کے قاری اس میں شہید کیئے گئے ہیں اور مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ قرآن مجید کے قاری یا قرآن مجید کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے جائیں مختلف مقامات پر تو قرآن مجید کی حفاظت ایک بڑا مسلہ بن جائے گا اس بات کا خدشہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی حفاظت نہ کر پائیں اور ہم محفوظ نہ کر پائیں لہذا میری یہ رائے ہے کہ قرآن مجید کو جمع کیا جائے تو میں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ ہم وہ کام کیسے کریں گے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ ایک بہتر کام ہے عمر رضی اللہ تعالی عنہ برابر مجھے اس بارے میں بتاتے رہے اور برابر میری توجہ اس طرف دلاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالی نے میرے سینے کو کھول دیا یہ وہ بات تھی جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے کہی تھی گویا اس کا آغاز عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے سے ہوا تھا اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میری رائے بھی یہ ہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے کہ قرآن مجید کو جمع کیا جائے تو زید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مزید کہا کہ آپ نوجوان ہیں عقل مند ہیں کسی بات میں ہم آپ پر کوئی تہمت نہیں لگاتے یعنی آپ بہت ہی امانت دار ہیں اور آپ کاتبیں وحی میں سے ہیں اور قرآن مجید کو حفظ کرنے والے اور اس کو جمع کرنے والوں میں سے ہیں میں آپ کو ذمہ داری دیتا ہوں آپ قرآن مجید کو جمع کر دیں زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کی ذمہ داری دیتے تو یہ اس سے بھی ہلکی ہوتی یعنی وہ ذمہ داری بھی اتنی بھاری نہیں ہوتی جتنی یہ ذمہ داری تھی جو انھوں نے مجھے دی تھی قرآن مجید کو جمع کرنے کی ذمہ داری کیونکہ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں تھی بہت بڑی ذمہ داری تھی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ وہ کام کیسے کریں گے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ ایک بہتر کام ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار مجھے سمجھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالی نے میرے سینے کو اس کام کے لئے کھول دیا جس کام کے لئے اس نے ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے سینوں کو کھول دیا تھا پھر میں نے قرآن مجید کو تلاش کیا اسے جمع کیا قرآن مجید کھجور کی شاخوں پر اور پتوں پر اور چمڑوں پر اور ہڈیوں پر کپڑے پر جلد پر اور لوگوں کے سینوں میں جمع تھا قرآن مجید لکھا ہوا تھا منتشر چیزوں میں جمع تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے سورتہ توبہ کی آخری آیات ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پائی (( *لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ * )) یہ مجھے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ملی کسی اور کے پاس مجھے حاصل نہیں ہوئی اس کے بعد یہ صحیفہ انھوں نے جمع کر دیا یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنھا کے پاس رہا یہ وہ تفصیلات ہیں جو صحیح بخاری و مسلم میں مذکور ہیں ۔
|
صفحہ 24
|
صفحہ 24
اس پر ہم غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کو جمع کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس کی جب کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ یمامہ میں جو جنگ ہوئی تھی اور اس جنگ کے نتیجے میں حفاظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی اس کے بعد انھوں نے اس کام کی ضرورت کا محسوس کیا اور اس کام کو مکمل کیا اس کام کو کرنے کی ذمہ داری اس وقت اس کے جو اہل ثابت ہو سکتے تھے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ جو کاتبین وحی میں سے تھے ان کو اس کی ذمہ داری دی اس میں ہمیں چند باتوں پر غور کرنا ہے ۔
1) : قرآن مجید کو جمع کرنے میں مسلمانوں نے بہت ہی احتیاط سے کام لیا اگرچہ کہ زید ابن ثابت رضی اللہ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ سارے کے سارے قرآن مجید کے حافظ تھے لیکن انہوں نے قرآن مجید کو اپنے حفظ سے جمع کرنے کے بجائے یا مختلف لوگوں کے حفظ سے جمع کرنے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کے سامنے آپ نے جو لکھایا تھا اس کو دیکھ کر لکھنے کا فیصلہ کیا یعنی اس کا جو طریقہ کار مقرر کیا گیا صحابہ میں اس بات کا اعلان کیا کہ جس کے پاس قرآن کی وہ آیتیں موجود ہیں جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھایا تھا آپ نے خود اپنے سامنے جسے لکھایا تھا وہ دو گواہوں کو لے کر ہمارے پاس پہنچے لہذا مختلف صحابہ کے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب بھی قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوتیں آپ کاتبیں وحی کو اپنے پاس بلاتے اور قرآن کی وہ آیتیں پڑھ کر سناتے اور فرماتے یہ آیتیں فلاں سورتہ میں ان آیتوں کے بعد لکھ دو اس طرح وہ قرآن مجید کو لکھ دیا کرتے اس کے ساتھ بہت سے صحابہ اسے حفظ بھی کر لیا کرتے کیونکہ قرآن مجید تیئس سال کے عرصے میں نازل ہوا اور تیئس سال کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے لہذا سینکڑوں صحابہ قرآن مجید کے حافظ ہو چکے تھے جس میں ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے علاوہ زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے لیکن انھوں نے حفظ پر اکتفا کرنے کی بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو لکھا گیا تھا اس کو دیکھ کر جمع کرنے کا فیصلہ کیا لہذا جس کے پاس بھی قرآن مجید کا وہ حصہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا وہ دو گواہوں کو لے کر آتے اور ان کے پاس پہنچتے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو یاد تھا لیکن وہ پھر بھی دو گواہوں کی گواہی کے بعد اس کو قبول کرتے اور جمع کرتے اگرچہ انہیں بھی اور دوسرے صحابہ کو بھی سورتہ التوبہ کی آخری آیات حفظ تھیں لیکن لکھی ہوئی ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ملی پھر انھوں نے اس کو اس جگہ پر شامل کیا جس جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا نا صرف اپنے حفظ پر اعتبار کیا بلکہ جو لکھا ہوا حصہ تھا اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر بھی دو گواہ طلب کیئے ان گواہوں کے نتیجے میں انھوں نے قرآن مجید کو جمع کیا کسی بھی کتاب کا جو سب سے بہترین طریقہ ہو سکتا ہے یا قابل اعتبار اور جو سب سے زیادہ محفوظ طریقہ ہو سکتا ہے اس طریقے کے مطابق انھوں نے قرآن مجید کو جمع کیا لہذا اللہ تعالی نے دو طریقے سے قرآن کی حفاظت فرمائی اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا قرآن مجید کو محفوظ رکھے گا تو اللہ تعالی نے دو اسباب اس کے لئے فرائم کیئے پہلا سبب سینوں کو اس کے لئے مسخر کر دیا لہذا سینکڑوں صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن مجید کو سنا قرآن مجید کا بہت بڑا مقام ہے اللہ سے جبریل علیہ السلام نے سنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے سنا صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کو سنا پھر صحابہ سے تابعین نے سنا اس طرح اس وقت سے لے کر آج تک بہت سے مسلمان ایک دوسرے سے سنتے آ رہے ہیں اور یہ سینہ بسینہ منتقل ہو رہا ہے یعنی اللہ تعالی نے اس کے لئے سینوں کو مسخر کر دیا لوگوں کے ۔
2) : اس کو مصحف میں جمع کر دیا گیا بین الدفتین دو جلدوں میں جمع کر دیا گیا اور قرآن مجید تحریری صورت میں بھی محفوظ ہو گیا اور لوگوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہو گیا بعض لوگ کہتے ہیں یہ بدعت حسنہ ہے بدعت میں حسنہ اور سیئہ نہیں ہوتی بلکہ جو بھی نئی چیز ہے بغیر کسی سابق مثال کے کسی نئی چیز کو دین میں لانا کسی نئی چیز پر عمل کرنا یہ بدعت کہلاتا ہے یہ ہمیشہ بری ہے کبھی حسنہ نہیں ہو سکتی اور یہ عمل بدعت نہیں ہے سنت ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین المهدیین )) " تم میری سنت پر اور پھر میرے بعد میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو " یہ خلفائے راشدین کی سنت میں سے ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں قرآن مجید کو جمع کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے (( الم ○ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ *)) " یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے " اسی طرح سورتہ البینة (( *لم يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ○ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً)) گویا قرآن مجید کے بارے میں اشارہ کیا گیا کہ وہ ایسے صحیفے میں ہو گا پاکیزہ صحیفوں میں جس کو لوگ پڑھیں گے " قرآن مجید میں بہت سے ایسے اشارات پائے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صحیفے میں جمع کر دی جائے گی ۔
3) : جمع کرنا یہ ان چیزوں میں سے جو واجب ہیں اس لئے کہ قرآن مجید کی حفاظت یہ فرض ہے اصول فقہ کا ایک قاعدہ ہے(( مالا يتم الواجب الا به فهو واجب)) "جس کام کے بغیر واجب مکمل نہیں ہوتا وہ بھی واجب کہلاتا ہے" یہ وسائل میں سے ہے اس کے لئے حکم وہی ہے جو مقاصد کا حکم بنتا ہے قرآن مجید کی حفاظت جب واجب ہے اس کے لئے یہ جو جمع کیا گیا یہ بھی اس واجب کی تکمیل کا حصہ تو کسی بھی طرح سے بدعت قرار دینا یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ خلفائے راشدین کی سنت میں سے ہے اور ان لوگوں نے قرآن مجید کو اس طرح محفوظ کیا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم سند کو تلاش کرتے ہیں حدیث کے سلسلے میں یہ ڈھونڈے ہیں کہ اس کی سند کیسی ہے یا ضعیف ہے یا حدیث صحیح ہے اس بات کا فیصلہ محدثین کرام کرتے ہیں صحیح ہے ضعیف ہے وغیرہ وغیرہ لیکن قرآن مجید سند سے مستغنی ہے قرآن مجید کی سند کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ شک و شبہ سے بالا تر ہے ہزاروں لوگوں نے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور پھر ہزاروں نے صحابہ سے سنا یہ امت میں اتنی کثیر تعداد میں پہنچا ہوا ہے اس میں سند کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ بالکل یقین ہے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو منتخب کیا تھا قرآن جمع کرنے کے سلسلے میں اس کی وجہ یہ تھی اس کے پڑھنے میں اس کے لکھنے میں اس کے سمجھنے میں ان کا بہت مقام تھا اور پھر وہ بہت عاقل تھے عقلمند تھے امانت دار بھی تھے اور اس لئے کہ وہ وحی کو لکھنے والوں میں سے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری مرتبہ جو جبریل علیہ السلام پر سنایا تھا جو آخری سنانا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں وہ بھی موجود تھے اس بات سے انھوں نے قرآن کو مرتب بھی کیا تھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری مرتبہ پڑھا تھا اس کی روشنی میں زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو جمع بھی کیا اور حفظ پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ لکھی ہوئی آیتوں کی روشنی میں اس کو جمع کرتے تھے ان کا آخر میں یہ کہنا کہ سورتہ التوبہ کی آخری آیت ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس مجھے ملی اس کا مطلب ہے کہ لکھی ہوئی صورت میں بہت سے صحابہ یاد رکھتے تھے لیکن لکھی ہوئی صورت میں صرف ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ پاس ملی خود زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی یاد تھی لیکن انھوں نے اپنے حفظ سے لکھنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ لکھی ہوئی صورت میں تلاش کیا یہاں تک کہ وہ مل گئی اس کے بعد اس کو جمع کیا بعض علماء کا خیال ہے سورتوں کی ترتیب صحابہ کی طرف سے اجتہاد ہے جہاں تک آیتوں کی ترتیب ہے اس میں اختلاف نہیں ہے کہ یہ توقیفی ہے لیکن راجح قول یہ ہے یہ بھی آیتوں کی طرح سورتیں بھی توقیفی ہی ہے جیسا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ویسے اسے جمع کیا ۔
|
صفحہ 25
|
صفحہ 25
رابعا: الفتوحات في عھدہ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حاصل ہونے والی فتوحات۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب فتنہ ارتداد کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور جزیرہ نما عرب پھر سے اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا عرب کے مسلمانوں کو اتفاق حاصل ہوا اور ارتداد کی وجہ سے جو بیچینی پائی جاتی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا امن و امان قائم ہو گیا اس کے بعد انھوں نے جزیرہ نما عرب کے باہر کے علاقوں کی طرف توجہ دی اور ان تک اللہ تعالی کے دین کو پہنچانے کا اہتمام کیا اس سے پہلے کہ یہ فتوحات کس طرح ہوئیں اور کہاں کہاں ہوئیں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہوئیں اس بات کا ذکر کیا جائے اس سے پہلے دو نکتوں پر اس کتاب میں بات کی گئی ہے ایک نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ان فتوحات کے اسباب کیا ہیں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنھوں نے ان فتوحات کے سلسلے میں مسلمانوں کی مدد کی یا مدد گار ثابت ہوئے۔
واھم ھذہ الاسباب:
ا): اسلامی فتوحات کا پہلا سبب ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی فتوحات کے اسباب کیا تھے تو پہلا سبب یہ بیان کیا ہے یہ مسلمانوں میں فاتحین اوائل کہلاتے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے فتوحات کی طرف پیش قدمی کی مسلمانوں کے جو سابقین ہیں فاتحین اوائل جنھوں نے سب سے پہلے ان علاقوں کو فتح کیا صدر اول کے مسلمانوں ہے صف اول کے مسلمانوں میں اسلام کی نشرو اشاعت اور اللہ تبارک و تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کی سچی تڑپ اور سچا شوق پایا جاتا تھا۔
ب): دوسرا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کے اندر اس بات کا کامل یقین تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کا وعدہ ان کے حق میں پورا ہو کر رہے گا اور انہیں دو چیزوں میں سے ایک چیز ضرور حاصل ہو گی یا وہ کامیاب ہوں گے فاتح کھلائیں گے یا وہ قتل کیئے جائیں گے اور شہید کہلائیں گے۔
یہ دو اسباب تھے اسلامی فتوحات کے اب وہ کون سے عوامل ہیں وہ کون سی چیزیں ہیں جنھوں نے ان فتوحات میں مسلمانوں کی مدد کی جن عوامل میں مسلمانوں کی مدد کی وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
ا): صدر اول کے مسلمانوں کے اندر رواداری پائی جاتی تھی اور معاملات میں نرمی پائی جاتی تھی اور اخلاق کی بلندی پائی جاتی تھی یہ اوصاف ان کے اندر موجود تھے وہ جنگجو ہونے سے پہلے وہ اللہ تعالی کے دین کے داعی تھے لہذا وہ داعیانہ اوصاف کو پیش نظر رکھتے تھے جیسا کہ ربعي بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرس فارسیوں کے قائد یعنی ایرانیوں کے قائد رستم سے کہا تھا قادسیہ کے جنگ کے موقع پر (( ہم اس لئے آئے ہیں جس کو اللہ تبارک و تعالی چاہے اسے بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی میں داخل کرے اور دنیا کی تنگی سے نکال کر اس کی وسعتوں سے ہمکنار کرے اور مذاہب و ادیان کے ظلم و ستم سے نکال کر اسلام کے عدل سے وابستہ کرے )) یہ چیز ان کے پیش نظر تھے لہذا وہ داعی تھے اصل مقصد جنگ نہیں تھا ان کا بلکہ اصل مقصد اللہ کے دین کی دعوت کو پھیلانا تھا لہذا وہ جنگجو ہونے سے پہلے اس کے داعی تھے یہ وہ عنصر ہے جس نے اسلامی فتوحات کے سلسلے میں مسلمانوں کی مدد کی یہ پہلا عنصر تھا جس کے ذریعے مسلمانوں کو فتوحات کے سلسلے میں حاصل ہوئی وہ ان کے بلند کردار ہیں۔
