Skip to main content

Hadith




 
 اس برتن کا حکم جس سے پیا ہو کتا اور منہ ڈال دیا ہو اس میں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا((جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کتا پانی پیئے تو اسے چائیے کہ سات مرتبہ دھو لے)) اور مسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں((ان میں پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے)) مسلم ہی کی حدیث ہے عبد اللہ ابن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (( جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات دفعہ دھو لو اور آٹھویں دفعہ اس کو مٹی میں ملا کر دھو لو )) اس حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں ۔ 1: کتے کی نجاست بہت شدید ہے ، نجاست یا گندگی کی شدت کی وجہ سے اس لئے کہ وہ ناپاک کر دیتا ہے اگرچہ کہ اس میں نجاست کے آثار واضع نہ ہوں اس کی تفسیر جلد ہی آئے گی۔ 2: بے شک کتے کا منہ ڈالنا کسی برتن میں، اسی طرح کوئی چیز کھانا یے، ناپاک کر دیتا ہے برتن کو، اور ناپاک کر دیتا ہے اس کو جو اس سے بچ جائے۔ 3: واجب دھونا کتا جس میں منہ ڈال دے سات مرتبہ (جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اس کو سات مرتبہ دھونے کا حکم)۔ 4: ایک مرتبہ مٹی کے استعمال کرنے کا وجوب ، زیادہ بہتر ہے مٹی سے پہلی بار دھونا تاکہ اس کے بعد وہ پانی کے ڈالے ۔اور یہ آٹھواں ہو جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے دوسری روایت میں ۔ اور کوئی فرق نہیں ہے اس معاملے میں کہ وہ ڈالے پانی کو مٹی پر یا مٹی کو پانی میں ڈالے۔ اور یا یہ کہ لیا جائے مٹی ملی ہوئی پانی کے ساتھ ، اس سے وہ دھوئے، لیکن نجاست کی جگہ کو (مسح) صاف کر دینا یہ کافی نہیں ہو گا۔ 5: وہ جو مٹی کی جگہ پر استعمال ہو وہ چیزیں جو پاک کرتی ہیں مٹی کی طرح دیا جائے گا اسی کا حکم اس لئے کہ اصل مقصود مٹی نہیں ہے بلکہ اصل مقصود صفائی ہے۔ اور یہ امام احمد کا مسلك ہے اور ایک قول امام شافعی کے مسلک میں جو مشہور ہے کہ مٹی ہی ضروری ہے ۔ اور ابن دقیق نے اس کو تقویت دی ہے کہ مٹی نص سے ثابت ہے، وہ دو پاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک ہے، اور اس لئے کہ استنباط شدہ معنی جب نص پر لوٹائے جائیں تو اسے باطل کر دیتے ہیں وہ مردود ہے ۔ امام نووي رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں قائم ہوتا اشنان اور صابون مٹی کی جگہ پر (عبد اللہ عبدالرحمن البصام) کہتے ہیں اور ظاہر ہوا ہے جدید علمی تحقیقات سے کہ مٹی سے حاصل ہوتی ہے پاکی نجاست سے جو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں حاصل ہوتی اگر یہ تحقیقات درست ہے تو یہ ظاہر کرتی ہے شریعت شریفہ ایک معجزے کو مٹی کے خاص کرنے کی تائید کرتا ہے زمین کی سطح اور مٹی کو۔ 6: پاکیزہ شریعت کی عظمت یہ نازل کرتا ہے حکمت والے اور باریک بین اور شریعت کو ادا کرنے والے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اپنی جانب سے کچھ نہیں کہتے،اور یہ کہ بعض علماء حیرانی میں پڑھ گئے اس حکمت کی شدت معلوم کرنے میں اس نجاست سے باوجود پایا جاتا ہے وہ جو اسی طرح نجس ہے جیسے کہ خنزیر ہے لیکن سختی نہیں ہے اس سے پاکی حاصل کرنے میں، یہاں تک کہ کہا علماء کی ایک جماعت نے : بے شک پاکی اس کیفیت کے ساتھ کتے کے منہ ڈالنے کی وجہ سے تعبدی ہے اس کی حکمت سمجھی نہیں جا سکتی، یہاں تک کہ جدید طب ظاہر ہو گیا اپنی تحقیقات کے ذریعے اور آلات کے ذریعے ۔ ثابت کیا اس نے کتے کے امراض میں جراثیم ہیں بیماریاں ہیں ختم کرنے والی خطرناک اور وہ صرف پانی سے دور نہیں ہوتے ۔۔ پاک ہے اللہ تعالٰی کی ذات جو عظیم ہے اور مبارک بادی ہے یقین رکھنے والوں کے لیے اور ہلاکت ہے انکار کرنے والوں کے لیے ۔ 7: حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے یہ حکم عام ہے ہر طرح کے کتوں کے لیے اجازت دی ہے شریعت نے ان کے پالنے کی جیسے شکار کے کتے یا حفاظت پالنے کے یا جانوروں کے رکھنے کی ۔ "قیل " ( قیل کے ساتھ جب کوئی حکم کہا جاتا ہے تو وہ قوی نہیں ہے یعنی کہا گیا اس کو بولتے ہیں صیغہ تمریض ) کہا گیا ہے غسل کو واجب کرنا جو اس سے حاصل ہو جائے ان تین قسم کے کتوں کا ذکر ہوا ہے اگر وہ کسی چیز میں منہ ڈال دیں ان کو بھی دھونے سے غسل کو واجب کر دیا جائے تو اس میں مشقت پائی جاتی ہے، ان کو رکھنے کی جو رخصت دی گئی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو دلالت کرتی ہے جو ہمیں اس حکم کی طرف لے جاتی ہے سات مرتبہ دھونے کا حکم ان کے علاوہ ہے

ٹھرے ہوئے یا ساکن پانی سے متعلق جو احکام ہیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا(( تم میں کوئی شخص پیشاپ نہ کرے اس کھڑے ہوئے پانی میں جو بہتا نہیں ہے پھر اس سے غسل کرے)) اور مسلم میں ہے(( تم میں سے کوئی غسل نہ کرے کھڑے ہوئے پانی میں اس حال میں کہ وہ جنبی ہو )) وہ مسائل جو اس حدیث سے معلوم ہوتے ہیں ۔ 1: پیشاپ کرنے کی ممانعت اس پانی میں جو بہتا نہیں ہے اور اس کی حرمت اور زیادہ لائق ہے حرمت کے آدمی کا فضلہ (پاخانہ) میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ کثیر پانی کے علاوہ اس لئے کہ اس کا پانی نجس نہیں ہوتا نجاست کے ملنے سے بلکہ اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے بہت سی ضرورتوں کے لئے احاداث سے پاکی حاصل کے علاوہ بھی۔ 2:غسل کرنے کی ممانعت کھڑے ہوئے پانی میں غوطہ لگا کر خاص طور سے جنبی کے لیے خواہ اس میں وہ پوری طرح نہ بھیگے جیسا کہ مسلم کی روایت ہے مشروع ہے اس میں سے پانی لینا۔ 3: جائز ہونا اس کا بہتے ہوئے پانی میں اور بہتر ہے اس سے اجتناب کرنا۔ 4: ہر اس چیز کی ممانعت جس کی وجہ سے لوگوں کو ایذا اور تکلیف اور زیادتی ہوتی ہو ۔ 5: بعض حدیث کی روایت میں آیا ہے "ثم یغتسل منه" پھر اس میں سے غسل کرے " حدیث کی بعض روایتوں میں آیا ہے " ثم یغتسل فیه" پھر اس سے غسل کرے " اور ان دونوں کے معنی مختلف ہیں اس لئے کہ" فی" ظرفیة " کوئی چیز اس میں ہوتی ہے " اور وہ فائدہ دیتا ہے ڈوبنے کا یا غوطہ لگانے کا پانی میں جس میں پیشاپ کیا گیا ہو اور" من" بعضیت کے لئے ہے اور وہ فائدہ دیتا ہے پانی اس سے لینے کا حافظ ابن حجر کی روایت ہے" فیه" دلالت کرتی ہے ڈوبنے کے معنی پر نص کے ذریعے غور کرنے سے مفہوم معلوم ہوتا ہے اور "منه" کی جو روایت ہے اس کے برعکس ہے ۔




ابو ھریرة رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا((جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر اسے جھاڑ دے اور جو پتھر استعمال کرے صفائی کے لیے وتر پر ختم کرے اور جب جاگے تم میں کوئی اپنی نیند سے تو اسے چائیے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لے برتن میں داخل کرنے سے پہلے تین مرتبہ ، اس لئے کہ تم میں کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری)) صحیح مسلم کی حدیث کے ایک الفاظ(( اسے چائیے ناک میں پانی ڈالے اپنے ناک کے دونوں سوراخوں میں)) ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں((جو وضو کرے اسے چائیے ناک میں پانی ڈالے)) اہل علم کہتے ہیں یہ جو الفاظ ہیں یستنشق یہ بہقی کے الفاظ ہیں جبکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں لیستنثر اس حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں ۔ 1: ناک میں پانی ڈالنا اور ناک سے پانی نکالنے کا واجب ہونا امام نووي رحمته الله نے کہا اس میں ظاہری دلالت ہے اس بات پر کہ ناک سے پانی نکالنا ناک میں پانی ڈالنے سے الگ ہے۔ 2: ناک چہرے کا حصہ ہے وضو کے معاملے میں اس حدیث اور آیت کو ملاتے ہوئے ( جب رسول اللہ کسی واجب کی تفسیر کرتے ہیں تو وہ واجب کا حصہ بن جاتا ہے ) ناک چہرے میں شامل ہو گیا (فأغلسلوا وجوھکم) 3: طاق عدد مشروع ہے جس نے استنجاء کیا المنتقی میں المجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بات پر اس کو محمول کیا جا رہا ہے اس بات پر کہ اپنی طہارت کا اختتام وتر پر ختم کرنا چائیے جو تین سے زیادہ کرے گا وہ 4 پر ختم نہ کرے 5 پر ختم ۔ 4: ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ایک جماعت نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا ہے استنجاء کا مقام اس بات پر رخصت ہے کہ اس کا اثر باقی رہے گا کیونکہ آدمی جتنی بھی کوشش کرے پانی کی جگہ پتھر کا استعمال کرے سوکھے ہونے کی وجہ سے اثرات باقی رہیں گے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا 3 یا 5 مرتبہ اس حدیث میں اثر کی رخصت ہے آدمی کتنا بھی کر لے لیکن اثر تو باقی رہے گا چاہے وہ 9 ہی کیوں نہ استعمال کر لے۔ 5: رات کی نیند سے جب کوئی جاگے تو دونوں ہاتھوں کو دھونے کی مشروعیت ہے اور اختلاف گزر چکا ہے رات کو خاص کرنے میں اختلاف اس بات میں کہا غسل کرنا یا دھونا واجب ہے دونوں ہاتھوں کو ۔ 6: نیند کے بعد وضو ضروری ہے ۔ 7:ممانعت ہے برتن میں ہاتھوں کو داخل کرنے سے پہلے یہ ممانعت حرام ہے یا تو برتن میں داخل کرنے سے پہلے یا مکروہ ہے ۔ 8 : ظاہر جو چیز ہے ہاتھوں کو دھونے کی جو تعلیل (سبب) بیان کیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصد صفائی ہے حکم غالب پر ہے تو ان کا دھونا مشروع ہو گا اگرچہ کہ وہ اپنے ہاتھوں کو محفوظ کر لے کسی تھیلی میں ۔ 9: کہا :( جب تم میں سے کوئی جاگے) اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے امام بخاری نے ان دونوں کو ایک ہی حدیث بنایا ہے ان دونوں کے سند کے ایک ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الموطأ میں بھی مسلم دو الگ الگ حدیثیں ہیں   



          
●وضو کا طریقہ اور اس کی فضیلت جیسا کہ اسے روایت کیا ہے عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ نے ۔
حمران رحمہ اللہ سے مروی ہے جو عثمان بن عفان رضی اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں ان سے مروی ہے، انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا انھوں نے وضو کا پانی منگوایا پھر  اپنے دونوں ہاتھوں پر  اپنے برتن سے پانی انڈیلا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنا دائیاں ھاتھ داخل کیا پانی میں، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور ناک جھاڑا ، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا، اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر دھویا اپنے دونوں پیروں کو تین مرتبہ،پھر کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا میرے وضو کی مانند اور کہا (( جس نے وضو کیا میرے اس وضو کی طرح پھر دو رکعت نماز پڑھی نہیں جو  اپنے نفس سے کوئی گفتگو نہ کرے اللہ تعالٰی اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دے گا  ))

حدیث سے ماخوذ مسائل 
1: دونوں ہاتھوں کو دھونے کی مشروعیت تین مرتبہ ان کو داخل کرنے سے پہلے وضو کے پانی میں  وضو کرتے وقت۔
2: دائیں طرف کا خیال کرنا وضو کا پانی لینے میں اعضاء کو دھونے میں ۔
3: کلی کرنے کی مشروعیت، اور ناک میں پانی داخل کرنے کی مشروعیت، ناک جھاڑنے کی مشروعیت اسی ترتیب کے ساتھ ۔ اور ان دونوں کی مشروعیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف ان کے واجب ہونے میں ہے ، اور گزر چکا اس کا واجب ہونا ہی صحیح ہے ۔
4: چہرے کو تین مرتبہ دھونا اور اس کی حد کیا ہے : سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے لمبائی میں تھوڈی تک، اور کان سے کان تک چوڑائی میں ۔اور اسی طرح تین مرتبہ کا خیال رکھا جائے گا کلی میں بھی اور ناک میں پانی ڈالنے میں بھی، اس لئے کہ ناک اور منہ چہرے کے نام میں شامل ہیں ۔عرب کے پاس چہرہ کہتے ہیں جس سے ہم لوگوں کا استقبال کرتے ہیں (یا سامنہ ہوتا ہے ) ۔
5: دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا تین مرتبہ ۔
6: پورے سر کا مسح کرنا ایک مرتبہ ۔آگے سے لے  جائیں گے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر پر پھر اس کو پیچھے سے لائیں گے دونوں ہاتھوں کو ۔
7: اپنے دونوں پیروں کو دھونا ٹخنوں سمیت تین مرتبہ۔
8: اس میں ترتیب کا واجب ہونا کہ شارع نے داخل کیا ہے اس عضو کو جس پر مسح کیا جاتا ہے اور وہ سر ہے، ان اعضاء کے درمیان میں جن کو دھویا جاتا ہے، ان اعضاء میں ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ۔ 
9 : یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکمل وضو کی صفت ہے ۔ 
10: وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز مشروع ہے ۔
11: نماز کے پورا ہونے اور اس کے کامل ہونے کا سبب، دل کا حاضر رہنا اللہ تبارک و تعالٰی کے آگے اور اس میں اخلاص کی ترغیب دی گئی ہے، اور چوکنہ کیا گیا ہے نماز کے قبول نہ ہونے کی جو دنیا کے کاموں میں مشغول ہوا گویا اس کا عمل قبول نہیں ہوتا اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے، اور جس پر حاوی ہو  جائے دنیا کے خیالات اور وہ نماز میں ہو تو انھیں جھٹک دے تو اس کے لئے اس ثواب کے حاصل ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ۔
12 : کامل وضو کی فضیلت یہ ہے کہ گناہوں کے بخشش کا سبب ہے ۔
13: وہ ثواب جس کا وعدہ کیا گیا ہے حاصل ہوتا ہے دو چیزوں کے ملنے سے، اور وہ دونوں ہیں ذکر کردہ طریقے کے مطابق وضو کرنا، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا ذکر کردہ صفت کے مطابق ان میں سے کسی ایک پر یہ مرتب نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث ہو۔ علماء نے خاص کیا ہے  مغفرت کو چھوٹے گناہوں کے ساتھ، مگر کبائر گناہوں کی مغفرت کے لیے ضروری ہے ان سے توبہ کرنا اللہ تعالٰی نے فرمایا(( اگر تم بچو گے ان بڑے گناہوں سے جن سے تمھے منع کیا جاتا ہے تو ہم تمھارے گناہوں کو بخش دیں گے ))


دوسری کیفیت وضو کی روایت ہے امر ابن یحیی المازني اس کے راوی ہیں عمر ابن یحیی المازنی ( تبع تابعین ) سے مروی ہے وہ اپنے والد (تابعین ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں موجود تھا عمر ابن ابی الحسن ( صحابی) کے پاس جب انھوں نے پوچھا عبد اللہ ابن زید رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کے بارے میں انھوں نے منگوایا پانی کا پیالہ ، وضو کیا انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو۔ انڈیلا اپنے دونوں ہاتھوں پر پیالے سے پانی پس دھویا اپنے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ، پھر داخل کیا اپنے ہاتھ کو پیالے میں پس کلی کیا، اور ناک میں پانی چڑھایا اور اپنا ناک جھاڑا تین دفعہ تین چلوں میں ، پھر داخل کیا اپنے ہاتھ کو پیالے میں پس دھویا اپنے چہرے کو تین مرتبہ پھر داخل کیا اپنے ہاتھ کو پس دھویا ان دونوں کو دو مرتبہ کہنیوں سمیت، پھر اپنے ہاتھوں کو ڈالا پانی میں اور ان دونوں سے اپنے سر کا مسح کیا آگے سے لے گئے ان دونوں کو اور پھر پیچھے سے لے کر آئے ایک مرتبہ ، پھر دھویا اپنے دونوں پیروں کو ۔ اور روایت میں ہے " شروع کیا اپنے سر کے اگلے حصے سے یہاں تک کہ لے گئے ان دونوں ہاتھوں کو اپنی گدی تک، پھر ان کو لوٹایا یہاں تک کہ لوٹ گئے اس جگہ پر جہاں سے شروع کیا تھا " اور ایک روایت میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس آئے پس ہم نے نکالا آپ کے لئے پانی کو پیتل کے پیالے میں " متفق الیہ" پیالے کے مانند ایک برتن ہے اس کے معنی معلوم ہوتے ہیں اس حدیث سے جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حدیث کی شرع میں گزر چکی ہے اس لئے دونوں حدیثیں صفت بیان کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کامل وضو کی اس حدیث میں کچھ زیادہ فوائد ہیں سابق حدیث کے مقابلے میں جو زائد فوائد ہیں ان کو ہم مختصر بیان کرتے ہیں جیسا کہ نیچے ہے: 1: صراحت کر دی گئی ہے یہاں کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا تین تین دفعہ تھا تین چلوں سے ۔ 2: سابقہ حدیث میں ذکر کیا گیا کہ ہاتھوں کو دھونا تین دفعہ تھا اور حدیث میں اس کو دو ہی دفعہ ذکر کیا ہے ۔ 3: عبد ابن زید رضی اللہ عنہ کا قول ہے "پھر داخل کیا اپنے ہاتھ کو پھر دھویا اپنے چہرے کو تین مرتبہ " ایک ہاتھ کا داخل کرنا مسلم کی روایت ہے اور بخاری کی اکثر روایت میں بھی یہ ہی ہے امام النووی رحمہ اللہ دونوں روایتوں کو ذکر کرتے ہیں یہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ ہی سنت ہے، لیکن وہ مشہور قول جس کو جمہور نے قطع دی ہے مستحب یہ ہے کہ پانی لینا چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں سے ایک ساتھ اس لئے کہ یہ زیادہ آسان ہے اور وضو کامل طور پر کرنے کے لیے زیادہ قریبی ہے۔ 4: گزشتہ حدیث میں کہا: " پھر اپنے سر کا مسح کیا " یہ جو تعبیر ہے اس کی تاویل کرنا ممکن ہے سر کے بعض حصے سے جیسا کہ تاویل کر دی گئی آیت کی کہ ((" اپنے سر کا مسح کرو")) لیکن اس حدیث میں سرائت کر دی پورے سر کے مسح کرنے کی اور واضع کیا مسح کی کیفیت کو اور شریعت بعض بعض کو واضع کرتی ہے، پس دلالت کی اس حدیث نے پورے سر کے مسح کے واجب ہونے پر جیسا کہ گزر چکا ہے 5: دونوں حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے معاملے میں کہ داخل کیا جائے گا ایک ہاتھ اور حدیث میں ذکر کیا، کہ انھوں نے داخل کیا اپنے دونوں ہاتھوں کو ان دونوں کو دھونے کے لئے، اور اپنے سر کا مسح کیا آگے سے پیچھے لے گئے پیچھے سے آگے لائے ایک دفعہ ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح حدیث ساری کی ساری دلالت کرتی ہے کہ سر کا مسح ایک ہی دفعہ ہے۔ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں " رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسح ایک ہی دفعہ ثابت ہے۔ 6: حدیث اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ دونوں پیروں کے دھونے کی، اور ان دونوں کو دھونا متفق الیہ فرائض میں سے ہیں، پس نہیں ہوتا ان دونوں کے کے ذکر کو چھوڑ دینا یہاں جو دلالت کرتا ہو ان کے دھونے کے ادم وجوب پر 7: اس حدیث سے اخذ کیا جاتا ہے، اعضاء وضو کے مخالف کا جواز بعض کو بعض سے زیادہ دھونے میں معلوم ہوتا ہے، اور یہ کہ تین دفعہ دھونا کامل صفت ہے اور اس سے جو کم ہے وہ کافی ہو جاتا ہے جیسا کہ اس سلسلے میں صحیح حدیث آئی ہے۔ 8: علماء نے اختلاف کیا ہے سر کے مسح کے آغاز کے سلسلے میں وہ آگے سے پیچھے کو لے جائیں گے ابن دقیق العید اور الصنعاني ۔ اور بعض نے اس سے قول سے سمجھا ہے " فأقبل بھما وادبر" مسح سر کے پیچھے حصے سے آگے لانا ہے پھر اس کو لوٹانا ہے اپنے دونوں ہاتھوں کو گدی تک۔  



       
وضو اور اس کے احکام یہ اس باب کی پہلی حدیث ہے روایت کی ہے آبی ھریرة رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (( نہیں قبول کرتا اللہ تعالٰی تم میں سے کسی بھی شخص کی نماز کو جب وہ بے وضو ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کر لے)) ایک تو منع کیا جا رہا ہے کہ انسان کو حدث لائق ہو جائے اس کو نماز نہیں پڑھنا چائیے اور دوسری یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ اگر کسی نے پڑھا تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی اس میں نہیں بھی ہے اور نفی بھی ہے " نہیں " منع کرنا اور "نفی " اس کی نماز صحیح ہی نہ ہو گی کوئی بھی نماز چاہے وہ صلاة نماز ہو یا نفل نماز ہو باجماعت ہو یا انفرادی ہو حدث کی دو قسمیں ہیں ایک حدث اصغر اور حدث اکبر وضو توڑنے والی چیزوں کو حدث اصغر کہتے ہیں اور غسل توڑنے والی چیزوں کو حدث اکبر کہتے ہیں وضو نماز کے لئے شرط ہے صلاة ایک ایسی عبادت ہے جو اس اقوال و افعال پر مشتمل ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ہوتا ہے ۔ اس حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں 1: جس آدمی کو حدث لائق ہو جائے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ طہارت حاصل کر لے دونوں حدیث سے (جو حدث اس میں سے اس کو لائق ہوا ہے) بڑا حدث یا چھوٹا حدث۔ 2:حدث وضو کو توڑنے والا ہے اور اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے اگر وہ نماز کے اندر ہو۔ 3: یہاں قبول نہیں ہونے سے مراد ہے نماز کا صحیح نہیں ہو گی اور کافی نہیں ہو گی ادا نہیں ہو گی ۔ 4: حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طہارت شرط ہے نماز کے صحیح ہونے کے لئے عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ابو ھریرة اور عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا(( ہلاکت ہے ایڑیوں کے لیے آگ کی)) وضو ایک ایسا عمل ہے جس میں اس کے اعضاء کو دھونے کا پورا اہتمام کرنا چائیے یہ ایک مستقل عبادت ہے انسان جب نماز پڑھتا ہے تو اس کا تعلق اللہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے نماز صلاح ہے بندے کے اور اللہ کے بیچ میں جب وہ اللہ کے پاس حاضر ہو رہا ہے تو اسے چائیے کہ اپنی حالت درست کر لے جسمانی طور سے اپنے آپ کو پاک کر لے اپنے کپڑوں کو پاک کر لے پاک جگہ پر نماز پڑھے وضو ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان کو پورا اہتمام کرنا چائیے اطمینان سے دھونا چائیے یہاں ایڑیوں کا ذکر فرمایا لیکن اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر قیاس کیا جائے گا جسم کے سارے اعضاء کو سارے اعضاء جو وضو میں دھونے ضروری ہیں کچھ بھی اعضاء سوکھا رہے گا تو ان کے لئے یہ ہی وعید ہو گی جو اس حدیث میں بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے جتنے اعضاء ہیں اس کے دھونے کے سلسلے میں پورا اہتمام کرنا چائیے یہ بہت ہی اہم عبادت ہے۔ اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ 1: واجب ہے توجہ دینا وضو کے اعضاء کی جانب اور کوئی خلل نہیں کرنا ان میں سے کسی بھی اعضاء میں اور حدیث نے صراحت کیا ہے قدموں پر اور باقی اعضاء ان پر قیاس کیئے گئے ہیں نص ( قرآن و حدیث ) کے ہونے کے ساتھ ساتھ ۔ 2: سخت وعید ہے خلل کرنے والے کے لیے اپنے وضو میں ۔ 3: دونوں پیروں کو واجب ہے دھونا وضو میں اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں بہت سی صحیح دلیلیں وارد ہوئی ہیں اور امت کا اجماع بھی ہے سوائے بعض شیعہ جنھوں نے جمہور کی مخالفت کی اور اسی طرح انھوں نے مخالفت کی ثابت حدیث کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے بھی ثابت ہے اور تعلیم سے بھی ثابت ہے جو صحابہ کو آپ نے دی اس چیز کی وضو میں پیروں کو دھونے کی اسی طرح انھوں نے مخالفت کی قیاس( عقل) صحیح کی کہ پیروں کو دھونا زیادہ اچھا ہے پاکیزہ ہے مسح کرنے سے یہ زیادہ مناسب ہے اس کو دھونا بنسبت مسح کرنے کے 



      
عبد اور مولی کا معنی عبد کہتے ہیں غلام کو مولی کہتے ہیں آزاد کردہ غلام کو لیکن وہ اپنے مالک کے پاس خادم کے طور پر ہیں غلام کے طور پر نہیں ہے حمران ابن ابان رحمہ اللہ یہ فارسی ہیں یہ جنگ میں گرفتار ہوئے اور وہاں غلام بنائے گئے تھے مدینے کے تابعین میں سے ہیں ثقہ ہیں انہوں نے ابوبکر اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور پایا انہوں نے عثمان ابن عفان اور معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث روایت کی ہیں مدینے کے تابعین میں سے ہیں تقریبا 80 سال کی عمر پائی بعض احادیث ان سے مروی ہیں عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ یہ سابقین اولین میں سے ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے اسلام لائے اور کہا جاتا ہے مردوں میں ان کا چوتھا نمبر ہے اسلام لانے پر اور انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت لی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے انھوں نے دو دفعہ ہجرت کی تھی اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی تھیں رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہ ان دونوں کا نکاح ہوا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی ابو لہب کے دونوں بیٹوں کے ساتھ عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ جب سورتہ الہب نازل ہوئی تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں کو طلاق دے دے تو رخصتی سے پہلے انھوں نے طلاق دے دی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رقیہ رضی اللہ عنہما کی شادی کی تھی عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے ہجرت کی تھی حبشہ کی طرف اور جب مشہور ہو گیا کہ مکے کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں تو واپس آ گئے لیکن وہ غلط فہمی تھی اس کے بعد مزید ظلم بڑھ گیا تو دوسری مرتبہ پھر انھوں نے ہجرت کی تھی حبشہ کی طرف اس کے بعد انھوں نے مدینہ بھی ہجرت کی کافی عظیم صحابی ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سارے غزوات میں شریک رہے سوائے غزوہ بدر کے کیونکہ غزوہ بدر کے موقع پر ان کی زوجہ محترمہ بیمار تھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ان کو حکم دیا تھا اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کا ادھر بدر کی فتح ہوئی اور ادھر رقیہ رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ان کی شادی کر دی تھی اس لئے عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہتے ہیں یہ ان کا لقب ہے دو نور والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دو بیٹیوں کے ساتھ ان کی شادی ہوئی تھی کئی مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں جنت کی بشارت دی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بدر میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے ان کو مال غنیمت میں ان کا حصہ لگایا تھا کیونکہ جس عذر کی وجہ سے وہ شریک نہیں ہوئے تھے اللہ کے رسول نے خود ان کو اجازت دی تھی بیت الرضوان جو درخت کے نیچے ہوئی تھی صلاح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مکے میں سفیر بنا کر بھیجا تھا صلاح کے ارادے سے ان کو بھیجا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عمرے کی نیت سے نکلے تھے سن 6 ہجری میں جیسا کہ معروف ہے جب آپ نے خواب دیکھا عمرے کی نیت سے نکلے مشرکین نے آپ کو روک دیا جنگ کی نوبت آگئی آخر کار صلاح کی باتیں چلنے لگیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا لیکن یہاں یہ مشہور ہو گیا تھا ان کو شہید کر دیا گیا تھا تو مسلمانوں نے کہا کہ ہم جب تک ان کا بدلہ نہیں لیں گے تب تک واپس نہیں لوٹیں گے اس موقع پر موت کی بیت کی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے چونکہ عثمان ابن عفان کے بارے میں یہ بات معلوم نہیں تھی وہ زندہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ جو میرا ہاتھ ہے یہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کی بیت کی گویا سب لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے بیت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیت خود اپنے ہاتھوں سے کی اور ان کی بیت سب سے افضل بیت رہی ان کے کئی عجیب و غریب مواقف ہیں ایمان کے معاملے میں جب یہ مکے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے ان کو ایک دو دن کے لئے روک لیا تھا حدیبیہ کے موقع پر جب واپس آئے اس موقع پر کچھ لوگوں نے پوچھا آپ نے تو سکون سے عمرہ کر لیا ہو گا انھوں نے کہا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عمرے کے بغیر میں کیسے عمرہ کر سکتا ہوں تو انھوں نے طواف بھی نہیں کیا مکے میں جانے کے باوجود بھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آگے نہ بڑھیں یرموک کی جنگ میں آدھی فوج کا پورا سامان انھوں نے محیح کیا تھا اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ عثمان ابن عفان جو بھی کریں انھیں کوئی نقصان نہیں ہو گا اس کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں مختلف کاموں پر مامور کیئے گئے یہاں تک کہ ان کو خلیفہ بنایا گیا جس کمیٹی میں سے عمر بن خطاب نے مقرر کیا تھا 6 آدمیوں کی ایک کمیٹی جس میں یہ بھی تھے اور علی رضی اللہ عنہ بھی تھے تو عبد الرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ کو اس بات کی ذمہ داری دی گئی کہ وہ سارے مہاجرین اور انصار سے مشورہ کریں عثمان اور علی رضی اللہ عنہ میں سے جن کو خلیفہ مقرر کرنا ہو رائے لے کر مقرر کر دیں تین دن تک مشورہ کیا تین دن کے بعد اعلان کیا میں نے کسی بھی مہاجر یا انصاری کو نہیں دیکھا کہ وہ عثمان پر کسی کو ترجیح دیتے ہوں گویا صحابہ کا اجماع تھا ان کے اوپر تو وہ سن 24 ہجری میں خلیفہ بنائے گئے آخری دور میں کچھ فتنے کھڑے ہوئے عبد اللہ ابن صبا جو یہودی تھا اور اس نے کچھ فتنے پیدا کیئے اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو پیش انگوئی کی تھی اللہ تعالٰی تمھے تکریم کی ایک قمیض تمھے پہنائے گا اور لوگ اسے چھیننا چائیں گے لیکن تم اس سے ہر گز نہیں اتارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی پیش انگوئی کی تھی کہ یہ شہید ہونےہوں گے جب باغیوں نے ان کے گھر کو گھیر لیا اور صحابہ نے اجازت طلب کی کہ وہ ان سے جنگ کریں یا جہاد کریں یا ان کو قتل کر دیں تو عثمان رضی اللہ نے پسند نہیں کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر میں مدینے میں حرمت والے شہر میں خون خرابہ ہو لحاظہ وہ مظلومی کی حالت میں 18 ذي الحجہ سن 35 میں شہید کر دیئے گئے اور انہوں نے قرآن کو جمع کیا تھا قرآن سے ان کو بہت محبت تھی کہا جاتا ہے کہ ایک رات میں قرآن مجید پڑھتے تھے ثقہ راوی کہتے ہیں بعض لوگوں کے کام میں اللہ تعالٰی اتنی برکت دیتا ہے بڑا کام بہت معمولی سے وقت میں کر لیتے ہیں ان کو جامع قائم کہا جاتا ہے انھوں نے مسلمانوں کو ایک قرآن میں جمع کیا تھا ایک قرآت پر جمع کیا جو قریش کا لہجہ ہے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اس کو جمع کیا تھا اسی لئے مصحف عثمانی کہا جاتا ہے جو معروف ہے وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی مصحف ہے زیادہ احادیث ان سے مروی نہیں لیکن پھر بھی اچھی خاصی تعداد ہے یہ وضو کی عملی حدیث بہت معروف ہے عملا یہ کر کے دکھایا     



       
الحدیث النیة واحکامھا نیت اور اس کے احکام امیر المومنین ابی حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے سنا رسولﷺ کو کہتے ہوئے(( بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور بے شک ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے پس ہو جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف، پس اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ، اور جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو اسے پانے کے لئے ہو ، یا کسی عورت سے نکاح کے لئے تو پس اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے )) حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں: 1: بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے عمل کے درست ہونے، اور فاسد ہونے کے اعتبار سے ، اور اس کے کامل ہونے ، اور ناقص ہونے کے اعتبار سے اور اس کی اطاعت اور معصیت ہونے کے اعتبار سے جس نے ارادہ کیا اپنے عمل سے دکھاوا کا وہ گنہگار ہوا ، اور جس نے ارادہ کیا جہاد سے اللہ تعالٰی کے کلمے کی سر بلندی کے لیے مکمل ہو گیا اس کا ثواب اور جس نے جہاد کا ارادہ کیا اور اس کے ساتھ غنیمت کا بھی ارادہ کیا تو اس کے ثواب میں کمی ہو گئی اور جس نے صرف مال غنیمت کا ارادہ کیا گنہگار نہیں ہو گا مگر اس کو نہیں دیا جائے گا مجاہد کا ثواب پس یہ حدیث لائی گئی ہے اس بیان کے لئے ہر عمل اطاعت ہو شکل و صورت یا نافرمانی میں مختلف ہوتا ہے نیتوں کے اختلاف کے اعتبار سے۔ 2: نیت بنیادی شرط ہے مگر بغیر غلو کے اس کے سوچنے یا حاضر کرنے کو کہ فاسد کر دے عبادت کرنے والے پر اس کی عبادت کو اسی لئے کسی کے عمل کا ارادہ کرنا اس کے لئے نیت ہوتی ہے اس کے حاضر کرنے اس کے ثابت کرنے میں تکلف کے بغیر ۔ 3: نیت کی جگہ دل ہے اور لفظ میں کہنا بدعت ہے ۔ 4: واجب ہے بچنا ریاکاری سے اور شہرت طلبی سے اور دنیا کی خاطر عمل کرنے سے خاص طور پر اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز عبادت کو فاسد کر دیتی ہے ۔ 5: واجب ہے توجہ دینا دلوں کے اعمال پر اور ان کی نگرانی کرنا۔ 6: بلاد شرک سے بلاد اسلام کی طرف ہجرت کرنا افضل ترین عبادتوں میں سے ہے جبکہ ارادہ کیا جائے اس کے ذریعے اللہ کی رضا مندی کا۔  



       
الحدیث الحدیث الثاني ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا" ((جب ارادہ کرو غائط ( بیت الخلاء ) کا تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو قضاء حاجت کے لئے اور نہ ہی پیشاپ کے لئے اور نہ پیٹھ کرو اس کی طرف لیکن مشرقی جانب یا مغربی جانب " )) قال ابو ایوب کہتے ہیں :" پس ہم شام آئے ہم پائے بیت الخلاء کہ وہ بنائے گئے ہیں کعبہ کی طرف، پس ہم اس سے پھر جاتے ، اور ہم اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے" ( مراحیض کہتے ہیں جس پر بیٹھ کر قضاء حاجت کریں ) حدیث سے جو لیا جاتا ہے: 1: اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبلے کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا یہ ممنوع ہے، قضاء حاجت کی حالت میں ۔ 2: قبلے سے پھر جانے کا حکم اس حالت میں( اگر وہ اس حالت میں بیٹھ گیا اور اس کو یاد آ گیا تو وہ پھر جائے ) ۔ 3: شریعت کے جو احکام ہیں اور جو اس کے ممنوعات ہیں یہ عام ہوتے ہیں تمام امت کے لیے، اور یہ ہی اصل بات ہے ۔ اور بعض اوقات خاص ہوتے ہیں امت کے لیے، اور انہی خاص چیزوں میں سے یہ حکم ہے " لیکن مشرقی جانب اور مغربی جانب" یہ حکم مدینہ والوں کے لئے نسبت ہے اہل مدینہ اور وہ جو ان کی جہت میں ہیں ، ان میں سے جن کا مشرق یا مغرب میں قبلہ پڑتا ہے وہ نہ کریں ۔ 4: اس میں یہ حکمت ہے کہ کعبہ مشرفہ کی تعظیم اور احترام ہے۔ تحقیق کہ حدیث مرفوع میں آیا ہے " (( جب تم میں سے کوئی حمام میں بول و براز کے لئے جائے تو اس کو چائیے کہ اللہ کے قبلے کا اکرام کرے عزت احترام کرے قبلے کا وہ رخ نہ کرے ")) 5: استغفار سے یہاں مراد ہونا : قلبی استغفار ہے زبانی نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ کا ذکر کرنا زبان سے سطر نہ ہونے کی حالت میں اور قضاء حاجت کی حالت میں ممنوع ہے۔ (جب انھوں نے کہا ہم شام آئے اور دیکھا کہ کعبہ کی طرف حمام بنے ہوئے تھے تو ہم استغفار کرتے تھے کیونکہ وہاں زبان سے اللہ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ) العورة ( شرم گاہ )   



         
الحدیث عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھما کہتے ہیں: ((میں چڑھا ایک دن حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر پر میں نے دیکھا آپﷺ اپنی حاجت پوری کر رہے تھے شام کی جانب رخ کر کے کعبے کی طرف پیٹھ کر کے)) وہ باتیں جو حدیث سے معلوم ہوتی ہیں: 1:کعبة اللہ کی طرف پیٹھ کرنے کا جواز قضاء حاجت کے موقع پر، اور یہ حدیث فائدہ دیتی ہے اس بات کا کہ وہ عمارتوں میں تھا۔ 2: بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا جواز قضاء حاجت کے وقت پر ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے اس کو مکروہ سمجھا ہے ۔ {{عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک عظیم صحابی تھے انہوں نے عمر بن خطاب کے ساتھ ہی ہجرت کی تھی یہ بدر اور احد میں شریک نہیں ہوئے ان کی عمر کم تھی اس وجہ سے اس کے بعد یہ تمام غزوات میں شریک رہے رسولﷺ کی وفات کے بعد یہ 30 سال زندہ رہے اور اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کے ذریعے مسلمانوں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا رسولﷺ کی حدیث پر عمل کرنے میں پابندی کے ساتھ سنتوں کا بہت زیادہ اہتمام کرنے میں یہ بہت معروف تھے ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کی بہن تھیں اور ان کے پاس ایک دن گئے تو اس بات کا ذکر کر رہے ہیں }}  



      
الحدیث انس ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنھما سے مروی ہے انہوں نے کہا "(( رسولﷺ خلا (بیت الخلاء ) میں داخل ہوتے تھے تو میں اور میری ہی عمر کا ایک دوسرا بچہ اٹھاتے تھے پانی کا برتن اور برچھی اور آپ ﷺ پانی لے کر استنجاء کرتے تھے)) العنزة : چھوتا سا نیزہ اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1: استنجاء میں پانی پر اختصار کرنے کا جواز ، اور یہ افضل ہے پتھر پر اختصار کرنے سے، اس لئے کہ پانی زیادہ پاک کرنے والا ہے، اور افضل ہے پتھر اور پانی کے درمیان جمع کرنا، پہلے پتھر استعمال کیئے جائیں گے، پھر اس کے پیچھے پانی استعمال کریں گے، تاکہ کامل صفائی حاصل ہو جائے ۔امام النوي رحمة اللہ فرماتے ہیں( مسلم کی شرع ، الریاض الصالحین اور ان کی چالیس حدیثوں کی کتاب بھی بہت معروف ہے ) جس پر سلف اور خلف کا اجماع ہے، اور اس پر اجماع اتفاق کیا ہے فتوی دینے والوں نے مختلف شہروں کے جو آئمہ کرام ہیں انھوں نے اس بات کو جمع کیا ہے کہ افضل یہ ہے کہ جمع کرے پانی میں اور پتھر کو پہلے استعمال کرے پتھر تاکہ نجاست کم ہو جائے تاکہ ہاتھ سے اس کو چھونا کم سے کم ہو جائے ، پھر پانی استعمال کرے ۔ اگر وہ ان میں سے کسی ایک پر اختصار کرنے کا ارادہ کرے ان دونوں میں سے کسی پر تو جائز ہو گا اتفاق کرنا جس پر وہ چاہے خواہ وہ دوسرے کو پاتا ہو یا نہ پاتا ہو ، اگر وہ ان میں سے کسی ایک پر اختصار کرنا چاہے تو پانی افضل ہے پتھر سے ۔ 2: مسلمان کو چائیے کہ طہارت کے پانی کی پہلے سے تیاری کرے قضاء حاجت کے لئے ، تاکہ اسے کھڑے ہونے کی ضرورت پیش نہ آئے پس وہ گندہ ہو جائے گا ۔ 3: اپنے آپ کو محفوظ کرنا اس بات سے کہ کوئی اس کی طرف دیکھے، اس لئے کہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا حرام ہے ۔ آپ ﷺ گاڑتے تھے چھوٹے سے نیزے کو زمین میں اور لگا دیتے تھے اس پر چھپانے والا کپڑا۔ 4 : چھوٹے بچوں سے کام لینے کا جواز بھلے ہی وہ آزاد کیوں نہ ہوں ۔      