ب): دوسرا عنصر یہ تھا کہ وہ ظلم و ستم جو وہاں کے بادشاہ اپنی رعایا پر کرتے تھے اور بد امنی پائی جاتی تھی حالات میں بہت زیادہ بد امنی موجود تھی اور تنگ حالی پائی جاتی تھی لوگوں کے اندر جزیرہ نما عرب کے آس پاس جو قومیں بستی تھیں ان قوموں میں جو مشکلات تھیں وہاں کے بادشاہوں کا ظلم و ستم ہے اور بد امنی یہ وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کافی مدد حاصل ہوئی اسی کا نتیجہ تھا ان ملکوں کے رہنے والے لوگ مسلمان فاتحین کے مدد گار ثابت ہوئے انھوں نے اپنے ملکوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کی جیسا کہ شام میں مصر میں قبطیوں کا موقف تھا مصر کو فتح کرنے کے سلسلے میں انھوں نے خود مسلمانوں کی مدد کی مصر کو فتح کرنے کے سلسلے میں یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قبطی جو مصر کے باشندوں کو کہا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی دین سے تعلق رکھتے ہوں لیکن جب مسلمانوں نے مصر کو فتح کیا تو وہاں کے باشندوں کی زیادہ تر تعداد مسیحیوں کی تھی نصاری تھے اسی لئے یہ لفظ قبطی ان پر بولا جانے لگا جب ہم قبطی کہتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں نصاری کا تصور آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مصر فتح کیا گیا تو وہاں کے باشندوں کا عام دین نصرانیت تھا ورنہ حقیقت میں قبطی مصر کے باشندوں کو کہتے ہیں ۔
ج): تیسرا عنصر یہ ہے کہ جو صدر اول کے مسلمان تھے وہ تیزی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے تھے تیزی کے ساتھ ادھر سے ادھر منتقل ہوتے تھے اپنے ساتھ ساز و سامان کم رکھتے تھے دنیا سے ان کا تعلق برائے نام تھا گہرا نہیں تھا سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے مشکلات صبر کرتے تھے یہ وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے نقل و حرکت میں ان کو مدد ثابت ہوئی اور جو مشکلات جنگ میں پیش آئیں انہیں برداشت کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔
د) : چوتھا عنصر یہ کہ اسلام کے جو بلند اصول ہیں لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اور اس کی جو اچھی تعلیمات ہیں انسانی فطرت کے مطابق ہیں اس کا بہت بڑا اثر پڑا اسلام کے پھیلنے اور اسلام کے قبول کرنے کے سلسلے میں خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مسلمان فوجیں نہیں پہنچیں تھیں لیکن اسلام کی اعلی تعلیمات ہیں اور اس کے بنیادی اصول جو انسانی فطرت سے تعلق رکھتے ہیں اسلامی فتوحات کے سلسلے میں مدد گار ثابت ہوا۔
ھ): پانچواں عنصر یہ ہے کہ صف اول کے مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو قابلیت اور صلاحیت رکھتے تھے قیادت کی قابلیت، سیاست کی قابلیت، فنون جنگ کی قابلیت ان کے اندر تھی یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدر سے سے فارغ ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھوں ان کی تربیت ہوئی تھی اور ان کے اندر ایسی خصوصیتیں جمع ہو گئیں تھیں جو شاذ و نادر ہی دوسرے لوگوں میں پائی جاتی تھیں جیسا کہ ابو بکر صدیق، عمر فاروق، ابو عبیدہ بن جراح ، خالد ابن ولید، سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنھم اسی طرح دیگر صحابہ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ان ملکوں کو فتح کیا ۔
یہ پانچ عوامل ہیں پانچ عناصر ہیں جو اسلامی فتوحات کے سلسلے میں مدد گار ثابت ہوئے ۔
|
صفحہ 26
|
صفحہ 26
فتح العراق في عھد الصدیق ۔
عراق کی فتح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئ ۔
اس دور میں عراق فارس کے تابع تھا یہاں دو لفظ ہیں ان کے فرق کو یاد رکھیں ایک فارس ہے ر حالت نصب میں شہسوار کو کہتے ہیں گھوڑے پر سواری کرنے میں ماہر انسان کو کہتے ہیں اس کی جمع ہے فرسان اور دوسرا فارس ر کسرہ کے ساتھ یہ ملک کا نام ہے جو آج ایران کہلاتا ہے اور اس ملک کے رہنے والے کو فارسی کہا جاتا ہے اس کی جمع ہے فرس ۔
عراق اس دور میں فرس کے تابع تھا فارس کے تابع تھا اور مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں جب مسلمان عراق کو فتح کرنے کے لئے پہنچے تھے یا فارسیوں کے پاس گئے تھے تو اس سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ تعلقات تھے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب مسلمان وہاں پہنچے تھے بلکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں میں اور فارسیوں میں تعلقات پیدا ہوئے تھے سب سے پہلے فارسیوں میں تعلقات پیدا ہوئے تھے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی صلح سے فارغ ہونے کے بعد سن چھے ہجری کے آخر میں یا سن ساتھ ہجری کے ابتداء میں بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے تو فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کو بھی خط لکھا تھا اور عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ وہ خط خسرو پرویز کو وہ خط بھیجا تھا یہ خط جب اس کے پاس پہنچا تو اس نے تکبر کے ساتھ آپ کا یہ خط پھاڑ دیا تھا اور تکبرانا انداز میں لکھا تھا کہ میری رعایا میں ایک شخص میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھتا ہے نتیجے میں چند دن بعد وہ خود بھی قتل کر دیا گیا تھا یہ پہلا تعلق تھا فارسیوں کا مسلمانوں کے ساتھ جو پیدا ہوا تھا یہ اس خط کے ذریعے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا ۔
دوسرا تعلق یہ تھا کہ یمن میں فارس کی طرف سے جو حاکم تھے چونکہ یمن اس وقت فارسیوں کے تابع تھا یمن میں فارس کی طرف سے بازان رضی اللہ تعالی عنہ حاکم تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا یہ دوسرا پیدا ہوا تھا فارسیوں سے ۔
تیسرا جو تعلق تھا فارسیوں سے وہ مرتدین کے ساتھ مسلمانوں کی جو جنگیں ہوئی تھیں یمن میں جو فارسی پائے جاتے تھے ان کے ساتھ بھی مسلمانوں کی جنگ ہوئی تھی ان تین طرح سے مسلمانوں کا تعلق فارسیوں سے ہو چکا تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگی مہارت کے ساتھ کام لیتے ہوئے عراق کی فتح کے سلسلے میں جو منصوبہ بندی کی تھی اس کے لئے انھوں نے دو فوجیں تیار کی تھیں ایک فوج خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں اور ان کو حکم دیا تھا کہ وہ جنوب مغرب سے عراق کے نشیبی علاقے سے داخل ہوں ، اور دوسری فوج انھوں نے تیار کی تھی عیاض ابن غنم رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں اور انہیں حکم دیا تھا عراق کے شمالی مشرق سے بالائی حصے سے داخل ہوں اور حیرہ میں دونوں جمع ہو جائیں اور یہ بارھویں ہجری کے ابتداء میں تھا بعض مورخین لکھتے ہیں یہ محرم بارہ ہجری کی بات ہے جب یہ دونوں آگے بڑھے ایک طرف سے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسری طرف سے عیاض ابن غنم رضی اللہ تعالی عنہ عیاض ابن غنم رضی اللہ تعالی عنہ کا مقابلہ اکیدر بن عبد الملک سے دومة الجندل نامی مقام پر ہوا اکیدر ان کے راستے میں آ گیا جس کی وجہ سے آگے بڑھنے میں انہیں تاخیر ہو گئی دوسری طرف سے جنوب مغرب سے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ داخل ہوئے ان کے اور فارسیوں کے درمیان جو سب سے پہلا معرکہ پیش آیا وہ حفیر نامی مقام پر ہوا اور اس معرکے کو ذات سلاسل کہا جاتا ہے اس معرکے میں مسلمانوں کے قائد خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے جبکہ فرس کا قائد تھا ھرمز جو ابلة نامی مقام پر حاکم تھا ایران کے بادشاہ نے اس کو حاکم بنایا تھا ۔ اسے ذات سلاسل اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایرانیوں نے اپنے پیروں میں بیڑیاں باندھ لی تھیں کہ وہ جنگ سے فرار نہ کریں یہ بہت بڑی جنگ تھی اور جنگ میں ثابت قدمی کے ساتھ لڑنے کے لئے بیڑیاں باندھ لیں تھیں اس لئے اسے ذات سلاسل کہا جاتا ہے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے ھرمز کو قتل کیا اور اس کی فوج پر کامیابی حاصل ہو گئی اس کے بعد وہ ولجة گئے وہاں فارسی فوج سے ان کی ملاقات ہوئی جس کی قیادت بھمن جاذویة کر رہا تھا اور وہاں سے اللیس گئے پھر حیرہ گئے ان تمام مقامات پر وہ فارسیوں سے فتح حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ جب انھوں نے حیرہ پر فتح حاصل کر لیا القعقاع بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کو وہاں حاکم مقرر کیا اس کے بعد ابنار گئے اور اس کا محاصرہ کیا اس کو فتح کیا پھر عین التمر کا محاصرہ کیا اور وہاں صلح ہو گئی اس کو بھی فتح کیا اور وہاں مسلمانوں کو مال غنیمت میں جو چیزیں حاصل ہوئیں اس میں چالیس نصرانی غلام تھے جو انجیل کا علم رکھتے تھے وہ سارے کے سارے مسلمان ہو گئے انہیں میں سیرین تھے جو محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ کے والد ہیں جو مشہور تابعین ہیں سیرین اسی جنگ میں مسلمانوں کو حاصل ہوئے تھے اور اسی میں نصیر بھی ہیں جو موسی بن نصیر رحمہ اللہ کے والد ہیں جو بہت بڑے قائد ہیں ان کے والد بھی ان میں شامل تھے چالیس غلاموں میں جنھوں نے بعد میں اندلس کو فتح کیا تھا اس طرح مسلمانوں کو اس مقام میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ دومة الجندل گئے عیاض ابن غنم رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد کی وہاں اکیدر سے ان کی جنگ ہوئی اکیدر کو شکست ہوئی وہ قتل کر دیا گیا اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ پھر سے عراق میں داخل ہوئے اور وہاں سے وہ شام گئے جہاں سے ایرانیوں اور رومیوں دونوں کی فوجیں جمع ہو چکی تھیں خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ کے لئے وہاں مسلمانوں کے ساتھ ایرانیوں اور رومیوں کی بڑی جنگ پیش آئی کس طرح خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ نئی نئی تدابیر اختیار کیں اگر ہم اس کی تفصیل میں جائیں بہت سی باتیں ہمارے سامنے آئیں گی لیکن چونکہ یہ کتاب مختصر ہے چونکہ اس میں ہمارے سامنے ایک مختصر خاکہ پیش کیا گیا کہ کس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں اسلامی فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہوئیں مسلمان کس طرح آگے بڑھتے گئے ۔
|
صفحہ 27
|
صفحہ 27
فتح الشام في عھد الصدیق
ابو بکر صدیق رضی اللہ کی خلافت کے دور میں شام کی فتح۔
جیسا کہ ہم نے پہلے پڑھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو سپر پاور طاقتیں تھیں ایک فارس جسے ایران کہتے ہیں دوسری روم ایران اور عراق یہ فارس کے کنٹرول میں تھے اور شام یہ روم کے کنڑول میں تھا۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں شام کی فتح ملک شام اس وقت رومیوں کے کنٹرول میں تھا اور رومیوں مسلمان کا کئی بار سابقہ پڑ چکا تھا رومیوں اور مسلمانوں میں کسی نا کسی ذریعے سے تعلق قائم ہو چکا تھا سب سے پہلا تعلق تو وہ خط تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ قیصر کے نام لکھا تھا صلح حدیبیہ کے بعد سن چھے ہجری یا سن سات ہجری کی ابتداء میں مورخین کے مطابق میں یا تو چھے ہجری کے آخر کی بات ہے یا تو سات ہجری کے ابتداء کی بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام جو خطوط لکھے تھے ان میں روم کے بادشاہ قیصر کو بھی ایک خط لکھا تھا اور دحیة بن خلیفة الکلبي رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعے وہ خط ھرقل کے پاس بھیجا تھا اور اس میں اسے اسلام کی دعوت دی تھی اس خط کے نتیجے میں قیصر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نا صرف واقف ہوا تھا بلکہ پہچان بھی گیا تھا قریب تھا کہ وہ اسلام قبول کر لیتا لیکن جب دیکھا اس کے دربار میں جو فوج کے کمانڈر ہیں اور دینی رہنما مذہبی رہنما ہیں وہ اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو پھر اپنی نصرانیت پر ہی باقی رہا مسلمانوں کو جو سب سے پہلے روم سے سابقہ پڑا تھا وہ سن چھے ہجری کے آخر میں یا سن سات ہجری کے ابتداء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس خط کے ذریعے تھا اس کے بعد آٹھ ہجری میں غزوة موتة ہوئی مؤتة کے مقام پر رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی تھی جسے غزوة مؤتة کہتے ہیں اور اس کے بعد تیسری دفعہ سن نو ہجری میں غزوة تبوک واقعہ ہوئی تھی تبوک کے مقام پر مسلمانوں کے ہیبت اور رعب رومیوں کے دل میں پیدا ہو چکا تھا جس کی وجہ سے جنگ کے لئے نہیں آئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں قیام کرنے کے بعد پھر آپ واپس ہوئے تھے اور چوتھی دفعہ اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری ایام میں اس بات کی اطلاع ملی کہ رومی مسلمانوں کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامة رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر تیار کیا تھا جو جیش اسامة کے نام سے مشہور ہے سن گیارہ ہجری میں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی وجہ سے یہ لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہیں جا سکا البتہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ لشکر روم گیا بھی تھا اور وہاں کامیاب ہو کر واپس بھی ہوا تھا ۔
اور پانچوں سابقہ خالد بن سعد بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ جو مرتدین سے جو جنگ ہوئی تھیں اس میں کچھ رومی بھی جزیرة عرب کے شمال میں کچھ رومی بھی ان کے مدد گار تھے اس طرح مسلمانوں کو رومیوں سے پہلے سابقہ پڑ چکا تھا اس سے بعد جب ابو بکر صدیق رضی اللہ جب خلیفہ بنے تو انھوں نے اللہ تبارک و تعالی کے دین کی دعوت رومیوں تک پہنچانے کے لئے مختلف لشکر تیار کیئے تھے لہذا ابو بکر صدیق رضی اللہ نے سن تیرہ ہجری کی ابتداء میں شام کے لئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پانچ لشکر تیار کیئے ۔
الاول : ابو عبیدہ عامر بن الجرح رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں انہیں حمص اور حماہ کی طرف بھیجا تھا جو ملک شام کے شمال کے علاقے میں واقع ہیں ۔
الثاني : یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں تھا اور انہیں دمشق کی طرف روانہ کیا تھا ۔
الثالث : شرجیل بن حسنة رضی قیادت میں اردن کی طرف بھیجا تھا۔
الربع: عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں فلسطین کی طرف بھیجا تھا۔
یہ چار لشکر تھے جو شام کے مخلتف مقامات میں بھیجے گئے تھے اور ایک پانچواں لشکر بھی تھا
الخامس : یہ لشکر عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں تھا اور ان کو جو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ان لشکروں کی مدد کریں