الحدیث ابی قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا "(( تم میں سے نہ کوئی پکڑے اپنی شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے، اور نہ استنجاء کرے اپنے دائیں ہاتھ سے، اور نہ برتن میں سانس لے)) ابي قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کو فارس الرسول کہتے تھے اللہ کے رسولﷺ کے شہسوار یہ بہت بہادر اور جری صحابی تھے عام طور پر جنگوں میں کافی ان کا نام رہا ہے احد اور اس کے بعد کی ساری جنگوں میں شریک رہے اللہ کے رسولﷺ ایک دفعہ سفر میں تھے اور رسولﷺ اپنی سواری میں تھے آپ ﷺ کو نیند آ گئی اور آپ ایک دم مائل ہوئے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور رسولﷺ کو ٹھیک کر دیا آپﷺ کو جگائے بغیر آپ ﷺ دوسری دفعہ پھر مائل ہو گئے پھر ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے آپ کو ٹھیک کر دیا آپ کو جگایا نہیں تیسری مرتبہ جب صبح قریب تھی تو آپﷺ کو جھونکا آیا بہت ہی زیادہ خطرناک تھا پہلے سے زیادہ مائل ہو گئے پھر ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے آپ ﷺ کو سہارا دیا تو آپ بیدار ہو گئے پوچھا کہ تم کب سے میرے ساتھ اس حال میں ہو تو انھوں نے کہا رات سے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالٰی تمھاری حفاظت کرے تم نے اپنے نبی کی حفاظت کی تو اللہ کے رسولﷺ کا ان کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے 54 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جبکہ یہ مدینہ میں تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا انتقال کوفے میں ہوا اور علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ان کا نماز جنازہ پڑائی ) اس حدیث میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں اور اس میں تین عظیم نصیحتیں ہیں اس کا تعلق پاکی صفائی اور امراض سے اپنی حفاظت کا ہے آدمی جب اپنی ضرورت سے فارغ ہو رہا ہو بول براز سے تو اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو نہ چھوئے اور دوسری نصیحت یہ ہے کہ استنجاء اپنے دائیں ہاتھ سے نہ کرے دونوں نصیحتوں تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی اپنے دائیں ہاتھ کو ایسی چیزوں کے لئے استعمال نہ کرے جو کہ پاک نہیں ہے کیونکہ دائیاں ہاتھ تکریم کے لئے ہے ایسی چیزوں کے لئے ہے جو انسان کے لئے اچھی ہیں جیسے کھانا پانی وغیرہ اور صفائی کے لیے بائیاں ہاتھ ہے تیسری نصیحت اس میں یہ ہے کہ آدمی جب کھانا کھا رہا ہو تو برتن میں پھونکے مت ظاہر ہے کہ جب سانس اس کے کھانے پانی کو لگے گی تو خود ہی اس کو کراہت ہو گی اگر وہ بیمار ہے تو بیماری میں منتقل ہو جائے گی جراثیم کے نتیجے میں آدمی اپنی ضرر سے اپنی حفاظت کرے علماء کہتے ہیں یہ حکم کراہت کے لیے ہے ہر وہ چیز جس کا تعلق آداب سے ہے وہ کراہت لئے ہے اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1: دائیں ہاتھ سے شرم گاہ کو چھونے کی ممانعت ہے ۔ 2: ممانعت ہے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ۔ 3: ممانعت ہے برتن میں پھونکنے کی۔ 4: گندی چیزوں سے اجتناب کا حکم ، اور اگر انسان مجبور ہو جائے براہ راست انہیں چھونے پر، تو وہ بائیں کا استعمال کرے۔ 5: دائیں ہاتھ کے شرف کا بیان فضیلت کا بیان بائیں ہاتھ پر۔ 6: توجہ دینا صفائی پر عمومی طور پر، خاص طور پر کھانے اور پینے کی چیزوں پر گندگی کے ملنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے ضرر اور نقصان صحت کو ۔ 7: شریعت کی بلندی، جیسا کہ حکم دیا ہے ہر نفع بخش چیز کا، اور ہر نقصان پہنچانے والی چیز سے منع کیا ہے ۔    



الحدیث باب السواك مسواک کا باب س کے کسرے کے ساتھ السواك ، سواک نام ہے اس لکڑی کا جس کے ذریعے مسواک کیا جاتا ہے "عود" کہتے ہیں لکڑی کو چاہے تر گیلی ہو یا خشک چھوٹی ہو یا بڑی نام ہے اس عمل کا جو لکڑی کے ذریعے دانتوں کو رگڑ کر کیا جاتا ہے اس آلہ کا نام ہے جس کے ذریعے ہم آپنے دانتوں کو رگڑتے ہیں اس لکڑی سے یا انگلی سے یا اس جیسی کسی چیز سے یا کپڑے سے عمل کو بھی سواک کہتے ہیں اور اس لکڑی کو بھی سواک کہتے ہیں، تاکہ دور کر دے پیلے پن کو یا گندگی کو دور کر دے تاکہ منہ میں پائی جانے والی گندگی کو صاف کر دے اور پاک کر دے منہ کو اور ثواب حاصل ہو۔ اس کے یہاں ذکر کرنے کی مناسبت، یہ وضو کی سنتوں میں سے ہے اور نظافت و صفائی میں سے ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے ۔ یہ" کتاب الطھارة" کے باب میں سے ہے اور اس میں بہت سے فوائد ہیں جس کو شمار کرنا مشکل ہے، صفائی ، نظافت و طہارت ، صحت و عافیت، اور ناپسند ناگوار بو کو دور کر دینا، اور منہ میں خوشبو پیدا کرنا پاک کرنا ، اور ثواب کا حاصل ہونا ، اور اللہ کے رسولﷺ کی پیروی کرنا 1 چیز یہ ہے کہ اس سے صفائی ہوتی ہے گندگی دور ہوتی ہے 2 انسان جو بھی غذاہ کھاتا ہے وہ منہ کے راستے میں اندر جاتی ہے اگر منہ کا راستہ صاف رکھے گا تو اسے صحت مند غذاہ ملے گی اور اس کا بدن بھی صحیح رہے 3 بہت دیر خاموش رہنے سے بھی منہ میں بو پیدا ہو جاتی ہے یا کچھ ایسی چیزیں کھا لیتا ہے یا سو کر جاگتا ہے تو اس کے منہ میں جو بو ہوتی ہے یہ بو کو دور کرنے کا طریقہ ہے 4 آدمی جب مسواک کرتا ہے تو منہ میں خوشبو پیدا ہوتی ہے پیلو کی مسواک سے منہ میں جوشبو بھی پیدا ہوتی ہے 5 اور اس سے ثواب بھی حاصل ہوتا ہے سنن نسائی کی روایت ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا (( مسواک منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے )) بظاہر یہ چھوٹا سا عمل ہے لیکن اس کے بہت سے فوائد ہیں 6: اور رسولﷺ کی اتباع ہے اللہ کے رسولﷺ کو مسواک بہت پسند تھا یہاں تک کہ اللہ کے رسولﷺ کی وفات اے تھوڑا پہلے آپ نے جو الفاظ کہے وہ بہت معروف ہیں(("الصَّلاَةَ الصَّلاَةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ")) نماز کا خیال رکھو اور وہ جن کے تم ملک ہو لونڈی، غلام ، عورتیں بحیثیت شوہر ان کے حقوق کا خیال رکھو " رسولﷺ کا آخر عمل مسواک کرنا تھا ((اللہ کے رسولﷺ جب مرض الموت میں تھے تو عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بھائی داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی وہ مسواک کر رہے تھے آپﷺ ان کو دیکھا تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سمجھ گئیں اور پوچھا کہ میں مسواک آپﷺ کے لئے لوں تو آپﷺ نے اشارہ کیا سر سے ہاں تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وہ مسواک لی اور اس کو چبایا اور نرم کیا اور رسولﷺ کو دیا اس کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس طرح مسواک کیا کہ میں نے اتنا اچھا مسواک کرتے ہوئے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا ابھی آپ ﷺ مسواک سے آپ ﷺ جیسے ہی فارغ ہوئے آپ ﷺ کی وفات ہو گئی یہ آپﷺ کا آخری عمل تھا)) مسواک خود بھی ایک نیکی ہے جس کا ثواب حاصل ہو گا 6 مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے مسواک کی اہمیت ہے      



         
الحدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں: گزرے اللہ کے رسولﷺ دو قبروں سے پس کہا :"(( یقینا ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں عذاب نہیں دیا جا رہا کسی بڑی چیز سے، ان میں سے ایک بچاؤ نہیں کرتا تھا پیشاپ سے ، اور دوسرا چغلی کھاتا تھا))"۔ پس آپ ﷺ نے لیا ایک ٹہنی تروتازہ اور اس کے دو ٹکڑے کیئے ، پس گاڑ دیا ہر قبر میں ۔ پس انھوں نے کہا یا رسولﷺ ، آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"(( ممکن ہے ان دونوں سے تخفیف کی جائے عذاب کی جب تک کہ یہ ٹہنی نہ سوکھے"۔)) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما یہ بہت عظیم صحابی ہیں انہیں حبر الامة اس امت کے امتی ہیں ترجمان القرآن ہیں نبی کریم ﷺ نے کئی مرتبہ ان کے لئے دعا کی ایک مرتبہ کہا اللہ تبارک و تعالٰی انہیں دین کا علم سکھا دے دین میں فقیہ بنا دے اور ایک مرتبہ فرمایا انہیں علم الکتاب سکھا دے ایک دفعہ کہا علم الحکمہ سکھا دے کئی مرتبہ دعائیں دی یہ اللہ کے رسولﷺ کے دور میں پیدا ہوئے مکی زندگی کے آخر میں حصے میں اور کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں بنی ہاشم کے ساتھ قید تھے یہ اس موقع پر پیدا ہوئے تھے اللہ کے رسولﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر پندرہ یا سولہ ساتھ تھی انہوں نے بہت علم حاصل کیا اور اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کو کافی علم سے نوازہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنھما ان کو بدر کے جو شیوخ ہیں بڑے بڑے صحابہ ان کے ساتھ مسجد میں بٹھاتے تھے ایک دفعہ صحابہ نے اعتراض کیا کہنے لگے ہمارے بھی تو ان کی عمر کے بچے ہیں ان کو آپ اجازت نہیں دیتے اپنے پاس حاضر ہونے کی تو عمر رضی اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ ان سب کو جمع کیا اور سورتہ النصر پڑھی اور کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے جو موجود تھے انہوں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہو گئی تو چائیے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کی حمد کریں جیسا کہ آیت کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اور کچھ تو انہوں نے کہا اور کچھ نہیں جانتے تو عمر رضی اللہ عنہما نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے پوچھا تو انھوں نے کہا اس میں رسولﷺ کی وفات کا ذکر ہے رسولﷺ جب بھیجے گئے تھے اللہ کے دین کے لئے جب فتح و نصرت حاصل ہو گئی تو رسولﷺ کا مقصد بھی پورا ہو گیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا میں بھی اس سورتہ کا یہ ہی مطلب سمجھتا ہوں ایک معنی تو ظاہر ہے اور ایک معنی جو بہت گہرائی میں آتا ہے اور وہ غور کرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما کی وفات طائف میں ہوئی 68 ہجری میں ) اس حدیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1 : عزاب قبر کا اثبات حدیث میں یہ بات آئی ہے یہ امت کے اکثر لوگوں کا مسلک ہے۔ 2: پاکی حاصل نہ کرنا نجاستوں سے سبب ہے اس عذاب کا پس واجب ہے اس سے صفائی اختیار کرنا: پس حدیث دلالت کرتی ہے عزاب قبر کے معاملے میں خصوصی سے پیشاپ کا عذاب قبر کا کوئی خاص تعلق ہے ۔ اور اس کی تاکید کرتی ہے وہ حدیث جس کو حاکم نے روایت کی ہے اور ابن خزیمہ اور وہ یہ ہے کہ ( اکثر عذاب قبر پیشاپ سے ہے ) ابن حجر نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ 3 : چغلی کھانا لوگوں کے درمیان یہ حرام ہے اور یہ عذاب قبر کے اسباب میں سے ہے ۔ 4: اللہ کے رسولﷺ کی رحمت اپنے اصحاب کے ساتھ اور آپ ﷺ کی حرص شر کو دور کرنے کے معاملے میں ۔ 5: لوگوں کے گناہوں اور عیوب پر پردہ ڈالنا۔ اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ نے صراحت نہیں کی ان قبر والوں کے ناموں کی ، اور یہ آپ ﷺ نے عملا کیا ہو گا۔ 6: ان کو عذاب نہیں دیا جا رہا کسی بڑی چیز کی وجہ سے " کسی ایسے گناہ کے سبب سے جس کا چھوڑنا مشکل نہیں ہے، اس لئے کہ چغلی کو چھوڑنا اور پیشاپ سے بچنا نہیں ہے مشقت والے امور میں سے۔ اور ان کا عذاب بہت سخت ہوا ان کے دونوں کاموں کی وجہ سے مفاسد مرتب ہوتے ہیں اس کی وجہ سے عذاب بہت بڑا ہو رہا تھا۔      



الحدیث باب السواك ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا: ": اگر نہیں اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہیں ہوتا تو میں ان کو حکم دیتا مسواک کا ہر وضو کے ساتھ ہر نماز کے موقع پر " متفق علیه اس حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں: 1: مسواک کا مستحب ہونا اور اس کی فضیلت اس کے کرنے پر ثواب ہو گا،مسواک ثواب کے معاملے میں یہ واجب کے درجے کو پہنچا ہوا عمل ہے۔ 2: مسواک کی مشروعیت کی تاکید ہے وضو کے وقت پر اور نماز کے موقع پر ابن دقیق العید (عمدة الفقہ کے مؤلف ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمیں حکم دیا گیا ہے ہر حالت میں اللہ عزوجل کی قربت کے جتنے بھی حالات ہیں ان حالات میں سے کہ ہم ہوں کمال نظافت کی حالت میں رہیں کیونکہ عبادت کے شرف کی جو منزلت اور قدر ہے وہ واضح رہے ۔ اور کہا جاتا ہے یہ معاملہ متعلق ہے فرشتےکے ساتھ کیوں کہ فرشتوں کو ناگوار بو سے تکلیف ہوتی ہے ۔ الصنعاني فرماتے ہیں : کوئی بعید بات نہیں کہ وہ راز جو دونوں چیزوں کا مجموعہ ہیں اس وجہ سے جس میں امام مسلم رحمة علیہ نے اخراج کیا ہے حدیث میں روایت کیا ہے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ہے " جو لہسن کھائے یا پیاز کھائے یا گیندنا کھائے ، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اس لیے کہ فرشتے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے بنو آدم تکلیف محسوس کرتا ہے" ( پہلی چیز کہ انسان کو چائیے کہ اللہ کے تقرب کے لئے چائیے کہ وہ کمال نظافت کی حالت میں رہے تاکہ عبادت کا شرف حاصل ہو اور دوسرا یہ کہ اس سےفرشتہ تکلیف محسوس نہ کرے یہ دونوں چیزوں کا مجموعہ ہے یہ دونوں چیزیں مقصود ہوں) ۔ 3: اس نماز اور وضو کی فضیلت جن کے ساتھ مسواک استعمال کیا گیا ہو ۔ 4: منع نہیں کیا گیا ممانعت نہیں ہے مسواک کی فرضیت میں مگر اس کو ادا کرنے کی صورت میں مشقت کا خوف ۔ 5: اللہ کے رسولﷺ کی کمال شفقت آپ ﷺ کی امت کے ساتھ۔ 6: شریعت آسان ہے اس میں کوئی سختی نہیں ہے مشقت نہیں ہے ۔ 7: مفاسد کو دور کرنا یہ مقدم ہے مصلحتوں کے حصول پر ( اصول فقہ کا ایک قاعدہ ہے کہ کسی ایسی چیز سے ہمیں فائدہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے کوئی دوسرے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں ان نقصانات کے اندیشے سے ان چیزوں کو چھوڑ دین گے دلیل اللہ تعالٰی نے فرمایا " جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں ان کے معبود باطلہ ان کو تم گالی مت دو اس وجہ سے وہ بھی جہالت میں اللہ تبارک و تعالٰی کو گالی دیں گے " مشرکین کے بتوں کو گالی دینا یہ مصالح ہے لیکن اللہ کو گالی دینا یہ مفاسد ہے اسی لیے مفاسد کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے ایک مصلحت کے عمل کو منع کر دیا مفاسد کو دور کرنا یہ مقدم کیا گیا مصالح کے حصول سے ایک واجب کو چھوڑنے کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے مسواک کے عمل کو واجب نہیں کیا) یہ بہت عظیم قاعدہ ہے بہت نفع بخش ہے ۔ اس لئے کہ حکمت والی شریعت شارع جو حکمت والے ہیں، مسواک کی فرضیت کو چھوڑ دیا ، امت پر باوجود اس کے کہ اس میں بہت سی مصلحتیں پائی جاتی ہیں عظیم ، اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالٰی ان پر فرض نہ کر دے پھر وہ اس کو کر نہ سکیں اور بہت زیادہ فساد ہو جائے، شرعی واجبات کو ترک کرنے میں ۔ لیکچر کی ضروری باتیں (("لولا " نحو کی زبان میں "حرف امتناع الوجود " اس حرف کے بعد کے جملے سے اس کے بعد والے جملے پر دلالت کرتا ہے لولا کے بعد دو جملے ہوتے ہیں یہ پہلے جملے کی موجودگی کی وجہ سے دوسرے جملے کی نفی پر دلالت کرتا ہے مثال کے طور پر امت کو مشقت میں ڈالنا اس کی وجہ رسولﷺ نے مسواک کا حکم نہیں دیا مشقت ایسے ہو گی ہر نماز پر مسواک کا اگر حکم دیا جاتا ظاہر ہے کہ اس کی پابندی کرنا مشکل ہوتا اس کی دلیل یہ ہے کہ بہت بڑا طبقہ جو کہ مسلمانوں کا ہے وہ مسواک نہیں کرتا ہے اگرچہ مسواک کی بہت اہمیت ہے صفائی کے لحاظ سے بھی اور اس کے ثواب کے لحاظ سے بھی اور رسولﷺ کی پیروی کے لحاظ سے بھی اس کی بہت اہمیت ہے لیکن بہت بڑا طبقہ جو مسواک نہیں کرتا اگر اس کا حکم دیا جاتا تو بہت ممکن تھا کہ لوگوں کو مشقت ہو جاتی اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جہاں تک مسواک نہیں پہنچتی مشقت ہوتی اس مشقت کے اندیشے کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے اس کو لازمی قرار نہیں دیا یہ عمل اتنا اہم ہے کہ اس کو واجب ہونا چائیے تھا لیکن لوگوں کو مشقت ہو گی اس لئے رسولﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا اگر رسولﷺ صحابہ کو حکم دیتے اور صحابہ مسواک کر لیتے اور اللہ تبارک و تعالٰی یہ حکم دے دیتے تو بہت ممکن ہے کہ صحابہ کے بعد جو لوگ آئیں گے آج تک کے لوگ وہ مسواک نہیں کرتے ایک چیز فرض کر دینے کے بعد اس کو چھوڑتے تو واجبات کو ترک کرنے کا گناہ ان پر لازم آتا تو اللہ کے رسولﷺ اپنی امت پر شفقت کرتے ہوئے رسولﷺ نے اسے واجب نہیں کیا لیکن اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ تو ہوتا ہے بخاری و مسلم کی روایت کو ایک ساتھ رکھیں گے تو اس سے پتہ چلے گا نماز چاہے فرض، نفل، اشراق ،تہجد ہو کوئی بھی نماز ہو اس میں نماز کی تخصیص نہیں کی گئی کہ فرض نماز ہو تو ہر نماز کے لئے انسان جب وضو کرے گا اسے چائیے کہ مسواک کرے لیکن اگر ان الفاظ کو الگ کیا جائے بخاری و مسلم کے تو اس موقع پر یہ ہو گا مسواک کرنا ضروری نہیں کہ ہم وضو کے ساتھ کریں " عند" کے الفاظ اس بات کی دلیل ہے نماز سے جتنا قریب انسان مسواک کرے گا اتنا زیادہ اسے قربت ہو گی نماز میں عند کے معنی ہیں قریب ان دونوں بخاری و مسلم کی حدیث کو اگر جمع کیا جائے تو ہر نماز کے وقت وضو کرنا چائیے جیسا کہ حدیث آئی ہے کہ ہر وضو کے وقت بھی مسواک کرنا چائیے بھلے ہی نماز نہ پڑھنا ہو جیسا کہ بخاری کے الفاظ ہیں اگر آدمی قرآن کی تلاوت کے لئے وضو کرنا چاہ رہا ہے باوضو ہونے کے لئے کسی بھی مقصد کے لئے وہ وضو کر رہا ہو تب بھی اسے مسواک کرنا ہے دونوں کے اتفاق جن الفاظ پر ہیں دونوں کو لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آدمی مسواک کرے نماز سے پہلے بھلے ہی وہ وضو کے لئے کیا ہو پر نماز سے پہلے بھی وہ مسواک کر لے جیسا کہ عرب میں معمول مسواک کرنے کے بہت سے اسباب ہیں ضروری نہیں کہ آدمی صفائی کے لئے ہی مسواک کرے اپنے منہ بو کو دور کرنے کے لئے اگر ایک وقت تک وہ خاموش رہا تو مسواک کی وجہ سے اس کو دور کر سکتا ہے مسواک کرنے کے جو مقامات ہیں 1: پہلا مقام وضو سے پہلے 2 :دوسرا ہو گیا نماز سے پہلے 3: تیسرا نیند سے جاگنے کے بعد 4: چوتھا منہ کی بو کو بدلنے کے لئے 5:((رسولﷺ گھر میں داخل ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے))      