یہ پانچ لشکر تھے چار مخصوص مقامات کی طرف بھیجے گئے تھے ایک لشکر ان کی مدد کے لئے تھا رومیوں کو جب یہ پتہ چلا کہ مسلمانوں نے ان سے جنگ کرنے کے لئے چار لشکر بھیجے ہیں تو ان لوگوں نے بھی مختلف کمانڈروں کی قیادت میں چار مختلف لشکر تیار کیئے مسلمانوں کے چاروں لشکروں سے مقابلہ کرنے کے کئے مسلمانوں کے ان چاروں لشکروں میں جو فوجی تھے ان کی تعداد تیس ہزار تھی لیکن رومیوں نے جو لشکر جمع کر لیا تھا اس کتاب میں ایک لاکھ پچاس ہزار ذکر ہے اور وہ بھی چار لشکروں میں تقسیم کر چکے تھے لیکن تاریخ کی بعض کتابوں میں آتا ہے یہ دو لاکھ چالیس ہزار فوجی تھے جو رومیوں نے مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار کیئے تھے لیکن ان لوگوں میں بھی دو لاکھ چالیس ہزار فوجیوں کو چار لشکروں میں تقسیم کر رکھا تھا اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ کو تمام حالات کا علم ہو رہا تھا باقاعدہ ان کو اطلاع پہنچ رہی تھی اور وہ مسلمانوں کو مختلف ہدایتیں دے رہے تھے انہیں جب اطلاع ملی کہ رومیوں نے مسلمانوں سے مقابلے کے لئے اتنا بڑا لشکر تیار کیا ہے تو انہیں مناسب لگا کہ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تاکہ مسلمانوں کی تعداد ایک مناسب جگہ پر ہو جائے اور وہ صحیح طریقے سے ان سے جنگ کر سکیں آخر کار مشورہ ہوا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا کہ یرموک کے مقام پر جمع ہوں ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اسے مناسب سمجھا اور یرموک کے مقام پر یہ چاروں لشکر جمع ہو گئے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر ، شرجیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر اور عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر اور ساتھ میں عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر یہ سارے وہاں جمع ہو گئے لیکن ظاہر ہے یہ جنگ تعداد کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اور ان کے پاس جو ہتھیار تھے مشرکین کے مقابلے میں وہ بھی کم اور یقینا یہ حالات مسلمانوں کے لئے کافی خطرناک تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فورا خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا جو عراق میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف تھے انہیں لکھا کہ وہ آدھا لشکر اپنے ساتھ لیں اور آدھا لشکر المثنی بن حارثة الشیباني رضی اللہ تعالی عنہ جو فارسیوں سے ایران میں لڑ رہے تھے ان کے پاس چھوڑ دیں یعنی فارس کے لشکر کی قیادت المثنی بن حارثة رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت کے حوالے کر دیں آدھا لشکر وہاں چھوڑ دیں اور آدھا لشکر لے کر وہ یرموک کی طرف جائیں ۔
|
صفحہ 28
|
صفحہ 28
خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ عراق سے شام کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ آئے راستے میں ان کی کئی جھڑپین ہوتی رہیں لیکن وہ تمام لشکروں سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ آئے کہ تاریخ لکھنے والے حیران ہیں کہ اتنی تیزی سے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ مختلف فوجوں کے ساتھ جھڑپیں ہونے کے باوجود وہ شام کیسے پہنچے تو بہر حال وہ بڑی تیزی کے ساتھ پہنچے اور پہنچتے ہی فورا بعض تاریخی واقعات کے مطابق ابو بکر صدیق رضی اللہ نے بتا دیا تھا کہ جب یہ جمع ہو جائیں گے تو اس لشکر کی قیادت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کریں گے بعض روایتوں میں آتا کہ جب خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ وہاں پہنچے تو کہا کہ ہم لوگ کسی کو قائد مقرر کر دیں گے تاکہ ہم لوگ ایک قیادت میں جنگ کر سکیں تاکہ سارے امور کی صحیح طرح سے تنسیق کر سکیں سارے امور کی تنقید کر سکیں اس کے بعد سارا لشکر خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں جمع ہو گیا جب یہ دونوں فریق جمع ہو گئے تو رومی پہلے پہنچے یرموک کے مقام پر جو نہر ہے اس کے قریب انھوں نے پڑاؤ ڈالا ایک طرف ان کے نہر تھی اور دوسری طرف خندق تھی تو گویا قدرتی طور پر وہ اچھی طرح اپنے آپ کو محفوظ کر چکے تھے یعنی قدرتی حصار تھا جو دونوں جانب تھی ایک طرف نہر تھی ایک طرف خندق تھی مسلمانوں نے ان کے سامنے پڑاؤ ڈالا اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ کی ترتیب کی تھی اس ترتیب کے باعے اپنے لشکر کو ہدایت دینا شروع کیا خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے صورت حال کے پیش نظر جو مسلمانوں کے سامنے تھی ایک بڑا لشکر ان کے سامنے تھا اور ہتھیاروں کے اعتبار سے بھی مسلمانوں سے زیادہ طاقت ور تھا خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ کی جو ترتیب تھی یا پھر جو حکمت عملی اپنائی وہ جنگوں کی عام حکمت عملی سے مختلف تھی انھوں نے یہ حکمت عملی کی کہ اپنی فوج کے مختلف دستے بنائے نو سو آدمیوں پر مشتمل دستے بنائے ایک دستے میں نو سو افراد تھے اور ایسے انھوں نے اڑتیس یعنی 38 دستے بنائے دستہ یعنی ایک فوجی جماعت جس میں نو سو افراد تھے پھر اپنی فوج کی تقسیم کی قلب میمنہ میسرة ساقه قلب وہ دستہ جو فوجوں کے درمیان میں ہوتا ہے میمنہ جو دائیں جانب ہوتا ہے میسرة جو بائیں جانب ہوتا ہے مقدمہ یہ آگے ہوتا ہے ان کی ذمہ داری عام طور پر انتظامی امور کی نگرانی کرتے ہیں اور انتظامی امور سنبھالتے ہیں اور ساقة یہ پیچھے ہوتا ہے اور عام طور پر اس کی ذمہ داری بھی انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہے اور فوج کی حفاظت ہوتی ہے انھوں نے اپنی فوج کی جو ترتیب جو جنگ کے لئے ہونی چاہئے قلب ، میمنة ، میسرة ، مقدمة اور ساقه اپنی فوج کو ترتیب دی اور قلب کی قیادت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کی میمنة میں شراحبیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ کو رکھا اور میسرة میں یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو رکھا اس کے بعد دونوں فوجیں جب آمنے سامنے ہوگئیں اور رومیوں نے بھی اپنے لشکر کی ترتیب دے دی اور خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے لشکر کی ترتیب دے دی اس سے پہلے دونوں فوجوں میں کچھ گفتگو ہوئی خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی یہ تمام باتیں ہو گئیں پھر جنگ کا آغاز سے پہلے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے القعقاع بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنھما جو قلب کے دونوں جانب موجود تھے یعنی جو دستہ تھا ایک جانب القعقاع بن عمرو رضی اللہ موجود تھے دوسری جانب عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے ان کو جنگ کا آغاز کرنے کا حکم دیا اور اس بات کی تاکید کی کہ کوشش اس بات کی کریں کہ رومی جو اپنے آپ کو قدرتی حصار میں محفوظ کر چکے ہیں کسی بھی طرح ان کو اس حصار سے نکال دیں کیونکہ جب تک وہ اس حصار میں ہیں ان کو شکست دینا مشکل ہے تو انھوں نے القعقاع اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنھما کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ کوئی بھی ترکیب کریں وہ اپنے حصار یا محفوظ پناہ گاہ سے باہر نکلیں اور میدان میں آ کر جنگ کریں جب جنگ شروع ہوئی تو جنگ پورے دن جاری رہی یہاں تک کہ عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے تو انھوں نے کہا کون ہے جو میرے ہاتھوں موت کی بیعت کرے تو چار سو افراد آگے بڑھے ان سب نے موت کی بیعت کی اور اس جنگ میں عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ اس جنگ میں شہید ہوئے بہت بڑی جنگ تھی مسلمانوں کو کافی مشکلات پیش آئی تھیں آخر کار خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے دستہ لے کر رومیوں کی درمیانی صفوف پر حملہ کر دیا ان کے میمنہ میسرہ کو چھوڑ دیا تاکہ ان کے میمنہ میسرہ منتشر ہو جائیں اور مسلمانوں کے ساتھ ان کا جو مقابلہ ہے وہ کسی قدر ہلکہ ہو جائے پھر ان میں جو بھاگنا چائیں وہ بھاگ جائیں میمنہ کو ایک طرف چھوڑ دیا میسرہ کو ایک طرف چھوڑ دیا اس طرح مسلمانوں پر جو فوجی زور ہے اس میں تخفیف ہو جائے اس جنگ کے خاتمے میں یقینا مسلمانوں کو فائدہ ہوا کیونکہ رومیوں کا لشکر جب تتر بتر ہو گیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگا تو بہت سے ان کے فوجی نہر میں گر ہلاک ہوئے اور بہت سے فوجی تھے جو خندق میں گر کر ہلاک ہوئے خندق اور نہر جو ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا تھا جب جنگ کا آغاز ہوا ان کے لئے بہت مہلک ثابت ہوئی اور بہت سے افراد بھاگنا چاہ رہے تھے بہت سے افراد نہر میں کودھ گئے بہت سے خندق میں گر کر مر گئے کہا جاتا ہے اس میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور ایک لاکھ تیس ہزار کافر مارے گئے یہاں تک کہ شام ہوتے ہوتے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اس جنگ میں مسلمانوں نے اشاروں سے نماز پڑھی جیسا کہ نماز خوف پڑھی جاتی ہے انہیں موقع نہیں ملا کہ وہ باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکیں اور جب بڑھ جائے یا مجبوری ہو جس طرح سے نماز پڑھتے ہیں اس طرح سے نہ پڑھی جا سکتی ہو تو جنگ کرتے کرتے اشارے سے نماز ادا کی جا سکتی ہے یہ بہت بڑی جنگ تھی جنگ یرموک ابو بکر صدیق رضی اللہ کے خلافت کے دور میں یہ سب سے بڑی جنگ تھی یہاں رومیوں کو بری طرح شکست ہوئی رومی حیران رہ گئے کہ اتنی بڑی فوج ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں نے انہیں شکست دے دی۔
|
صفحہ 29
|
صفحہ 29
اسباب انتصار المسلمین في المعرکة:
اس جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب کیا تھے
اتنی بڑی فوجی قوت کے اعتبار سے اور تعداد کے اعتبار سے بھی اتنے بڑے فرق کے باوجود بھی اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کامیابی دی اس کے اسباب کیا تھے اس کے بہت سارے اسباب تھے ۔
اولا: پہلا سبب یہ تھا مسلمان اللہ تعالی پر پوری طرح بھروسہ کرتے تھے اور انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ دو کامیابیوں میں سے انہیں ایک کامیابی ضرور ملے گی یا تو وہ جیت جائیں گے یا اللہ کے راستے میں شہید ہو جائیں گے ہر طرف ان کی کامیابی تھی ایک جیت جاتے ہیں تو بھی کامیاب ہوتے ہیں اگر شہید ہوتے ہیں تب بھی کامیاب ہوتے ہیں اس کی وجہ سے وہ بہت ہی دلیری اور بہت ہی بہادری کے ساتھ اللہ تعالی پر اعتماد کرتے ہوئے لڑتے رہے۔
الثاني : مسلمانوں کی قیادت میں مکمل طور پر اتفاق تھا اور پوری فوجیں ایک دوسرے کے ساتھ تنسیق کر رہی تھیں کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں تھا ایک قیادت میں اور اپنے قائد کی ہدایتوں کے مطابق مکمل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو کر وہ کافروں کے ساتھ لڑ رہے تھے ۔
الثالث : اور تیسری وجہ جنگی تدابیر تھیں جنگی حکمت عملی تھی جو خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اختیار کی تھی انھوں نے اپنی فوج کو مختلف دستوں میں تقسیم کیا تھا اور حملے کا طریقے کار جو اپنایا تھا اگرچہ رومی خندق اور نہر کے حصار میں محفوظ تھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے ان کے حصار سے فائدہ اٹھایا اور فوج کے درمیانی صفوف میں حملہ کرنے کی وجہ سے رومیوں کا لشکر منقسم ہو گیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگے ایک حصہ نہر میں کودھ گیا اور ایک حصہ خندق میں گرنے سے مر گیا اس فوجی حکمت عملی اپنانے سے بھی بہت فرق پڑا تھا مسلمانوں کی کامیابی کے لئے۔
الرابع: ایک وجہ یہ بھی تھی ان کے بہت سارے آدمیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو تیزی کے ساتھ حرکت کرنے کی ان کی طاقت نہ رہی اور مسلمان تیزی کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو گئے تھے لیکن رومی تیزی کے ساتھ نہ ہی مقابلہ کر پا رہے تھے نہ ہی آگے بڑھ پا رہے تھے نہ ہی پیچھے ہٹ پا رہےتھے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ قتل کر دیئے گئے یا زخمی ہو گئے۔
یہ چار اسباب ہیں جو مسلمانوں کی کامیابی کے یہاں بیان کیئے یہ معرکہ یرمؤک ہے جو مسلمانوں کی کامیابی پر ختم ہوا۔
عزل خالد ابن ولید
خالد رضی اللہ تعالی عنہ کی فوجوں کی قیادت سے معزولی۔
یرمؤک کے معرکے کے موقع پر ایک اہم واقعہ بھی پیش اور ہوا وہ تھا خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی فوجوں کی قیادت سے معزولی اس جنگ کے دوران ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ نے مختلف ہدایتیں دی تھیں اس کے مطابق خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ ادھر جنگ کر رہے تھے تو اسی دوران ابو بکر صدیق رضی اللہ کا انتقال ہو گیا اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے کام کیئے ان میں ایک کام یہ تھا کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کی فوجی قیادت سے معزول کر دیئے جائیں شام میں اور ان کی جگہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں کی فوجوں کا قائد بنایا جائے بہر حال یہ جنگ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت ہی میں مکمل ہوئی اور اس کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ تعالی معزول ہو گئے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دو فریق خواہ وہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہوں یا خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ ہوں دونوں اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی جتنی بھی کوششیں ہیں یا جو بھی وہ کر رہے ہیں وہ اللہ تبارک و تعالی کے لئے کر رہے ہیں اللہ کو راضی کرنے کے لئے کر رہے ہیں لہذا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جس مقصد کے لئے انہیں معزول کیا ان کے ذہن میں یہ ہی بات تھی کہ وہ اللہ تبارک و تعالی کے دین کی خاطر جو مناسب اقدام ہیں وہ کر رہے ہیں اور خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے معزولی کو قبول کیا باوجود اس کے کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ ایک عظیم کمانڈر تھے اور سارے فوجی ان کی اس صلاحیت سے واقف تھے اور انہیں بہت زیادہ چاہتے تھے اور جانتے تھے کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی تدبیروں کی وجہ سے یا ان کی حکمت عملی کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ کامیابی ملتی ہے اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو جنگ میں کبھی شکست ہوئی ہو تمام باتوں کو جاننے کے باوجود بھی خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ پیغام ملا تو انھوں نے یہ ہی کہا کہ میں عمر کے لئے نہیں عمر کے رب کے لئے لڑ رہا ہوں لہذا وہ معزول ہو گئے یقینا یہ ایک عظیم پہلو ہے جو ہمیں صحابہ کی زندگیوں سے حاصل ہوتا ہے۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو کیوں معزول کیا یہ ان کی سیاسی تدابیر تھیں اور ان کی اپنی رائے تھی اور یہ ایک عظیم بات ہے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے دور میں بھی یہ رائے رکھتے تھے کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا جائے اور انھوں نے یہ رائے دی تھی ابو بکر صدیق رضی اللہ کو تو ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کی تلوار ہیں اللہ کی تلوار کو میں میان میں نہیں رکھ سکتا اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش ہو گئے تھے اور یہ ہی ایک مسلمان کا شیواہ ہے کہ اپنا کوئی مشورہ دے مشورے پر اگر عمل نہ بھی کیا جائے تو اس کی مخالفت نہ کرے بلکہ وہ خاموشی کے ساتھ جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے ان کے مطابق وہ خاموشی اختیار کرے لہذا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش ہو گئے اپنے اجتہاد کے مطابق ان کی رائے یہ ہی تھی کہ قیادت سے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا جائے لہذا جیسے ہی وہ خلیفہ بنے انھوں نے اپنی رائے پر عمل کیا انھوں نے سمجھا فوجوں کی قیادت زیادہ مناسب ہے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کی جائے یقینا وہ جانتے تھے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی خوبیوں کو بہت ممکن ہے کہ جیسا کہ عام طور پر مورخین اور محقیقین ذکر کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو اس لئے معزول کیا کہ کہیں لوگ فتنے میں نہ پڑ جائیں اور یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ کامیابی خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے مل رہی ہے جبکہ کامیابی تو اللہ کی طرف سے مل رہی ہے تو لوگوں کو فتنے سے محفوظ رکھنے کے لئے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ہی مسلمانوں کو کامیابی مل سکتی ہے اس لئے مسلمانوں کے دلوں میں فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس فتنے سے محفوظ رکھنے کے لئے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے معزول کیا ۔