        
دائیں جانب سے آغاز کرنے کا استحباب پاکیزہ اور اچھے امور میں عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم "((کو دائیں جانب سے آغاز کرنا پسند تھا اپنے جوتے پہننے میں اور کنگھی کرنے میں اور پاکی حاصل کرنے میں اور اپنے پورے کاموں میں ")) اس حدیث سے ماخوذ مسائل واحد : پاکیزہ کاموں کو دائیں جانب سے شروع کرنا وہی افضل ہے شرعی طور پر بھی عقلی طور پر بھی اور طبی لحاظ سے بھی ۔ امام النووی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا شریعت کا مستمر قاعدہ (جو کام آنے والا ہے ) دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے ہر اس چیز میں جو تکریم کے باب سے اور زیب و زینت کے باب سے ہو اور جو اس کے خلاف ہو اس کا بائیں جانب سے شروع کرنا مستحب سمجھا گیا ۔ ثانین: جو گندی چیزیں ہیں ان کو بائیں جانب سے شروع کرنا گندے اور ناپاک چیزوں کے لئے شرعی طور پر بھی عقلی طور پر بھی۔ ثالثا : شریعت شریفہ نازل ہوئی ہے لوگوں کی اصلاح کے لیے اور ان کو اخلاق و آداب سکھانے کے لئے اور ان کو نقصان سے بچانے کے لیے ۔ رابع: افضل ہے وضو کو دائیں جانب سے مقدم کرنا افضل ہے بائیں جانب کے مقابلے میں ۔ امام النووی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں " علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دائیں کو وضو میں مقدم کرنا سنت ہے، جس نے اس کی مخالفت کی ایک فضیلت کا کام اس سے فوت ہو گیا اور اس کا وضو مکمل ہو گیا" المغنی میں ((ابن قدامہ رحمہ اللہ علیہ کی چار کتابیں 1 عمدہ الفقه ، 2 المقنی ، 3 الکافی، 4 المغنی ) )ہیں " عدم وجوب کے سلسلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے    



  
الحدیث فضل اسباغ الوضو ء وما یترتب علی ذلك من امتیاز ھذه الأمة یوم القیامة علی سائر الأمم ((اسباغ کے معنی ہیں مکمل کرنا یہ وضو کے لئے خاص نہیں ہے کسی چیز کو مکمل کرنا اس کے پورے حق کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے وہاں پر لفظ اسباغ کا استعمال کیا جاتا ہے )) وضو کو پورے طریقے سے کرنے کی فضیلت اور قیامت کے دن ساری امتیں ہیں ان کے مقابلے میں امت محمدی کی فضیلت اس میں بیان کی گئی ہے عن نعیم المجمر رحمہ اللہ عن ابي ھریرة رضي اللہ عنه عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنه قال(( بے شک میری امت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا پکارا جائے گا ندا لگائی جائے گی جن کی پیشانیاں چمکتی ہوں گی اور جن کے ہاتھ اور پیر چمکتے ہوں گے وضو کے نشان کی وجہ سے تم میں سے جو چاہے وہ اپنی اس چمک کو زیادہ کرے)) نعیم بن المجمر کہتے ہیں میں نے دیکھا ابو ھریره کو وضو کرتے ہوئے پس انھوں نے اپنا چہرہ دھویا اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک کہ قریب تھا کہ اپنے کندھوں تک پہنچ جائیں، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے یہاں تک کہ اپنی دونوں پنڈلیوں تک اونچا دھویا پھر کہا میں نے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:" میری امت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا جن کی پیشانیاں چمکتی ہوں گی پیر بھی چمکتے ہوں گے وضو کے اثر سے، لحاظہ تم میں سے جو چاہے وہ اپنی چمک کو زیادہ کر لے "۔ مسلم کے الفاظ ہیں: مومن کو چمک وہاں تک پہنچے گی جہاں تک اس کا وضو پہنچے گا ۔      



          
الحدیث باب دخول الخلاء والاستطابة خلاء میں پاکی حاصل کرنے کا باب یہ باب جس میں بیت خلاء میں داخل ہونے کے آداب ذکر کیئے گئے ہیں ، اور اس میں بیٹھنے کے آداب ، اور اس سے نکلنے کے آداب ، جیسا کہ اس میں بیان کیا گیا ہے گندگیوں سے پاکی کس طرح حاصل کی جائے دونوں راستوں سے پتھر سے اور جو پتھر کے قائم مقام ہے، اور یہ جو باب ہے کتاب الطھارة کے باب میں سے ایک باب ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ جب آپ خلاء میں داخل ہوتے تو کہتے (( الھم إني أعوذ بك من الخبث و الخبائث )) " اے اللہ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں برے شیطان جن اور برے شیطان جنات سے" الخبث الخاء اور الباء کو ضمہ دے دیا (خبث) جمع ہے خبیث کی اور خبائث جمع ہے خبیثة کی پناہ طلب کرنا ان کے مردوں سے اور ان کی عورتوں سے حدیث سے جو لیا جاتا ہے : 1: اس دعا کا استحباب یا مستحب ہے بیت الخلاء میں داخل ہونے کے ارادے کے وقت ،تاکہ وہ محفوظ ہو سکے شیطانوں سے جو اس کی نماز کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان سے بچا جا سکے ۔ 2: شیطان جو انسان کو تکلیف پہنچاتا ہے ان میں سے یہ بھی ایک کہ وہ گندگی کرنے کے اسباب پیدا کرتے ہیں تاکہ بندے کی نماز فاسد ہو جائے تو پھر ان سے وہ پناہ طلب کرے،تاکہ ان کے شر سے بچا جائے۔ 3: گندگیوں سے بچنا واجب ہے، اور ان اسباب کو اپنائے جن سے بچا جاتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ پیشاپ سے احتیاط نہ برتنا قبر کے عذاب کے اسبابوں میں سے ایک سبب ہے۔      



          
الحدیث باب المسح علی الخفین موزوں پر مسح کرنے کا باب مغیرہ بن شعبة رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا پس میں جھکا تاکہ آپ ﷺکے ( چمڑے) موزرے نکال سکوں ، آپ ﷺ نے فرمایا ان کو چھوڑ دو، میں نے ان کو پاکی کی حالت میں داخل کیا ہے" پس آپ ﷺ نے ان پر مسح کیا ۔ (((مغیرہ بن شعبة اللہ کے بہت عظیم صحابہ میں سے ہیں مغیرہ بن شعبة رسولﷺ پر ایمان لانے کے بعد سفر میں آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے وہ رسولﷺ کے وضو کے پانی کی خدمت کے لئے مامور تھے ایک دفعہ سفر کا یہ واقعہ انھوں نے بیان کیا مغیرہ بن شعبة کافی عظیم صحابہ میں سے ہیں چالاکی میں بہت معروف تھے کافی زمانہ تک یہ مختلف علاقوں کے گورنر بھی رہے یہ طائف کے علاقے ثقیف میں پیدا ہوئے ان کا انتقال 70 سال کی عمر میں ہوا کوفہ میں سن 50 ہجری وہ اپنے سفر کا ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں اس واقعہ سے ہمیں کیا باتیں معلوم ہوتی ہیں ))) وہ باتیں جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہیں: 1: وضو کے وقت پر خفین پر مسح کرنے کی مشروعیت، اور مسح ایک مرتبہ ہاتھ کے ساتھ ہو گا اور موزوں کے اوپر ہو گا نیچے کے علاوہ یعنی نیچے نہیں ہو گا جیسا کہ بہت سے آثار میں اس کا ذکر ہے ۔ 2: مسح علی الخفین کے لئے طہارت کا مشروع ہونا(خفین پر مسح اس وقت کر سکیں گے جب ان کو وضو کے بعد پہنا ہوا ہو)۔اور وہ یہ کہ دونوں پیر پاکی کی حالت میں ہوں ان کو موزے میں داخل کرنے سے پہلے( وضو کرنے کے بعد موزے پہنیں ) ۔ 3: علماء اور فضلاء کی خدمت کرنے کا مستحب ہونا۔ 4: اس حدیث کی بعض روایتوں میں ہے اس میں یہ بات آتی ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے موقع پر فجر کی نماز کے وقت ہوا تھا ( کیونکہ یہ حدیث بہت جگہوں پر آئی ہے کہیں مختصر ہے کہیں طویل ہے)۔      



          
الحدیث باب المسح علی الخفین حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ سفر میں تھا ، آپﷺ پیشاپ سے فارغ ہوئے اور آپ نے وضو کیا اور خفین پر مسح کیا۔ (((یہ حدیث حذیفة بن الیمان رضی اللہ تعالٰی سے روایت ہے یہ مکے میں پیدا ہوئے اور انھوں نے مدینہ میں زندگی گزاری حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ کافی معروف صحابہ میں سے ہیں اللہ کے رسولﷺ کے راز دار صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے رسولﷺ نے انہیں منافقین کے نام بتائے تھے کافی جنگوں میں انھوں نے شرکت کی بہت سے جنگوں میں انھوں نے قیادت بھی کی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک دفعہ ان سے پوچھا تھا جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ امیر المومنین تھے مسلمانوں کے خلیفہ تھے تو انھوں نے پوچھا تھا میرے جو والیان ہیں جن کو میں نے گورنر بنایا ہے کیا ان میں کوئی ایسا شخص ہے جو منافق ہے جس کا ذکر اللہ کے رسولﷺ نے کیا ہو تو انھوں نے کہا ایک شخص ہے عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون ہے تو حذیفة رضی اللہ عنہ نے کہا میں بتا نہیں سکوں گا لیکن حذیفة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد میں نے دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو معزول کر دیا ہے ایسا لگا کہ ان کو اس بات کا اشارہ مل چکا تھا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عادت تھی کہ جب کوئی آدمی کا انتقال ہوتا تو وہ حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھتے اگر حذیفة رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے نماز پڑھتے تو عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نیکی تقوی پرہیزگاری کے بہت بڑے مقام پر تھے لیکن آدمی کو کبھی اپنے بارے میں غرور کا شکار نہیں ہونا چاہیے اس کی مثال عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے ایک دفعہ انھوں نے حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو منافقین کے نام لیئے ہیں یہ بتاؤ کہیں ان میں میرا نام تو نہیں ہے حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا نہیں آپ کا نام نہیں ہے اس کے بعد حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اس کے بعد میں اس کا تزکیہ نہیں کروں گا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کس طرح سے اپنی نجات کی فکر ہوتی تھی حذیفة رضی اللہ تعالٰی عنہ مدائن کے گورنر بنائے گئے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے دور میں اور عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں بھی وہ وہاں کے گورنر رہے اور علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلیفہ بننے کے چالیس دن کے بعد ان کا انتقال ہوا مدائن ہی میں ہوا سن 36 ہجری میں وہ بیان کرتے ہیں میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ سفر میں تھا اہل علم اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ واقعہ سفر میں نہیں تھا مدینہ ہی میں تھا بہر حال اس حدیث سے بھی خفین پر مسح کرنا ثابت ہوتا ہے ))) وہ باتیں جو حدیث سے معلوم ہوتی ہیں: 1: سفر میں خفین پر مسح کرنے کی مشروعیت( سفر اور حضر دونوں میں کر سکتے ہیں ) ۔خفین پر مسح کی مدت اور عمامہ پر مسح کی مدت کی مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں۔ اور مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے یعنی 24 گھنٹے کہ ابتدا کو شمار کیا جائے گا سفر میں ہو یا حضر میں ہو۔ مسح کرنے کے وقت سے صحیح قول کے مطابق ۔ 2: پیشاپ سے فارغ ہونے کے بعد وضو کرنے کے بعد مسح کرنا خفین پر خفین پر مسح اور عمامہ پر مسح ثابت ہے ہر حدث اصغر سے(( ہر وہ وجہ جو حدث اصغر سبب ہے چاہے قضاء حاجت ہو ہوا کا اخراج ہو یا پھر مذی کا نکلنا ہو ہر وہ چیز جس سے وضو ناقض ہوتا ہے اس کو حدث اصغر کہتے ہیں ))، بہت سی حدیثوں میں آیا ہے ۔ اگر حدث اکبر ہو جو غسل کو واجب کرنے والا ہے جیسے کسی کو جنابت لائق ہو گئی پس کافی نہیں ہو گا خفین پر مسح کرنا اور نہ عمامہ پر مسح کافی ہو گا بلکہ ضروری ہو گا غسل کرنا اب رہی پٹیاں جو ٹوٹی ہوئی ہڈی پر باندھی جاتی ہیں چاہے لکڑی کی ہوں کپڑے کی اور وہ جس پر پلاسٹر لگایا گیا ہو تو ان پر مسح کیا جائے گا ان پر دونوں صورتوں پر مسح کیا جائے گا چاہے وہ حدث اصغر ہو یا اکبر ۔ اگر مسح اسے نقصان پہنچاتا ہو یا اسے نقصان کا خوف ہو تو اسے مسح نہیں کیا جائے گا اس کی وجہ سے تیمم کیا جائے گا لیکن سارے صحیح اعضاء کو دھونے کے بعد۔      



         
الحدیث باب التیمم لغت میں تیمم کے معنی ہیں قصد کرنا ارادہ کرنا اللہ تعالٰی نے فرمایا( اور نہ ان لوگوں کا جو کہ بیت الحرام کا قصد کرتے ہیں ) پھر نقل کیا گیا یہ لفظ فقہا کے عرف میں- چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرنے کے معنی میں ، تھوڑی سی مٹی کے ساتھ ، اس لئے کہ مسح کرنے والا ۔ مٹی کا قصد یا ارادہ کیا۔ اور بعض علماء نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی: مٹی سے حاصل ہونے والی طہارت جو چہرے اور ہاتھوں کے مسح کرنے پر مشتمل ہے پانی نہ ہونے کی صورت میں یا اس کے استعمال پر قدرت نہ رکھنے کی صورت میں ۔ اور تیمم امت محمدیہ کی خصوصیت میں سے ہے جس کے کاموں کو اللہ تعالٰی نے آسان کیا ، اور جس پر اللہ تعالی نے اپنی شریعت کو آسان کیا ، اور اس امت سے حرج میں کشادگی رکھا، اور ہر تنگی میں نکلنے کا راستہ رکھا، اور اس کے باطن اور ظاہر کو پاک کیا، اس نبی کریمﷺ کی برکت سے۔وہ شخص جس نے پانی کو نہیں پایا جو زندگی کی دو اصل چیزوں میں سے ہے( مٹی اور پانی) ۔ تو بدلے میں حاصل کیا دوسری اصل یعنی پانی کو نہیں پایا تو دوسری اصل ثانی کو حاصل کر لیا جو کہ مٹی ہے، تاکہ مکمل طور پر طہارت کو گم نہ کر دے، کیونکہ پانی کی طہارت ظاہر اور باطن کو پاک کرتی ہے ۔ جب یہ کامل الاداة نہ حاصل ہو ( وہ پانی ہے) ، تو ہم پاکی کی صورت کی طرف رجوع کریں گے مٹی کے الاداة کے ذریعے، تاکہ باطنی طہارت حاصل ہو جائے، اس کی حکمت میں کوئی شک نہیں ،اور اس کے فائدے میں کوئی شک نہیں، جو فہم میں سعادت سے نوازہ گیا۔ اور تیمم ثابت ہے قرآن مجید سے ، اور سنت مطھرة سے ، امت محمدیہ کے اجماع سے جو ہدایت یافتہ ہیں اور قیاس صحیح بھی اسی کا تقاضہ کرتا ہے ۔ عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو کہ علیحدہ ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی آپﷺ نے فرمایا:" یا فلاں تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی کس چیز نے تمھے منع کیا کہ تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو؟" کہا یا رسولﷺ میں جنبی ہو چکا ہوں اور پانی نہیں ہے، رسولﷺ نے فرمایا: تم مٹی کو لازم پکڑو وہ تمھارے لئے کافی ہے " رواہ البخاري (( عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ خیبر کے سال مسلمان ہوئے سن سات ہجری میں جس سال خیبر فتح ہوا یہ اسی سال مسلمان ہوئے اپنے اسلام لانے میں اگرچہ یہ متاخر ہیں لیکن اپنے زہد تقوی پرہیزگاری وغیرہ کی وجہ سے ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور رسولﷺ سے انہوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں اور یہ بہت ہی عظیم ترین صحابہ میں سے ہیں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں بصرہ بھیجا تھا لوگوں کو سکھانے کے لئے وہاں کے قاضی بھی تھے اور کہا جاتا ہے بصرہ کی طرف جتنے بھی لوگ گئے ان میں سب سے زیادہ عظیم عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے ایک بیماری ان کو لائق ہو گئی تھی تیس سال وہ اس بیماری سے پریشان رہے صبر کرتے رہے اور مکمل طور پر اللہ تبارک و تعالٰی کی شکر گزاری کرتے رہے ان کے بارے میں آتا ہے کہ فرشتے ان سے بات کرتے تھے ان کی مجلس میں شریک ہوتے تھے بلکہ ان کے ساتھ رہتے تھے یہاں تک کہ انھوں نے اپنی بیماری کا علاج آگ کے ذریعے کرایا رسولﷺ نے کہا آگ " داغنا" بیماری کا علاج ہے لیکن اپنی امت کو اس سے روکتا ہوں انھوں نے علاج کرایا تو فرشتوں نے ان سے ملنا بند کر دیا پھر انھوں نے یہ علاج روک دیا اور انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ پھر سے فرشتے آنا شروع ہو گئے لیکن کچھ ہی مدت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا بصرہ ہی میں سن 52 ہجری میں)) (( اس حدیث میں جو آدمی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا کہا جاتا ہے ان کا نام خلاد ابن رافع بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا)) ما یوخذ من الحدیث : 1: تیمم غسل کے قائم مقام ہوتا ہے جنابت سے پاکی حاصل کرنے میں ۔ 2: تیمم نہیں ہوتا ہر اس شخص کے لئے جو پانی نہ پائے یا پانی کے استعمال میں نقصان کا ڈر ہو آدمی نے پیش کیا اپنے عذر کو اور وہ یہ کہ پانی نہیں ہے، رسولﷺ نے ان کو اس بات پر باقی رکھا۔ 3: مناسب نہیں ہے کسی شخص کے لئے کہ وہ کسی شخص کو کسی کام میں کوتاہی کرتے ہوئے دیکھے کہ فورا اس پر سختی کرے یا اس پر ملامت کرے، یہاں تک کہ اس سے اس کا سبب معلوم کر لے ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو، اور آپ اس کی ملامت کر بیٹھیں ۔ 4: علمی مسائل میں اجتہاد کرنے کا جواز رسولﷺ کی موجودگی میں صحابی نے گمان کیا یہ کہ جسے جنابت لائق ہو چکی ہو وہ نماز نہ پڑھے یہاں تک پانی پا لے اور ان کا ذہن اس بات کی طرف گیا کہ تیمم کی جو آیت ہے جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ حدث اصغر کے لئے خاص ہے۔      



          
الحدیث کیفیة التیمم ((عمار ابن یاسر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو لوگ مکے میں سب سے پہلے اسلام لائے یہ اور ان کا خاندان ان کے والد یاسر اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ تعالٰی عنهم یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اسلام لانے کی وجہ سے سخت سزائیں دی گئیں الله کے رسولﷺ ان کے پاس سے گزرتے اور ان کو سخت سزائیں دی جاتی آپ ﷺ انہیں نصیحت کرتے اے آل یاسر صبر کرو ان شاء الله تمهارا مقام جنت میں ہے ظلم و ستم اس قدر بڑه گئے کہ ظلم کی وجہ سے مشرکین نے ان کی والدہ کو بهی شہید کر دیا سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنها کو اور ان کے والد کو بهی شہید کر دیا یاسر رضی اللہ عنہ کو عمار ابن یاسر رسولﷺ کے ساتھ رہے رسولﷺ انہیں بہت محبوب رکهتے تهے رسولﷺ نے ہمیشہ ان کا خیال رکها رسولﷺ کے ساتھ رہنے والوں میں سے ہیں رسولﷺ کے بعد خلفہ راشدین کے دور میں بهی انهوں نے ان کا ساتھ دیا یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ان کے ساتھ رہے یہاں تک کہ صفین میں جو کہ معاویہ رضی اللہ اور علی رضی اللہ عنهما کے درمیان جو جنگ ہوئی تهی 37 ہجری میں جنگ صفین واقع ہوئی تهی تو اس جنگ میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تهے)) رسولﷺ نے مجهے کسی کام سے بهیجا میں جنبی ہو گیا اور میں نے پانی نہیں پایا میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا جیسا کہ جانور لوٹ پوٹ ہوتا ہے پهر میں اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا اس بات کا آپ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا ! تمهارے لئے یہ بات کافی تهی کہ تم اپنے دونوں ہاتهوں سے اس طرح کرتے " پهر آپ ﷺ نے مارا زمین کو ایک بار پهر آپ نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر مسح کیا اور پهر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مسح کیا پهر اپنے دونوں ہتھیلیوں کے اوپری حصے میں بهی اور اپنے چہرے کا بهی مسح کیا"" اس حدیث سے ماخوذ مسائل : 1: جنابت کے غسل کے بدلے میں تیمم کیا جا سکتا ہے ۔ 2: تیمم کرنے سے پہلے پانی تلاش کرنا ضروری ہے ۔ 3: تیمم کا طریقہ، وہ ہے زمین کو ایک دفعہ مارنا ، پھر اپنے چہرے پر مسح کرنا اور ہاتھوں کا کہنیوں تک اور پوری طور پر اس کا مسح کرنا ۔ ابن رشد رحمة اللہ فرماتے ہیں ید کا اطلاق ہتھیلیوں پر زیادہ ظاہر ہے اس کے اطلاق سے ہتھیلی اور کلائی پر۔ 4: صنعانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اس حدیث کی روایتوں میں جو عطف ہے "واؤ" کے ساتھ آیا ہے جو عطف مطلق کا فائدہ دیتا ہے اور" فا " کے ساتھ آیا ہے اور "ثم " کے ساتھ آیا ہے جو ترتیب کا فائدہ دیتے ہیں اور ترتیب زیادہ ہے اور اضافہ عادل راوی کی جانب سے قابل قبول ہے صحیحین میں جو مجموعی روایات ہیں ان میں اسے ترتیب پر محمول کیا جائے گا ۔ اور نبی کریم ﷺ سے وارد نہیں ہے ہاتھوں کو مقدم کرنا چہرے پر نہ قولی طور پر نہ فعلی طور پر ۔ 5: تیمم حدث اکبر کے بدلے میں بھی ہے جیسا کہ حدث اصغر کے لئے ہے کیفیت کے لئے بھی احکام میں بھی ۔ 6: عبادات کے مسائل میں اجتہاد جائز ہے ۔ 7: مجتہد کا اجتہاد اگر اسے غلط چیز تک پہنچائے اور اس نے وہ عبادت بھی کر لی اس کے بعد اس پر درست چیز واضح ہو جائے تو اس کے بعد وہ اپنی عبادت کو نہیں لوٹائے گا۔ ((کف : انگلی سے لے کر کلائی تک ساعد : انگلی سے لے کر کہنی تک جب عربی زبان میں ید کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کا اطلاق ہتھیلی پر ہوتا ہے ہتھیلی اور کلائی دونوں پر نہیں ہوتا ))      



          
الحدیث بیان الامور الخمسة التي خص بھا النبیﷺ ۔ ان پانچ امور کا بیان جو ہمارے نبی ﷺ کے لئے خاص کیئے گئے ہیں ان کا بیان ۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنھما سے روایت ہے : رسولﷺ نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں نہیں دی گئی کسی نبی کو مجھ سے پہلے: 1: رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ایک مہینے کی مسافت سے ۔ 2: اور بنا دی گئی میرے لئے زمین کو مسجد اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ پس جو کوئی بھی آدمی میری امت میں سے اسے نماز کا وقت ہو جائے تو وہ نماز پڑھ لے۔ 3: اور اموال غنیمت میرے لئے حلال کر دیئے گئے مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھے ۔ 4: اور شفاعت مجھے عطا کی گئی ۔ 5: اور نبی بھیجے جاتے تھے اپنی قوم کی طرف خصوصی طور پر میں بھیجا گیا سارے لوگوں کی طرف ۔ حدیث سے جو مسائل معلوم ہوتے ہیں: یہ ایک عظیم حدیث ہے اور اس میں بہت سے فوائد ہیں اور اس میں ہم صرف نمایاں فوائد پر اختصار کریں گے: 1: ہمارے نبی ﷺ کی فضیلت سارے نبیوں پر اور آپﷺ کی امت کی فضیلت ساری امتوں پر۔ 2: بندے پر اللہ کی جو نعمتیں ہیں انہیں شمار کرنا ، اور ان کا ذکر کرنا اللہ کے شکر کے طور پر اور اس کی نعمتوں کے ذکر کے طور پر عبادت شمار کیا جاتا ہے، اللہ کے شکر کے طور پر ۔ 3: رسولﷺ کا مدد کیا جانا رعب کے ذریعے اور امول غنیمت آپﷺ کے لیے حلال کیئے گئے اور آپ ﷺ عام سارے لوگوں کی طرف اور شفاعت دیئے گئے اور بنا دی گئی زمین آپﷺ کے لئے اور آپﷺ کی امت کے لئے مسجد نماز پڑھنے کی جگہ اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے یہ تمام آپ کی خصوصیتوں میں سے ہیں اور آپ کی یہ خصوصیات شمار کی گئی تو وہ 17 خصلتیں ہیں، اور یہ صنعانی کے نذدیک یہ 21 خصوصیتوں ہیں اور جو ان دو جامع کا مطالعہ کرے گا صغیر اور کبیر جامعیں کو دیکھے گا یا مطالعہ کرے گا وہ ان عدد سے بھی زیادہ پائے گا( جامع کبیر اور جامع صغیر جلال الدین عبد الرحمن ابي بکر السیوطی کی کتاب ہے 1199 میں ان کی وفات ہوئی تھی المتقی الهندی نے الفقہ کی ترتیب کے ساتھ تالیف ہے ان کی مشہور کتاب ہے الکنزل العمال من سنن اقوال و الافعال ). 4: نماز کی صحت خاص نہیں ہے کسی ایک مقام کی دوسرے مقام کے علاوہ یعنی کوئی ایک جگہ خاص نہیں ہے ۔ 5: زمین میں اصل چیز طہارت ہے زمین پاک ہے نماز کے لئے بھی اور تیمم کے لئے بھی۔ 6: ہر زمین صالح قابل ہے تاکہ اس سے تیمم کیا جائے ۔ 7: اس شریعت کی وسعت اور اس عظمت ، اسی لئے مقرر گئی گئی یہ شریعت سارے عالم کی تنظیم کے لئے سارے عالم کے لوگوں کے لیے ان کے عبادات میں اور ان کے معاملات میں ، اس کے شہروں کے مختلف ہونے کا اور ان کے فاصلوں کے دور ہونے کے باوجود بھی ( یہ شریعت سب کے لئے ہے) ۔ 8: رسولﷺ کا فرمان :" کوئی بھی آدمی " اس سے صرف مردوں کی جنس مراد کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے ان جیسی عورتیں بھی ، اس لئے کہ احکام میں عورتیں مردوں ہی کی طرح ہیں ۔ 9: صنعاني رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایک مہینے کی مساوات خاص کی گئی، اس سے دوری کی مسافت کے علاوہ، اس لئے کہ نہیں تھا آپ کے اور جس نے آپ کے لئے دشمنی ظاہر کی اس سے دوری کے فاصلے پر ( ورنہ رعب مسافت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ وہ دشمن کے لئے خاص ہے ) ۔      



         
الحدیث ۔ حکم مباشرة المرأة الحائض۔ حائض عورت سے مباشرت کا حکم ۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت ہے کہتی ہیں غسل کرتی تھی میں اور اللہ کے رسولﷺ ایک ہی برتن سے، ہم دونوں جنابت کی حالت میں ہوتے تھے، آپ ﷺ مجھے حکم دیتے تھے میں تہبند باندھ لیتی تھی آپ مجھ سے مباشرت کرتے تھے اور میں حائض ہوتی تھی، آپ ﷺ اپنا سر نکالتے تھے میری طرف اور آپ اعتکاف میں ہوتے تھے میں اسے دھوتی تھی اور میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی ۔ ما یوخذ من الحدیث: 1: دونوں جنبیوں کا ایک ایک ساتھ غسل کرنے کا جواز ایک ہی برتن سے ۔ 2: حائض سے مباشرت کا جواز شرم گاہ کے علاوہ کہ اس کا بدن پاک ہے اس میں نجاست نہیں پہنچتی نجاست یا اس کے حیض کی وجہ سے۔ 3: مستحب ہے تہبند پہننا مباشرت کے وقت ۔ 4: ان اسباب کو اپنانا جو حرام چیز میں واقع ہونے سے روکنے والی ہے ۔ 5: حائض کے مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ۔ 6: اس کے چھونے کہ مباشرت کا مباح ہونا چیزوں کو چھونے کی اباحت( جائز) چاہے وہ تر ہوں یا خشت ہوں اس میں شامل ہے بالوں کا دھونا اور کنگھی کرنا ۔ 7: معتکف اپنے سر کو مسجد سے باہر نکالے تو مسجد سے باہر شمار نہیں کیا جائے گا اس پر قیاس کیا جائے گا اس کے علاوہ دیگر اعضاء کو، جب تک کہ اپنے پورے بدن کو باہر نہ نکال دے۔  



      
الحدیث۔ باب الحیض: حیض کی تعریف: ایک طرح کا خون ہے الله تعالیٰ نے اسے بنایا ہے اپنی رحمت اور حکمت کی وجہ سے اس کے پیٹ میں موجود بچے کی غذا کے لئے جب وہ بچے کو پیدا کر دیتی ہے تو وہی حیض تبدیل ہو جاتا ہے دودھ میں اپنے بچے کی غذا کے لئے . (دو حالتوں میں خون کا استعمال ہوا ایک تو بچے کی غذا کے لئے اور وضع حمل کے بعد بچے کے دودھ کے لئے) پھر اگر وہ حامل اور مرضع ( دودھ پلانے والی) نہ ہو تو ظاہر ہوتا ہے نکلتا ہے جو زائد خون ہے مخصوص ایام میں ۔ اس لئے کہ نادر ہے کہ حامل حائضہ ہو جائے یا مرضع ہو ( عورت کو حمل اور رضاعت میں حیض نہیں آتا اگر آتا ہے تو وہ نادر ہے) ۔ اور اس کے (حیض کے) خروج سے متعلق ہیں کچھ کام عبادات اور بعض دیگر چیزوں میں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش نے رسولﷺ، سے پوچھا: میں حائضہ ہوتی ہوں پاک نہیں ہوتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ رسولﷺ نے فرمایا: نہیں، بے شک وہ ایک رگ ہے ، لیکن ایام چھوڑ دو ان ایام کے برابر جس میں تمھے حیض آتا ہے ، پھر غسل کرو اور نماز پڑھو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ خون حیض کا خون نہیں ہے، جب حیض جاری ہو تو ان ایام میں نماز چھوڑ دو، جب اس(حیض) کے برابر ایام گزر جائیں تو خون دھو لو اور نماز پڑھو " ما یوخذ من الحدیث: 1: استحاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق استحاضہ کا خون مسلسل جاری رہنے والا ہے اور حیض کے خون کا خاص وقت ہے۔ 2: استحاضہ کا خون نماز سے نہیں روکتا اسی طرح ساری عبادات چاہے وہ روزہ ہو چاہے دوسری چیزیں ہوں ( استحاضہ تمام عبادات کرے گی) ۔ 3: حیض کا خون مانع یعنی منع کرتا ہے نماز سے اس کی قضا کے بغیر ابن وقیق رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے یہ بات اجماع کی طرح ہے متاخرین اور متقدمین کے درمیان سوائے خوارج کے ۔ 4: مستحاضہ اپنے حیض کی عادت کے ایام کو جانتی ہے وہ ان کا حساب کرے گی، بعد میں غسل کرے گی ایام کے ختم ہونے کے بعد ، تاکہ وہ قائم کرے اپنے پاکیزگی کے ایام میں ان عبادات کو جن سے حائضہ گریز کرتی ہے (نماز اور روزہ)۔ 5: حیض کا خون نجس ہے اس کو دھونا واجب ہے۔ 6: واجب نہیں ہے مستحاضہ پر بار بار غسل کرنا ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد۔ 7: ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ رسولﷺ کا قول " خون کو دھو لو اور نماز پڑھ لو" اس کے ظاہر میں ایک مشکل ہے، اس لئے کہ آپﷺ نے غسل کا ذکر نہیں کیا، اور اس میں ضروری ہے حیض کے ایام گزر جانے کے بعد غسل کرنا- اس کا صحیح جواب ہے کہ یہ روایت اگرچہ کہ اس میں ذکر نہیں کیا گیا غسل کا اس کے باوجود بھی وہ اس کو شامل ہے غسل کے دوسری صحیح روایت میں ذکر آنے کی وجہ سے جس میں رسولﷺ نے فرمایا : " غسل کرو" ( دونوں روایتوں کو جمع کریں گے تو اس کا حکم صاف معلوم ہوتا ہے )۔ (ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا: نبوت کے چھے سال بعد جب چھے سال ان کی عمر تھی اللہ کے رسولﷺ سے ان کا نکاح ہوا نو سال کی عمر میں ان کی ودائی ہوئی جب رسولﷺ کی وفات ہوئی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی عمر 18 سال تھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے 2210 حدیثیں مروی ہیں جن میں متفق الیہ 174 ہیں اور صحیح بخاری میں 54 اور صحیح مسلم میں 69 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا انتقال 57 ہجری میں ہوا) (فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ تعالٰی عنھا عبداللہ بن جحش سے ان کا نکاح ہوا تھا ان سے ایک لڑکے پیدا ہوئے ان کا نام محمد تھا عام طور پر ان کا ذکر اس سلسلے کے بارے میں آتا ہے جو یہاں بیان کیا وہ اسدیہ تھیں قبیلہ اسد سے تعلق رکھتی تھیں ) استحاضہ وہ خون ہے جو رحم کے نیچے ہوتا ہے۔ حیض وہ خون ہے جو رحم کے اندر ہوتا ہے ۔      



         
الحدیث۔ باب حکم المستحاضة۔ استحاضہ کا حکم ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا استحائضہ ہو گئی سات سالوں تک اللہ کے رسولﷺ سے انھوں نے اس بارے میں پوچھا آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا وہ غسل کریں ام حبیبہ رضی اللہ عنھا ہر نماز کے بعد غسل کرتی تھیں. اختلاف العلماء: علماء نے اختلاف کیا مستحاضہ کے غسل کے بارے میں ہر نماز کے لئے وہ واجب ہے یا نہیں ۔ بعض علماء اس طرف گئے ہوئے ہیں کہ وہ واجب ہے ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں سنن کی کتابوں میں ۔ جمھور اس طرف گئے ہیں سلف میں سے اس میں علی ، ابن عباس ، اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھم اور خلف اور متاخرین بھی ہیں اور متاخرین میں امام ابو حنیفہ ، اور امام احمد اور امام مالک ہیں اس کے عدم وجوب کی طرف( غسل واجب نہ ہونے کی طرف گئے ہیں ) استدلال کرتے ہوئے براءة اصلیہ کے ذریعہ ، یہ کہ وہ واجب نہیں ہے، اور انھوں نے جواب دیا ان احادیث کا جن پر غسل کا حکم ہے کہ ان میں کوئی ثابت حکم نہیں ہے۔ اب رہا ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا ہر نماز کے وقت پر غسل کرنا، وہ ان کی اپنی جانب سے تھا، نبی کریم ﷺ کا حکم نہیں تھا ہر نماز کے لئے رسولﷺ نے انہیں صرف غسل کا حکم دیا،( حیض سے پاک ہونے کے بعد ) جیسا کہ ثابت شدہ روایات میں ہے۔ ابن دقیق رحمة اللہ نے ذکر کیا نہیں ہے صحیحین میں اور نہ ان میں سے کسی ایک میں کہ آپﷺ نے انہیں حکم دیا ہو غسل کرنے کا ہر نماز میں ۔ ما یوخذ من الحدیث: مستحاضہ پر غسل کا وجوب اس کے حیض کے ایام کی مدت گزرنے کے بعد( حیض کے ایام گزر جانے کے بعد غسل واجب ہے مستحاضہ پر )۔ ( سنن حدیث کی ان کتابوں کو کہتے ہیں جس میں احکام کے متعلق مسائل جمع کیئے گئے ہوں مثلا نماز، زکوۃ، حج ، تجارت وغیرہ ابن ماجہ، نسی ، ترمذی یہ سب سنن میں آتے ہیں )۔ ( جامع اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں دین سے متعلق سب مسائل ہوں جس میں عقائد، تفسیر،سیرت ، فضائل ، مناقب اور احکام جیسے بخاری، مسلم ، ابوداؤد جو جامع ہے وہ سنن بھی ہے ) (( ام حبیبہ رضی اللہ عنھا یہ امہات المومنین میں سے ہیں انھوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی وہاں ان کے شوہر نصرانی ہو گئے تھے وہیں وہ مر گئے تھے پھر رسولﷺ نے نجاشی کو لکھا تھا کہ وہ ام حبیبہ جو ابو سفیان کی بیٹی ہے ان سے رسولﷺ کا نکاح کرا دیں ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا اصل نام ہے رمله بنت ابی سفیان ہے یہ ہجرت سے 25 سال پہلے پیدا ہوئیں سن 44 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ان کئ کل 65 احادیث ہیں اور کتب ستہ میں 29 احادیث ہیں 68 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلافت کے ایام میں ان کا انتقال ہوا اللہ کے رسولﷺ کی وفات کے بعد 33 سال زندہ رہیں ))      



       
الحدیث۔ الحائض لا تقضي الصلاة و لکن تقضي الصوم ۔ حائض قضاء نہیں کرے گی نماز کی لیکن روزے کی قضاء کرے گی ۔ معاذہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کہتی ہیں میں نے پوچھا عائشہ رضی اللہ عنھا سے پس میں نے کہا : کیا وجہ ہے حائض قضاء کرتی ہے روزے کی اور قضاء نہیں کرتی نماز کی؟ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے فرمایا : کیا تم خوارج میں سے ہو؟ میں نے کہا: میں خوارج میں سے نہیں ہوں ۔لیکن میں سوال کر رہی ہوں ۔ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے فرمایا : یہ لاحق ہوتا تھا ہمیں یعنی (حیض) رسولﷺ کے دور میں پس ہمیں حکم دیا جاتا تھا روزے کی قضاء کا اور حکم نہیں دیا جاتا تھا نماز کی قضاء کا۔ ما یوخذ من الحدیث: 1: حائض روزوں کی قضاء کرے گی نماز کی قضاء نہیں کرے گی، اس لئے کہ نماز بار بار آتی ہے ہر دن پانچ مرتبہ وہ ایک جاری رہنے والی عبادت ہے اور اس کو لوٹانے میں مشقت بھی ہوتی ہے ۔ 2: نبی کریم ﷺ کا اپنی امت کے کسی عمل کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا کسی چیز کو دیکھ کر سنت شمار کیا جاتا ہے۔ 3: انکار کرنا ہر اس شخص پر جو سوال کرے ہٹدھرمی اور بحث و مباحثہ کی غرض سے۔ 4: معلم کا واضح کرنا جو اس سوال کا جواب طلب کرے سیکھنے کے لئے اور رہنمائی طلب کرنے کی غرض سے ۔ 5: حائض کا مشقت کی وجہ سے نماز کو قضاء نہ کرنا ان دلائل میں سے ہے جو اسلامی قاعدے کو ثابت کرتی ہے اسلام کے عام قاعدے کو ( بے شک مشقت اپنے ساتھ آسانی لاتی ہے)۔ ( معاذہ بنت عبد اللہ الادویہ رضی اللہ تعالٰی عنھا یہ تابعین میں سے ہیں ثقہ ہیں مدینے کی فقیہات میں سے ہیں سن 80 ہجری میں ان کا انتقال ہوا)      