|
صفحہ 30
|
صفحہ 30
اور یہ رائے زیادہ مناسب ہوتی ہے کیونکہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جس طرح خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا تھا اسی طرح سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو عراق سے معزول کیا عراق میں حمص قادسیہ اور مدائن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے دور میں جو بڑی جنگیں ہوئیں اس میں ایک جنگ قادسیہ میں ہوئی جس کا ذکر بعد میں آئے گا یہاں مثال کے طور پر ذکر ہے کہ جس طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا تھا اسی طرح سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی معزول کیا تھا تب معزول کیا تھا جو قادسیہ جو فیصلہ کن جنگ تھی جیسے رومیوں کے مقابلے میں یرمؤک میں بہت بڑی اور فیصلہ کن جنگ تھی اسی طرح فارسیوں کے مقابلے میں قادسیہ میں فیصلہ کن جنگ تھی تو وہاں سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ قائد تھے تو قادسیہ اور مدائن کی جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی معزول کر دیا تھا اس کے باوجود معزول کیئے تھے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب شہید کر دیا گیا جب انہیں خنجر گھونپا گیا اس کے بعد وہ تین دن تک زندہ رہنے کے بعد ان کی وفات ہوئی اس موقع پر وفات سے پہلے انھوں نے ایک شوری تشکیل دی تھی چھے افراد پر مشتمل ایک شوری تھی اور کہا تھا ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنایا جائے ان چھے افراد میں سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی شامل کیا گیا تھا باوجود اس کے کہ وہ معزول کر چکے تھے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کو جب معزول کیا تھا وہ صرف جہاد اور جنگی حکمت عملی کے طور پر تھا عراق کے کچھ لوگوں نے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کے بارے میں شکایتیں کیں عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو محسوس ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور مسلمان فوجیں کمزور ہو جائیں باوجود وہ یہ بات جانتے تھے کہ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی مسلمانوں کی بہت اچھی قیادت انجام دے رہے ہیں اور باوجود یہ کہ اللہ تعالی نے ان کے ذریعے بڑی بڑی کامیابیاں دی ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اختلاف کی وجہ سے فوجیں کمزور ہو جائیں اس مصلحت کی وجہ سے انھوں نے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کو معزول کر دیا تھا اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ نہیں تھی ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کی کوئی کمزوری سمجھتے تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ چھے افراد کی مجلس شوری بنائی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی خلیفہ بنایا جائے ان میں سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی بھی تھے یہاں مثال بتانے کے لئے بیان کی گئی کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جیسے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا ویسے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کو بھی معزول کیا تھا خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کرنے کی بھی مصلحت تھی اور سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالی کو معزول کرنے کی بھی مصلحت تھی اس وجہ سے کہ لوگ فتنے میں نہ پڑ جائیں کہ جنگ میں جو فتح حاصل ہو رہی ہے وہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے حاصل ہو رہی ہے دور صدیقی میں مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئیں اس کے بارے میں یہاں دو ملحضات بیان کیا جا رہے ہیں ۔
ملحوظات حول الفتوح في عھد الصدیق:
اولا : سب سے پہلا یہ کہ انھوں نے اپنے تمام قائدین کو اس بات کی ہدایت دی تھی جو لوگ مرتد ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے ان میں سے کسی کو بھی جنگ میں شامل نہ کیا جائے اس کی دو وجہ تھیں ایک تو یہ کہ وہ قریب میں مرتد ہوئے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایمان میں پختگی نہ پیدا ہوئی ہو ان کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچے اور دوسرا ان کو سزا کے طور پر بھی کہ مسلمانوں کو اللہ تعالی کے دین کے لئے ان کی ضرورت نہیں ہے ان کو اس بات کا احساس دلایا جائے مسلمان فوجیں ان کی محتاج نہیں ہیں اس لئے خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے مرتدین جو اسلام میں داخل ہوئے ان میں سے کسی کو ان جنگوں میں شریک نہیں کیا تھا۔
الثاني: دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان جن علاقوں کو فتح کر رہے تھے انھوں نے وہاں قیام نہیں کیا تھا وہ ان ممالک کو فتح کرتے آگے بڑھتے جا رہے تھے مکمل طور پر جنگیں پیش آ رہی تھیں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ مسلمان فتح کرتے اور آگے بڑھتے تو وہاں پھر سے کافر جمع ہوتے تو مسلمانوں کو پھر سے وہاں جنگ کرنا پڑتا اسی طرح بعض علاقوں کو مسلمانوں نے ایک سے زائد مرتبہ فتح کیا جیسے حیرہ نامی مقام ہے حیرہ کو فتح کیا لیکن وہاں پھر سے جنگ ہوئی مسلمانوں کی کوشش تھی تیزی کے ساتھ جہاں تک ہو سکے آگے بڑھتے جائیں اور جہاں تک ہو سکے وہ اللہ کے دین کے پیغام کو عام کر سکیں بڑی تیزی کے ساتھ مسلمان آگے بڑھے وہاں کسی مقام پر رک نہیں سکے۔
وفاة الصدیق رضي اللہ عنه
ابو بکر صدیق رضی اللہ کی وفات ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ جمادی اخری کی سات یا آٹھ تاریخ کو وہ بیمار ہو گئے سن تیرہ ہجری میں جب انہیں محسوس ہوا اپنی وفات کے بارے میں احساس ہوا تو انھوں نے کبار صحابہ کو جمع کیا اور اپنے بعد خلیفہ بنانے کا مشورہ کیا انھوں نے عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا نام منتخب کیا سب سے پہلے انھوں نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلافت کے لئے بہت موزوں ہیں لیکن ان کی طبیعت میں سختی پائی جاتی ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے جواب دیا کہ سختی اسی لئے ہے کہ میں نرمی کرتا ہوں اور بعض معاملات میں دیکھتا ہوں جہاں میں سختی کرتا ہوں وہاں عمر نرمی کرتے ہیں لہذا جب خلافت کی ذمہ داریاں آ جائیں گی تو ان کی طبیعت میں بھی نرمی اعتدال آ جائے گا یہ جواب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا اس کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنانا چاہ رہے ہیں تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ اچھا ہے اور مسلمانوں میں کوئی ان کی برابری نہیں کر سکتا اس کے بعد انھوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا انھوں نے بھی یہ ہی جواب دیا اور بتایا کہ مسلمانوں میں کوئی ان کی برابری نہیں کر سکتا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا تو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کہا اگر آپ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنائیں گے تو اللہ تعالی کو کیا جواب دیں گے جبکہ وہ جانتے تھے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت میں سختی پائی جاتی ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ لیٹے ہوئے تھے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اپنے ساتھ جو صحابہ تھے انہیں کہا مجھے بٹھا دو پھر بیٹھنے کے بعد یہ فرمایا میں اللہ سے یہ دعا کروں گا کہ اللہ تعالی تیری مخلوق میں جو سب سے بہتر ہے اس کو میں نے تیری مخلوق کی نگرانی دی ہے اس کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر یہ وصیت نامہ لکھوایا کہ میرے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوں گے اس کے بائیس جمادی آخرة سن تیرہ ہجری کو ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ہوئی اور اس وقت ان کی عمر ترسٹھ 63 سال تھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے کمرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں وہ دفن کیئے گئے ہم جانتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی انہیں کے حجرے میں عمل آئی تھی تو انہی کے پہلو میں ابو بکر صدیق رضی اللہ بھی دفن کیئے گئے اور ان کی خلافت کی مدت ہے دو سال دو مہینے بیس دن ہم دیکھ رہے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ نے خلافت کی اس مدت میں کس طرح ارتداد کے فتنے کا خاتمہ کیا اور کس طرح اسلامی فوجیں وقت کی دو بڑی طاقتیں جو تھیں فارس اور روم ان سے ٹکرائی تھیں اور کیسے ان کے ساتھ بڑی بڑی جنگیں ہوئی تھیں اور کیسے مسلمان ایک خطے میں داخل ہو چکے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات سے پہلے یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت کے مختصر حالات ہیں۔
|
صفحہ 31
|
صفحہ 31
اسئلة تطبیقیة
شروع کے پانچ سوالات ہمارے نصاب میں نہیں ہیں لیکن ہم انہیں سوالات میں ہی پڑھ کر حل کر لیں گے تاکہ ایک اہم موضوع اور اہم باتیں ہمارے علم میں آ جائیں۔
س1: کوئی دو آیات اور کوئی دو حدیثیں بیان کیجئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی فضیلت کے بارے میں بیان کئے؟
جواب : بہت سی آیات ہیں اور بہت احادیث ہیں :
اولا آیة:(( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ )) سورتہ8 الانفال 74 ترجمہ : وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کیئے اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی یہ ہی وہ لوگ ہیں جو سچے مومن ہیں ان کے لئے مغفرت ہے اور عزت کا رزق ہے " جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اس سے مراد مہاجرین ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت کی اس سے مراد انصار ہیں سارے صحابہ اس میں شامل ہو گئے ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا یہ ہی سچے مومن ہیں لَّهُم مَّغْفِرَةٌ ان کے لئے مغفرت ہے وَرِزْقٌ كَرِيمٌ اور با عزت روزی ہے یہ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ان کی صداقت کے بارے میں اور بشر ہونے کی حیثیت سے ان سے جو لغزشیں ہو چکی ہوں ان کی مغفرت کے بارے میں اور اللہ تعالی سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے۔
ثانیا آیة: دوسری آیت سورتہ التوبہ آیت نمبر 100 (( وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )) ترجمہ مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اولیں لوگ اور وہ لوگ جنھوں نے اخلاص کے ساتھ بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے " مہاجرین اور انصار میں سے اولین لوگ سابقین اولیں آ گئے الَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ اور وہ لوگ جنھوں نے بھلائی کے ساتھ اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی اس میں ان کے بعد آنے والے وہ سارے لوگ آ گئے جو ان کے طریقے پر چلنے والے ہیں اللہ تعالی نے اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر کیا ایک مہاجرین اور دوسرے انصار اور تیسرے وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں ان کی پیروی کریں قیامت تک اگر نجات اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے تو انہی تین گروہوں کو حاصل ہو سکتی ہے دو گروہ گزر چکے ہیں اور تیسرا گروہ قیامت تک باقی رہے گا وہ لوگ جو اخلاص اور بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کریں اللہ تعالی نے فرمایا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے اللہ تعالی نے ان کی لغزشوں کو در گزر کر دیا اور ان کے نیک اعمال کو قبول کر لیا اور اللہ کی رضا مندی ان کے ساتھ عارضی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ان کے لئے اللہ تعالی نے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی رہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ یہ بڑی کامیابی ہے۔
حدیث اول : صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا * قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ " . قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَمَعْنَى قَوْلِهِ " نَصِيفَهُ " يَعْنِي نِصْفَ الْمُدِّ * "میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے اگر تم میں کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دے تو ان کے ایک مد یا آدھا مد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا" احد پہاڑ کے برابر سونا ہونا ناممکن ہے فرض کر لیں اگر کسی کے پاس ہوتا ہے یا وہ خرچ بھی کر دیتا ہے تو صحابہ کرام ہیں جو ایک مد خرچ کیا تھا یا آدھا مد خرچ کیا تھا اس کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ انھوں نے حاجت کے موقع پر خرچ کیا تھا اور ان کے خرچ میں جو اخلاص اور بھلائی پائی جاتی تھی اتنی سچائی کسی کے پاس آ نہیں سکتی اور ایک مد پانچ سو چوالیس گرام یا اس سے آدھا جو انھوں نے خرچ کیا تھا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔
حدیث ثانیا: یہ حدیث بھی صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ "تمام لوگوں میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دور میں ہیں اس کے بعد وہ ہیں جو ان کے بعد آئیں گے ، اس کے بعد وہ ہیں جو ان کے بعد آئیں گے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیریت کی شہادت دی ہے صحابہ کے لئے تابعین کے لئے اور تبع تابعین کے لئے ۔
|
صفحہ 32
|
صفحہ 32
س2: اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ بیان کیجئے صحابہ کے ایک دوسرے کو فضیلت دینے کے سلسلے میں؟