          
الحدیث ۔ حکم مباشرة المراة الحائض ۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ٹیک لگاتے تھے میری گود میں اور میں حائضہ ہوتی تھی اور آپﷺ قرآن پڑھتے تھے۔ ما یوخذ من الحدیث: 1:حائض کی گود میں قرآن پڑھنے کا جواز اس لئے کہ وہ بدن اور کپڑوں کے لحاظ سے پاک ہے ۔ 2: حائض پر قرآن پڑھنے کی حرمت ، دلیل لیتے ہوئے حائض کی گود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت کے وہم سے( وہم ہے مؤلف رحمہ اللہ کا یہ قول ضعیف ہے ) اس بات کو ابن دقیق رحمہ اللہ نے کہا ۔      



          
الحدیث باب المواقیت الواقیت: مواقیت میقات کی جمع ہے اور میقات کہتے ہیں اور یہاں مراد ہے زمانی اوقات جو مخصوص اور محدود کی ہوئی مقدار ہے فرض نماز اور دیگر نمازوں کے پڑھنے کے لئے جو وقت محدود کیا گیا ہے اس سے مراد ہے ۔ اور فرض نماز کے وقت کا داخل ہونا، یہ دوسری شرط ہے، نماز کی شرائط میں سے۔ ابو عمرو شیباني رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے اور ان کا نام ہے " سعد بن ایاس" کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا اس گھر کے آدمی نے۔اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر کی طرف - کہا : میں نے رسولﷺ سے پوچھا اللہ تبارک و تعالٰی کے نزدیک کون سا عمل سب سے محبوب ہے رسولﷺ نے فرمایا: " نماز وقت پر پڑھنا"۔ میں نے کہا پھر کون سا؟ " والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا" میں نے کہا اس کے بعد کون سا؟ آپﷺ نے فرمایا : " اللہ کے راستے میں جہاد کرنا " عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ باتیں مجھے اللہ کے رسولﷺ نے فرمائیں، اور اگر میں مزید کا مطالبہ کرتا تو آپ مجھے مذید جواب دیتے۔ ما یوخذ من الحدیث: 1: تمام اعمال میں اللہ تعالٰی کو سب سے محبوب، نماز کو وقت پر پڑھنا ہے، پھر والدین سے حسن سلوک کرنا ہے، پھر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اور یہ اصل ایمان کی موجودگی کے بعد ہے۔ اس لئے کہ عبادات اس کی شاخیں ہیں اور وہ یعنی ایمان اس کی بنیاد ہے۔ 2: اس سوال سے مقصود اعمال بدنی ہے، جواب کو خاص کرنے کے قرینے کی دلیل سے نماز، والدین کےساتھ حسن سلوک اور جہاد کے ساتھ ( اس سے معلوم ہوتا ہے سوال سے مقصود بدنی اعمال تھے)، اور داخل نہیں ہوئے سوال میں اور اسی طرح جواب میں بھی کوئی چیز دل کے اعمال کی جس میں سب سے بلند ایمان ہے۔ 3: اعمال فضیلت کے اعتبار سے ایک ہی درجے میں نہیں ہیں، بلکہ وہ مختلف درجوں میں ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی کے قریب کرنے کے اعتبار سے،اور اس کے نفع کے اعتبار سے، اور اس کی مصلحت کی اعتبار سے۔ انھوں نے سوال کیا تھا، اعمال میں کس عمل کو مقدم کرنا بہتر ہے ۔ 4: بعض اعمال دوسرے اعمال سے فضیلت رکھتے ہیں اس عمل سے اللہ کی محبت کی وجہ سے اس عمل سے ۔ 5: محبت کی صفت کا ثابت ہونا اللہ کے لئے ، ایسا ثابت ہونا جو اس کی جلالت کے شایان شان ہے ۔ 6: علم کے بارے میں سوال کرنے کی فضیلت، خاص طور پر اہم چیزوں کے بارے میں ۔اس سوال نے بہت عظیم نفع کا فائدہ دیا ۔ 7: علم کے بارے میں بعض سوالوں کو چھوڑ دینا بعض اسباب کے پیش نظر جیسا کہ تنگی کے خوف سے اور جن سے سوال کیا جا رہا ہے ان کی ہیبت رعب یا خوف کی وجہ سے۔ ((زمان اور مکان کو ایک مخصوص زمانے کو کہتے ہیں یا مخصوص جگہ کو کہتے ہیں جب ہم میقات الصلاة کہتے ہیں اس سے مراد میقات زمانی مراد ہوتی ہے عام پر نماز کے اوقات اور جب مواقیت الحج کہتے ہیں تو وہ میقات مقانی مراد ہوتے ہیں وہ جگہ جہاں سے ہم حج کا احرام باندھتے ہیں عام طور پر ورنہ حج میں بھی میقات زمانی ہے )) (( سعد بن ایاس ہے ان کی کنیت ابو عمرو ہے اور شیبانی ان کا خاندان ہے وہ کہتے ہیں یہ رسولﷺ کے دور میں تھے لیکن ان کی ملاقات رسولﷺ سے نہیں ہوئی تھی یہ رسولﷺ کی وفات کے بعد مدینہ پہنچے اس لئے یہ تابعین میں آتے ہیں گرچہ کہ رسولﷺ کا زمانہ انھوں نے پایا تھا یہ مدینہ پہنچے اس کے بعد کوفہ منتقل ہوئے وہاں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت میں رہے انھوں نے بہت سی احادیث روایت کی ہیں ان کے انتقال کے وقت ان کی عمر ایک سو بیس 120 سال تھی 95 ھجری میں ان کا انتقال ہوا ثقہ راوی ہیں )) ((عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ کافی عظیم صحابی ہیں کنیت ابو عبد الرحمن اسلام لانے میں ان کا نمبر چھے ہے رسولﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینے کے باہر کسی کام سے گئے یہ بکریاں چراتے تھے ان کو ابن ام عبد کہا جاتا تھا ابن ام عبد سے یہ ابن ام عبد ان کی والدہ تھیں مورخین نے اس بات کا ذکر کیا ہے وہ اپنے والد کے بجائے عام طور پر والدہ کی طرف اس لئے منصوب کیئے جاتے تھے ان کے والد نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا تھا جاہلیت کے زمانے میں ان کا انتقال ہوا ان کی والدہ نے اسلام کا زمانہ پایا وہ مسلمان تھیں صحابیہ تھیں اس لئے ان کو ان کی والدہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ابن ام عبد کہا جاتا تھا معروف ہیں رسولﷺ نے کہا اگر تمھارے پاس دودھ ہو تو ہمیں پینے کے لئے دے دو وہ دونوں تھکے ماندے تھے انھوں نے کہا میں بکری کا مالک نہیں ہوں یہ مالک کی بکریاں ہیں میں ان کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا رسولﷺ نے کہا ان میں سے کون سی ایسی بکری ہے جو دودھ نہیں دیتی وہ ہمارے پاس لے کر آؤ تو وہ ایک چھوٹے سے بچے کو رسولﷺ کے پاس لائے رسولﷺ نے کچھ پڑھا اور اس کو ہاتھ لگایا تو اس کے بعد اس نے اتنا دودھ دیا کہ تینوں نے شکم سیر ہو کر پیا یہ معجزہ تھا جو انھوں نے دیکھا اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ہمیشہ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ رہے رسولﷺ نے فرمایا جو قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہتا ہے جیسے وہ نازل ہوا ہے تو وہ چار صحابہ سے قرآن سیکھے عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابو حزیفہ، معاذ ابن جبل ، ابی ابن کعب ان لوگوں سے اللہ کے رسولﷺ نے قرآن سیکھنے کو کہا تھا یہ رسولﷺ کے ساتھ یہ ہمیشہ رہے سارے غزوات میں شریک رہے دونوں ھجرتیں انھوں نے کیں حبشہ کی طرف اور مدینہ کی طرف بھی عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دار خلافت میں انہیں کوفہ کا قاضی بنایا اور مالی امور کا انہیں ذمہ دار بنایا سن 32 ھجری میں ان کا انتقال ہوا مدینہ میں اور جنت البقیع میں یہ دفن ہوئے اور عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی کا خلافت کا دور تھا انھوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس وقت ان کی وفات ہوئی یہ 60 سال سے زیادہ عمر تھی ان سے آٹھ سو اڑتالیس 848 ان میں متفق الیہ 64 احادیث ہیں اور صحیح بخاری میں 21 اور صحیح مسلم میں 35 ہیں )      



       
باب المواقیت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے فرماتی ہیں: اللہ کے رسولﷺ فجر کی نماز پڑھاتے تھے مومن عورتیں آپ کے ساتھ حاضر ہوتی تھیں اوڑھی ہوئی اپنی چادریں، پھر واپس ہوتی تھیں اپنے گھروں کو نہیں پہچانتے تھے ان کو کوئی اندھیرے کی وجہ سے کہا: مروط نشان زرہ کپڑے جو ریشم کے ہوتے، یا پھر اون کے ہوتے۔ متلفیات کے معنی ہیں ملتحفات اوڑھی ہوئی لحاف اسی سے ہے اور غلس صبح کی روشنی کا رات کی تاریکی سے ملنا ایسی تاریکی جس میں صبح کی روشنی کی امیزش ہو۔ ما یوخذ من الحدیث : اولا: صبح کی نماز میں جلدی کرنے کا استحباب اس کے اول وقت میں ۔ ثانیا: عورتوں کے مسجد میں آنے کا جواز مردوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے فتنے کا خوف نہ ہونے کی صورت میں ، اپنے آپ کو زیب وزینت سے بچاتے ہوئے ۔ ( لفظ غلس سے صبح کی نماز میں جلدی کرنا معلوم ہوتا ہے ان کی واپس کے وقت میں اتنی تاریکی ہوتی کہ ان کو پہچانتے نہیں تھے اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے) ( مروط جمع ہے مرط نشان ذدہ چادریں نقش و نگار والی چادریں ) ( غلس ایسا اندھیرا جس میں صبح کی روشنی کی امیزش ہو )      



          
الحدیث
کتاب: مختلف ابواب فصول کے مجموعے کو کہتے ہیں ۔ باب : ایک ہی موضوع سے متعلق مسائل کے مجموعہ کو کہتے ہیں ۔ فصل : مختلف مسائل کو الگ الگ بیان کرنے کو کہتے ہیں ۔ کتاب الصلاة مسائل دو طرح کے ہیں ایک نظری جس کو ہم عقیدہ کہتے ہیں ۔ عملی عملى جس کو ہم عبادات کہتے ہیں ۔ مقدمہ شروع میں کچھ ضروری باتیں رکھنے کو مقدمہ کہتے ہیں جو تقدیم سے ہے جس کے معنی پیش کرنے کے ہیں اس باب میں کیا چیز پیش ہو گی اس موضوع سے متعلق ضروری باتیں جو بیان کی جائیں ۔ الصلاة کے لغت میں معنی دعا کے ہیں ۔قاضی عیاض رحمہ اللہ یہ اکثر اہل عرب اور فقہاء کا قول ہے صلاة کے معنی دعا کے ہیں . اور عرب میں دعا کو صلاة کا نام دینا معروف ہے۔( لیکن شریعت میں ایک عبادت کا نام ہے) ۔دعا اور نماز میں جز (حصہ) کا تعلق ہے ۔اس لئے کہ دعا حصہ ہے نماز کا اس لئے کہ نماز دعا میں شامل ہے۔ اور شریعت میں:" مخصوص اقوال اور مخصوص افعال کا نام ہے جس کا آغاز ہوتا ہے تکبیر سے اور اختتام ہوتا ہے سلام سے نیت کے ساتھ "۔ اور پانچ وقت کی نمازیں اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، بلکہ شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے۔ اور وہ ثابت ہے کتاب سے سنت سے اور اجماع سے(اجماع وقت کے تمام علماء کا کسی بات پر متفق ہونا)، جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہو گیا۔ اور اس کے مشروع کرنے میں بہت سے ایسے فوائد ہیں جن کو شمار کرنا مشکل ہے دینی اور دنیاوی طور پر بھی، اور صحت اور اجتماعیت کے أعتبار سے بھی ، سیاسی اور انتظامی طور پر بھی۔ اور اگر کوئی لکھنے والا انہیں شمار کرنے لگے ایک ایک کر کے ، تو کلام بہت طویل ہو جائے گا ۔ اور اللہ سبحان و تعالٰی جو احکم الحاکمین ہے ( تمام فیصلوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا) ، جب اس نے فرض کیا، اس کے قائم کرنے میں دنیا اور آخرت کا قیام ہے۔ اور نماز کے کچھ فرائض ہیں، اور شروط ہیں، اور اسے مکمل کرنے والی کچھ چیزیں ہیں، جیسے اس کو باطل کرنے والی چیزیں اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی چیزیں ہیں یہ( پانچ چیزیں ہیں 1فرائض، 2شروط، 3سنن، 4 کچھ چیزیں باطل کرتی ہیں اس کو، 5 اور کچھ چیزیں باطل نہیں کرتی ثواب کو کم کر دیتی ہیں) ۔ گزر چکی ہے اس کی ایک شرط، اور وہ طہارت ہے، اور اس کے بقیہ احکام آنے والی احادیث میں آ رہے ہیں ان شاء اللہ ۔ فروض : یہ لازمی حصہ ہے جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی ان ضروری اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور وہ نماز کا حصہ ہے سورتہ الفاتحہ، رکوع ، سجود۔ شروط: شروط نماز کے پہلے کچھ کام ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس کو نماز سے پہلے کرنے ہوتے ہیں یہ آخر تک قائم رہتے ہیں مثال کے طور پر قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنا، وضو ، ستر ڈھانپنا بدن ڈھانپنا۔ سنن : سنن ان کو کہتے ہیں جن کے بغیر نماز ہو جاتی ہے لیکن ان کا اہتمام کرنے پر نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے سورتہ الفاتحہ سے پہلے بسم اللہ کہنا ، آمین کہنا، رفع الیدین کرنا ، ایک بار سے زائد دفعہ سبحان رب العظيم کہنا یا سبحان رب الاعلی کہنا یہ یہ سنن ۔ مبطلات: جس کے کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے نماز کے دوران بات کرنا، کھانا، پینا، ہنسنا وغیرہ۔ منقصات : وہ جو نماز کے ثواب کو کم کر دیتی ہے مکروہات مثلا اپنے سر کو کھجانا، اپنے کپڑوں کو چھیڑنا یہ ثواب کو کم کر دیتی ہیں ۔ (( دینی فائدہ : یہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے اور جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ دنیاوی فائدہ: صحت کے لحاظ سے مفید ہے اور ہماری اجتماعیت کو مضبوط کرنے والا ہے مسلمان مسجد میں ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں ایک وقت میں ادا کرتے ہیں ۔ سیاسی فائدہ مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے ایک مخصوص وقت میں اس کو پڑھتے ہیں نظم و ضبط ڈسپلن کے اعتبار سے بھی اس کے بہت سے فوائد ہیں۔)) (( قاضی ابو الفضل عیاض ابن موسی رحمہ اللہ 476 پیدائش ہوئی 544 میں ان کی وفات ہوئی مالکی ہیں اور بہت بڑے عالم ہیں کئی کتابوں کے مؤلف ہیں مغرب میں پیدا ہوئے علم کے حصول کے لئے مختلف جگہوں میں ھجرت کی یہاں تک کہ مغرب میں واپس آئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا مغرب کے بہت بڑے علماء میں سے ہیں ))۔      



        
باب المواقیت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز پڑھاتے تھے زوال کے فوری بعد (سخت دھوپ کے وقت پر) اور عصر کی نماز پڑھاتے تھے جب سورج صاف چمکتا ہوا ہوتا تھا، اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج غروب ہو جاتا ، اور عشاء میں کبھی جلدی کرتے اور کبھی تاخیر کرتے۔ جب دیکھتے کہ صحابہ جمع ہو چکے ہیں تو آپ جلدی کرتے اور جب دیکھتے کہ انھوں نے تاخیر کر دی ہے تو وہ تاخیر کر دیتے، اور صبح کی نماز نبی کریم ﷺ پڑھاتے تھے اندھیرے کے وقت ۔ ما یوخذ من الحدیث اولا : نماز میں جلدی کرنے کی افضلیت اس کے پہلے وقت میں سوائے عشاء کے ۔ ثانیا: عشاء میں تاخیر کرنا افضل ہے اور یہ تاخیر آدھی رات تک ہو گی، جیسا کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث آئی ہیں، سوائے اس کے کہ مصلی جمع ہو جائیں تو وہ پڑھ لی جائے گی ان پر انتظار کے مشقت کے خوف سے۔ ثالثا: امام کے لئے افضل ہے کہ مقتدیوں کے حالت کی رعایت کرے ہلکی نماز کرتے ہوئے کامل پڑھتے ہوئے اور کبھی طویل کرتے ہوئے تنگی کے بغیر ۔ رابع: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا چائیے، اور یہ دلیل ہے اس کے خلاف جو یہ رائے رکھتا ہے روشنی میں پڑھنے کی جیسا کہ گزر چکا۔ خامس: حدیث میں دلیل ہے نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا یہ افضل ہے نماز میں اس کے اول وقت میں پڑھنے کے مقابلے میں ۔ اور یہ جماعت کی رعایت کرنے کی وجہ سے عشاء کی نماز میں ۔ ((جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ھجرت سے سولہ سال پہلے یہ مدینے میں پیدا ہوئے انصاری صحابی ہیں بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے اور یہ اپنے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے تھے بدر اور احد میں شریک نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کے والد اس میں شریک ہوئے تھے اس لئے انھوں نے گھر میں دیکھ بھال کے لئے ان کو چھوڑ دیا تھا ان کی بہت زیادہ بہنیں تھیں اس لیے یہ شریک نہیں ہو سکے تھے غزوہ احد میں ان کے والد کا انتقال ہوا اس کے بعد انھوں نے تمام غزوات میں شرکت کی اللہ کے رسولﷺ ان کا بہت خیال رکھتے تھے علم سے انہیں بہت رغبت تھی انہی کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالٰی سے ایک حدیث پوچھنے کے لئے مدینہ سے مصر کا سفر کیا تھا ان سے 1540 حدیثیں مروی ہیں جن میں 58 متفق الیہ ہیں 26 صحیح بخاری میں ہیں اور 126 صحیح مسلم میں ہیں 74ھجری میں ان کا انتقال ہوا کہتے ہیں کہ مدینے میں جو اب سے آخر میں صحابہ تھے سب سے آخر میں ان کا انتقال ہوا ان کی عمر انتقال کے وقت 94 سال تھی اور ابان بن عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی))      



         
باب المواقیت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے فرماتی ہیں: اللہ کے رسولﷺ فجر کی نماز پڑھاتے تھے مومن عورتیں آپ کے ساتھ حاضر ہوتی تھیں اوڑھی ہوئی اپنی چادریں، پھر واپس ہوتی تھیں اپنے گھروں کو نہیں پہچانتے تھے ان کو کوئی اندھیرے کی وجہ سے کہا: مروط نشان زرہ کپڑے جو ریشم کے ہوتے، یا پھر اون کے ہوتے۔ متلفیات کے معنی ہیں ملتحفات اوڑھی ہوئی لحاف اسی سے ہے اور غلس صبح کی روشنی کا رات کی تاریکی سے ملنا ایسی تاریکی جس میں صبح کی روشنی کی امیزش ہو۔ ما یوخذ من الحدیث : اولا: صبح کی نماز میں جلدی کرنے کا استحباب اس کے اول وقت میں ۔ ثانیا: عورتوں کے مسجد میں آنے کا جواز مردوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے فتنے کا خوف نہ ہونے کی صورت میں ، اپنے آپ کو زیب وزینت سے بچاتے ہوئے ۔ ( لفظ غلس سے صبح کی نماز میں جلدی کرنا معلوم ہوتا ہے ان کی واپس کے وقت میں اتنی تاریکی ہوتی کہ ان کو پہچانتے نہیں تھے اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے) ( مروط جمع ہے مرط نشان ذدہ چادریں نقش و نگار والی چادریں ) ( غلس ایسا اندھیرا جس میں صبح کی روشنی کی امیزش ہو )      