جواب: اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل تھے ان کی عدالت پر پوری امت کا اتفاق ہے سوائے چند روافض کے جو امت سے اس معاملے میں الگ ہو گئے عدالت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی بات کے سلسلے میں کوئی بھی صحابی ہر گز جھوٹ نہیں کہ سکتے بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اور دین کے بارے میں جو بھی کہیں وہ بالکل سچے ہیں یہ عدالت ہے اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں عدالت صحابہ پر اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے جہاں تک بعض صحابہ کو بعض صحابہ پر فضیلت دینے کا سوال ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی سنت ہے اس نے اس کائنات کی ہر چیز میں اور ہر معاملے میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے فرشتوں کو اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے کتابوں میں اللہ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اللہ تعالی رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی زمانوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور مقاموں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی جگہوں میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی صحابہ میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنه ہیں اس کے بعد عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اس کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اس کے بعد علی ابن طالب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان کی خلافت کی جو ترتیب ہے ان کی فضیلت کی بھی وہ ترتیب ہے ان کے بعد وہ صحابہ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ان صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک ہی وقت میں جنت کی بشارت دی تھی ان میں یہ چار صحابہ ہو گئے جو خلفہ راشدین کہلاتے ہیں ان کے بعد باقی کے چھے صحابہ عبد الرحمن ابن عوف، سعد ابن ابی وقاص، طلحہ ابن عبید اللہ، زبیر ابن عوام ، ابو عبیدہ بن جراح، سعید ابن زید رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اس کے بعد وہ صحابہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر جنت کی بشارت دی اگر ہم عمومی حیثیت سے دیکھیں گے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل وہ ہیں جنھوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی اس کے بعد وہ جنھوں نے غزوہ احد میں شرکت کی اس کے بعد وہ جو احزاب کے موقع پر ثابت قدم رہے اس کے بعد وہ جو بیعت رضوان حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے جو بیعت رضوان کی تھی درخت کے نیچے جسے بیت رضوان کہتے ہیں بہر حال فضلیت کے سلسلے میں اہل سنت و الجماعت کا یہ موقف ہے یہ صحابہ افضل ہیں ۔
س3: اہل سنت و الجماعت کا موقف کیا ہے صحابہ کے آپسی اخلاف کے بارے میں اور ان کے آپسی جنگوں کے بارے میں کیا موقف ہے ؟
جواب : ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد دو بڑی جنگیں ہوئی تھیں ایک جنگ جمل اور دوسری جنگ صفین جنگ جمل میں جو جنگ ہوئی وہ امیر المومنین علی ابن طالب رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسری طرف ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ اور طلحہ بن عبید اللہ اور زبیر ابن عوام رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ صفین امیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان ہوئی تھی یہ جنگ جو صحابہ کے درمیان اس میں اہل سنت و الجماعت کا موقف ہے کہ اس بارے میں بحث و مباحثہ ، تبصرہ ، غیر ضروری تفاصیل میں جانے سے اپنے آپ کو روکنا اہل سنت ان کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرتے غیر ضروری تفاصیل میں نہیں جاتے اور اس کے بارے میں اپنی زبانوں کو آلودہ نہیں کرتے کسی صحابی کے بارے میں کوئی ایسی بات بیان نہیں کرتے جو ان کی شان کے خلاف ہو ان کی تنخیص ان کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کرتے تھے یہ اہل سنت و الجماعت کا موقف ہے صحابہ کے بارے میں ان کی نمائندگی ہم حسن بصری رحمہ اللہ سے لین گے جو سید تابعین کہلاتے ہیں ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا وہ جنگ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے شرکت کی ہم اس میں موجود نہیں تھے وہ جانتے تھے ہم نہیں جانتے تھے وہ جنگیں کس لئے ہوئی تھیں اس کا ان کو صحیح طور سے علم ہے اور ہم وہ باتیں نہیں جانتے جب وہ متفق ہوں گے تب ہم ان کی پیروی کریں گے جب انھوں نے اختلاف کیا تو ہم کھڑے ہو گئے یعنی ہم نے خاموشی اختیار کی صحابہ کے اختلافات کے بارے میں ہمیں خاموشی اختیار کرنا چاہئے اس سلسلے میں ہمیں اس کی تشہیر کرنا اس کو مزے لے کر بیان کرنا یا اپنے آرا اور خیالات بیان کرنا یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ تاریخ کی جو باتیں ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں یا تو کچھ چھوٹ ہے جس کا مورخین نے ذکر کر دیا یا پھر اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کر دی گئی ہے تاکہ اس کے معنی و مفہوم کو بدل دیا جائے اس سلسلے میں صحابہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ معزور تھے وہ مجتہد تھے انھوں نے اجتہاد ان میں سے جن کا اجتہاد صحیح تھا ان کو دو اجر ملیں گے اور جن کا اجتہاد غلط تھا ان کو ایک اجر ملے گا وہ معذور ہیں مجتہد ہونے کی حیثیت سے ہماری زمہ داری ہے کہ ہم ان کے بارے میں سوائے بھلی بات کے کچھ نہ کہیں جیسا کہ امام ابن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ما اقول فیھم الا حسنة میں ان کے بارے میں سوائے بھلی بات کے کچھ نہیں کہتا اس بات کی ہمیشہ پابندی کیجئے ابو زرعة الرازي رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے کہا میں معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض رکھوں انھوں نے پوچھا کہ کیوں تو اس نے جواب دیا کہ انھوں نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جنگ کی تھی تو انھوں نے جواب دیا ان رب مُعَاوِيَة رب رحيم ، وخصم مُعَاوِيَة خصم كريم ، فما دخولك أنت بينهما ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أجمعين معاویہ کا جو رب ہے وہ رحم ہے اللہ تبارک و تعالی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے گا اور جن کے ساتھ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اختلاف ہوا تھا علی رضی اللہ عنہ وہ کریم ہیں غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں ان دونوں کے درمیان تم کیوں مداخلت کرتے ہو یہ ان کا معاملہ ہے" اس طرح ایک مشہور تابعین سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ جب اللہ تعالی نے جب ہماری تلواروں کو ان سے محفوظ رکھا یعنی ہم ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے تھے تو ان کے بارے میں کسی قسم کی بات کہتے ہوئے ہم اپنی زبانوں کو کیوں آلودہ کرتے ہیں اہل سنت و الجماعت کا موقف صحابہ کے اختلاف کے سلسلے میں یہ ہی ہے کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں خاموشی اختیار کریں گے اللہ تعالی کا ارشاد سورتہ الحشر 10 (( وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا)) اللہ تعالی نے ہمیں تعلیم دی کہ ہم یہ دعا مانگیں اللہ تبارک و تعالی ایمان والوں کے لئے ہمارے دل میں کسی قسم کا کینہ نہ رکھے اور خاص کر وہ لوگ جو ایمان میں ہم سے سبقت لیئے اور خاص کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ۔
|
صفحہ 33
|
صفحہ 33
س4: خلافت کی لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کیجئے اور امیر کی اقامت یعنی امیر بنانا واجب ہے اس کے دلائل ذکر کیجئے؟
جواب: جہاں تک خلافت کے لغوی اور اصطلاحی معنی ہیں یہ خلف یخلف کا مصدر ہے۔
لغوی معنی: جس کے معنی ہیں کسی کے پیچھے آنا کسی کے نائب بننے کے ہیں اس میں امارت اور امامت کے معنی پائے جاتے ہیں۔
اصطلاحا: اصطلاح میں ریاسة عامة فی امور الدین و الدنیا نیابة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر کسی کو رئیس بنانا امیر بنانا دینی معاملات میں بھی اور دنیاوی امور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق یعنی مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی امور کی نگرانی کرنا اور ان امور کو قائم کرنا یہ خلافت کے اصطلاحی معنی ہیں۔
ظاہر ہے خلافت ریاست کے معنی میں ہے امیر جو کہ مسلمانوں کے امور کا نگران بنے ان کے دینی اور ان کے دينى امور کے بھی جب ابو بکر صدیق رضی اللہ خلیفہ تھے تو ان کو خلیفة الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا جب عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے تو ان کو خليفة خلیفة الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جانے لگا انھوں نے محسوس کیا کہ اب ان کے بعد جو خلیفہ ہوں گے ان کو خلیفة خلیفة خلیفة الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جائے گا یہ بہت لمبا ہو جائے گا اس لئے مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ مسلمانوں کے امیر کے لئے کوئی خاص اصطلاح استعمال کی جائے تو صحابہ میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ مسلمان مومن ہیں اور مسلمانوں کے خلیفہ ان کے امیر ہیں اسی لئے انہیں امیر المومنین کہا جائے تو سب سے پہلے عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر المومنین کہا جانے لگا اس کے بعد مسلمانوں کے خلیفہ امیر المومنین کہلائے جہاں تک امیر کو قائم کرنے یا امیر کو بنانے کا وجوب ہے اس سلسلے میں قرآن کی بہت ساری آیات ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے سورتہ المائدہ 48 (( * فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ* )) " ان کے درمیان اللہ تبارک و تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کیجئے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے" شریعت کے علاوہ جتنی بھی باتیں ہوں گی وہ ساری کی ساری احوا خواہشات ہوں گی اور ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ بغیر امارت کے نہیں ہو سکتا کیونکہ ان فیصلوں کے لئے امارت ضروری ہے اس سے امارت کا وجوب معلوم ہوتا ہے اسی طرح سورتہ النساء 59 کی آیت ہے (( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ )) " اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اختیار والے ہیں ان کی اطاعت کرو " اور اختیار والوں میں بدرجہ اولی امراء شامل ہیں جب تک امیر نہیں ہوں گے ان کی اطاعت کیسے کی جا سکتی ہے اس آیت سے بھی امیر کا حکم معلوم ہوتا ہے اس سلسلے میں بہت سی احادیث بھی ہیں جیسا کہ (( لا یحل لثلاثة يقولنا بثلاث من الارض الا امرو علیھم احدھم )) کسی تین آدمیوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی جگہ پر کسی چٹیل میدان میں ہوں مگر یہ کہ انہیں چاہئے کہ ان میں سے کسی ایک کو امیر بنا دے یعنی بغیر امیر کے رہنا یہ ان کے لئے حلال نہیں ہے انہیں چاہئے کہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنا دے مسند احمد کی یہ حدیث ہے اسی طرح ایک اور حدیث جو حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے اذا خرج ثلاثة فی سفر بل یعمرو احدھم جب کوئی تین آدمی سفر میں نکلیں چائیے کہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنا دیں " جب سفر میں یا کسی میدان میں کچھ لوگ ہوں اس میں بھی امیر بنانا ضروری ہے تو ظاہر ہے مسلمانوں کے بڑے امور اور بڑے معاملات ہیں جو ان کے دینی اور دنیاوی امور کا تعلق ہے اس کے امیر بنانا بدرجہ اولی ضروری ہے۔
|
صفحہ 34
|
صفحہ 34
س5: امیر کی ذمہ داریاں اور ان کے حقوق بیان کیجئے؟
جواب: امیر کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں جواب طویل ہو جائے گا اس لئے ان میں سے مختصر یہ ہے کہ امیر کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں دینی بھی اور دنیاوی بھی کچھ ذمہ داریاں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے دینی امور سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ایسی ہیں جو ان کے دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیں وہ ذمہ داریاں جو دینی امور سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اولا:علم کی ترویج کرنا تعلیم کا انتظام کرنا کیونکہ اس کے بغیر مسلمان دین کو پہچان نہیں سکتے۔
ثانیا: اللہ تبارک و تعالی کے شعائر کو نافذ کرنا جیسے نماز، اذان، روزہ اور دوسری تمام عبادتیں جو دینی شعائر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو قائم کرنا۔
ثالثا : امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس کا انتظام کرنا کہ لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں۔
یہ چند چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے دینی امور سے تعلق رکھتی ہیں
مسلمانوں کے دنیاوی امور سے تعلق رکھنے والی چیزیں :
اولا : ان کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا ۔
ثانیا: امن و امان کو قائم کرنا ۔
ثالثا: مسلمانوں کے ملک اور ان کے دین کا دفاع کرنا ۔
رابعا: مالی معاملات کی تقسیم اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق کرنا مسلمانوں کے درمیان۔
خامسا: امانت دار لوگوں کو مسلمانوں کا ذمہ دار بنانا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صحیح مسلم کی حدیث ہے(( مَا مِنْ عَبْدِ يَسْتَرْعِيهِ اَللَّهُ رَعِيَّةً, يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ, وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ, إِلَّا حَرَّمَ اَللَّهُ عَلَيْهِ اَلْجَنَّةَ )) " کوئی بندہ جس کو اللہ تعالی رعیت کی رکھوالی کا ذمہ دار بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اس نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہو یا تو ان کی ذمہ داریوں کو صحیح ادا نہیں کیا یا پھر ان کے معاملات کو صحیح طور سے پورا نہیں کیا یا پھر ان کے ساتھ دھوکے کا کام کیا تو اللہ تعالی ان پر جنت حرام کر دے گا " یہ ذمہ داریاں ہیں اور جہاں تک امیر کے حقوق کا تعلق ہے اس میں مندرجہ ذیل باتیں ہیں ۔
اولا : لوگ رعایا اسے امیر کی حیثیت سے تسلیم کریں ۔
ثانیا: معروف میں اس کی اطاعت کریں منکر میں اطاعت نہ کریں لیکن اس کی مخالفت نہ کریں۔
ثالثا : اس کی خیر خواہی کرنا اور نرمی سے اس کو سمجھانا اگر منکر میں اطاعت نہیں کریں گے تو نرمی سے اس کو سمجھائیں گے جیسا اس کا درجہ اس کا تقاضہ کرتا ہے۔
رابعا: مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت اور خروج نہیں کرنا اگرچہ وہ ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ آدمی ذاتی طور پر صبر کر لے یہ فتنہ و فساد سے بہتر ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جو فساد پھیلے گا اس کی وجہ سے بہت سے واجبات ضائع ہوں گے اور بہت سے معصوم قتل ہو جائیں گے عزتیں لٹ جائیں گی اور لوگوں کے مال لٹ جائیں گے بہت سی احادیث ہیں کہ مسلمان حاکم کے خلاف خروج نہیں کیا جائے بعض احادیث میں بواح کا ذکر کیا گیا کہ اگر کوئی حاکم ایسا ہو جو واضح صریح کفر کا ارتکاب کرے اور اس کی صریح دلیل بھی ہو تو اس صورت میں اس کے خلاف خروج کی اجازت دی گئی لیکن اس کے باوجود بھی اہل علم نے اس بات کو واضح کیا کہ یہ بھی اس وقت جائز ہو گا جبکہ اس بات کی امید ہو کہ ہٹا کر کسی عادل امیر کو لا سکیں گے فتنہ و فساد کے بغیر ان کے اندر وہ صلاحیت اور وہ قوت ہے وہ کسی عادل امیر کو لا سکتے ہیں تب وہ چیز جائز ہو گی ۔
س6: ابو بکر صدیق رضی اللہ کا نسب بیان کیجئے ان کے القاب کا ذکر کرتے ہوئے؟