          
الحدیث کتاب: مختلف ابواب فصول کے مجموعے کو کہتے ہیں ۔ باب : ایک ہی موضوع سے متعلق مسائل کے مجموعہ کو کہتے ہیں ۔ فصل : مختلف مسائل کو الگ الگ بیان کرنے کو کہتے ہیں ۔ کتاب الصلاة مسائل دو طرح کے ہیں ایک نظری جس کو ہم عقیدہ کہتے ہیں ۔ عملی عملى جس کو ہم عبادات کہتے ہیں ۔ مقدمہ شروع میں کچھ ضروری باتیں رکھنے کو مقدمہ کہتے ہیں جو تقدیم سے ہے جس کے معنی پیش کرنے کے ہیں اس باب میں کیا چیز پیش ہو گی اس موضوع سے متعلق ضروری باتیں جو بیان کی جائیں ۔ الصلاة کے لغت میں معنی دعا کے ہیں ۔قاضی عیاض رحمہ اللہ یہ اکثر اہل عرب اور فقہاء کا قول ہے صلاة کے معنی دعا کے ہیں . اور عرب میں دعا کو صلاة کا نام دینا معروف ہے۔( لیکن شریعت میں ایک عبادت کا نام ہے) ۔دعا اور نماز میں جز (حصہ) کا تعلق ہے ۔اس لئے کہ دعا حصہ ہے نماز کا اس لئے کہ نماز دعا میں شامل ہے۔ اور شریعت میں:" مخصوص اقوال اور مخصوص افعال کا نام ہے جس کا آغاز ہوتا ہے تکبیر سے اور اختتام ہوتا ہے سلام سے نیت کے ساتھ "۔ اور پانچ وقت کی نمازیں اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، بلکہ شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے۔ اور وہ ثابت ہے کتاب سے سنت سے اور اجماع سے(اجماع وقت کے تمام علماء کا کسی بات پر متفق ہونا)، جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہو گیا۔ اور اس کے مشروع کرنے میں بہت سے ایسے فوائد ہیں جن کو شمار کرنا مشکل ہے دینی اور دنیاوی طور پر بھی، اور صحت اور اجتماعیت کے أعتبار سے بھی ، سیاسی اور انتظامی طور پر بھی۔ اور اگر کوئی لکھنے والا انہیں شمار کرنے لگے ایک ایک کر کے ، تو کلام بہت طویل ہو جائے گا ۔ اور اللہ سبحان و تعالٰی جو احکم الحاکمین ہے ( تمام فیصلوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا) ، جب اس نے فرض کیا، اس کے قائم کرنے میں دنیا اور آخرت کا قیام ہے۔ اور نماز کے کچھ فرائض ہیں، اور شروط ہیں، اور اسے مکمل کرنے والی کچھ چیزیں ہیں، جیسے اس کو باطل کرنے والی چیزیں اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی چیزیں ہیں یہ( پانچ چیزیں ہیں 1فرائض، 2شروط، 3سنن، 4 کچھ چیزیں باطل کرتی ہیں اس کو، 5 اور کچھ چیزیں باطل نہیں کرتی ثواب کو کم کر دیتی ہیں) ۔ گزر چکی ہے اس کی ایک شرط، اور وہ طہارت ہے، اور اس کے بقیہ احکام آنے والی احادیث میں آ رہے ہیں ان شاء اللہ ۔ فروض : یہ لازمی حصہ ہے جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی ان ضروری اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور وہ نماز کا حصہ ہے سورتہ الفاتحہ، رکوع ، سجود۔ شروط: شروط نماز کے پہلے کچھ کام ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس کو نماز سے پہلے کرنے ہوتے ہیں یہ آخر تک قائم رہتے ہیں مثال کے طور پر قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنا، وضو ، ستر ڈھانپنا بدن ڈھانپنا۔ سنن : سنن ان کو کہتے ہیں جن کے بغیر نماز ہو جاتی ہے لیکن ان کا اہتمام کرنے پر نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے سورتہ الفاتحہ سے پہلے بسم اللہ کہنا ، آمین کہنا، رفع الیدین کرنا ، ایک بار سے زائد دفعہ سبحان رب العظيم کہنا یا سبحان رب الاعلی کہنا یہ یہ سنن ۔ مبطلات: جس کے کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے نماز کے دوران بات کرنا، کھانا، پینا، ہنسنا وغیرہ۔ منقصات : وہ جو نماز کے ثواب کو کم کر دیتی ہے مکروہات مثلا اپنے سر کو کھجانا، اپنے کپڑوں کو چھیڑنا یہ ثواب کو کم کر دیتی ہیں ۔ (( دینی فائدہ : یہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے اور جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ دنیاوی فائدہ: صحت کے لحاظ سے مفید ہے اور ہماری اجتماعیت کو مضبوط کرنے والا ہے مسلمان مسجد میں ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں ایک وقت میں ادا کرتے ہیں ۔ سیاسی فائدہ مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے ایک مخصوص وقت میں اس کو پڑھتے ہیں نظم و ضبط ڈسپلن کے اعتبار سے بھی اس کے بہت سے فوائد ہیں۔)) (( قاضی ابو الفضل عیاض ابن موسی رحمہ اللہ 476 پیدائش ہوئی 544 میں ان کی وفات ہوئی مالکی ہیں اور بہت بڑے عالم ہیں کئی کتابوں کے مؤلف ہیں مغرب میں پیدا ہوئے علم کے حصول کے لئے مختلف جگہوں میں ھجرت کی یہاں تک کہ مغرب میں واپس آئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا مغرب کے بہت بڑے علماء میں سے ہیں ))۔      



         
باب المواقیت الحدیث الثالث جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز پڑھاتے تھے زوال کے فوری بعد (سخت دھوپ کے وقت پر) اور عصر کی نماز پڑھاتے تھے جب سورج صاف چمکتا ہوا ہوتا تھا، اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج غروب ہو جاتا ، اور عشاء میں کبھی جلدی کرتے اور کبھی تاخیر کرتے۔ جب دیکھتے کہ صحابہ جمع ہو چکے ہیں تو آپ جلدی کرتے اور جب دیکھتے کہ انھوں نے تاخیر کر دی ہے تو وہ تاخیر کر دیتے، اور صبح کی نماز نبی کریم ﷺ پڑھاتے تھے اندھیرے کے وقت ۔ ما یوخذ من الحدیث اولا : نماز میں جلدی کرنے کی افضلیت اس کے پہلے وقت میں سوائے عشاء کے ۔ ثانیا: عشاء میں تاخیر کرنا افضل ہے اور یہ تاخیر آدھی رات تک ہو گی، جیسا کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث آئی ہیں، سوائے اس کے کہ مصلی جمع ہو جائیں تو وہ پڑھ لی جائے گی ان پر انتظار کے مشقت کے خوف سے۔ ثالثا: امام کے لئے افضل ہے کہ مقتدیوں کے حالت کی رعایت کرے ہلکی نماز کرتے ہوئے کامل پڑھتے ہوئے اور کبھی طویل کرتے ہوئے تنگی کے بغیر ۔ رابع: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا چائیے، اور یہ دلیل ہے اس کے خلاف جو یہ رائے رکھتا ہے روشنی میں پڑھنے کی جیسا کہ گزر چکا۔ خامس: حدیث میں دلیل ہے نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا یہ افضل ہے نماز میں اس کے اول وقت میں پڑھنے کے مقابلے میں ۔ اور یہ جماعت کی رعایت کرنے کی وجہ سے عشاء کی نماز میں ۔ ((جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ھجرت سے سولہ سال پہلے یہ مدینے میں پیدا ہوئے انصاری صحابی ہیں بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے اور یہ اپنے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے تھے بدر اور احد میں شریک نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کے والد اس میں شریک ہوئے تھے اس لئے انھوں نے گھر میں دیکھ بھال کے لئے ان کو چھوڑ دیا تھا ان کی بہت زیادہ بہنیں تھیں اس لیے یہ شریک نہیں ہو سکے تھے غزوہ احد میں ان کے والد کا انتقال ہوا اس کے بعد انھوں نے تمام غزوات میں شرکت کی اللہ کے رسولﷺ ان کا بہت خیال رکھتے تھے علم سے انہیں بہت رغبت تھی انہی کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالٰی سے ایک حدیث پوچھنے کے لئے مدینہ سے مصر کا سفر کیا تھا ان سے 1540 حدیثیں مروی ہیں جن میں 58 متفق الیہ ہیں 26 صحیح بخاری میں ہیں اور 126 صحیح مسلم میں ہیں 74ھجری میں ان کا انتقال ہوا کہتے ہیں کہ مدینے میں جو اب سے آخر میں صحابہ تھے سب سے آخر میں ان کا انتقال ہوا ان کی عمر انتقال کے وقت 94 سال تھی اور ابان بن عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی))      



         
الحدیث باب المواقیت الواقیت: مواقیت میقات کی جمع ہے اور میقات کہتے ہیں اور یہاں مراد ہے زمانی اوقات جو مخصوص اور محدود کی ہوئی مقدار ہے فرض نماز اور دیگر نمازوں کے پڑھنے کے لئے جو وقت محدود کیا گیا ہے اس سے مراد ہے ۔ اور فرض نماز کے وقت کا داخل ہونا، یہ دوسری شرط ہے، نماز کی شرائط میں سے۔ ابو عمرو شیباني رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے اور ان کا نام ہے " سعد بن ایاس" کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا اس گھر کے آدمی نے۔اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر کی طرف - کہا : میں نے رسولﷺ سے پوچھا اللہ تبارک و تعالٰی کے نزدیک کون سا عمل سب سے محبوب ہے رسولﷺ نے فرمایا: " نماز وقت پر پڑھنا"۔ میں نے کہا پھر کون سا؟ " والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا" میں نے کہا اس کے بعد کون سا؟ آپﷺ نے فرمایا : " اللہ کے راستے میں جہاد کرنا " عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ باتیں مجھے اللہ کے رسولﷺ نے فرمائیں، اور اگر میں مزید کا مطالبہ کرتا تو آپ مجھے مذید جواب دیتے۔ ما یوخذ من الحدیث: 1: تمام اعمال میں اللہ تعالٰی کو سب سے محبوب، نماز کو وقت پر پڑھنا ہے، پھر والدین سے حسن سلوک کرنا ہے، پھر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اور یہ اصل ایمان کی موجودگی کے بعد ہے۔ اس لئے کہ عبادات اس کی شاخیں ہیں اور وہ یعنی ایمان اس کی بنیاد ہے۔ 2: اس سوال سے مقصود اعمال بدنی ہے، جواب کو خاص کرنے کے قرینے کی دلیل سے نماز، والدین کےساتھ حسن سلوک اور جہاد کے ساتھ ( اس سے معلوم ہوتا ہے سوال سے مقصود بدنی اعمال تھے)، اور داخل نہیں ہوئے سوال میں اور اسی طرح جواب میں بھی کوئی چیز دل کے اعمال کی جس میں سب سے بلند ایمان ہے۔ 3: اعمال فضیلت کے اعتبار سے ایک ہی درجے میں نہیں ہیں، بلکہ وہ مختلف درجوں میں ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی کے قریب کرنے کے اعتبار سے،اور اس کے نفع کے اعتبار سے، اور اس کی مصلحت کی اعتبار سے۔ انھوں نے سوال کیا تھا، اعمال میں کس عمل کو مقدم کرنا بہتر ہے ۔ 4: بعض اعمال دوسرے اعمال سے فضیلت رکھتے ہیں اس عمل سے اللہ کی محبت کی وجہ سے اس عمل سے ۔ 5: محبت کی صفت کا ثابت ہونا اللہ کے لئے ، ایسا ثابت ہونا جو اس کی جلالت کے شایان شان ہے ۔ 6: علم کے بارے میں سوال کرنے کی فضیلت، خاص طور پر اہم چیزوں کے بارے میں ۔اس سوال نے بہت عظیم نفع کا فائدہ دیا ۔ 7: علم کے بارے میں بعض سوالوں کو چھوڑ دینا بعض اسباب کے پیش نظر جیسا کہ تنگی کے خوف سے اور جن سے سوال کیا جا رہا ہے ان کی ہیبت رعب یا خوف کی وجہ سے۔ ((زمان اور مکان کو ایک مخصوص زمانے کو کہتے ہیں یا مخصوص جگہ کو کہتے ہیں جب ہم میقات الصلاة کہتے ہیں اس سے مراد میقات زمانی مراد ہوتی ہے عام پر نماز کے اوقات اور جب مواقیت الحج کہتے ہیں تو وہ میقات مقانی مراد ہوتے ہیں وہ جگہ جہاں سے ہم حج کا احرام باندھتے ہیں عام طور پر ورنہ حج میں بھی میقات زمانی ہے )) (( سعد بن ایاس ہے ان کی کنیت ابو عمرو ہے اور شیبانی ان کا خاندان ہے وہ کہتے ہیں یہ رسولﷺ کے دور میں تھے لیکن ان کی ملاقات رسولﷺ سے نہیں ہوئی تھی یہ رسولﷺ کی وفات کے بعد مدینہ پہنچے اس لئے یہ تابعین میں آتے ہیں گرچہ کہ رسولﷺ کا زمانہ انھوں نے پایا تھا یہ مدینہ پہنچے اس کے بعد کوفہ منتقل ہوئے وہاں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت میں رہے انھوں نے بہت سی احادیث روایت کی ہیں ان کے انتقال کے وقت ان کی عمر ایک سو بیس 120 سال تھی 95 ھجری میں ان کا انتقال ہوا ثقہ راوی ہیں )) ((عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ کافی عظیم صحابی ہیں کنیت ابو عبد الرحمن اسلام لانے میں ان کا نمبر چھے ہے رسولﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینے کے باہر کسی کام سے گئے یہ بکریاں چراتے تھے ان کو ابن ام عبد کہا جاتا تھا ابن ام عبد سے یہ ابن ام عبد ان کی والدہ تھیں مورخین نے اس بات کا ذکر کیا ہے وہ اپنے والد کے بجائے عام طور پر والدہ کی طرف اس لئے منصوب کیئے جاتے تھے ان کے والد نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا تھا جاہلیت کے زمانے میں ان کا انتقال ہوا ان کی والدہ نے اسلام کا زمانہ پایا وہ مسلمان تھیں صحابیہ تھیں اس لئے ان کو ان کی والدہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ابن ام عبد کہا جاتا تھا معروف ہیں رسولﷺ نے کہا اگر تمھارے پاس دودھ ہو تو ہمیں پینے کے لئے دے دو وہ دونوں تھکے ماندے تھے انھوں نے کہا میں بکری کا مالک نہیں ہوں یہ مالک کی بکریاں ہیں میں ان کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا رسولﷺ نے کہا ان میں سے کون سی ایسی بکری ہے جو دودھ نہیں دیتی وہ ہمارے پاس لے کر آؤ تو وہ ایک چھوٹے سے بچے کو رسولﷺ کے پاس لائے رسولﷺ نے کچھ پڑھا اور اس کو ہاتھ لگایا تو اس کے بعد اس نے اتنا دودھ دیا کہ تینوں نے شکم سیر ہو کر پیا یہ معجزہ تھا جو انھوں نے دیکھا اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ہمیشہ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ رہے رسولﷺ نے فرمایا جو قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہتا ہے جیسے وہ نازل ہوا ہے تو وہ چار صحابہ سے قرآن سیکھے عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابو حزیفہ، معاذ ابن جبل ، ابی ابن کعب ان لوگوں سے اللہ کے رسولﷺ نے قرآن سیکھنے کو کہا تھا یہ رسولﷺ کے ساتھ یہ ہمیشہ رہے سارے غزوات میں شریک رہے دونوں ھجرتیں انھوں نے کیں حبشہ کی طرف اور مدینہ کی طرف بھی عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دار خلافت میں انہیں کوفہ کا قاضی بنایا اور مالی امور کا انہیں ذمہ دار بنایا سن 32 ھجری میں ان کا انتقال ہوا مدینہ میں اور جنت البقیع میں یہ دفن ہوئے اور عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی کا خلافت کا دور تھا انھوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس وقت ان کی وفات ہوئی یہ 60 سال سے زیادہ عمر تھی ان سے آٹھ سو اڑتالیس 848 ان میں متفق الیہ 64 احادیث ہیں اور صحیح بخاری میں 21 اور صحیح مسلم میں 35 ہیں )      



        
الحدیث باب قضاء الفوائت وترتیبھا فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کی ترتیب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ خندق کے دن آئے رسولﷺ کے پاس سورج کے ڈوبنے کے بعد کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور کہا اے اللہ کے رسولﷺ میں عصر کی نماز پڑھ نہیں سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو چکا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے نہیں پڑھی ابھی تک۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنھما کہتے ہیں ہم بطحاں گئے رسولﷺ نے نماز کے لئے وضو کیا ہم نے بھی نماز کے لئے وضو کیا، آپ نے عصر کی نماز پڑھی سورج کے ڈوبنے کے بعد پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ ما یوخذ من الحدیث اولا: پانچ نمازوں میں سے فوت شدہ نماز کی قضاء کا وجوب۔ ثانیا:ظاہر یہ ہے کہ نمازوں کی تاخیر اس معاملے میں بھولنے کی وجہ سے نہیں تھی لیکن یہ صلاة خوف کی مشروعیت سے پہلے ہے جیسا کہ علماء نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے ۔ ثالثا: اس حدیث میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ فوت شدہ نماز کو مقدم کیا جائے گا حالیہ نماز پر قضاء میں جب تک موجودہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو جائے تو اس وقت اس کو مقدم کیا جائے گا حالیہ نماز کو تاکہ فوت شدہ نماز زیادہ نہ ہو جائیں( جو نماز فوت ہو چکی ہے اس کو پہلے ادا کریں گے الا یہ کہ جس نماز کا وقت ہے وہ تنگ نہ ہو جائے تو اس موقع پر وقت کی نماز پہلے پڑھیں گے)۔ رابعا: ظالم پر بدعا کرنے کا جواز اس لئے کہ نبی کریمﷺ نے اس سے انکار نہیں کیا۔ خامسا: مصائب کو معمولی کرنا یا کم کرنا ان لوگوں کے لئے جو ان سے متاثر ہوں۔ سادسا: سچے آدمی کے قسم کھانے کا جواز اگرچہ کہ اس سے قسم کا مطالبہ نہ کیا جائے ۔      



          
الحدیث باب في شيء من مکروھات الصلاة نماز کی بعض مکروھات اشیاء مکروہ وہ ہے جس کے چھوڑنے پر ثواب ملتا ہے اور کرنے پر عذاب نہیں ہوتا نماز کے مکروھات وہ چیزیں ہیں جو نماز کی تکمیل میں خلل پیدا کرتے ہیں اور اسے باطل نہیں کرتے اور وہ بہت سی چیزیں ہیں مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر کیا وہ چیزیں جو ان دو حدیثوں میں آئی ہیں ۔ الحدیث الاول عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت ہے ((" جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے اور رات کا کھانا حاضر کیا جائے تو پہلے کھانا کھا لو اور ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت ہے ایسی ہی ایک حدیث" )) ما یوخذ من الحدیث واحد: کھانا اور پانی جب حاضر ہو جائیں نماز کے وقت پر تو یہ دونوں مقدم کیئے جائیں گے نماز پر جب تک کہ نماز کا وقت تنگ( نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو) نہ ہو جائے تو نماز کو مقدم کیا جائے گا ہر حال میں۔ ثانیا:حدیث کا ظاہر ہے: خواہ وہ محتاج ہو کھانے کا یا غیر محتاج ہو لیکن بہت سے علماء نے اسے مقید کیا ہے حاجت کے ساتھ اس علت کو لیتے ہوئے جو انھوں نے سمجھا ہے شارع کے مقصد سے(آدمی کو بھوک لگی ہو یا نہ لگی ہو آدمی کھانے کو ہی مقدم کرے گا لیکن علماء نے اس کو مقید کیا ہے کہ اگر حاجت نہیں ہے تو وہ نماز پڑھے گا) ثالث: کھانے کا حاضر ہونا ضرورت مند کے لئے عذر ہے اس کے لئے جماعت کے چھوڑنے کا بشرط ہے کہ کھانے کا وقت نہ بنا دے ہمیشہ کے لئے کھانے کا وقت ۔ رابع : کہ خشوع کا خیال رکھنا اور مشغول کرنے والی چیزوں کو چھوڑ دینا یہ مطلوب ہے نماز میں تاکہ دل حاضر رہے اللہ تعالٰی کی مناجات یا سرگوشی کے لئے۔ (((نماز میں شروط ،فرائض ،واجبات ،سنن ، مبطلات، مکروھات ہیں مکروہ یہ ضد ہے حرام کی جیسا کہ واجب اور فرض کے مقابلے میں سنت ہے حرام وہ چیز ہے جس سے شارع نے منع کیا ہے اس کے چھوڑنے کو لازمی قرار دیتے ہوئے حرام کے کرنے والے کو عذاب ہوتا ہے اور چھوڑنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے مکروھات وہ ہیں جس کو شارع نے منع کیا ہو اس کو چھوڑنے کو لازمی قرار نہیں دیتے ہوئے مکروہ کا حکم یہ ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر کیا جس کو چھوڑنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے لیکن کرنے والا عذاب کا مستحق نہیں ہوتا اور یہ حکم ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر کیا بعض فقہاء رحمہ اللہ ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں جس میں معلف رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعریف وہ ہے جو پہلے ذکر کی گئی ہے نماز کے وقت انسان اللہ تعالٰی کی عظمت کا تصور اپنے دل میں رکھے جیسا کہ اس حدیث میں کہا گیا احسان کیا ہے رسولﷺ نے جواب دیا تم عبادت ایسے کرو جیسا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو یہ تصور رکھو کہ وہ تمھے دیکھ رہا ہے پہلا مقام شوق ہے دوسرا مقام خوف ہے یہ باطنی طور پر خشوع ہے اور ظاہری طور پر آدمی کسی پتھر سے کھیلنا اپنے کپڑوں سے کھیلنا بالوں سے کھیلنا ان سے بچنا چاہیے اپنے دل کو اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف متوجہ رکھے یہ نماز کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اگر انسان کو بھوک لگی ہو تو اس کا دھیان نماز میں نہیں رہے گا اس میں خلل آ جائے گا یہ مکروھات میں سے ہے) اصطلاح میں ضرورت اور حاجت کا ترجمہ الگ الگ ہے ضرورت ایسی چیز کہ اگر انسان نہ کرے تو وہ مر جائے گا مثلا انسان کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہے مردار اس کے سامنے ہے تو وہ ضرورت ہے اس موقع پر حلال حرام ہے اور حاجت مثلا آدمی ایک پورا دن بھوکہ ہے اس کے پاس مردار پڑا ہوا ہے لیکن وہ اور بھوکا رہ سکتا ہے تین چار دن اس میں صرف مشقت ہے تو اس کو حاجت کہتے ہیں)))    