جواب : نسب ابو بکر صدیق رضی اللہ : عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرة بن کعب بن لؤي التیمي القرشي۔
لقب ابو بکر صدیق رضی اللہ :
تین لقب بہت مشہور ہیں۔
اولا: الصدیق ۔
ثانیا: العتیق۔
ثالثا: الاواہ۔
نوٹ : الاواہ کے معنی ہیں نرم دل
|
صفحہ 35
|
صفحہ 35
س 7: اسلام کے لئے اسلام کے بارے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ کے انفاق (جو مال خرچ کیا تھا) کے بارے میں لکھئے؟
جواب : اس سبق میں ابو بکر صدیق رضی اللہ کے انفاق کے بارے میں جو باتیں کی گئی ہیں ہم اس میں انہی باتوں کو محدود رکھیں گے اور یہ کتاب مختصر ہے اس میں ان نقاط کی سلسلے میں کچھ اشارے کیئے گئے ہیں اس کتاب میں ابو بکر صدیق رضی اللہ کے سلسلے میں کچھ باتیں کی گئی ہیں ان میں یہ بات بھی ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ رضی اللہ تعالی عنہ جب اسلام میں داخل ہوئے تھے ان کے پاس چالیس ہزار درھم تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو نہ ان کے پاس کوئی درھم تھا نہ دینار تھا یہ چالیس ہزار تو اس وقت کی بات ہے جب وہ مسلمان ہوئے تھے لیکن ظاہر ہے اسلام لانے کے بعد انھوں نے جو تجارت کی اور اس میں سے جو انفاق کیا وہ اس کے علاوہ ہے یہ صرف اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ انھوں نے اللہ کے راستے میں اس قدر خرچ کیا کہ جو کمایا وہ اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتے تھے ان کے خرچ کے انفاق کی جو صورتیں تھیں ان میں تین صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنه کے انفاق کی تین صورتیں اس کتاب میں بیان کی گئی ہیں ۔
اولا : وہ غلاموں کو خرید کر انہیں آزاد کرتے تھے وہ غلام جو اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور ان کے مالک ان کے آقا ان پر ظلم ڈھاتے تھے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنه انہیں خرید کر آزاد کرتے تھے جیسا کہ بلال ابن رباح ، عامر ابن فھیرہ اور بنو مؤمل کی ایک لونڈی کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے خرید کر آزاد کیا اور بھی ہیں غلام اور لونڈیاں جن کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے خرید کر آزاد کیا لہذا یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انفاق کی پہلی صورت ہے ۔
ثانیا: ان کے انفاق کی دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب انہیں اس بات کی خبر دی کہ انہیں ھجرت کی اجازت دی گئی ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے تو انھوں نے ھجرت کے لئے اپنا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں دے دیا گویا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ جیسے چائیں اس مال کو خرچ کریں ھجرت کے وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اپنا مال خرچ کیا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے مطابق ۔ثالثا: ان کے انفاق کی تیسری صورت یہ تھی کہ مدینے میں جو غریب مسلمان تھے فقراء محتاج ان کی وہ مدد کرتے تھے جیسا کہ مسطح ابن اثاثه رضی اللہ تعالی عنہ جو ابو بکر صدیق رضی اللہ کے رشتے دار بھی تھے ان پر بھی وہ ماہانہ خرچ کرتے تھے اتفاق سے اپنی سادگی کی وجہ سے منافقین کی باتوں میں آ کر مسطح ابن اثاثه رضی اللہ تعالی عنہ ان لوگوں میں شامل ہو گئے تھے جنھوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تہمت لگائی تھی اس کے بعد عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کی برات کے بعد قرآن مجید میں آیات نازل ہوئی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ نے قسم کھائی تھی کہ اب وہ مسطح کی کوئی مدد نہیں کریں گے لیکن سورتہ النور 22 (( *وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ *)) تم میں جو طاقت والے ہیں فضل والے ہیں ان کو قسم اس بات سے قسم نہیں کھانا چائیے کہ وہ قرابت داروں کو مساکین کو اللہ کے راستے میں ھجرت کرنے والوں کو نہیں دیں گے یا ان کی مدد نہیں کریں گے بلکہ انہیں چائہے کہ معاف کریں در گزر کریں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھے معاف کر دے غلطیاں تو انسان سے ہو جاتی ہیں اور تم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں جب تم یہ چاہتے کہ اللہ تمھاری غلطیوں کو درگزر کرے معاف کرے تمھے چائہے کہ دوسروں کو معاف کر دو " جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کر دے لہذا انھوں نے مسطح رضی اللہ تعالی عنہ کی امداد جاری کر دی اور اسے بند نہیں کیا یہ ان کی مدد تھی۔
س8 : ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کے بعض مواقع بیان کیجئے ؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جہاد فی سبیل اللہ میں بعض مواقع یا بعض صورتیں بیان کیجئے؟
جواب: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے بہت سے پہلو تھے اس کتاب میں بعض پہلو بیان کیئے گئے ہیں :
اولا: پہلی صورت یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی جو بڑے غزوات ہوئے ان میں غزوہ بدر اور جو آخری تھی وہ غزوہ تبوک تھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں شریک رہے۔
ثانیا: دوسرا پہلو ان کے اللہ راستے میں جھاد کرنے کا یہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے مشرکین جو آپ کو تکلیفیں پہنچاتے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے اور مشرکین کو روکتے تھے جیسا کہ مختلف سندوں سے تاریخ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ کعبے کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط پیچھے سے آیا آپ کو کاندھوں سے پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر اسے کھینچنے لگا اور آپ کو سخت تکلیف ہونے لگی گلا گھونٹنے لگا اتنے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو عقبہ بن معیط کو کاندھوں سے پکڑ کر ہٹا دیا اور کہنے لگے " کیا تم ایک شخص کو صرف اسی لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمھارے پاس اپنے رب کی واضح نشانیاں لایا ہے " عقبہ بن معیط نے اور اس کے ساتھیوں نے جو کہ مشرکین تھے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے ۔
|
صفحہ 36
|
صفحہ 36
ثالثا : ھجرت کے موقع پر بھی آپ کے ساتھ تھے اور غار میں بھی آپ کے ساتھ رہے جبکہ جانتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ھجرت کرنا یہ سب سے خطرناک بات ہو گی کیونکہ مشرکین آپ کو تلاش کرنے کے لئے آپ کو پکڑنے کے لئے پوری قوت لگا دیں گے لیکن اس کے باوجود بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال شجاعت سے کام لیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ھجرت کی اور غار میں آپ کے ساتھ رہے۔
رابعا: غزوا بدر میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنایا گیا تھا چھپڑ تعمیر کیا گیا تھا مزکری قیادت کے طور پر تو وہاں ابو بکر صدیق رضی اللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے یہ بہت اہم مقام تھا اس بات کا پورا امکان تھا کہ مشرکین پوری قوت اس بات پر لگائیں گے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام پر ہیں یہ وہاں حملہ آوار ہوں لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ کی حفاظت کر رہے تھے ۔
خامسا: حنین میں جب اچانک بنو ھوازن نے اچانک مسلمانوں پر حملہ کر دیا بہت سے مسلمانوں کے قدم لڑکھڑا گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے سمجھ رہے تھے کہ انہیں شکست نہیں ہو گی اس موقع پر جو تھوڑے سے صحابہ ثابت قدم تھے اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ بھی شامل تھے۔
خامسا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسامة رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اس کو ابو بکر صدیق رضی اللہ نے روانہ کیا اگرچہ کہ اس موقع پر بہت سے صحابہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ خطرات سے دوچار ہے اس لئے اس لشکر کو راوانہ نہ کیا جائے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ نے پوری بہادری کے ساتھ کام لیتے ہوئے لشکر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا اس کو روانہ کیا ایسے خطرناک حالات میں ایک لشکر کو مدینے کے باہر شام کے علاقے میں روانہ کرنا یہ بہت بڑی بہادری کی بات تھی۔
سابعا : مرتدین کے ساتھ جنگ کرنا جو مختلف اسباب کے تحت مرتد ہو گئے تھے کچھ لوگوں نے نبوت کا دعوت کیا بہت سے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے تھے اور کچھ نے زکوة کا انکار کر دیا تھا کچھ کے پاس قبائلی حمیت جاگ اٹھی تھی اور وہ پھر سے اسلام سے نکل گئے تھے وغیرہ وغیرہ ابو بکر صدیق رضی اللہ نے فیصلہ کیا کہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی لہذا ایسے سخت حالات میں جنگ کی اور مرتدین کے ساتھ جنگ میں کامیاب رہے ۔
س9 : ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت کے بارے میں جو نصوص آئے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر کیجئے؟
جواب: نصوص یہ نص کی جمع ہے اور یہاں سے مراد قرآن یا حدیثیں ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت میں بعض نصوص بیان کیئے ہیں بعض آیات بھی ہیں جن میں ان کی فضیلت شامل یے اور احادیث بہت ہیں۔
قرآن سے نصوص: سورتہ التوبہ (( ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ )) "دو میں سے دوسرے جب وہ دونوں غار میں تھے جب آپ اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے " وہاں ابو بکر صدیق رضی اللہ کا ذکر ہے ۔
حدیث سے نصوص:
ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت میں احادیث بہت زیادہ ہیں جیسا کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا سب سے زیادہ آپ کو کون محبوب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ انھوں نے پوچھا مردوں میں کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے بعد پوچھا ان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔
یہ حدیث ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت میں دلالت کرتی ہے کہ مردوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور اسی طرح دوسری حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور یہ بھی صحیح مسلم کی حدیث ہے
(( عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي )) اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور دوست ہیں خلیل خلت یہ محبت سے اونچا درجہ ہے اور اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا خلت کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے ابراہیم علیہ السلام کے لئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا خلیل بنایا تھا اس لئے آپ نے انسانوں میں سے کسی کو اپنا خلیل نہیں بنایا اس حدیث سے ابو بکر صدیق رضی اللہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتے۔
اور تیسری حدیث ہے یہ بھی صحیح مسلم کی ہے کہ ایک خاتون اپنی کسی ضرورت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بعد میں آنے کے لئے کہا تو انھوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں یہاں اؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو میں کیا کروں اس کا اشارہ تھا کہ اگر آپ کی وفات ہو چکی ہو تو آپ نے کہا فان لم تجدیدیني فاتي ابا بکر اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آنا
اس میں گویا ابو بکر صدیق رضی اللہ کی امامت اور خلافت کی طرف اشارہ بھی تهی کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ بنائے جائیں
|
صفحہ 37
|
صفحہ 37
س 10: ابو بکر صدیق رضی اللہ کی خلافت کے لئے بیعت کا ذکر کیجئے کہ یہ کیسے ہوئی تھی؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ پر گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا پریشانی میں کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اس حد تک سبھی پریشان ہو چکے تھے عمر رضی اللہ تعالی عنہ تلوار لے کر کہ رہے تھے کہ اگر کسی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں اس کو قتل کر دوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح گئے ہیں جیسے طور پر موسی علیہ السلام گئے ہیں جو جو کہ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور اسے قتل کریں گے علی رضی عنہ گویا رو پوش ہو چکے تھے اور عثمان رضی اللہ تعالی اٹهنے کی سکت نہیں رکھ رہے تھے ایسے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ مدینے کے باہر ایک مقام ہے السنح وہاں ان کا ایک گھر تھا وہ وہاں موجود تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ کو پتہ چلا تو آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گئے چادر ہٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خیر کے کلمات کہے آور باہر آ کر دیکھا لوگوں کا عجیب حال تھا ایسے موقع پر جبکہ اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں صحابہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہے تھے لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ نے بہت ہی شجاعت کا مظاہرہ کیا بہت ہی عظیم شجاعت تھی اس موقع پر انھوں نے قرآن کی آیت پڑھی (( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ )) آپ بھی مرنے والے ہیں وہ بھی مریں گے اس کے بعد یہ آیت پڑھی (( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ)) محمد تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول وفات پا چکے ہیں " یہ آیات پڑھنے سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ذکر بھی کیا کہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چائیے کہ آپ مر چکے ہیں جو اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کے بعد انھوں نے یہ آیت پڑھی تو صحابہ کو ہوش آنے لگا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ادھر صورت حال بہتر ہوئی تو ادھر انصار کے کچھ لوگ سقیفه بنی ساعدة پر جمع ہوئے اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ مدینے میں کسی کو امیر بنانا ضروری ہے تاکہ وہ حالات کو سنبھال سکے کیونکہ امارت کے بغیر حالات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہے وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ مدینے کے باشندوں میں سے کسی کو امیر بنایا جائے کیونکہ وہ مدینے سے ہیں دوسری بات یہ کہ شاید انھوں نے یہ ہی سوچا ہو کہ مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مدینہ میں تھے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے تو اب مکہ کو واپس ہو جائیں گے ابو بکر صدیق رضی اللہ کے پاس بھی کچھ لوگ جمع ہوئے اور ان کو پتہ چلا ثقیفه بنی ساعدة پر کچھ انصار جمع ہوئے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو خلیفہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ابو بکر صدیق ، عمر بن خطاب ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنھم یہ تینوں ثقیفه بنی ساعدة پہنچ گئے اور وہاں انصار کے کچھ لوگوں کو پایا جو اس بارے میں بات کر رہے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے ان سے خطاب کیا اور انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بتائیں اس میں سے ایک حدیث یہ بھی تھی کہ الائمة من قریش خلیفہ قریش میں سے ہوں گے لا یزال ھذا الامر في قریش ما بقی منھم اثنان جب تک قریش کے دو آدمی بھی رہیں یہ حکومت کا جو معاملہ ہے یہ انہیں کے پاس رہتا ہے" جب تک قریش کے دو آدمی بھی باقی رہیں تو انہی میں سے خلیفہ بنایا جائے گا جب یہ احادیث انصار کو معلوم ہوئی اور ان کے علم میں آئی انھوں نے مہاجرین کے حق کو تسلیم کر لیا اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ نے کہا یہ عمر ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنھما ہیں آپ لوگ انہی میں سے خلیفہ بنا لیجئے تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا "" بلکہ ہم آپ کے ہاتھوں بیعت کرتے ہیں آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے لہذا عمر رضی اللہ تعالی نے سب سے پہلے بیعت کی پھر اس کے بعد موجود لوگوں نے بھی بیعت کر لی یہ بیعت خاصہ تھی جو سقیفه بنی ساعدة میں اچانک بغیر کسی منصوبہ بندی کے حادثہ کے طور پر واقعہ ہوئی اس کے بعد دوسرے دن مسجد میں اعلان کیا اور سارے مسلمانوں نے بیعت کی جس میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے یہ بیعت عامہ تھی جو دوسرے دن واقعہ ہوئی علی رضی الله عنہ نے دو دفعہ بیعت کی ایک تو مسجد میں سب کے ساتھ بیعت کی اور دوسری دفعہ پھر تاکید کے طور پر چھے مہینے کے بعد جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کا انتقال ہوا پھر انھوں نے تاکید کے طور پر بیعت کی اس طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ کی خلافت کی بیعت مکمل ہوئی ابو بکر صدیق رضی اللہ کی بیعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن ہی ہوئی جس کو بیعت خاصہ کہتے ہیں۔
س11: حسب ذیل چیزوں کے بارے میں تاریخی نوٹس لکھیں؟
ا: انفاذ جعش اسامة۔
اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر کی روانگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع سے واپسی کے بعد شام میں رومیوں کو سبق سکھانے کے لئے اور شام کے جنوب میں قبیلہ قضاعه کے لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے ایک لشکر تیار کیا تھا قبلے قضاعه کو اسی لئے سبق سکھانے کے لئے کہ غزوا مؤتہ میں انھوں نے رومیوں کا ساتھ دیا تھا مؤتہ وہ جنگ ہے جو سن آٹھ ہجری میں واقعہ ہوئی تھی اور اس جنگ میں مسلمانوں کے جو قائدین تھے یکے بعد دیگر شہید کر دیئے گئے تھے پہلے زید ابن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہو گئے جو کہ اسامة رضی اللہ تعالی عنہ کے والد تھے پھر جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ شہید کردیئے گئے پھر عبد اللہ ابن رواحه رضی اللہ تعالی عنہ شہید کر دیئے گئے تینوں قائدین یکے بعد دیگر شہید کر دیئے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمیوں کو اور شام کے جنوب میں قبیلہ قضاعة کے لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے سن دس ہجری میں حج الوداع سے واپسی پر ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں کافی بڑے بڑے صحابہ بھی تھے لیکن اس لشکر کی روانگی سے پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے جس کی وجہ سے یہ لشکر مدینے کے باہر ایک مقام ہے مقام جزف وہاں رک گیا انتظار کرتے ہوئے نئے احکام کے سلسلے اور نئی تعلیمات کے سلسلے میں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور یہ لشکر مدینے میں واپس آ گیا ابو بکر صدیق رضی اللہ خلیفہ بن گئے تو عرب کی صورت حال بہت زیادہ خطرناک ہو چکی تھی کیونکہ عرب کے بعض علاقوں میں ارتداد پھیل چکا تھا جنھوں نے نبوت کا دعوہ کیا تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اس لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا لوگوں نے روکنا چاہا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی پہنچے کہ خطرناک صورت حال ہے اس کی طرف اشارہ کیا
|
صفحہ 38
|
صفحہ 38
اس لشکر کی روانگی کو روکنے کا انہیں مشورہ دیا لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ نے انہیں یہ ہی بات کی "" جس جھنڈے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہو اس کو میں کھول نہیں سکتا " اور انھوں نے یہ بھی کہا جس لشکر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جانے کا حکم دیا ہو میری یہ جرات نہیں ہے کہیں اس کی روانگی کو روک سکوں اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نوجوان ہیں اور لشکر میں بڑے بڑے صحابہ ہیں لہذا کسی بڑے صحابہ کو امیر بنایا جائے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ ہی جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو امیر بنایا ہو ابو بکر صدیق رضی اللہ اسے معزول نہیں کر سکتے لہذا ابو بکر صدیق رضی اللہ نے اس لشکر کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا دو طرح کے مشورے آئے تھے صحابہ کی طرف سے کہ اس لشکر کو روانہ نہ کیا جائے تاکہ مدینے کی حفاظت کے کام آ سکیں اور دوسرا اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ کسی اور کو امیر بنایا جائے آخر کار یہ لشکر روانہ ہوا ابو بکر صدیق رضی اللہ اس لشکر کے ساتھ بہت دور تک چلے اور انہیں نصیحت کی کسی کو دھوکہ نہیں دینا ، غداری نہیں کرنا، خیانت نہیں کرنا عورتیں، بچے ، بوڑھوں اور مذہبی لوگوں کو جو ہتھیار نہ اٹھائیں ان کو قتل نہیں کرنا درختوں کو نہیں جلانا وغیرہ وغیرہ اس کے بعد ان کی اجازت سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو روک لیا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس لشکر میں شامل تھے یہ لشکر مدینے شام گیا چالیس یا ستر دنوں کے بعد کامیاب ہو کر یہ واپس آیا مختلف روایتیں ہیں اور اس لشکر کے ساتھ ملا کر اور کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ اس کو مختلف حصے بنا کر مرتدین کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ کیا ۔
ب: الردة في الیمامة
یمامة میں فتنہ ارتداد
نو ہجری جس کو عام الوفود کہتے ہیں اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرب کے مختلف علاقوں سے بڑے بڑے وفود آئے تھے اور انھوں نے اپنے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کیا تھا بنو حنیفہ کا جو قبیلہ ہے اس کے کچھ آدمیوں کے ساتھ مسیلمہ بن یمامہ جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہے یہ بھی پہنچا تھا اور اس نے اسی وقت کہا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ اپنے بعد حکومت کو ہمارے سپرد کر دیجئے بعض روایت میں ہے کہ اس نے شرط بھی رکھی تھی ہم اسی وقت ایمان لائیں گے جب کہ آپ اپنے بعد حکومت کو ہمارے سپرد کریں گے اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کی ایک شاخ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر تم مجھ سے یہ بھی مانگو گے تو میں یہ بھی تمھے نہیں دوں گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا " اگر تو مرتد ہو جائے گا اور پیٹھ پھیرے گا تو اللہ تبارک و تعالی تجھے توڑ کر رکھ دے گا " اس کے بعد جب یہ وفد واپس ہو گیا تو سن دس ہجری میں نبوت کا دعوی کیا اور اس کے قبیلے کے لوگوں نے قبائل کی بنیاد پر اسی کا ساتھ دیا وہ کہتے تھے " کاذب ربیعة خیر من صادق مضر ربیعہ کا جھوٹا یہ مضر کے صادق سے بہتر ہے " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے تھے اگر ہم ان کی شاخوں کو قریش سے آگے بڑھائیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضر کے تھے اور یہ ربیعة کا تھا لہذا اس نے نبوت کا دعوہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو ابو بکر صدیق رضی اللہ نے مختلف حصے بنائے تھے مرتدین کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے اس میں عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کو مسیلمہ کی طرف جنگ کرنے بھیجا تھا اور ان کی مدد کے لئے شرحبیل بن حسنه رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کیا تھا لیکن عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی نے جلدی کی اور مسیلمہ پر حملہ کر دیا اور شکست کھا گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ نے ان کو وہاں سے روانہ ہونے اور عمان کی طرف جانے کا حکم دیا اور ادھر خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا کہ مسیلمہ کے پاس جائیں یمامہ پہنچیں اسی دوران شرحبیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ بھی پہنچ گئے اس کے بعد مسلمانوں نے جنگ کی قبیلہ بنو حنیفہ نے چالیس ہزار کا لشکر تیار کیا تھا یہ بہت جنگ جو تھے بہت بڑی زبردست جنگ ہوئی تھی شروع میں مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تھے اس کے بعد خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو جوش دلایا اور مسلمانوں کے قدم مضبوط ہو گئے اور بعض صحابہ نے اس موقع پر بہت عظیم کارنامہ انجام دیئے اس موقع پر یہاں تک کہ وہ لوگ ایک باغ میں گھس گئے جو انھوں نے بنایا تھا وہاں جا کر انھوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر دیا اس باغ کا نام اس نے حدیقة الرحمن تھا اپنے آپ کو یمامہ کا رحمن کہتا تھا اس باغ میں انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا تھا یہاں تک کہ البراء بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ دیواروں میں چڑھ کر باغ میں کودھنے میں اور اندر سے دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے مسلمان باغ میں داخل ہوئے اسی دوران وحشی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابی دجانة انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مل کر مسیلمہ کذاب کو قتل کر دیا اس کے بعد بنو حنیفہ کی مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو گئی اور وہ مسلمان ہو گئے اور اس طرح یہ جنگ ختم ہو گئی یمامہ میں ارتداد ختم ہو گیا ۔
ج: الردة في الیمن
یمن میں ارتداد
یمن کے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام میں داخل ہو گئے تھے اس زمانے میں یمن ایرانیوں کے تابع تھا اس میں باذان الفارسی ایرانیوں کی طرف سے وہاں کے حاکم تھے وہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن یمن ایک بہت بڑا ملک تھا باذان الفارسی صنعاء پر کنڑول رکھتے تھے اور صنعاء کے باہر کے علاقے قبائیلی علاقے ہیں ان کے سردار بھی مسلمان ہو چکے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دور میں یمن بھی مسلمان ہو چکا تھا باذان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے شھر بن باذان رضی اللہ تعالی عنہ کو صنعاء کا حاکم مقرر کیا اور ابو موسی الاشعري رضی اللہ تعالی عنہ کو مارب کا حاکم مقرر کیا لیکن سن دس ہجری میں الاسود العنسی نے نبوت کا دعوی کیا یہ کاہن تھا بعض کو اس نے کچھ ایسے کرتب دکھائے کچھ اس کی باتوں میں آ گئے اور اس نے بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی صنعاء پر اس نے حملہ کیا اور شھر بن باذان رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کر دیا اور اس نے ذبردستی ان کی بیوی سے نکاح کر لیا اور ابو موسی الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالی عنہ جو بھیجے گئے تھے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے وہ بھی وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے یہاں تک کہ وہ حضر موت میں جمع ہو گئے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ وہ اپنی قوت کو مشتمل کریں جمع کریں اور کسی بھی طرح الاسود العنسی کو قتل کرنے کی کوشش کریں یہاں تک کہ مسلمانوں نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ باذان کی بیوی کی مدد سے الاسود العنسی کو قتل کر دیا اس طرح اس کے فتنے کا خاتمہ ہو گیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی لیکن قیس ابن عبد یغوث اور عمرو بن معد یکرب یہ بڑے سردار تھے وہ لوگ مرتد ہو گئے اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور سارے علاقوں کو اپنے کنڑول پر کر دیا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہاں عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا اور انھوں نے مھاجر بن امیة رضی اللہ تعالی عنہ کےساتھ مل کر جنگ کی اور یہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے آخر میں قیس ابن عبد یغوث اور عمرو بن معد یکرب بھی مسلمان ہو گئے ان کو مدینہ بھیج دیا اور یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ کے پاس پہنچے اور مسلمان ہو گئے اس طرح یمن میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ ہو گیا ہم یہ کہ سکتے ہیں یمن میں دو دفعہ ارتدار ہوا ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں الاسود العنسی نے نبوت کا دعوی کیا اور دوسری دفعہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قیس ابن عبد اور عمرو بن معد یکرب کی وجہ سے فتنہ شروع ہوا تھا جس کو عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ نے اور المھاجر ابن امیة نے اس فتنے کا خاتمہ کیا اس طرح یمن میں فتنہ ارتداد کا خاتمہ ہو گیا ۔
|
صفحہ 39
|
صفحہ 39
س12: مرتدین کے ساتھ جنگوں کے اہم نتائج بیان کیجئے ؟
جواب : اس کتاب میں مرتدین کے ساتھ مسلمانوں کی جو جنگیں ہوئی تھیں ان کے پانچ نتائج بیان کیئے گئے ہیں
اولا: مرتدین کے ساتھ جنگ خاص طور پر مسیلمہ کذاب کے ساتھ یمامہ کے مقام پر جو جنگ ہوئی تھی اس کی وجہ سے مسلمانوں اور خاص طور پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اندر یہ بات پیدا ہوئی کہ قرآن کو جمع کیا جائے تاکہ قرآن لکھی ہوئی شکل میں محفوظ ہو جائے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس بات پر امادہ کیا کہ وہ قرآن کو جمع کریں ۔
ثانیا: ان جنگوں کے نتیجے میں سارا عالم اسلام متحد ہو گیا اور عرب کا علاقہ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا ۔
ثالثا : مرتدین کے ساتھ ان جنگوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے جنگی تجربات میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اس کے بعد مسلمانوں کے پڑوس میں دو بڑی ریاستیں پائی جاتی ہیں ان جنگوں میں مسلمانوں کو تجربات کا فائدہ ہوا جو بعد کی جنگوں میں ان کے کام آئے۔
رابعا: مسلمانوں کو شبه جزیرہ عرب کے جغرافیائی صورت حال اور مختلف راستے ان کو معلوم ہوئے اور جس کی وجہ سے بعد میں جو عرب میں بڑی بڑی ریاستیں پائی جاتی تھیں ان کے ساتھ جنگوں میں مسلمانوں کو اپنی فوجیں بھیجنے میں آسانی ہو گئی۔
خامسا: عرب کے پڑوس میں جو دو بڑی ریاستیں پائی جاتی تھیں روم اور فارس ان ریاستوں کی جڑیں جو عرب کی مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور ان ریاستوں کے لوگ وہاں موجود تھے ان کے ساتھ بھی جنگ ہوئی تھی جب مرتدین کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں ان کے ساتھ بھی جنگ ہوئی تھی مسلمانوں کو رومیوں اور فارسیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا تجربہ ہوا اور یہ بعد کی جنگوں میں ان کے کام آیا ۔
س13 : اختصار کے ساتھ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کے جمع کرنے کے بارے میں بتائیے ؟