     
الحدیث باب اوقات النھي نماز کے ممنوع اوقات کا باب نماز منع کی گئی ہے خاص اوقات میں بعض حکمتوں کے تحت جن کو شارع(اللہ و رسول) ہی بہتر طور پر جانتے ہیں ، جیسا کہ دور رہنا کفار کی مشابہت سے ان کے عبادت کے وقت میں۔ واقات النھي ثاثة: منع کے اوقات تین ہیں الاول: فجر کی نماز کے بعد سے یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے زمین سے ایک نیزے کے برابر۔ ( اگر ہم ان کو دو وقتوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک فجر کی نماز کے بعد سے سورج طلوع ہونے کا وقت دوسرا جب سورج طلوع ہونا شروع ہو وہاں سے ایک نیزے کے برابر بلند ہو)۔ الثاني: دوسرا وقت جب کہ سورج اپنی بلندی پر اپنی انتہا کو پہنچ جائے( آسمان کے وسط میں )یہاں تک کہ زائل ہو جائے ۔ ثالثا : عصر کی نماز سے سورج کے غروب ہونے تک ۔ الحدیث الاول (( عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے مروی ہے " گواہی دی مجھے ان آدمیوں نے وہ لوگ جو پسندیدہ ہیں اس بات کی ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ میرے نزدیک عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ رسولﷺ نے منع کیا فجر کے بعد نماز سے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے اور اسی معنی میں حدیث ہے )) ۔ الحدیث الثاني ابو سعید خدري رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا "نماز نہیں ہوتی فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے اور نماز نہیں ہوتی عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے " ((" وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ "صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اس وقت نماز نہیں پڑھیں گے جب کہ ظہر میں سورج بلند رہے )) ما یوخذ من الحدیث اولا: نفل نمازوں سے متعلق طور پر ممانعت، فجر کی نماز کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک اور اس کے بلند ہونے تک تقریبا تین میٹر کے برابر ۔ ثانیا: نوافل مطلقہ پڑھنے کی ممانعت عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے تک۔ ثالثا : ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے فجر کے بعد نماز نہیں یہاں جو نفی ہے وہ نفی جنس کی ہے اور یہ لغت کا تقاضہ ہے ، لیکن نفی کا صیغہ اگر فعل پر داخل ہو شارع کے الفاظ میں تو زیادہ بہتر ہے اسے محمول کیا جائے شرعی فعل کی نفی پر( مطلق فعل کی نفی پر نہیں) اس لئے کہ جنس صلاة کی نفی ممکن نہیں شارع اپنے الفاظ کو بیان کرتے ہیں شرعی عرف میں ہوتے ہیں( فجر کے بعد نماز نہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ نماز واقع ہی نہیں ہوتی لغت میں لا داخل ہوا تو اس کی نفی ہو گئی وہ بتا رہے ہیں کہ لغت میں یہ مفہوم ہو سکتا ہے مگر حقیقت میں نہیں جب شرعی چیزوں پر الفاظ داخل ہوتے ہیں تو پھر اس سے شرعی مفہوم مراد ہوتا ہے نماز نہیں ہوتی یہ مفہوم نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر نماز صحیح نہیں ہوتی یہ مفہوم ہے شارع کے الفاظ ہوں تو اسے شرعی معاملات پر ہی محمول کیا جائے گا لغوی معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا مثلا صلاته کے لغوی معنی دعا کے ہیں لیکن جب اقیمو الصلاة کہا جائے گا تو ظاہر ہے اس وقت معنی دعا کے نہیں ہوں گے یہ ہوں نماز قائم کرو یہ نہیں ہوں گے دعا قائم کرو اس وقت لغوی معنی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی عبادت کے ہوں گے جو اقوال و افعال پر مشتمل ہے جس کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے اختتام سلام پر ہوتا ہے) ۔ رابع : بعض احادیث سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ نفی کی علت یہ کفار لی مشابہت کا اندیشہ ہے ، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کفار کی مشابہت حرام ہے اور ان کی عبادتوں میں ان کی تقلید کی حرمت اور ان کی عادتوں میں اور ان کی روایتوں میں ۔ (( جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں شمار کیا جائے گا ))ابوداؤد (جب عمومی اور خصوصی دلائل میں اختلاف ہو تو خصوصی دلائل کو اپنائیں گے کیونکہ وہ عام قاعدے سے مستثنٰی ہیں یہ ہی راجع قول ہے جو نماز منع ہے وہ نفل متعلق ہے وہ نماز جس کا سبب ہے وہ پڑھ سکتے ہیں بعض علماء نے پانچ اوقات کو تقسیم کیا ہے ایک فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک سورج کے طلوع ہونے سے ایک نیزے کے برابر تک تیسرا جب سورج آسمان کے درمیان میں پہنچ جائے اور چوتھا عصر کی نماز کے بعد سے سورج کے ذرد ہونے تک اور پانچواں سورج کے زرد ہونے سے سورج کے ڈوبنے تک)    



         
الحدیث باب في شيء من مکروھات الصلاة عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کہتی ہیں میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا نماز نہیں ہوتی کھانے کی موجودگی میں اور نہ اس وقت جب وہ دو خبیث چیزوں سے مدافعت کر رہا ہو ( آدمی بول و براز کو محسوس کر رہا ہے لیکن ان کو روک رہا ہے ایسی صورت میں نماز نہیں ہوتی)۔ ما یوخذ من الحدیث: اولا : نماز کا مکروہ ہونا کھانے کے موجود ہونے تک اس شخص کے لئے جو اس کا محتاج ہو، اور دو خبیث بول و براز سے مدافعت کی حالت میں اس وقت جب وقت تنگ نہ ہو جائے مطلق طور میں نماز کو مقدم کریں گے۔ ثانیا: دل کا حاضر ہونا اور خضوع یہ دونوں چیزیں مطلوب ہیں نماز میں ۔ ثالثا: نمازی کو چائیے ہر اس چیز کو دور کر دے جو اسے نماز میں مشغول کرتی ہے ۔ رابع: کھانے کی حاجت پانی کی بول کی یا براز کی یہ تمام چیزیں عزر ہیں جمع اور جماعت کے چھوڑنے میں اس شرط کے ساتھ نہ بنا لے نماز کے اوقات کو جو ذکر کی گئی ہیں ان کا وقت جو انسان کی قدرت میں سے ہیں (جو قدرت میں نہیں ہے ان میں انسان معذور ہے)۔ خامس: صنعاني رحمة اللہ نے کہا اور جان لو یہ چیز بندے کے حق کو مقدم کرنے کے باب سے نہیں ہے اللہ کے حق پر بلکہ یہ حفاظت ہے اللہ جل شانہ کے حق کی ، تاکہ داخل نہ ہو ایسے دل کے ساتھ جو متوجہ نہیں ہے اللہ کے مناجات کی طرف( یہ اللہ کے حق کی حفاظت ہے کہ بندہ ایسے دل کے ساتھ حاضر ہو جائے گا جس میں متوجہ نہیں ہو گا اللہ کے حق صحیح طور پر ادا نہیں کر سکے گا) ۔ سادسا: بعض اہل علم نے تفسیر بیان کی ہے خشوع کی کہ وہ خوف اور سکون کے مجوعے کا نام ہے، وہ ایک ایسا معنی ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے ظاہر ہوتا ہے اس سے اعضاء میں سکونت جو عبادت کے مقصود کے مطابق ہوتا ہے۔ ( وہ لوگ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور ان کے اعضاء نرم پڑ جاتے ہیں)۔      




          
الحدیث باب الأذان و إقامة ابو جحیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور آپ اپنے چمڑے کے بنے ہوئے سرخ خیمے میں تھے کہتے ہیں بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ وضو کا پانی لے کر آئے، کوئی اسے چھڑکنے والے تھے اور کوئی اسے زیادہ پانے والے تھے نبی کریمﷺ نکلے اور آپﷺ لباس پہنے ہوئے تھے جوڑا سرخ رنگ کا (چادر اور ازار) گویا کہ میں آپﷺ کی پنڈلیوں کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں، کہتے ہیں رسولﷺ نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اذان دی میں پیچھا کرنے لگا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کے منہ کو( یعنی دیکھنے لگا) ادھر ادھر ہوتے ہوئے وہ دائیں اور بائیں دیکھتے تھے حي علی الصلاة ، حي علی الفلاح کہتے ہوئے، پھر گاڑا گیا رسولﷺ کے لئے ایک نیزہ پھر آپﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں پھر برابر دو رکعتیں پڑھتے رہے یہاں تک کہ مدینہ واپس ہوئے۔ ما یوخذ من الحدیث: 1:مؤذن کا دائیں اور بائیں گھومنا حي علی الصلاة حي علی الفلاح کہتے ہوئے اس میں حکمت ہے لوگوں کو خبر دینا تاکہ وہ نماز کی طرف آئیں ۔ 2: سفر میں چار رکعت والی نمازوں کو دو رکعت پڑھنا مشروع ہے سفر میں اور یہ جلد آئے گا۔ 3: مصلی کے آگے سترے کے رکھنے کی مشروعیت اگرچہ کہ مکے میں کیوں نہ ہو اور وہ بھی آئے گا ان شاء اللہ ۔ 4: صحابہ کی محبت کی شدت نبی کریمﷺ سے اور آپ ﷺ کے اثار سے تبرک حاصل کرنا لیکن اس میں علماء اور نیک لوگ شامل نہیں ہوں اس لئے کہ رسولﷺ کی خصوصیات ہیں ان کے علاوہ جس میں آپﷺ دوسروں سے منفرد ہیں جس نے آپﷺ کے علاوہ دوسروں پر قیاس کیا تو اس نے غلطی کی۔ 5: بہت سی احادیث میں ممانعت آئی ہے مردوں کے لئے لال لباس پہننے کی ۔ (ابو جحیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں ان کی ملاقات رسولﷺ سے ان کی زندگی کے آخری مرحلے میں ہوئی حج الوداع کے موقع کا یہ واقعہ ہے کہا جاتا ہے یہ بالغ نہیں ہوئے تھے علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت انھوں نے اختیار کی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں کوفے کے بیت المال کا نگران مقرر کیا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ رہے علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو خیر کا عطیہ کہتے تھے 74 ھجری میں ان کی وفات ہوئی )    



         
الحدیث باب الأذان والاقامة آذان کے لغوی معنی ہیں خبر دینا اطلاع دینا ، اللہ تعالٰی نے فرمایا {{و اذان من اللہ ورسوله }} آذان اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے اطلاع ہے ۔ اور اس کے شرعی اصطلاح اللہ کی عبادت کرتے ہوئے فرض نماز کے وقت کے داخل ہونے کی اطلاع دینا مخصوص الفاظ کے ذریعے سے۔ اور وہ اپنے اختصار کے باوجود عقیدے کے مسائل پر مشتمل ہے اس لئے کہ تکبیر شامل ہے اللہ کے وجود کے بیان ہے اللہ کے صفات جلال اور عظمت کے اعتبار پر ( اللہ اکبر میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی عظیم ہیں عجل ہیں) اور شھادتان ثابت کرتے ہیں توحید خالص کو اور محمدﷺ کی رسالت کو اور شرک کی نفی کرتے ہوئے اور کامیابی کی طرف دعوت (حی الصلاة) وہ اشارہ کرتے ہیں واپس لوٹنے کی آخرت کی طرف اور بدلے کی طرف اور علماء نے اس کی بہت سے حکمتیں بیان کی ہیں ، ان میں سے ہے اسلام کے شعار علامت کا اظہار اور کلمہ توحید کا اظہار رسالت کا اثبات اور نماز کے وقت کے داخل ہونے کی خبر دینا اور انہی میں سے ہے جماعت کی طرف دعوت دینا۔ اور اس کے قیام میں (آذان دینے میں) بہت بڑا فضل ہے جیسا کہ بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رسولﷺ " اگر لوگ جان لیں جو ثواب پایا جاتا ہے آذان میں تو پہلی صف میں پھر وہ نہ پائیں مگر یہ کہ وہ قرعہ اندازی کریں اس پر تو وہ قرعہ اندازی کریں گے " اس کے علاوہ اور بہت سے احادیث ہیں۔ آذان اور اقامت ان میں سے ہر ایک فرض کفایہ ہے مردوں کے لئے پانچ وقت کی نمازوں کے لئے۔ اور وہ اسلام کے ظاہری شعار میں سے ہے لڑائی کی جائے گی جہاد کیا جائے گا جو ان دونوں کو چھوڑ دے ۔ رسولﷺ جب کسی قوم کے پاس آتے انہیں پہچانتے نہ ہوتے تو ان کے اسلام پر دلیل لیتے آذان کے ذریعے پہچانتے اور آذان کے چھوڑنے پر ان کے کفر کو پہچانتے (رسولﷺ جب کسی قریہ میں جاتے تو فجر کی آذان کے بعد حملہ کرتے) ، نبی کریمﷺ حکم دیتے تھے جو آذان کی آواز کو سننے تھے ان کے لئے حکم دیتے تھے (کہ آذان ہو رہی ہے کہ نہیں)۔ مدینے میں مشروع کی گئی ( ھجرت کے نو ماہ بعد مشروع کی گئی) جب نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا ایسے طریقے کی طلب میں جس کے ذریعے لوگ نماز کے وقت کے داخل ہونے کو پہچان لیں تاکہ لوگ نماز کی طرف آئیں مسجد میں ۔ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خواب میں دیکھا جس نے انہیں آذان کی کیفیت بتائی(فرشتے نے) نبی کریمﷺ کو انھوں نے اپنے خواب کی خبر دی آپ ﷺ نے فرمایا یہ سچا خواب ہے یہ کلمات بلال کو بتا دو، اس لئے کہ وہ بلند آواز ہیں تو یہ سب سے افضل وسیلہ بن گی نمازوں کے اوقات کے پہچان کے لئے۔      



         
الحدیث باب الأذان و الاقامة انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ حکم دیئے گئے کہ آذان دھری کہیں اور اکھیری اقامت کہیں (آذان میں شفع اور أقامت میں وتر کریں) ۔ ما یوخذ من الحدیث 1:آذان اور اقامت کا وجوب ، نبی کریمﷺ سے امر کے صیغے سے لیتے ہوئے اخذ کرتے نبی کریمﷺ سے لیتے ہوئے (گویا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم نبی کریمﷺ نے دیا)اس لئے کہ صیغہ تقاضہ کرتا ہے حدیث کے مرفوع ہونے پر دلالت کرتا ہے ابن حجر رحمة اللہ دو جماعتوں میں سے ایک محققین میں سے کسی ایک کا قول ہے محدثین اور اصولیین میں سے ( ان دو گروپ میں سے ایک کا یہ قول ہے) ، آذان کی دھری دینے کا استحباب اور اقامت کے اکھری دینے کا اس لئے کہ وجوب کی معارضہ کیا گیا آذان کے ذریعے اور اقامت بھی ثابت ہے تمام دلائل سے معلوم ہوتی ہے مجوعے سے وارد شدہ باتوں کا جواز۔ 3: آذان کا شدید اہتمام اقامت کے مقابلے میں اس لئے کہ وہ آواز ہے دور والوں کے لئے ۔ 4:آذان کے شفع سے مراد ہے اس کے شروع میں چار تکبیرات کے علاوہ وہ اس کے آخر میں کلمہ توحید کے علاوہ اس لئے کہ وہ خاص کیا گیا ہے دیگر دلائل کے ذریعے۔ 5: اس طرح اقامت کے اکھری ہونے سے مراد ہے اس کے شروع میں دو مرتبہ تکبیر کہنے کے علاوہ اور قد قامت الصلاة کہنے کے علاوہ ، اس لئے کہ وہ دہرے کہے جائیں گے دوسرے دلائل میں اس کو خاص کرنے کے علاوہ ۔    



          
الحدیث باب الأذان و الاقامة عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا بلال رات میں اذان دیتے ہیں تم کھاؤ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ ما یوخذ من الحدیث۔ 1: اذان کا جواز فجر کی نماز کے لئے وقت کے داخل ہونے سے پہلے۔ 2: دو مؤذن کے مقرر کرنے کا جواز ایک مسجد کے لئے اور ان میں سے ہر ایک کی اذان کے لئے مقرر وقت ہو گا ۔ 3: اندھے مؤذن کے مقرر کرنے کا جواز اور اس کی تقلید بھی کی جا سکتی ہے یعنی اس کی اذان پر اعتبار کرتے ہوئے نماز پڑھیں گے اس لئے کہ ابن مکتوم اندھے آدمی تھے۔ 4: اور اس میں اس بات کا استحباب بھی ہے کہ کسی شہر یا کسی محلے کے لوگوں کو متنبہ کرنا اذان کے مقصد کا بتانا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے یہاں تک کہ وہ علم کے ساتھ رہیں(یعنی ہم نوافل بھی پڑھ سکتے ہیں سحری بھی کر سکتے ہیں) ۔ 5: دوسرے مؤذن کو مقرر کرنا جو طلوع فجر کے ساتھ اذان دے ( ایک وہ مؤذن جو طلوع فجر میں اذان دے دوسرے طلوع ثانی میں اذان دیں)۔ 6: اور اس میں یہ بات بھی ہے کہ کھانے اور پینے سے نہ رکنے کا مستحب ہونا ( کھائیں گے اور پیئیں گے) جو روزہ رکھنا چاہے یہاں تک کہ فجر ثانی صحیح طور پر طلوع ہو جائے، اور اس سے پہلے نہ رکیں رسولﷺ کے اس قول کی وجہ سے فکلوا واشربوا اباحت کے لئے ہے (الہ یہ کہ کوئی دلیل ہو جس سے معلوم ہو کہ اباحت کے لئے ہے یہاں رسولﷺ نے فرمایا کھاؤ اور پیؤ یہ اباحت کے لئے ہے کیونکہ عملا جو روزہ نہ رکھنا چاہے وہ نہیں کھائے گا اباحت کا مطلب ہے وہ چیز جائز ہے) اور اعلام کرنے کے لئے کہ سحری کا وقت طویل ہے اس وقت تک (پہلی اذان میں کھانا پینا نہیں روکیں گا وہ شخص جو روزہ رکھنا چاہے یہ امر وجوب کے لئے نہیں ہے کہ جو نہیں کھائے گا وہ گنہگار ہو گا پہلی اذان کا مقصد یہ ہے کہ سحری کا وقت فجر ثانی تک پھیلا ہوا ہے)۔ 7: خبر واحد پر عمل کرنے کا جواز پایا جاتا ہے جبکہ وہ ثقہ ہو ( اگر کوئی قابل اعتماد شخص اپنے کوئی بات بتاتا ہے اور ثقہ ہو تو اس کی بات کو قبول کیا جا سکتا ہے) ۔      



Comments