جواب : جمع قرآن یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حسنات میں سے ہے ان کی نیکیوں میں سے ہے کیونکہ یہ قرآن مجید کی حفاطت کے وسائل میں سے ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس معاملے میں سبقت کر گئے جو لوگ بھی قرآن کو دیکھ کر پڑھیں گے اس کا ثواب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پہنچے گا کیونکہ اس نیکی کا آغاز انھوں نے کیا تھا اور جمع قرآن کا خیال سب سے پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں پیدا ہوا جنگ یمامہ کے بعد جو مسیلمہ کذاب کے ساتھ واقع ہوئی تھی اس میں قرآن کے بہت سارے حافظ شہید ہو گئے تھے انھوں نے سوچا اگر قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے جائیں گے تو پھر قرآن کو محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا لہذا انھوں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے رائے پیش کی کہ یمامہ میں قرآن کے بہت سارے حافظ شہید ہو گئے ہیں اگر اسی طرح جنگوں میں قرآن کے حافظ شہید ہوتے جائیں تو قرآن ان کے سینوں میں ہی چلا جائے گا اور اس کی حفاظت ایک مسئلہ ہو جائے گا لہذا قرآن کو لکھی ہوئی صورت میں جمع کر دیا جائے جمع قرآن سے مراد دو جلدوں کے درمیان اسے اکٹھا کرنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ کام میں کیسے کر سکتا ہوں پهر اللہ تعالی نے اس کام کے لئے ان کا سینہ کھول دیا اس کے بعد انھوں نے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کام کے لئے مقرر کیا صحیح بخاری میں آتا ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا میں ان کے پاس گیا تو وہاں عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھے تھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جمع قرآن کا مشورہ دیا ہے اور میں تمھے اس کام کی ذمہ داری دیتا ہوں اس لئے کہ آپ نوجوان ہیں اور ہم آپ پر کسی قسم کی تہمت نہیں لگاتے آپ امانت دار ہیں دیانت دار ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کو لکھنے والے ہیں لہذا آپ قرآن کو جمع کیجئے زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری دیتے تو یہ ذمہ داری اس کام کے مقابلے میں آسان ہوتی کیونکہ قرآن کو جمع کرنا یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی اور بہت سخت ذمہ داری تھی میں نے ان سے کہا کہ ہم وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو انھوں نے کہا یہ کام بہتر ہے اور اسی میں خیر ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو سمجھاتے رہے یہاں تک کہ زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا سینہ بھی اللہ نے اس کام کے لئے کھول دیا اس کے بعد وہ کہتے ہیں میں قرآن کو لوگوں کے سینوں سے اور کھجور کی چھالوں سے اور باریک پتھروں سے جن پر قرآن لکھا جاتا تھا جبکہ اس وقت کاغذ کا رواج نہیں تھا کہتے ہیں جن پر قرآن لکھا ہوا تھا ان تمام چیزوں کو میں جمع کرنے لگا
|
صفحہ 40
|
صفحہ 40
ان کے جمع کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ قرآن کے حافظ تھے آخری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن جبریل علیہ السلام کو سنایا تھا اس موقع پر موجود بھی تھے انھوں نے صرف اپنے حفظ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ شرط رکھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو لکھا گیا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا قرآن کی آیتیں نازل ہوتیں تو کاتبین وحی کو بلاتے تھے اور ان کو یہ آیتیں لکھواتے تھے اور کہتے تھے یہ آیتیں فلاں فلاں سورتہ میں فلاں آیتوں کے بعد لکھ دو زید ابن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے شرط رکھی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو لکھا گیا وہ دو گواہوں کے ساتھ میرے پاس لے کر آئے ایک تو حفظ تھا دوسرا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا گیا وہ تھا اور تیسرا دو گواہ تھے اس طرح انھوں نے جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سورتہ التوبہ 128 کی آخری آیات ہیں (( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ )) آخر تک وہ کہتے ہیں یہ آیات مجھے لکھی ہوئی صورت میں کسی کے پاس نہیں ملی انہیں یاد تھی انھوں نے قرآن کو جمع کرنے کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیا جو سب سے عظیم طریقہ کار ہو سکتا ہے کسی چیز کی حفاظت کا جمع کرنے کا انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا تھا وہ کہتے ہیں مجھے لکھی ہوئی صورت میں نہیں ملا وہ کہتے ہیں ابي خزیمة انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لکھی ہوئی صورت میں یہ آیتیں ملیں انھوں نے اس طرح قرآن کو جمع کر دیا یہ مصحف تیار ہو گیا یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا پھر یہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا ان کے بعد ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کے مختلف نسخے تیار کیئے تاکہ لوگوں کو ایک قرآت پر جمع کریں ان کے پاس سے یہ نسخہ منگوایا اور مختلف کاپیاں کیں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مروان نے اس کو بعد طلب کیا جب مختلف نسخے بن چکے تھے قرآن مجید کے عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے دور میں تاکہ لوگوں کے اختلاف کو ختم کیا جائے مختلف قراتوں کی بنیاد پر یا حروف کی بنیاد پر لوگوں کے اندر پیدا ہو رہی ہیں مروان نے منگوا کر اس کو جلا دیا تھا تاکہ لوگوں کے درمیان اختلاف کو ختم کیا جائے بہر حال ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ کام مکمل ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھے ماہ کے اندر ہی اسے جمع کر دیا یہ جمع قرآن کی تفصیل ہے۔
س14 : اسلامی فتوحات کی تحریک کی علت بیان کیجئے ؟
جواب : یہاں دو علت بیان کی گئی ہیں ۔
اولا: فاتحین اولائل یعنی صدر اول کے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی تبلیغ اس کی اشاعت اللہ تعالی کے کلمے کی سربلندی کی سچی رغبت پائی جاتی تھی تو وہ اللہ تبارک و تعالی کے کلمے کو سر بلند کرنے اس کی دعوت کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لئے نکلے تھے۔
ثانیا: دوسری علت یہ تھی کہ انہیں اللہ تبارک و تعالی کے وعدے پر یقین کامل تھا یا تو مدد حاصل ہو گی وہ کامیاب ہو جائیں گے یا پھر وہ شہید ہو جائیں گے ان دو اسباب کی فتوحات کے تحت وہ نکلے تھے۔
س 15 : اسلامی فتوحات کی کامیابی کے کیا اسباب تھے؟
جواب: اسلامی فتوحات کی کامیابی کا پہلا سبب یہ تھا کہ صدر اول کے مسلمانوں کے اندر رواداری پائی جاتی تھی معاملات میں نرمی تھی ان کے اخلاق بہت بلند تھے اور جنگجو ہونے سے پہلے ایک داعی تھے جیسے کہ ربیع بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے فارس کے کمانڈر رستم سے کہا تھا " ہم اس لئے آئے ہیں جسے اللہ تعالی چاہے اسے بندوں کی بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف لے آئے اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف لے آئیں اور ادیان کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف پہنچادیں" یہ ان کا مقصد تھا ۔
ثانیا : عرب کے پڑوس میں دو بڑی ریاستیں تھیں روم اور ایران وہاں پایا جانے والا ظلم و ستم اور بے چینی کی کیفیت جو ریاستوں میں رہنے والے باشندوں میں پائی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ کوئی آئے اور انہیں اس ظلم و ستم اور بے چینی سے نجات دلائے یہی وجہ ہے کہ علاقے کے بہت سے باشندوں نے مسلمانوں کی مدد کی جیسا کہ شام کی فتح کے موقع پر انھوں نے مدد کی اسی طرح مصر کی فتح میں قبطیوں نے جو نصاری تھے مسلمانوں کی مدد کی وہاں پہلے ہی سے لوگ مظلوم تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ کوئی آئے اور انہیں وہاں کے بادشاہوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائے۔
ثانیا: تیسرا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کی فوجین بڑی تیزی کے ساتھ حرکت کرتی تھیں وہ اپنے ساتھ سامان بہت کم رکھتے تھے دنیا داری نہیں تھی سادگی تھی مشکلات پر صبر کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیزی کے ساتھ حرکت کرتے تھے اور علاقوں کو فتح کرتے تھے ۔
رابعا: اسلام کے اصول و قواعد ہیں وہ بہت بلند ہیں اسلام کے عقائد اسلام کی باتیں جو انسانی فطرت کے مطابق ہیں جس کی وجہ سے اسلامی تعلیمات سے لوگ متاثر ہوتے تھے یہ سبب ہے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمان فوجین نہیں پہنچ سکیں اسلامی تعلیمات وہاں پہنچ گئی تھیں اس لئے وہ لوگ بھی اسلام میں داخل ہو گئے خامسا: ان کے اندر بہت سی ایسی صلاحیتیں پائی جاتی تھیں قیادت کی صلاحیتیں سیاست اور حکمرانی کی صلاحیتیں جنگ کی صلاحیتیں یہ ایسی صلاحیتیں تھیں جو عظیم تھیں یہ وہ لوگ تھے جن کی تربیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے اندر ایسی خوبیاں اور صلاحیتیں پائی جاتی تھیں جو شاز و نادر ہی دوسرے لوگوں میں پائی جاتی تھیں جیسا کہ ابو بکر ، عمر ، ابو عبیدہ ، خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنھم ہیں ان کے اندر صلاحیتیں عظیم طرح سے موجود تھیں یہ وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے فتوحات میں مدد حاصل ہوئی اور مسلمانوں کو آسانی کے ساتھ فتح حاصل ہوئی۔
|
صفحہ 41
|
صفحہ 41
س 16: یرموک کی جنگ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ؟
جواب: یرموک یہ شام کا علاقہ ہے سن بارہ ہجری کے شروع میں یہ جنگ پیش آئی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پانچ لشکر تیار کیئے تھے شام کی فتح کے لئے ۔
ا: ابو عبیدہ عامر بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں پہلا لشکر تھا ان کو حمص کی طرف بھیجا تھا شام کے شمال میں ۔
ب: دوسرا لشکر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں تھا ان کو دمشق کی طرف بھیجا تھا۔
د: تیسرا لشکر شرحبیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں تھا ان کو اردن کی طرف بھیجا تھا ۔
ج: چوتھا لشکر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں تھا ان کو فلسطین بھیجا تھا ۔
خ: پانچواں لشکر تھا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ان کو ان لشکروں کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔
ان پورے لشکروں میں مسلمان فوجیوں کی تعداد تیس ہزار لگ بھگ مجاہد اس میں موجود تھے جب رومیوں کو پتہ چلا کہ مسلمان مختلف امیروں کے ساتھ اور ان کے مختلف فوجی دستے ہیں جو روم میں داخل ہو رہے ہیں تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے مقابلے کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جنگ جو تھے اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو انھوں نے کہا مسلمانوں کے پانچوں لشکر ایک جگہ جمع ہو جائیں تو یہ لوگ یرموک کی نہر کے پاس جمع ہوئے مسلمانوں نے جب دیکھا رومیوں کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہتھیار بھی بہت زیادہ ہیں تو انھوں نے ساری باتوں کی خبر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا جو عراق میں موجود تھے کہ وہ اعراق کے معاملات المثنی بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کریں اور آدھا لشکر لے کر وہ یرموک پہنچ جائیں خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ بڑی تیزی کے ساتھ نکلے اور یرموک پہنچ گئے مسلمانوں کا لشکر چالیس ہزار کے لگ بھگ ہو گیا اور ادھر ڈیرھ لاکھ رومی موجود تھے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے وہ تقریبا ڈھائی لاکھ تھے کافروں نے اپنے لئے دو طرح کے انتظام کیئے تھے ایک طرف نہر تھی اور دوسری طرف ایک خندق تھی جس کو الواقوصة کہا جاتا ہے گویا انھوں نے اپنی حفاظت کے ایسے انتظام کیئے تھے جو باقاعدہ طبیعی طور پر انہیں حصار بندی حاصل ہو چکی تھی ایک طرف نہر ہے جہاں سے مسلمان حملہ نہیں کر سکیں گے دوسری طرف خندق ہے جہاں سے مسلمان حملہ نہیں کر سکیں گے مسلمان خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں جمع ہوئے اور خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس موقع پر جنگ کی جو تدبیر کی جنگ کے چھوٹے چھوٹے دستے بنائے ہر دستے میں نو سو جنگ جو شامل تھے ایسے انھوں نے اڑتیس دستے بنائے اور ان میں سے بعض کو قلب میں رکھا لشکر کی ترتیب کے اعتبار سے بعض کو میمنہ بعض کو میسرہ بعض کو مقدمہ بعض کو ساقہ میں رکھا اور قلب میں ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو اور عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ رکھا اور میمنہ میں شرحبیل بن حسنة رضی اللہ تعالی عنہ کو اور میسرہ میں یزید رضی اللہ تعالی عنہ کو جب جنگ کا آغاز ہوا تو القعقاع بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالی عنہ جو آگے تھے ان کو قتال کا حکم دیا اور اس کے بعد اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ وہ اس طرح حملہ آور ہوں کہ کسی بھی طرح رومی نہر اور خندق سے ہٹ جائیں اس کے جنگ کا آغاز ہوا بہت دیر تک چلتی رہی بہت قتل ہوا دونوں طرف کے لوگ مارے گئے خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا جنگ بہت دیر سے جاری ہے جو ان کے ساتھ ایک فوجی دستہ تھا ان کو لے کر رومیوں کے فوجیوں کے نصف یعنی درمیان میں حملہ کر دیا کیونکہ ایک طرف نہر تھی ایک طرف خندق تھی ظاہر ہے جب وہ لوگ حرکت کریں گے ادھر ادھر بھاگیں گے کچھ نہر میں گریں گے کچھ خندق میں گریں گے ان کا اندازہ صحیح نکلا جب خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے حملہ کیا ان کا میمنہ اور میسرہ ادھر ادھر دوڑ پڑا بہت سے نہر میں گر گئے بہت سے خندق میں گر گئے اس طرح مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی ایک لاکھ سے زیادہ کافر مارے گئے کچھ مسلمان شہید ہوئے ۔
س 17 : خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی معزولی کا سبب بیان کیجئے یرموک کی جنگ کے اختتام پر؟
جواب : یرموک کے جنگ کے اختتام پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنائے گئے انھوں نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی معزولی کا حکم نامہ بھیجا ان کی جگہ پر ابو عبیدہ عامر جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو امیر عام بنایا اس کی وجہ یہ تھی ان کی رائے کے مطابق مسلمان کے لئے ابو عبیدہ عامر جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت زیادہ مناسب تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ جو فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہو رہی ہیں وہ خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے ہیں اور اللہ سے تعلق لوگوں کا کمزور ہو جائے اور اللہ پر بھروسہ کرنے اور اعتماد کرنے کے بجائے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے فتنے میں نہ پڑ جائیں اس وجہ سے انھوں نے خالد ابن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کیا یہ اس کی علت ہے۔
س18: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کب ہوئی اور ان کی خلافت کی مدت کتنی تھی اور وفات کے وقت ان کی عمر کتنی تھی؟
جواب : ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات بائیس جمادی الآخرة سن بارہ ہجری ان کی خلافت کی مدت دو سال دو مہینے اور بیس دن تھی اور ان کی عمر 63 سال تھی ۔
|
Comments
Post a Comment